معاونت: حافظہ سحر عنبرین
وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاءٌ وَلَکِن لاَّ تَشْعُرُونَ.
(سورة البقرة: 154)
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‘‘
واقعہ کربلا اور خانوادہ رسول کی مقدس ہستیوں کی شہادت میں دو فلسفے آپس میں ٹکراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ سوچیں کیا تھیں ؟وہ فلسفے کیا تھے؟ وہ دو فکر کیا تھے؟ انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ واقعہ، واقعہ نہ رہے۔ ایک ابدی حقیقت کے طور پر سمجھ میں آجائے۔
واقعہ کربلا میں جن د د سوچوں کا ٹکراؤ تھا وہ یہ تھیں۔ ایک سوچ یہ تھی اور وہ یزیدیت کے روپ میں آج بھی موجود ہے۔ وہ سوچ یہ تھی کہ طاقت ہی حق ہے۔ اسی کی پیروی کی جائے اس کا ساتھ دیا جائے اس سے ہر صورت سمجھوتا کیا جائے اس سے بنائی جائے۔بگاڑی نہ جائے۔
اس کے ساتھ امام حسین کی سوچ کا ٹکراؤ تھا اور ان کی سوچ تھی کہ طاقت ہی حق نہیں ہے بلکہ حق ہی طاقت ہے۔ جملہ ایک ہی ہے صرف لفظ تھوڑے آگے پیچھے ہوگئے۔ یزید جس سوچ کا نام تھا وہ تھی طاقت ہی حق ہے حسین علیہ السلام جس سوچ کا نام ہے وہ ہے کہ حق ہی طاقت ہے یعنی طاقت کی پرستش نہ کی جائے۔ طاقت کاساتھ نہ دیا جائے۔ حق کا ساتھ دیا جائے۔ حق کا ساتھ دیتے ہوئے اگر طاقت آپ کو کچل بھی دے تو آپ پھر بھی زندہ و تابندہ ہیں۔ ان دونوں فلسفوں کے ٹکراؤ نے یہ بات امت مسلمہ کو اور عالم انسانیت کو سمجھائی کہ واقعہ کربلا کے نتیجے میں حسین علیہ السلام شہید ہوگئے اور یزید نے اپنا تخت بچالیا حا لا نکہ ابھی کو ئی مسلح جنگ نہیں تھی۔ کوئی بغاوت کی صورت ابھی نہیں پیدا ہوئی تھی۔یہ تو پرامن قافلہ تھا جو کہ سو ئے کوفہ رواں تھا۔ اور صرف خاندان کے لوگ تھے یہ جنگ کی تیاری تو نہیں ہوتی مگر واقعہ کربلا کے نتیجے میں امام حسین اور خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب شہید ہو گئے۔یزید کا تخت بچ گیا لیکن فلسفۂ کربلا یہ ہے کہ حسین شہید ہو کر بھی زندہ ہوگئے اور یزید تخت بچا کر بھی مردہ ہو گیا۔ حسین نیزے کی نوک پہ چڑھ کے بھی جیت گئے اور یزید تخت پہ براجمان ہو کر بھی ہار گیا۔ حسین علیہ السلام نے ہار اور جیت کا مفہوم بدل دیا۔
اس لیے یزید نام تھا بربریت کا اور حسین استعارہ تھے انسانیت کے۔
یزید خیانت تھا حسین علیہ السلام امانت تھے۔
یزید ظلم تھا حسین علیہ السلام عدل تھے۔
یزید جبر تھا حسین علیہ السلام صبر تھے۔
یہ جبر اور صبر کا مقابلہ تھا۔ یزید سراسر جفا تھا حسین علیہ السلام سراسر وفاتھے۔
یزید نام تھا مطلق العینانی کا، حسین نام تھا مساوات ایمانی کا۔
یہ دو کردار تھے یزید باطل کردار کا نام تھا حسین علیہ السلام حق کردار کا نام تھا۔
اس لیے جبر کی طاقت، ظلم کی طاقت، خیانت کی طاقت، کرپشن کی طاقت، بربریت کی طاقت، دہشتگردی کی طاقت، خونریزی کی طاقت، یہ یزیدیت بنی اور صبر کی جرات، عدل کا کردار، امن کی خوشبو، انسانیت کا زیور، یہ حسینیت بنی۔
