اللہ رب العزت کی اس وسیع و عریض کائنات میں اس کی قدرت کی نشانیاں ہر سو بکھری پڑی ہیں۔ آخری وحی، قرآن مجید جہاں انسان کے لیے ختمی اور قطعی ضابطہ حیات ہے، وہاں اس کائنات ہست وبود میں جاری و ساری قوانین فطرت بھی انسان کو الوہی ضابطہ حیات کی طرف متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔ قرآن مجید خارجی کائنات کے ساتھ ساتھ نفس انسانی کے درُوں خانہ کی طرف بھی ہماری توجہ دلاتا ہے۔
جس طرح عالمِ آفاق کے جلوے اجمالاً عالمِ انفس میں کار فرما ہیں اسی طرح نظامِ ربوبیت کے آفاقی مظاہر پوری آب و تاب کے ساتھ حیات انسانی کے اندر جلوہ فرما ہیں۔ انسان کے ''احسن تقویم" کی شان کے ساتھ منصۂ خلق پر جلوہ گر ہونے سے پہلے اُس کی زندگی ایک ارتقائی دور سے گزری ہے۔ یہ اس کے کیمیائی ارتقاء کا دور ہے۔ یہ حقائق آج صدیوں کے بعد سائنس کو معلوم ہو رہے ہیں، جبکہ قرآن انہیں ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے۔
کیمیائی اِرتقاء کے سات مراحل:
قرآنی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی زندگی کا کیمیائی ارتقاء کم و بیش سات مراحل سے گزر کر تکمیل پذیر ہوا۔
1۔ تراب (inorganic matter)
2۔ماء (water)
3۔طین (clay)
4۔طین لازب (adsorbable clay)
5۔صلصال من حماء مسنون (old physically & chemically altered mud)
6۔صلصال کالفخار (dried & highly purified clay)
7۔سلالہ من طین (extract of purified clay)
قرآن مجید ان سات مراحل کا مختلف مقامات پر یوں ذکر کرتا ہے۔
1۔ تراب (inorganic matter):
اللہ رب العزت نے انسان کے اولین جوہر کو غیر نامی مادے سے تخلیق کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ.
(المؤمن، 67: 40)
وہی ہے جس نے تمہیں مٹی (یعنی غیر نامی مادے) سے بنایا۔
انسانی زندگی کے ان ارتقائی مرحلے کا ذکر اللہ تعالی نے اپنی صفت رب العالمین سے شروع کیا۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ سے پہلی آیت کے آخری الفاظ یہ ہیں۔۔
وَ اُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.
اور مجھے حکم ہوا کہ اس کے سامنے گردن جھکاؤں جو سارے عوالم اور ان کے مظاہرِ حیات کو درجہ بدرجہ مرحلہ وار کمال تک پہنچانے والا ہے۔ (المؤمن 66:40)
یہاں اللہ رب العزت نے اپنی شانِ رب العالمین کے ذکر کے ساتھ ہی دلیل کے طور پر انسانی زندگی کے ارتقاء کا ذکر بھی کیا ہے۔ جس سے واضح طور پر یہ سبق ملتا ہے کہ قرآن مجید، باری تعالی کے رب العالمین ہونے کو انسانی زندگی کے نظام ارتقاء کے ذریعے سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے۔ کہ اے نسلِ بنی آدم! تم اپنی زندگی کے ارتقاء کے مختلف ادوار و مراحل پر غور کرو کہ تم کس طرح (مرنا بار) اپنی تکمیل کی طرف لے جائے گے ہو۔ کس طرح تمہیں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل کیا گیا اور کس طرح تم بھی بالآخر "احسن تقویم" کی منزل کو پہنچے۔ کیا یہ سب کچھ رب العالمین کے پرورش کا مظہر نہیں ہے؟
2۔ ماء (water):
یوں تو ہر جاندار کی تخلیق میں پانی ایک بنیادی عنصر کے طور پر موجود ہے لیکن انسان کی تخلیق میں اللہ رب العزت نے بطور خاص پانی کا ذکر کیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا.
(الفرقان، 54: 25)
اور وہی ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا
اس آیت کریمہ میں بھی تخلیق انسانی کے مرحلے کے ذکر کے بعد باری تعالیٰ کی شان ربوبیت کا بیان ہے۔
وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا.
(الفرقان، 54: 25)
اور آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے۔
گویا یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تخلیق انسانی کا یہ سلسلہ اللہ رب العزت کے نظامِ ربوبیت کا مظہر ہے۔
3۔ طین (clay):
انسان کی تخلیق میں تراب اور ماء بنیادی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان دونوں عناصر کے مکس ہو جانے پر طین کو وجود ملا۔ طین کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یوں کیا۔
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ.
