تشخیص کا لغوی معنی ’’جانچ کا تعین کرنا‘‘ ہے۔ یعنی کسی مرض کے متعلق تحقیق سے پہنچان لینا کہ یہ واقعی مرض ہے۔
صحت جسمانی، نفسانی اور روحانی حیثیت سے مکمل خوشی کا نام ہے لیکن جب ان میں سے کوئی ایک مناسب نہ ہو تو وہ حالت مرض ہے۔ اس کی صحیح شناخت اور ان کی علامات و جسمانی اعضاء کی ساخت یا ان کے افعال میں کسی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہو چکی ہوں، تلاش کر کے متعین کر لینا کہ کسی مفرد عضو میں بگاڑ ہے تشخیص کہلاتا ہے۔
تشخیص کو عام طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
1۔عمومی تشخیص:
اس سے مراد ہے کہ اشخاص کی وضع قطع، اخلاق و عادات، کردار، برتاؤ، چال ڈھال، گفتگو، معمولات، شوق، آواز، رنگت، بو، پسندیدگی، جلد، چہرے سے نظر آنے والی علامات اور اس کی نفسیات سے کافی حد تک اندازہ ہو جاتا ہے۔
2۔ خصوصی تشخیص:
اس سے مراد ہے کہ مریض کا علاج کرنے کی غرض سے بنظر غائر، بھر پور توجہ اور مکمل یکسوئی سے جائزہ لینا۔ اس مقصد کو حل کرنے کے لئے چہرہ، نبض قارورہ، لیبارٹری ٹیسٹ، اور مریض کا اپنا بیان اور اس کی گزشتہ ہسٹری سے مدد لی جاتی ہے۔ بس یہی تشخیص کے پانچ بنیادی ذرائع ہیں جن کی روشنی میں مرض سبب مرض اور ان کی علامات سے یقین کی حد تک آگاہی ہو جاتی ہے۔
جن علامات کے ساتھ جسمانی مرضیاتی تبدیلیاں پائی جائیں، انہیں عضوی امراض (Organ Diseases) کہتے ہیں جبکہ ایسی علامات جن کے ساتھ کوئی مرضیاتی تبدیلی موجود نہ ہو انہیں فعلیاتی امراض (Functional Diseases) کہتے ہیں اور وہ متعین اسباب جو امراض کی پیدائش کے سبب بنتے ہیں وہ مرضیاتی عوامل Etiological Factors) کہلاتے ہیں۔ ان اسباب کے نتیجے میں جب مرض پیدا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ کامل شفایابی سے لے کر موت تک کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس متوقع نتیجے کے بارے میں قیاس آرائی کو انذار مرض (Prognosis) کہتے ہیں۔ مرض کی وجوہات کے تعین اور اس کی وجہ سے واقع ہونے والی عضوی خرابیوں کی نشاندہی کو (Diagnosis) کہتے ہیں۔
صحیح تشخیص کے لئے انسانی جسم کے بنیادی خلیے اور اعضاء کے باہمی تعلق کا مطالعہ ضروری ہے تا کہ ان کی مناسب اور غیر مناسب کارکردگی سے گہری واقفیت ہو جائے۔ طبی تشخیص مختصراً Dx یا DS اس بات کا تعین کرنے کا عمل ہے کہ کون سا مرض یا حالت کسی شخص کی بیماری اور اس کی علامات کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کو اکثر طبی تشریح سے وابستہ ہونے کی وجہ سے تشخیص کہا جاتا ہے۔ تشخیص مریض پر مرکوز ایک پیچیدہ عمل کا ایک انتہائی اہم حصہ ہے، جو مریض اور طبی معلومات کے دیگر ذرائع دونوں کے ساتھ مل کر مریض کی موجودہ حالت کا سبب بننے والے ممکنہ صحت کے مسئلے کا جاننا ہے۔ تشخیص کے لئے درکار معلومات عام طور پر تاریخ اور طبی دیکھ بھال کے خواہاں شخص کی جسمانی جانچ پڑتال سے جمع کی جاتی ہیں۔ اکثر ایک یا ایک سے زیادہ تشخیصی طریقہ کار، جیسے تشخیصی ٹیسٹ وغیرہ علاج کے دوران بھی کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات بعد از مرگ تشخیص ایک قسم کی طبی تشخیص سمجھی جاتی ہے۔