یزید سراسر بے حیائی اور لوٹ مار کا نام تھا۔ حسین سراسر تقوی اور ایثار کا نام تھا۔یزید سراسر کرپشن ہے وہ سراسر کرپشن تھا۔ اس کی کرپشن کی تین جہتیں تھیں۔ یزید بانی بنا سیاسی کرپشن، مالی کرپشن اور اخلاقی کرپشن کا۔
سیاسی کرپشن:
سیاسی کرپشن اس کی یہ تھی کہ اس نے نظامِ خلافت کی قدرو ںکو پامال کردیا۔ خلافت راشدہ سیرت مصطفیa کا عملی نظام تھا۔ اگر سیرت مصطفی، سنت مصطفی، تعلیمات مصطفیa کی حتی کہ قرآن و سنت کو اگر ایک عملی نظام کی شکل میں دیکھنا چا ہیں وہ خلافت راشدہ تھی۔ یزید نے اس خلافت راشدہ کی قدروں کو پامال کیا اور اس کو بدترین ملوکیت انتہائی سفاک اور کرپٹ آمریت سے بدل دیا۔ جہاں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ دجلہ کے کنارے بھوک سے مرنے والے بکری کے بچے کا بھی ذکر تھا وہاں خانوادہ رسول کے مقدس نفوس کچل دیئے۔ کتنا فرق تھا اس سوچ کا جو آقا علیہ السلام نے عطا کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام اس سوچ کے امین تھے، اس کے وارث تھے۔ ان قدروں کے محافظ تھے۔ ان پر مبنی امت کا مستقبل سنوارنا چاہتے تھے۔
یزید نے خلافت راشدہ کی اور نظام رسالت کی تمام قدروں کو پامال کر کے بدترین کرپٹ اور سفاک آمریت کے نظام کو رائج کیا۔ یہ سیاسی کرپشن تھی اور اس کے نتیجے میں اس نے خاندانی بادشاہت اوپر سے لے کر نیچے تک قائم کی۔ اس کا وطیرہ یہ تھا کہ جتنے بزرگ با کردار، پختہ، اچھی سیرت والے، عمر رسیدہ، تجربہ کار، دیانت دار، ایماندار اور جن جن مناصب پر فائز تھے ان سب کو ہٹا دیا۔ اس نے اب اپنے خاندان کے لونڈوں کو یہ لفظ صحیح بخاری میں آیا ہے۔
لونڈے، اوباش، بدمعاش بدکماش جوان کو مناصب پر فائز کردیا۔ اس نے کلچر بدل دیا اس سیاست کا جو آقا علیہ السلام نے اپنی امت کو عطا کی۔
علیکم بسنتی وسنت الخلفاء راشدین المهدین.
اس کو بدل کر اس نے بدترین خاندانی کرپٹ، بادشاہت، اورملوکیت اور آمریت کی بنیاد رکھی۔ یہ اس کی سیاسی کرپشن ہے۔ اس نے اختلا ف رائے کا حق ہر ایک سے چھین لیا۔
ایک جمہوری طریقہ ہے معاشروں میں احتجاج کرنا۔ اس نے احتجاج کرنے کا حق چھین لیا۔ حتی کہ واقعہ کربلا کے بعد شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد اہل مدینہ نے احتجاج کیا۔ آپ کی شہادت کے بعد یزید نے افواج بھیج کر مدینہ طیبہ کو تخت وتاراج کیا نہ صرف مدینہ منورہ پر قبضہ کیا۔ مسجد نبوی پر قبضہ کرلیا اور اپنے گھوڑے اونٹ اور خچر مسجد نبوی میں باندھ دئیے۔ تین دن تک مسجد نبوی میں اذان،جماعت اور نماز معطل ہوگی۔ اس پر مورخین، محدثین، علماء اسلام کی پوری تاریخ میں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں۔ اپنی افواج کو بھیجا انہیں حکم دے کر کہ تین دن تک مدینہ تمہارے اوپر حلال ہے، جو چاہو کر لو قتل عام کر دو۔ لاشیں گرا دو۔خون کے دریا بہا دو۔ عزتیں لوٹ لو۔ تین دن تک جو چاہو کرو میں تم پر مباح کرتا ہوں۔ ان لله وانا الیه راجعون.
پھر اہل مکہ نے احتجاج کیا اس واقعہ پر بہت سے صحابہ، تابعین اور صحابیات شہید ہوئیں، ان کے مزارات کا پورا ایک خطہ جنت البقیع میں ہے۔ صرف مکہ معظمہ کوہی نہیں بلکہ مسجد نبوی اور روضہ رسول کی بے حرمتی کی۔ منجنیق کے ذریعے کعبۃ اللہ پر تیر برسائے اور آگ لگائی اور کعبۃ اللہ کا نہ صرف غلاف جلا مگر کعبہ شریف کا بہت سارا حصہ جل گیا۔ جب کعبۃ اللہ جل رہا تھا دمشق سے یزید ہدایات دے رہا تھا۔ اس کی فوج کا ایک کمانڈر مر گیا۔ نیا کمانڈر اس نے اپوائنٹ کیا جب کعبہ جلا رہا تھا اسی دوران اس کو تکلیف ہوئی اور تڑپ کر کعبہ کے جلانے کے دوران مر گیا۔ واصل جہنم ہوا۔
مالی کرپشن:
دوسری کرپشن اس کی مالی تھی جہاں ایک نظام تھا سیدنا صدیق اکبر ہو ں سیدنا فاروق اعظم ہو ں سیدنا عثمان غنی ہوں سیدنا علی کرم اللہ علیہ اجمعین ہوں وہاں تو ایک عام شخص بھی کھڑا ہو کے پوچھ سکتا تھا کہ مال غنیمت کی چادر سے ہمارا قمیض نہیں بنا تو آپ کا کرتا کیسے بن گیا؟ وہاں تو یہودی مقدمہ کر سکتا تھا یہ ذرہ میری ہے تو سیدنا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ جسٹس کی عدالت میں امیر المومنین اور خلیفہ المسلمین ہونے کے باوجود پیش ہوتے تھے اور فیصلہ سیدنا حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے خلاف آیا کیونکہ قاضی شوریٰ نے پوچھا کہ کوئی گواہ پیش کریں تو اس وقت جب خریدی تھی تو گواہ صرف امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ تھے۔ تو جج نے کہا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں۔ اس نے فیصلہ کرکے سیدنا علی کی ذرہ گواہی نہ ہونے کی بنا پر یہودی کو دے دی۔جب عدل کا یہ عالم دیکھا تو یہودی نے وہیں کلمہ پڑھ کے اسلام قبول کرلیا اس نے کہا ذرہ انہی کی ہے مگر میں مسلمان ہوتا ہوں اسلام کا یہ کردار دیکھ کر جہاں یہ نظام آقا علیہ السلام دے کر گئے تھے امت کو اور اس پر عمل درآمد تھا۔ یزید دور میں وہاں مالی کرپشن تھی۔ قومی اور سرکاری خزانہ ذاتی عیاشیوں کی نظر ہوگیا۔ شہنشاہانہ انداز سلطنت تھا شہنشاہانہ زندگی تھی۔ قومی خزانے کو لوٹا اپنی عیاشی، اپنی امارت، اپنے شہنشاہیت، اپنی بادشاہت، اپنی مستیوں پر اس نے سیاسی کرپشن کے ساتھ مالی کرپشن کی بنیاد رکھی۔
اخلاقی کرپشن:
تیسری اخلاقی کرپشن اس نے دینی اور اخلاقی اقدار کو مٹا دیا اور بے حیائی کو عام کیا اور اپنے محل میں بے حیائی کو اور حدود الٰہیہ کو توڑنے کو اس نے رواج دیا۔ وہ پہلا شخص تھا جس سے آغاز ہوا۔ بدکاری و بے حیائی کا اس نے اسلامی قدروں، حیا، اسلامی شرف، حرام و حلال کو پامال کیا۔ اس تین قسموں کی کرپشن کے مجموعہ کا نام یزیدیت بنا۔ یہ پورا نظام یزیدیت کی شکل میں آج تک موجود ہے۔جس کی طرز زندگی، طرز حکمرانی، طرز سلطنت میں ان چیزوں کی جھلک نظر آئے وہ اپنے دور کا یزید ہے اور جو ان پلیدیوں سے ٹکرائے وہ اپنے دور کا غلام حسین علیہ السلام ہے۔ وہ اپنے دور کا حسینیت کا پیروکار ہے۔ تو یزیدیت نے انسانی حقوق کا قتل عام کیا۔ اس نے انسانی آزادیوں کا قتل عام کیا۔ اس نے اخلاق کو، شرافت کی قدروں کا قتل عام کیا۔ اس نے دین اور احکام شریعت کا قتل عام کیا۔ اس نے نظام احتساب کا قتل عام کیا۔ اس نے عدل و انصاف کا قتل عام کیا اور سارے نظام کو اپنی حرص اور ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ساری سلطنت کا نظام اس نے ذاتی خواہش کا نام رکھا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا تھا:
من راٰء منکم منکرا فلیغیره بیده فان لم یستطر فبلسانه وان لم یستطر فبقلبه فذالک ادعف الایمان.
آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ایمان کے تین معیار مقرر کیے ہیں۔
ایمان کا پہلا درجہ:
فرمایا تم میں سے جو شخص برائی کو، ظلم کو، بے حیائی کو، لوٹ مار کو، کرپشن کو، دین کے حقوق کی خلاف ورزی کو، جبر کو، ظلم کو کھلے بندوں دیکھے اس کو نظر آئے تو اس پر فرض ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ اس کو روکے اور اس نظام کو بدلنے کی کوشش کرے۔
فلیغیره بیده پوری قوت کے ساتھ اس نظام کو بدلے جو منکر و بدی پر قائم ہے۔ یہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے پہلا معیار قائم کیا یہ معیار آئیڈیل ہے۔
ایمان کا دوسرا درجہ:
پھر آپa نے خیال فرمایا کہ میری امت کے کمزور لوگوں میں اگر کوئی اتنی طاقت اور جرت نہ رکھے، ہر ایک کے سینے میں ایسا کلیجہ نہیں ہوتا نا شعروں میں ٹکرانے کی بات کرنا بڑا آسان ہوتا ہے، تقریروں میں بھی ٹکرانا بڑا آسان ہوتا ہے مگر میدان میں اتر کے ٹکرانا اور اپنی جانے دے دینا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ یہ اسی کو نصیب ہوتا ہے جس کے من میں اس نے حسینیت کا چشمہ کھول دیا ہو۔ جس کو حسینیت کے نور سے روشن کردیا ہو۔ اگر حسینیت کسی کے من میں داخل ہو جائے تو اس میں بزدلی نہیں رہتی، بے حسی نہیں رہتی، بے ضمیری نہیں رہتی، بے حیائی نہیں رہتی، ڈر نہیں رہتا، خوف نہیں رہتا، مصلحت نہیں رہتی، اس کی ٹانگیں کانپتی نہیں ہیں۔ پھر وہ کمزور بھی ہو تو دنیا کا طاقتور ترین ہوتا ہے کیونکہ اس کی طاقت اپنی نہیں ہوتی اس کی طاقت حسین علیہ السلام سے ہوتی ہے، فکر حسین علیہ السلام سے ہوتی ہے۔ سو آقا علیہ السلام نے جانتے ہوئے کہ ہر کوئی ٹکرا نہیں سکتا۔ کمزور بھی ہوتے ہیں چھوٹے کلیجے والے لوگ بھی ہوتے ہیں تو ان کا دھیان بھی فرما دیا کہ بہت بڑی اکثریت امت سے ہی نہ نکل جائے ان کا بھی خیال رکھا فرمایا: فبلسان اگر کوئی ٹکرانے کی جرات اور ہمت نہ رکھے تو زبان سے للکارے یا ٹکرائے۔ دو پیمانے دیے۔ پھر زبان سے اس کی مذمت کرے اس کا ساتھ نہ دے۔ آقا علیہ السلام نے رعایت فرمائی۔ ان کا خیال کیا۔
ایمان کا تیسرا درجہ:
آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ کئی اس سے بھی کمزور دل کے لوگ ہوں گے۔ ان کی زندگی میں مفاد زیادہ طاقتور ہوگا۔ کئی لوگ مالی مفاد کے آگے کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ کئی چندوں کے آگے کھڑے نہیں ہوسکیں گے۔ چندے رک جائیں گے۔ کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ کئی پرمٹوں کے آگے کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ کئی ڈویلپمنٹ فنڈ کے آگے کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ کئی گلی کوچوں کے چھوٹے چھوٹے کام اور غرض کی وجہ سے کھڑا نہیں ہو سکیں گے۔ بڑے کمزور لوگ جنہیں زبان سے بھی حق کہنے کا حوصلہ نہیں ہوگا۔ زبان سے بھی حق کہنے کا حوصلہ نہیں ہوگا۔ ڈریں گے آقا علیہ السلام نے سوچا کہ ہوں گے تو وہ بھی میری امت میں۔ پھر ان کا خیال کر کے فرمایا فبقلبہ اگر زبان سے بھی للکار نہ سکو اور مذمت نہ کر سکو۔ ڈر ہو کہ کہیں پولیس نہ اٹھا لے، ڈر ہو مقدمہ نہ بن جائے، ڈر ہو یہ مفاد نہ رک جائے، خوفزدہ ہوں کہ زبان سے بھی کلمہ حق ادا نہ کر سکوں تو فرمایا تیسری گنجائش بھی دے دی۔ فرمایا فبقلبہ۔ دل سے نفرت کرے۔ مگر ان کا ساتھ نہ دیں۔ نفرت کریں ان کی نوکری نہ کریں چاکری نہ کریں غلامی نہ کریں ان کی وفاداری نہ کرے ان کی تابعداری نہ کریں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ٹھیک ہے اگر تم زبان سے ٹکرا نہیں سکتے، خوفزدہ ہو یا ہو مفاد زدہ ہو تو پھر دل سے نفرت تو کرو۔ ان کی پارٹی نہ بنو۔ ان سے الائنس نہ کرو۔ ان کا ساتھ نہ دو۔ دل سے نفرت کرو اور دل سے نفرت کرنے کے لیے فرمایا: فذالک ادعف الایمان یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے مگر ابھی بھی ایمان کے اندر رکھا ایمان سے خارج نہیں کیا۔ فرمایا یہ بوٹم لائن ہے کمزور ترین درجہ ہے۔ اس سے آگے سٹوپ کیا ہے۔ چوتھا درجہ ہے ان کے ساتھ مل جانا وہ ایمان سے خارج ہونے والا عمل ہے۔ یعنی بدی کا ساتھ دینا، ظلم کا ساتھ دینا، جبر کا ساتھ دینا وہ ادعف الایمان سے بھی نیچے ہے۔ ادعف الایمان اور بوٹم لائن کے بعد تو پھر مائنس شروع ہو جاتا ہے۔ بوٹم لائن تو زیرو پر آجائے گا۔ دس سے نیچے گرے، نو، آٹھ، سات، چھ، پانچ، چار، تین، دو، ایک۔ اس کے بعد زیرو آگیا۔ اس سے نیچے جائیں تو تفریق شروع ہو جاتا ہے۔یہ جو تین درجے تھے۔
اس وقت کیا ہوا کہ کچھ لوگ خوفزدہ ہو کر یا مفاد زدہ ہوگئے کچھ لوگ یہاں یزید اور یزیدیت کے بطور نظام اس کے معیدبنے وہ کوفہ اور دمشق میں تھے۔ مفاد کے لیے یا خوف زدہ ہو کر اس کے ساتھ ہوئے۔ یہ طبقہ بھی تھا۔ باقی بھاری اکثریت وہ دو پوزیشنز میں رہی۔ دو پوزیشن فبلسان فبقلب میں بھاری اکثریت۔ حسین علیہ السلام کی انفرادیت کیا ہے؟ امام حسین علیہ السلام نے کونسا انوکھا کام کیا۔ پورا خانو ادہ قربان کروا دیا۔ دین کے لئے حاندان شہید کروا دیا۔ دوسرا ہے انتہا درجے کی مظلومیت، جس میں شہادتیں ہوئیں۔
ان سارے حقائق سے ہٹ کر ایک دوسری انفرادیت بھاری اکثریت امت کی فبلسانہ یا فبقلبہ کے درجے میں گئی۔ حسین علیہ السلام فلیغیرہ بیدہ کے مقام پر فائز ہوا۔ فیغیرہ بیدہ کئی لوگوں نے تائید کردی ان کا تو ذکر ہی کیا۔ بہت سے لوگوں نے رخصت کا راستہ، مصلحت کا راستہ اور خاموشی کا راستہ اختیار کیا۔ حسین علیہ السلام نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا اور جو بات سمجھانا چاہتا ہوں۔ رخصت کا راستہ جائز تھا۔ عزیمت کا راستہ افضل تھا تو حسین علیہ السلام جائز کرنے والوں میں نہیں افضل کرنے والوں میں تھے۔ جائزعمل میں کوئی فضیلت نہیں ہوتی جائز جائز ہوتا ہے۔ اس پر گناہ نہیں۔ اس جائز پر مباح کرنے والے کے لئے فضیلت نہیں ہے۔ ساری فضیلتیں حسین علیہ السلام سمیٹ گئے۔ رخصت اور خاموشی کی قرآن مجید نے بھی اضطرار کی حالت میں اجازت دی ہے:
فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَیْهِ.
(سورة البقرة: 173)
’’پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں۔‘‘
حسین علیہ السلام صاحب اجازت نہیں صاحب فضیلت ہوئے۔ اجازت کا طریق بہت سوں نے اپنایا مگر فضیلت کا طریق حسین علیہ السلام کے حصے میں آیا۔وہ راہ عزیمت تھی جو امام حسین نے اپنائی۔ یہی وجہ ہے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کی یہ اہمیت ہے کہ بڑی بڑی ہستیاں جو اس معاملے میں اجازت پہ رہیں ان کی شہادتوں اور تاریخوں کا علم نہیں ہے۔ مگر حسین علیہ السلام کی شہادت اتنی معروف ہے جیسے سیرت محمدیa معروف ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک باب ہے اور یہ ذکر قیامت تک مٹ نہیں سکتا۔ اس کی نشاندہی آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے خود فرمائی تھی۔