(الانعام، 2: 6)
(اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا۔
یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ مترجمین قرآن نے بالعموم 'تراب' اور 'طین' دونوں کا معنی مٹی کیا ہے۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں۔ تراب سے مراد فی نفسہٖ زمین ہے، جبکہ طین اس مٹی کو کہتے ہیں جو پانی کے ساتھ گوندھی گئی ہو۔ جیساکہ مذکور ہے۔
الطین: التراب و الماء المختلط.
(المفردات: 312)
مٹی اور پانی باہم ملے ہوئے ہوں ہو تو اسے طین کہتے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ ترتیب واضح ہو جاتی ہے۔
مٹی ۔۔۔۔۔ پانی ۔۔۔۔۔ گارا
4۔ طین لازب (adsorbable clay):
'طین' کے بعد 'طین لازب' کا مرحلہ آیا جسے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یوں بیان کیا ہے۔
اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ.
(الصافات، 11: 37)
بیشک ہم نے اِن لوگوں کو چپکنے والے گارے سے پیدا کیا ہے۔
طین لازب، طین کی اگلی شکل ہے، جب گارے کا گاڑھا پن زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ حالت ہے جب گارا سخت ہوکر قدرے چپکنے لگتا ہے۔
5۔ صلصال من حماء مسنون (old physically & chemically altered mud)
مٹی اور پانی سے مل کر بننے والا گارا جب خشک ہونے لگا تو اس میں بو پیدا ہوگئی۔ اس بودار مادے کو اللہ رب العزت نے 'صلصال من حماء مسنون' کا نام دیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ.
(الحجر، 26: 15)
اور بیشک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھا۔
اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی تخلیق کے کیمیائی ارتقاء میں یہ مرحلہ 'طین لازب' کے بعد آتا ہے۔
امام راغب اصفہانی صلصال کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہیں۔
’خشک چیز سے پیدا ہونے والی آواز کا تردُّد، کھنکھناہٹ۔ اس لئے خشک مٹی کو صلصال کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ بجتی اور آواز دیتی ہے۔‘
(المفردات: 274)
صلصال کی حالت گارے کے خشک ہونے کے بعد ہی ممکن ہے، پہلے نہیں۔ کیونکہ عام خشک مٹی سے 'تراب' کہا گیا ہے وہ اپنے اندر بجنے اور آواز دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لہٰذا صلصال کا مرحلہ طین لازب کے بعد آیا۔ یہ تو طبعی تبدیلی physical change) تھی۔ مگر اس پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیمیائی تبدیلیاں بھی ناگزیر تھیں۔جن میں اس مٹی کے کیمیائی خواص میں بھی تغیر آیا۔ ان دونوں چیزوں کی تصدیق اسی آیت کے اگلے الفاظ ’حماء مسنون‘ سے ہو جاتی ہے۔
جب گارے 'طین لازب' پر طویل زمانہ گزرا اور اس نے جلنے سڑنے کے محلے قبول کیے تو اس کا رنگ بھی متغیر ہوکر سیاہ ہوگیا اور جلنے کے اثر سے اس میں بوری پیدا ہوگی۔ اسی کیفیت کا ذکر 'صلصال من حماء مسنون' میں کیا جا رہا ہے۔ کسی شے کے جلنے سے بدبو کیوں پیدا ہوتی ہے اس کا جواب بڑا واضح ہے۔ کہ جلنے کے عمل سے کثافتیں سڑتی ہیں اور بدبو کو جنم دیتی ہیں جو کہ مستقل نہیں ہوتی۔ جب کثافت ختم ہوجاتی ہے تو بھی معدوم ہو جاتی ہے۔
اسی لئے ارشاد فرمایا گیا:
صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ.
(الحجر، 26: 15)
سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھا۔
گویا لفظ ’صلصال‘ واضح کر رہا ہے کہ اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے مٹی کی سیاہی اور بدبو وغیرہ سب ختم ہو جاتی ہے۔ اور اس کی کثافت بھی کافی حد تک معدوم ہو چکی ہوتی ہے ۔
6۔ صلصال کالفخار (dried & highly purified clay)
انسان کے کیمیائی ارتقاء میں چھٹا مرحلہ 'صلصال کالفخار' ہے جس کی نسبت سے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ.
(الرحمٰن، 14: 55)
اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے بنایا۔
جب تپانے اور جلانے کا عمل مکمل ہوا تو گارا پک کر خشک ہو گیا۔ اس کیفیت کو 'کالفخار' خاص سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس تشبیہ میں دو اشارے ہیں۔
1۔ ٹھیکرے کی طرح پک کر خشک ہو جانا
2۔ کثافتوں سے پاک ہوکر نہایت عمدہ حالت میں آجانا
اس مرحلے میں مٹی پاک ہو کر کر لطیف اور عمدہ حالت اختیار کر جاتی ہے۔
7۔ سلالہ من طین (extract of purified clay)
انسان کی کیمیائی تخلیق کے دوران پیش آنے والے آخری مرحلے کے بارے میں ارشاد ربانی ہے۔
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ.
(المومنون، 12: 23)
اور بیشک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتداء ) مٹی (کے کیمیائی اجزاء ) کے خلاصہ سے فرمائی۔
اس آیت کریمہ میں گارے کے خالص نچوڑ کی طرف اشارہ ہے جس میں اصل جوہر کو چن لیا جاتا ہے۔ یعنی مٹی میں سے چنا ہوا وہ جوہر جسے اچھی طرح میلے پن سے پاک صاف کر دیا گیا ہو۔
گویا سُلٰلَۃ کا لفظ کسی چیز کی لطیف ترین شکل پر دلالت کرتا ہے جو اس چیز کا نچوڑ، خلاصہ اور جوہر کہلاتی ہے۔
تشکیل بشریت:
کرہ ارض پر تخلیق انسانی کے آغاز کا یہ خمیر بشریت اپنے کیمیائی ارتقاء کے کن کن مراحل سے گزرا، اپنی صفائی اور لطافت کی آخری منزل کو پانے کے لیے کن کن تغیرات سے نبرد آزما ہوا اور بالآخر کس طرح اس لائق ہوا کہ اس سے حضرتِ انسان کا بشری پیکر، تخلیق کیا جائے۔ اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو مذکورہ بالا بحث سے ہو سکتا ہے۔ البتہ اس قدر حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آیات قرآنی میں مختلف الفاظ و اصطلاحات کے استعمال سے کیمیائی ارتقاء کے تصور کی واضح نشاندہی ہوتی ہے۔
جب ارضی خمیر بشریت مختلف مراحل سے گزر کر پاک صاف ہو گیا اور جوہری حالت کو پہنچا تو اس سے اللہ رب العزت نے پہلے انسان کی تخلیق ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کی صورت میں فرمائی اور فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں زمین میں خلیفہ پیدا فرمانے والا ہوں جس کا پیکر بشریت اس طرح تشکیل دوں گا۔ یہ تفصیلات قرآن مجید میں سورۃ البقرہ 2: 30-34، سورۃ الحجر 15: 26-35، سورۃ الاعراف 07: 11-16 اور دیگر مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔
چنانچہ بشریت انسانی کی اسی جوہری حالت کو سنوارا گیا اور اسے نفخ روح کے ذریعے ( اللہ تعالی نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سے لکھا دیے) کا مصداق بنایا گیا اور تب ہی حضرت انسان مسجود ملائک ہوا۔
بشریت محمدی ﷺ کی ظاہری حالت:
امام قسطلانی 'المواھب اللدنیۃ" میں سیدنا کعب الاحبار سے روایت کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے بشریت محمدی ﷺ کو تخلیق فرمانا چاہا تو جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا کہ وہ دنیا کے سب سے اعلی مقام کی مٹی لے آئیں تاکہ اسے منور کیا جائے۔
حضور ﷺ کی بشریت مطہرہ کی لطافت جس جوہری حالت کی آئینہ دار تھی، اس کا عالم کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے پیکر بشریت سے ہمہ وقت خوشگوار مہک آتی۔ پسینہ مبارک کو لوگ خوشبو کے لئے محفوظ کرتے۔ امام بخاری تاریخ کبیر میں لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ جس راستے سے گزر جاتے تو لوگ فضا میں مہکی ہوئی خوشبو سے پہچان لیتے کہ آپ ﷺ ادھر تشریف لے گئے ہیں۔
الغرض ان تمام امور سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ بشریت محمدی ﷺ اپنی تخلیق کے لحاظ سے اعلی، روحانی اور نورانی لطائف سے معمور تھی۔ گویا یہ تخلیقِ بشریت کے مراحل کا وہ نقطہ کمال تھا جسے آج تک کوئی نہیں چھو سکا۔ یہ اعجاز و کمال اس شان کے ساتھ فقط بشریت مصطفوی ﷺ کو نصیب ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو مقام اصطفاء سے نوازا گیا آپ کو مصطفی ﷺ کے نام سے سرفراز کیا گیا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ وہ بشریت محمدی ﷺ کے صدقے اسلام کے آفاقی پیغام کو سمجھنے کی توفیق سے نوازے تاکہ ہم علمی و فکری اور سائنسی و تہذیبی پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکل کر اپنی عظمتِ رفتہ کو بحال کر سکیں۔ آمین بجاہ سید المرسلین