تشخیص اکثر چیلنج ہے، کیونکہ اکثر علامتیں غیر ضروری ہوتی ہیں یا پھر عموماً مختلف بیماریوں میں ان علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، جلد کی لالی (erythema)، سر درد (Headache)، آنکھوں کی جلن، آنکھوں کی سوزش، آنکھوں میں پانی، چھینکیں (sneezing)، سوجن (swelling)، ناک اور گلے میں خارش (itchy nose and throat)، جلد پر خارش(Hives or Skin rashes)، معدے کی تکلیف (اسہال، متلی، الٹی، گیس کی زیادتی، بدہضمی) ہونٹوں، چہرے، یا زبان کی سوجن ، سانس لینے میں دشواری یا گھرگھراہٹ، بیہوش ہونا؍ یا سر ہلکا ہونا بہت سی امراض کی علامات ہے۔ صرف اس طرح کی عمومی علامات کے ذریعے علاج کرنا بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اور ان علامات سے اصل مرض بھی واضح نہیں ہوتا۔ اصل مرض کی تشخیص کیلئے ڈاکٹرز کے بتائے گئے تشخیصی ٹیسٹس کروانا بہت ضروری ہے۔ تشخیص مکمل علاج اور صحت کا ایک اہم جز ہے۔ اعداد و شمار کے نقطہ نظر سے، تشخیصی طریقہ کار میں درجہ بندی کے ٹیسٹ شامل ہیں۔ ڈاکٹر مریض کی جانچ پڑتال اور معائنہ کرتا ہے اور بیماری کا اندازہ لگاتا ہے۔ طبی مشاورت میں مریض سے اصل شکایت، علامات، مریض کو درپیش مسائل اور ان کے شروع ہونے کا وقت اور اگر یہ بیماری خاندانی ہے تو اس کی معلومات لی جاتی ہیں۔ مذکورہ بالا نتائج مرض کو نام دینے کے لئے مل جاتے ہیں، لیکن بیماری کے لحاظ سے ، کورس کا مشاہدہ کرنے اور علاج کرنے کی کوشش کرنے کے بعد پہلی بار تشخیص کرنا معمولی بات نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں ، ایک خودکار تشخیصی آلہ جو میکانکی طور پر ان کارروائیوں کا ایک حصہ انجام دیتا ہے اسے پروٹو ٹائپ کردیا گیا ہے۔
مرض کی تشخیص صرف یہ نہیں ہے کہ جب مریض ڈاکٹر کے سامنے آئے تو ڈاکٹر جادووئی نظر سے خود ہی بیماری کا اندازہ لگا لے۔ بلکہ تشخیص ایک اہم عمل ہے جو کہ بنیادی طور پر اس وقت شروع ہوتا ہے جب مریض اپنے بنیادی نگہداشت کے ڈاکٹر سے بیماری میں پیش آنے والی تکالیف کا تذکرہ کرتا ہے۔ پہلا مرحلہ مرض کے دورانیے اور اس میں آنے والی تکالیف اور علامات کا جاننا اور جائزہ لینا ہے، اس کے بعد جسمانی معائنہ کیا جاتاہے۔ جس میں خون کے ٹیسٹس (CBC, blood glucose test, liver function test, cholesterol test, triglyceride level test, high-density lipoprotein (HDL) level test, low-density lipoprotein (LDL) level test, basic metabolic panel, renal function panel etc.)، پیشاب کے ٹیسٹ (Red blood cell urine test, Glucose urine test, Protein urine test, Urine pH level test, Ketones urine test, Bilirubin urine test, Urine specific gravity test) ، اور دیگر جسمانی مادوں کے ٹیسٹ (Semen Analysis, Sweat Chloride, Fetal Fibronectin (FFN), Amniotic Fluid Analysis, CSF Analysis, Synovial Fluid Analysis, Pleural Fluid Analysis)وغیرہ شامل ہیں۔
تشخیص (Diagnosis) کلینیکل پریکٹس میں فیصلہ سازی کی بنیاد ہے۔ بیماری کی تشخیص علاج کیلئے اہم معلومات فراہم کر تی ہے جو شدید بیماری کے نتائج کو متاثر کرتی ہے۔ تاہم، کلینیکل پریکٹس میں تشخیص کے مرکزی کردار کو اس ثبوت کے ذریعے چیلنج کیا جاتا ہے کہ اس سے مریضوں کو ہمیشہ فائدہ نہیں ہوتا اور مریض کے نتائج کا تعین کرنے میں بیماری کے علاوہ دیگر عوامل اہم ہوتے ہیں۔ متواتر 'ہاں' یا 'نہیں' کے طور پر بیماری کے تصور کو مسلسل تقسیم کے ساتھ تشخیصی اشارے کے متواتر استعمال سے چیلنج کیا جاتا ہے، جیسے کہ بلڈ شوگر، جو مریض کے مستقبل کے نتائج کے امکان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے طور پر بہتر طور پر سمجھے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ بہت سی بیماریاں، جیسے دائمی تھکاوٹ کو بیماری کی تشخیص کے نقطہ نظر سے مفید طور پر لیبل نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے معاملات میں، ایک پروگنوسٹک ماڈل (prognostic model) کلینیکل پریکٹس کے لیے ایک متبادل فریم ورک فراہم کرتا ہے جو بیماری اور تشخیص سے آگے بڑھتا ہے اور مستقبل میں مریض کے نتائج کی پیشن گوئی کرنے اور ان کو بہتر بنانے کے لیے فیصلوں کی رہنمائی کے لیے معلومات کی ایک وسیع رینج کو شامل کرتا ہے۔ اس طرح کی معلومات میں غیر بیماری کے عوامل اور جینیاتی اور دیگر بائیو مارکر شامل ہوتے ہیں جو نتائج کو متاثر کرتے ہیں۔
بہت سی امراض ایسی بھی ہیں جن کی ابتدائی طور پر علامات واضح نہیں ہوتیں، اور نہ مریض کو اپنے جسم میں کوئی واضح تکلیف، یا تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ ایسی امراض بڑھتے بڑھتے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ جیسا کہ Hypertension (high blood pressure), Hepatitis B and C, Herpes simplex virus (HSV), Type II diabetes, Glaucoma, Osteoporosis وغیرہ شامل ہیں۔ ایسی امراض سے بچاؤ کیلئے اپنے روٹین ٹیسٹ کروانا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کینسر جیسی موذی مرض کی بھی ابتدائی طور پر علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور یہ بڑھتے بڑھتے آخری سٹیج تک پہنچ جاتا ہے اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ ایسی موذی بیماریوں سے بچاؤ اور صحت مند اور حوشحال زندگی کیلئے روٹین چیک اپ کروانا انتہائی مفید ہے۔
طبی معائنہ کا بنیادی مقصد جتنی جلدی ممکن ہو سکے بیماری کا پتہ لگانا ہے، تا کہ کسی بھی پیچیدگیوں کے امکان کو کم کرنے کے لئے ابتدا میں ہی یا جلد از جلد ان کو قابو میں لایا جا سکے۔ تمام بیماریوں کا طبی معائنہ کے ذریعے ابتدائی طور پر علاج کے لئے سراغ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ صرف کچھ دائمی امراض اور چند سست رفتار سے بڑھنے والے کینسر کا باقاعدہ طبی معائنہ کے ذریعے مؤثرطریقے سے پتہ لگایا جا سکتا ہے طبی معائنے قطعی جامع نہیں ہوتے ہیں۔ بڑوں کو مسلسل اپنی جسمانی تبدیلیوں پر توجہ دینی چاہئے۔ بعض دائمی امراض جیسا کہ ذیابیطس اور زیادہ بلڈ پریشر کی ابتدائی علامات شاید نہیں ہوتی ہیں، لیکن بڑی عمرکے افراد پر ان کی پیچیدگیاں انتہائی سخت نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔ جلدی سراغ لگانا اور علاج مؤثر طریقے سے ان کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے۔ تاہم، بڑی عمر کے افراد کو ان عمومی بیماریوں کے لئے باقاعدگی سے معائنے کرانے چاہئیں۔ صحت کے خطرے بڑوں کے لئے ایک طبی معائنہ میں ہمیشہ طبی پیشہ ور افراد کی طرف سے انجام دی گئی تشخیص کو شامل کرنا چاہئے، سمجھنے کے لئے کہ آیا ان میں خطرہ کے حامل عوامل (جیسا کہ ناقص غذا، ورزش کی کمی اور تمباکو نوشی کی عادت) ہیں یا افعالی نقائص (جیسا کہ کمزور سماعت، بصارت یا توازن کی طاقت) موجود ہیں یا نہیں۔ پھر بیماریوں یاحادثات کے ان خطرات کو کم کرنے کیلئے مناسب اصلاح، رہنمائی، حوالہ اورمشورہ فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
