ہر سال کی طرح اب کے برس بھی ماہِ محرم الحرام کا چاند پیغامِ شہادتِ امام حسین علیہ السلام لے کر طلوع ہو رہا ہے کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین علیہ السلام نے حق کی راہ میں کس شان کے ساتھ اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور پرچمِ اسلام کو تا قیامِ قیامت سر بلند کر دیا اور رہتی دنیا تک ریگِ زار کربلا پر یہ پیغام رقم کر دیا کہ حق کی خاطر ڈٹ کر باطل کے خلاف آواز بلند کرنے والے اور اس راہ میں اپنی جان کے نذرانے پیش کرنے والے کبھی مُردہ نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ نشانِ حق بن کر تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنے رہتے ہیں۔ ان کی نسبت سے وہ سر زمین بھی رشکِ ملائک بن جاتی ہے جہاں وہ شہادت کا جام نوش کرتے ہیں۔
کربلا کچھ نہیں ہے جُز اک نام
نام میں روشنی حسینؑ سے ہے
ذکرِ شہادتِ امام حسین علیہ السلام ہر درد مند دل کو تڑپا دیتا ہے، ہر آنکھ نم ہو جاتی ہے، نگاہوں میں وہ منظر آ جاتا ہے کہ جب خانوادہ نبوت کے شہزادوں، شہزادیوں اور اصحاب کا قافلہ سالارِ قافلہ مصطفوی امامِ عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کی قیادت میں مدینہ سے کربلا کی جانب روانہ ہوا اور راستے کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے بالآخر کرب و بلا کی اس سر زمیں پہ آپہنچا جس کی خبر نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ اقدس سے دی تھی کہ اس کربلا کی زمین پر میرا شہزادہ، میرا حسین شہید کر دیا جائے گا۔حدیث مبارکہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اخبرنی جبرئیل ان ابنی الحسین یقتل بعی بارض الطف.
مجھے جبرئیل امین نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسین میرے بعد زمینِ طف میں قتل کر دیا جائے گا۔
(طبرانی، المعجم الکبیر، 107: 3)
آپ علیہ السلام کو اپنی زندگی میں ہی اس شہادت کی خبر مل گئی تھی کہ آپ علیہ السلام شہید ہوں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی پیشین گوئی کی وجہ سے سے آپ علیہ السلام کی شہادت دنیا میں ہونے والی دیگر شہادتوں سے الگ اور منفرد ہے اور مزید یہ کہ اس میں شہید ہونے والوں کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خاص نسبتیں ہیں پھر یہ کہ یہ داستان شہادت گلشن نبوت کے اسی ایک پھول پر مشتمل نہیں بلکہ یہ سارے کے سارے گلشن کی قربانی ہے۔ واقعہ کربلا کرب و بلا کی تپتی ہوئی سر زمیں پر گلشن نبوت کی بیسیوں معصوم کلیوں اور پھولوں کے مسلے جانے کی داستان ہے۔
آیا نہ ہو گا اس طرح حُسن شباب ریت پر
گلشنِ فاطمہؓ کے تھے سارے گلاب ریت پر
آلِ رسول کے سوا کوئی نہیں کھلا سکا
قطرۂ آب کے بغیر اتنے گلاب ریت پر
کربلا کی زمین پر حضرت امام حسین علیہ السلام نے احیائے دین کا عَلم بلند کیا اور امت محمدی میں دینی غیرت و حمیت زندہ کرنے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تا کہ نانا کے دین کو تحفظ نصیب ہو، اخلاقی اقدار جنہیں یزید پامال کر رہا تھا ان کی پاسداری ممکن ہو، احترام انسانیت کو بقا نصیب ہو دین مصطفی کی اصل روح کی حفاظت ہو اسلام کے نظام مشاورت وجمہوریت کو دوام ملے مظلوموں کو قیامت تک ہر ظالم و جابر کے خلاف آواز حق بلند کرنے کا حوصلہ ملے محکوموں کو اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا درس ملے ظلم وجبر پر مبنی نظام ِ یزیدیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ ملے۔ اخلاقی اقدار کا احیاء ممکن ہو، دین اسلام کی امن پسندی اعتدال پسندی محبت و رواداری جیسی عظیم روایات کا تحفظ یقینی ہو۔ آپ نے امتِ مصطفی کو جینے کا سلیقہ اور قرینہ عطا کیا۔
آج ہمارا معاشرہ زوال کا شکار ہے۔ اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔ فسق و فجور، قتل و غارت گری، شراب نوشی، حرام خوری، بدکاری، سود خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی جیسے رذائل ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں۔ انہی اخلاقی رذائل کی بدولت ہم ہر سطح پر پستی کا شکار ہیں۔ اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہو گا کہ یہی وہ بد خصلتیں تھیں جس کا علم بردار یزید تھا اور وہ ایسے ہی نظام کا خواہاں تھا جہاں ظلم و جبر عام ہواور عدل و انصاف ناپید ہو۔ اپنے مذموم عزائم کے حصول کے لئے اس نے امامِ عالی مقام علیہ السلام کو کربلا میں محصور کر کے ظلم کے ذریعے مجبور کرنے کی ناپاک جسارت کی لیکن قربان جائیں امامِ عالی مقام پر جنہوں نے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں کی سواری کی لاج رکھی، جنہوں نے زبانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوسنے کا حق ادا کیا،، جنہوں نے خونِ بتول علیہا السلام کی لاج رکھی، جنہوں نے حیدرِ کرار علیہ السلام کا لختِ جگر ہونے کا ثبوتِ باہم فراہم کیا اور یزیدِ لعین کے تمام باطل منصوبہ کو خاک میں ملا دیا اور احیائے دین کے لئے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے تمام گھرانے کو قربان کر دیا۔ آپ نے یہ ثابت کیا کہ حق کی خاطر جان تو دی جا سکتی ہے مگر کسی قیمت باطل سے سمجھوتہ ممکن نہیں۔آپ نے خودکو راہِ خدا میں قربان کر کے انسانیت کو نئی زندگی عطا کی۔
ہر دور میں آوازِ حق بلند کرنے والے امام حسین علیہ السلام کی ذات مبارکہ اور سیرتِ مطہرہ سے رشدوہدایت حاصل کرتے رہے ہیں۔ عصرِ حاضر میں بھی امتِ مسلمہ کے مجموعی مسائل کا حل اسوہ شبیری علیہ السلام میں پوشیدہ ہے۔آج اگر ہم اپنی اصلاح چاہتے ہیں اور زمانے میں عروج اور آخرت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے اوپر لازم آتا ہے کہ بلا تفریق فرقہ و مسلک امامِ حسین علیہ السلام کی ذات اقدس سے محبت و مودت کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنائیں کیوں کہ آپ علیہ السلام کی محبت کے بغیر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور توجہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
حسین منی وأنا من حسین، أحبّ اللہ من أحبّ حسیناً، حسین سبط من الأسباط.
(ترمذی، السنن، 5 :658، رقم: 3775)
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے۔
یہی محبت ہمیں اتباع کی جانب لے آئے گی اور جب محبت اور اتباع کامل ہو جائیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں باطل یزیدی نظام کے خلاف آوازِ حق بلند کرنے اور حق کا پرچم لہرانے سے روک نہیں سکتی۔ کیوں کہ واقعہ کربلا صرف ایک واقعہ نہیں ہے یہ حریت، خودداری، جرات و شجاعت اور ایثار و قربانی کی ایک ایسی عظیم داستان ہے جس سے تا قیامِ قیامت انسانیت ہدایت پاتی رہے گی۔
المختصر! حسینؑ ایک فکر ہے۔ حسین حق و باطل میں سمجھوتہ نہ کرنے کا نام ہے۔ آج بھی ریگ زارِ کربلا سے آواز اٹھ رہی ہے کہ ہے کوئی اسلام کی عظمت و رفعت کی خاطر اپنی جان کو قربان کرنے والا جو اس دورِ زوال میں یزیدِ وقت کے خلاف آواز حق بلند کرے اور اسوہ شبیریؑ کا پرچم عالم میں لہرائے۔
یزیدِ عصر نئی کربلا کے درپے ہے
جبینِ وقت پہ شبیر لکھ دیا جائے