افراد کے ایک ایسے گروہ کو معاشرہ کہا جاتا ہے کہ جس کی بنیادی ضروریاتِ زندگی میں ایک دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں، یعنی رنگ برنگے گلوں اور نوع بنوع اشجار سے مزین ایک گلشن، جہاں ہر کوئی اپنے حصے کی خوشبو بکھیرے اور تزئین گلستاں کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہو۔
معاشرے میں طلبہ کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے، طلبہ قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، اپنے معاشرے کا مغز ہوتے ہیں۔اپنے سماج کا آئینہ ہوتے ہیں اور سوسائٹی کا عظیم اثاثہ ہوتے ہیں۔معاشرے کی نشونما، معاشرے کی بقا اس کی صلاح و فلاح، اس کا مستقبل انہی کے دامن سے وابستہ ہوتا ہے۔ طلبہ خوبصورت معاشرے کے معمار بھی بن سکتے ہیں اور اس کو مسمار بھی کرسکتے ہیں۔ اگر طلبہ کا ذہن گمراہ ہوگیا تو سارا معاشرہ گمراہ ہو جائے گا۔اگر طلبہ کا ذہن روشن نہ ہوا تو معاشرے کا دماغ کبھی روشن نہ ہو سکے گا۔ اگر طلبہ کا کردار غلط ہوا تو قوم کا کردار بھی صحیح نہیں ہو سکتا، معاشرے کی ذہنی نشونما اور فکری ارتقا کا دارومدار طلبہ پر ہے، الغرض معاشرے کی تابناکی وتاریکی دونوں انہی کے حال پر منحصر ہوتا ہے۔
نوجوان طلبہ کسی بھی ملک کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں یہی سبب ہے کہ زندہ قومیں اپنے نوجوان طلبہ (نوجوانوں) کو مستقبل کا معمار سمجھتی ہیں۔ انفرادی طور پر ہر ملک کے نوجوان اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں لیکن اجتماعی طور پر برصغیر کے مسلمان نوجوانوں اور طلبہ نے تحریک پاکستان میں جو کارنامے نمایاں سر انجام دئیے تاریخ عالم میں ان کی مثال نہیں ملتی۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے نوجوانوں میں ایک آزاد الگ وطن حاصل کرنے کی نئی روح پھونکی تو تحریک پاکستان میں غریب نوجوان بھی تھے اور امیر گھرانوں کے نوجوان بھی، لیکن آزادی کی تڑپ اور حصول پاکستان کی لگن ان سب کے سینوں میں برابر کی تھی، ان کی جدوجہد ایک تھی، ان کا مقصد ایک تھا۔ تحریک پاکستان میں لاکھوں مسلم نوجوان قائداعظم محمد علی جناح کی سب سے بڑی طاقت تھے۔ حصول پاکستان کیلئے نوجوانوں نے جو نمایاں کردار ادا کیا وہی نواجوان اب استحکام پاکستان میں بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
قائداعظمؒ کا نوجوان نسل سے بہت گہرا رشتہ تھا۔ آپ کی شخصیت نوجوانوں بالخصوص طلبہ کیلئے باعث کشش، فکر و نظر کا منبع اور مقصدیت سے بھرپور تھی۔ آپ نے قوم کے معماروں کو ضائع ہونے دینے کی بجائے ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ آپ نے انہیں ان کے اپنے اسلاف کے کارناموں سے روشناس کرایا۔ انہیں اتحاد اور تنظیم کیلئے ابھارا۔ ان کو پاکستان کی افادیت اور اہمیت کے پہلو سمجھائے اور مطالبہ آزادی کو اس طرح پیش کیا کہ ان میں اپنا کھویا ہوا ماضی دوبارہ حاصل کرنے کا جنون پیدا ہو گیا۔ وہ اپنا شاندار ماضی حاصل کرنے کیلئے ہمہ تن گوش ہو گئے۔
تحریک پاکستان میں دو محاذوں پر کانگرس کو شکست فاش اٹھانا پڑی۔ قیادت کے محاذ پر قائد اعظمؒ جیسا کوئی دماغ نہ تھا اور نوجوانوں کے محاذ پر جری، بے باک اور جان پر کھیل جانے والے نوجوان نہ تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان میں مسلمان نوجوانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ قائد اعظم نے مسلمان نوجوانوں کی طاقت کو جس طرح منظم کیا اور جس انداز میں اسے منزل بہ منزل منزل مقصود تک پہنچایا اس کی مثال دنیا کی کسی بھی ملک کی تاریخ آزادی میں نظر نہیں آتی۔ قیام پاکستان کے وقت دیکھنے میں آیا کہ کس طرح نوجوان نسل نے قائداعظم کاہراول دستہ بن کر قائد اعظم کا پیغام اور تحریک پاکستان کا ایسا چرچا کیا کہ مخالفین کی ہوا اکھڑ گئی جس کی واضح مثال قیام پاکستان ہے۔
