14 اگست 2022ء کو ہم اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ منارہے ہیں۔ ہر سال تجدید عہد وفاء کئے جاتے ہیں اور عزم کیا جاتا ہے کہ ہم وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کریں گے مگر یہ عہد و پیما فقط ایک دن کی رسومات کی ادائیگی بن کر رہ گئے ہیں۔ ہر گزرتے ہوئے سال کا تجزیہ کیا جائے تو سیاسی، سماجی، معاشی، اخلاقی اعتبار سے قوم معکوس ترقی کا سفرطے کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ رواں سال بھی بہت سارے حوالوں سے تکلیف دہ ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی، معاشی اور اخلاقی انحطاط سے گزررہا ہے۔ اگر ہم سیاسی عدم استحکام پر نگاہ دوڑائیں تو اس طرح کا عدم استحکام ماضی میں کبھی نظر نہیں آتا۔ ہر روز حکومتیں بدلتیں اور بنتی ہیں۔ روپیہ کی بے قدری ہر روز ایک نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ اخلاقی انحطاط کا یہ عالم ہے کہ کوئی قومی رہنما کسی دوسرے رہنما کا درست الفاظ کے ساتھ نام لینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ اقتدار کی رسہ کشی اپنی انتہائوں کو چھورہی ہے۔ اگر ہم سانحہ مشرقی پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو کم و بیش یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ کوئی رہنما دوسرے پر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ ہر ادارہ اور فرد حق پر ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتتا نظر آتا تھا مگر بنگلہ دیش کے عام آدمی کی تکلیف اور دکھ درد کو کوئی محسوس نہیں کررہا تھا۔ ہم لاکھ دشمن ملکوں پر پاکستان کو دولخت کرنے کے الزامات لگائیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے پاکستان کو دولخت کیا۔ آج کے حالات پر نگاہ دوڑائیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ قوم کے ذمہ داروں نے سانحہ مشرقی پاکستان سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے زریں اقوال آج بھی قدم قدم پر رہنمائی کے لئے دستیاب ہیں مگر ہم اپنے مفادات کے حصار سے باہر نکلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بانی پاکستان کیسا پاکستان چاہتے تھے یہ ان کے افکار و اقوال سے عیاں ہوتا ہے۔ 25 فروری 1940ء میں انہوں نے فرمایا ’’لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں ہمارا مقصد کیا ہے؟ اگر اب بھی تم نے ہمارا مقصد نہیں سمجھا تو میں کہوں گا تم کبھی نہ سمجھ سکو گے، یہ بالکل صاف ہے، برطانیہ ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے، مسٹر گاندھی اور کانگریس مسلمانوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ہم نہ برطانیہ کو اور نہ مسٹر گاندھی کو مسلمانوں پر حکومت کرنے دیں گے، ہم آزاد رہنا چاہتے ہیں‘‘۔ بانی پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا کہ ہم کسی کے غلام نہیں ہیں۔ کوئی ہمیں ڈکٹیشن نہیں دے سکتا، نہ کوئی ہم پر اعلانیہ یا غیر اعلانیہ حکومت کر سکتا ہے۔ آج 75 سال کے بعد بھی یہ بحث زوروں پر ہے کہ ہم غلام ہیں کہ آزاد ہیں؟ مگر اگر ہم اپنی معیشت کو دیکھیں، اپنے نظام تعلیم کو دیکھیں، اپنی اقدار و ثقافت کو دیکھیں تو ہر جگہ بیرونی غلبہ نظر آتا ہے جو بانی پاکستان کی فکر آزادی کے خلاف ہے۔ہمیں معاشی اعتبار سے خود انحصار کی منزل حاصل کرنی ہے اور اپنی روایات اور ثقافت کے مطابق اپنے شب و روز بسر کرنے ہیں جب ہم معاشی اعتبار سے آزاد اور خودکفیل ہوں گے تو تبھی ہم آزاد و خودمختار زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