صحیح تشخیص کرنا صحت کی دیکھ بھال کا ایک اہم پہلو ہے۔ اس سے مریض کی اصل مرض سے متعلق آگاہی ہوتا ہے اور یہ علاج کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔تشخیصی عمل ایک پیچیدہ اور باہمی تعاون پر مبنی سرگرمی ہے جس میں مریض کی صحت کے مسئلے کا تعین کرنے کے لیے طبی استدلال اور معلومات اکٹھا کرنا شامل ہے۔ اگر اس پچیدہ عمل میں کسی قسم کی غلطی کا امکان ہو جائے تو اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ تشخیصی غلطیاں مناسب علاج کو روکنے یا تاخیر کرنے، غیر ضروری یا نقصان دہ علاج فراہم کر نے، نفسیاتی یا مالی اثرات کے نتیجے میں مریضوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
ڈاکٹرز درست تشخیص کی اہمیت سے خوب واقف ہیں۔ سائنسدانوں اور ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ تشخیص پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے کیونکہ غلط تشخیص ہونے پر مریض کو بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔ ایک تشخیصی غلطی کے نتیجے میں مریض کو بروقت، مؤثر علاج سے انکار یا ممکنہ طور پر زہریلی یا غلط دوائیں دی جا سکتی ہیں۔ جہاں فوری علاج سے مریض کو مکمل صحت مل سکتی ہے، وہاں غلط تشخیص کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ صحیح تشخیص حاصل کرنا مریض کے لیے کلید ہے۔ بروقت انداز میں کئے جانے کے علاوہ، تشخیص اور مضمرات کو مؤثر طریقے سے بتانا ضروری ہے۔
زیادہ تشخیص بھی ایک تشویش ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب کسی ایسی حالت کی تشخیص کی جاتی ہے جو کسی بھی علامت یا خراب صحت کا سبب نہیں بنتی ہے۔ اس کے نتیجے میں صحت اور بیماری کے درمیان فرق واضح نہیں ہوتا۔ اگرچہ زیادہ تشخیص غلط نہیں ہے، لیکن اس کے نتیجے میں نقصان، زیادہ علاج اور غیر ضروری پریشانی ہو سکتی ہے۔ بعض سائنسدانوں نے اسے اوور ٹیسٹنگ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ قانونی چارہ جوئی کے زیادہ خطرہ والی خصوصیات جیسے نیورو سرجری، آرتھوپیڈک سرجری، ایمرجنسی میڈیسن میں زیادہ سے زیادہ تحقیق ضروری ہوتی ہے۔ مریضوں کے اس یقین سے مسئلہ بڑھ جاتا ہے کہ زیادہ ٹیسٹوں کا مطلب بہتر نگہداشت ہے۔ دور حاضر میں صحت مند زندگی کیلئے اور انفیکشنز (viral infections, bacterial infections, fungal infections) سے محفوظ رہنے کیلئے تدابیر اختیار کرنا اور معمولی سی علامت بھی نظر آنے پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا بہت ضروی ہے۔ بروقت تشخیص ہو جانے سے دیگر بہت سی پچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
انسان کو بیماری کا لاحق ہو نا من جانب اللہ ہے اوراللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج بھی نازل فرمایا ہے جیسے کہ ارشاد نبویa ہے اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دواء نازل کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی نے معلوم کر لی اور کسی نے نہ کی بیماریوں کے علاج کے لیے معروف طریقوں (روحانی علاج، دواء اور غذا کے ساتھ علاج،حجامہ سے علاج)سے علاج کرنا سنت نبویaسے ثابت ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں طب نبویaکو اپنائیں تو ہم ایک صحت مند اور حوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔ روحانی اور جسمانی بیماریوں سے نجات کے لیے ایمان او ر علاج کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے اگر ایمان کی کیفیت میں پختگی ہو گی تو بیماری سے شفاء بھی اسی قدر تیزی سے ہوگی۔