قائد اعظم کی سب سے بڑی فتح یہ تھی کہ آپ مسلم نوجوانوں کے دلوں میں بستے تھے اور نوجوان اپنے قائد کے ایک اشارے پر سر پر کفن باندھے دوڑے آتے اور پھر اپنے قائد کے ساتھ مل کر انتہائی جانفشانی سے اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں قائد اعظم کے زیر سایہ کامیاب ہوئے۔
قائد اعظم نے صاف اور واضح الفاظ میں کہا تھا کہ مسلمان محض ایک اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں۔ ان کی للکار کا غلغلہ ان ہالز اور ہوسٹلز میں گونجا جہاں مسلمان طلبہ پڑھتے تھے۔ انہوں نے اس آواز پر جوش و ولولہ کے ساتھ لبیک کہا اور اتنے متاثر ہوئے کہ مسلم قوم کی تعریف آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرکاری ہیڈ کے حاشیے میں چھاپ دی گئی۔
علامہ محمد اقبال 1930ء میں برصغیر کے مسلمانوں کے سامنے ایک الگ مملکت کا تصور پیش کر چکے تھے۔ ایک زیر تعلیم نوجوان چوہدری رحمت علی نے مجوزہ مسلم ریاست کا نام پاکستان تجویز کیا۔ اس کے بعد تمام طلبہ قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوئے اور آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ انہیں اپنے قائد پر پورا اعتبار تھا اور ان کے حکم کی تعمیل میں نوجوان طلبہ ہر قربانی کے لیے تیار تھے۔ اسی طرح جب 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردار لاہور جسے قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے کے ذریعے پاکستان کا مطالبہ پیش کیا گیا اور پھر 24 مارچ کو یہ قرارداد منظور کی گئی تو اس طویل جدوجہد کا نیا موڑ آگیا۔ تحفظات کی بھیک مانگنے اور دھتکارے جانے کا دور ختم ہوا اور پہلی مرتبہ 10 کروڑ مسلمانوں کے سامنے ایک صاف اور واضح مقصد آگیا اور منزل کا تعین ہوگیا۔
جب قرارداد لاہور منظور ہوئی اس وقت مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی شاخیں برصغیر کے تقریباً تمام صوبوں اور اہم شہروں میں قائم ہوچکی تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ طلبہ اپنی قوم کا فعال اور بیدار جزو تھے۔ انہوں نے قائداعظم کے جھنڈے تلے سامراج کے پنجے سے آزاد ہونے اور پاکستان حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ اپنی روایت کے مطابق نوجوان طلبہ جی جان سے پاکستان کے لیے لڑے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے کہ جب تک نئی آزاد مملکت وجود میں نہیں آگئی۔
علی گڑھ مسلم طلبہ کا سب سے بڑا مرکز تھا اور قومی معاملات میں مرکزی کردار ادا کرنے کی استعداد رکھتا تھا۔ علی گڑھ میں مسلمان طلبہ کا ایک کیمپ منعقد ہوا۔ کیمپ کے دوران پاکستان کی مجوزہ اسکیم پر مختلف پہلوؤں سے بحث و مباحثہ ہوا اور مقالات پڑھے گئے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کئی استادوں نے اس کیمپ میں نمایاں حصہ لیا۔ پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو بہت سے طلبہ نے جو برصغیر کے مختلف حصوں سے آئے تھے اپنی خدمات پیش کیں۔ پاکستان بننے سے پہلے ہی کچھ لڑکوں نے اپنے نام کے ساتھ خادم پاکستان لگا لیا، جوش وخروش کا عالم یہ تھا کہ ہم طلبہ پاکستان کے سپاہی ہیں اور ہائی کمان کی طرف سے حکم کے منتظر ہیں کہ اسے فوراً بجا لائیں۔
تحریک پاکستان کی خاطر طلبہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم پاکستان کی اسلامی سلطنت کے قیام کی کوشش میں اپنی جان دے دیں گے۔
میرا دشمن مجھے کمزور سمجھنے والا
مجھ کو دیکھے کبھی تاریخ کے آئینے میں
میں نے ہر عہد میں توڑا ہے رعونت کا طلسم
میں نے ہردور میں اک باب نیا لکھا ہے
میرا دشمن یہ حقیقت نہ فراموش کرے
بیعت ظلم وستم میری روایت ہی نہیں
مجھ کو میدان سے پسپائی کی عادت ہی نہیں
عرصہ بدر میں کردار نبی ہوتا ہوں
دشت کربل میں تو میں ابن علی ہوتا ہوں
آج کے دور میں پاکستان تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے اور آبادی و جہالت کی نسبت ہمارا تعلیمی بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں چند بڑے شہروں کے علاوہ کہیں بھی معیاری تعلیم کا انتظام نہیں ہے اور بڑے شہروں میں بھی تعلیم پر چند پرائیویٹ اداروں نے ایسا قبضہ جمانے کی سازش کی ہے کہ معیاری تعلیم غریب و متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے۔ سرکاری سطح پر معیاری تعلیم کے فروغ کے بجائے ایسی پالیسیاں ترتیب دی گئی ہیں جو سراسر تعلیم دشمنی کے مترادف ہیں۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان زراعت و صنعت میں بھی اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک ہماری نوجوان نسل پڑھی لکھی و ہنرمند نہ ہو۔
تعلیمی بجٹ کا زیادہ تر استعمال انجنیئرنگ کے شعبے کی ترقی پر خرچ ہونا چاہئے جس میں بیرون ممالک کی بہترین انجنیئرنگ یونیورسٹیز سے معاہدے کرکے پاکستان میں انکے کیمپس تیار کرکے عام آدمی کیلئے اعلٰی معیاری تعلیم کا انتظام کیا جائے اور دنیا کے جدید ترین علوم کی پاکستان میں فراہمی کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ دیہی علاقوں میں جاگیرداروں اور فرسودہ و جاہلانہ رسم و رواج نے اپنے اپنے علاقے کی عوام کو محصور کیا ہوا ہے اور اپنے زیر اثر علاقوں میں قائم اسکولوں کو اوطاق بنا رکھا ہے۔
تعلیمی بجٹ میں اضافے کے بعد ملک بھر کے اسکولوں میں ہشتم جماعت سے میٹرک تک کے طلباء کیلئے تکنیکی تعلیم کی لیبارٹریاں قائم کی جائیں اور ملک بھر میں روایتی تعلیم کیساتھ ساتھ پرائمری کے بعد تکنیکی تعلیم بھی لازمی قرار دی جائے تاکہ جب نوجوان میٹرک کرے تو اس وقت روایتی تعلیم کے علاوہ ایک ہنرمند شہری بھی ہو۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر تمام سکولوں میں لیبارٹریاں قائم کرکے تکینکی اساتذہ بھرتی کئے جائیں۔ دنیا بھر کے اکثر ممالک میں یہی نظام تعلیم رائج ہے اور جب بچہ اسکول سے فارغ ہوتا ہے تو ایک ہنرمند شہری ہوتا ہے۔ تکنیکی تعلیم میں ایئرکنڈیشننگ پلمبنگ الیکٹریشن میکنکل انجینئرنگ اور دیگر شعبے شامل ہیں۔ یہ نظام تعلیم رائج ہونے کے چند سال بعد ہی پاکستان میں نوجوانوں کی بے روزگاری میں زبردست کمی رونما ہو گی اور پاکستان دنیا بھر میں ہنرمند افرادی قوت کی فراہمی میں نمایاں مقام حاصل کرسکتا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
لہذا ہرطالب علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور فن کے اعتبار سے اپنے معاشرے کی خدمت کرے اور اپنے حصے کا چراغ جلانے میں کوتاہی نہ کرے۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں