شخصیت انسان کے ذہنی و جسمانی برتاؤ اور اوصاف و کردار کے مجموعہ کا نام ہے۔ یعنی شخصیت کسی بھی انسان کی ظاہری و باطنی صفات و نظریات اور اوصاف و کمالات سے منسوب ہے۔ شخصیت سازی انسان کے اندر دائمی حسن و جمال اور اثرانگیزی کو جنم دیتی ہے۔ انسان کی تعمیر شخصیت میں فکر و نظریات کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ کسی بھی مذہب و مسلک اور معاشرے سے تعلق رکھنے والا انسان یہ ضرور چاہتا ہے کہ وہ معاشرے کا قابل فخر اور مؤثر شخص ہو۔ لوگ اسے اہمیت دیں، اس کی بات کو سنیں اور اس کا قول و فعل دوسروں کیلئے مشعل راہ کا کام کرے۔ ان تمام درینہ خواہشات کا زینہ اور مآخذ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور اسلام کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے۔ اگر انسان اسلامی تعلیمات پر کاربند رہے اور اپنی شخصیت کو اسلام کے بتائے ہوئے قوانین کی بدولت ڈھالے تو یقیناً وہ انسانیت کیلئے قابل فخر اور مؤثر شخصیت کا حامل ہوگا۔
دین اسلام سے قبل عرب معاشرے کی زبوں حالی، معاشی و معاشرتی، سیاسی و سماجی اور اخلاقی اقدار کی پستی اور تنزلی کا اندازہ تاریخ کی کتب سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ترقی یافتہ قومیں اہل عرب کو جاہل اور کم تر سمجھتی تھیں۔ اسلام سے قبل عرب معاشرے کی حالت یہ تھی کہ شجاعت و بہاری، سخاوت و فیاضی، غیرت و حمیت اور فصاحت و بلاغت جیسے اوصاف تو موجود تھے مگر ان کے اوصاف و کمالات اور شجاعت و بہادری کو درست سمت نہ ملنے کی وجہ سے نسل در نسل قبائلی اور خاندانی قتل و غارت گری جاری تھی۔ متعدد جنگیں ایسی تھیں جن کی کوئی معقول وجہ یا کوئی خاص سبب بھی نہیں تھا۔ تربیت و کردار سازی کی کمزوری کی بدولت تعمیری اور اخلاقی پہلو پروان چڑھنے سے قاصر تھے۔ یعنی شجاعت و بہادری باہمی جنگ و جدال اور فصاحت و بلاغت کے جوہر قبائلی قصیدہ گوئی اور مبالغہ آرائیوں میں صرف ہو رہے تھے۔ الغرض ان کے سامنے زندگی کا کوئی تعمیری مقصد نہیں تھا۔ بت پرستی نے ان کی فکری صلاحیتوں کو بھی مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔
تبلیغ اسلام کے ذریعے اہل عرب کی اسی کمزوری کو نشانہ بناتے ہوئے سب سے پہلے کفر و شرک اور بت پرستی کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا اور ان کے تمام معبودان باطلہ کی نفی کرتے ہوئے توحید کو ایمان کی اساس قرار دیا گیا جس سے ان کی فکری جمود کے پتھر بھی چکنا چور ہو کر رہ گئے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے ان کی شجاعت و بہادری کو اعلائے کلمۃ الحق کے جذبہ سے لڑنے کا سبق دیا۔ سماجی و اخلاقی زوال و انحطاط کو صحیفہ انقلاب کی بدولت اوصاف حمیدہ میں تبدیل کر کے پوری دنیا میں مصطفوی انقلاب کے تعمیری جذبہ کو تقویت دی۔
یہ پیغمبر اسلام ﷺ ہی کی معجزاتی شان تھی کہ جس نے دور جاہلیت میں عام انسانوں کی سی گمنام زندگی گزارنے والوں کو کردار سازی اور شخصیت سازی کی بدولت امتیازی حیثیت دی۔ نسل در نسل غلامی میں زندگی گزارنے والے وقت کے جید صحابہ کرام علم و عمل اور تعمیر شخصیت کی بدولت عظیم اسلامی ریاست کے اوالو العزم حکمراں، طالع آزما مجاہد اور بے مثال اخلاق و کردار کے شہسوار بنے۔ یہ رسول اکرم ? کی کردار سازی اور تعمیر شخصیت ہی کی بدولت تھا کہ صحابہ کرام کی زندگیوں میں ہمہ گیر انقلابات رونما ہوئے اور ان کی خوابیدہ اور فطری صلاحیتوں کو جلا ملی۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے جبکہ شخصیت سازی میں انسان کے والدین کی طرف سے ملنی والی نسلی یا موروثی خصوصیات اور اوصاف کا بھی ایک حد تک عمل دخل ہوتا ہے۔ شخصیت سازی کیلئے ضروری ہے کہ انسان دنیاوی مال و متاع کے پیچھے نہ بھاگے۔ دنیاوی مال و دولت کے زور پر معاشرے میں نمایاں مقام بنانے کی کوشش اور شخصیت کو نکھارنے کے حربے دراصل اس انسان کی نہیں بلکہ دنیاوی مال کی پوجا پاٹ ہے۔ اگر آج اس کے پاس یہ مال و دولت اور جاہ جلال نہ رہے تو کوئی اس کی عزت نہ کرے۔ اصل راز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی منصفانہ تقسیم کی بدولت انسان کو کم یا زیادہ جتنا بھی عطا کیا ہے اس پر شکر گزار رہے۔ اگر مال و دولت کی کثرت ہو تب بھی اور نہ ہو تب بھی اس کے علم و عمل اور سیرت و کردار میں اتار چڑھاؤ نہ آئے۔ اپنے عمل میں مخلص رہے اور دنیاوی طلب و شہرت سے باز رہے۔ دنیاوی شہرت کی طلب اور حرص محض دھوکہ اور وقتی کھیل تماشا ہے جس کے بعد بالآخر انسان نے اپنے ابدی گھر کی طرف پرواز کر جانا ہے۔
اس کے برعکس خود پرستی یا خودنمائی دراصل خود فریبی اور شیطانی حربہ ہے۔ جو معاشرے کو زوال و انحطاط کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔ انسان اپنی انا کے خول میں قید زندگی گزار دیتا ہے۔ معاشرے کو باکردار اور شخصیت ساز بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگوں پر مؤثر اور مثبت کام کیا جائے۔ شخصیت سازی کیلئے رہنما اصول اسلام نے واضح اور نہایت مؤثر انداز میں انسانیت تک پہنچائے ہیں بس ضرورت ان کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے قول و فعل اور کردار کو مخلصانہ اور مدبرانہ نظر دوڑائے۔ جس کٹہرے میں وہ دوسروں کو کھڑا کر کے پرکھتا ہے اسی کٹہرے میں خود کو کھڑا کرے۔ والدین کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت، کردار سازی اور شخصیت سازی کیلئے خوش اخلاق، باوقار اور باکردار بنانے کیلئے تعمیر شخصیت پر توجہ دیں۔ بچے جس ماحول میں پرورش پائیں گے یقیناً اسی ماحول کی رنگت ان کی شخصیت پر غالب آئے گی۔ یہی کلیہ معاشرے کے دیگر طبقات پر بھی لاگو ہوتا ہے لہٰذا تعمیر شخصیت کیلئے اسلامی اصولوں پر زندگی گزار مفید و مؤثر بھی ہے اور خوشحال و پرامن معاشرے کی بنیادی ضرورت بھی۔
اگر ہم شخصیت سازی کے عوامل کی بات کریں تو اس میں اخلاق حسنہ کا پیکر ہونا، سچ بولنا، جھوٹ اور بدگمانی سے اجتناب کرنا، حسد اور لالچ سے دور رہنا، ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ہونا، غصہ اور کینہ پروری سے بیزار رہنا اور نفس کی اصلاح کیلئے کوشاں رہنا جیسے عوامل بھی شامل ہیں۔
نفس کی درستگی شخصیت سازی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ نفس کی طہارت و پاکیزگی انسان کو مسجود ملائک بناتی ہے تو نفس کی آلودگی انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا کر حیوان بنا دیتی ہے۔ نفس کی اصلاح اور روحانی ترقی کے لئے اسلامی تعلیمات ہی جو کسی بھی معاشرے کے انسان کو رشک ملائک بنا دیتی ہیں۔ اگر انسان عملی کاوشوں، محنت و ریاضیت سے اخلاق حسنہ کا مرکب بن جائے تو وہ انسانیت کی معراج کو پہنچ جاتا ہے اور اگر اخلاق رذیلہ اس کے اندر جنم لے لیں تو وہ انسان کہلائے جانے کے حق کو بھی کھو بیٹھتا ہے۔ جھوٹ، لالچ، غصہ اور حسد جیسے عناصر پر قابو پا لے تو انسان کی شخصیت نکھر جاتی ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ سچ بولنے والا شخص نڈر، بے باک، بے خوف اور مستحکم شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔ لوگ اس کی دل سے عزت کرتے ہیں اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کی جیتی جاگی مثال رسول اکرم ? کی حیات مبارکہ ہے کہ کفار و مشرکین بھی آپ کو صادق و امین کہتے تھے۔
تعمیر شخصیت سے متعلق کاوشوں کو عملا اپنے اندر پیدا کرنے کیلئے چھوٹی سے چھوٹی بات اور باہم میل جول اور عملی امور کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ جسے بازار سے اپنے لئے جوتا یا کپڑا خریدتے وقت اس بات کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ یہ ہم پر کیسا لگے گا یا ہم یہ پہننے کے بعد کیسے لگیں گے بالکل اسی طرح ہمیں اپنے قول و فعل پر بھی نظر رکھنی ہے۔ ایک اور اہم بات کہ انسان کے الفاظ اور اس کا عمل دونوں باہم مطابقت رکھتے ہوں۔ اگر وہ باہم متصادم ہونگے تو انسان کی شخصیت شدید داغدار ہو جاتی ہے۔ دراصل دکھاوے سے پاک عمل اور اخلاص نیت سے کیا گیا کوئی بھی کام انسان کو معاشرے کیلئے مفید اور معاون بھی بناتا ہے اور دوسروں پر اثرانگیزی کا باعث بھی۔ لیکن دوسروں کی نظر میں اچھا نظر آنے، دنیاوی شہرت اور عزت و مقام کا لالچ اور یہ تمنا دل میں رکھنا کہ لوگ اسے اچھا سمجھیں تو ایسا شخص سستی شہرت کا خواہاں ہی رہتا ہے۔ بظاہر لوگ اس کے سامنے تو اس کی عزت کرتے ہیں مگر بیٹھ پیچھے سوائے برائی کہ کچھ نہیں کرتے۔ اسی لئے انسان کو ہر عمل کی بجاآوری صرف اس لئے کرنی چاہیے کہ دلوں کے بھید جاننے والی ذات اس کے ظاہری عمل سے بھی پوری طرح آشنا ہے اور ہر عمل کے پوشیدہ باطنی اغراض و مقاصد سے بھی باخبر ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شخصیت کو مؤثر بنانے کیلئے اسلامی تعلیمات پر عملدآمد ناگزیر ہے۔ شکرگزاری کا رویہ دوسروں لوگوں کے دلوں میں آپ کی قدر و منزلت کو بڑھاتا ہے اور آپ کی اندر خود اعتمادی کو پروان چڑھاتا ہے۔ اپنی ناکامیوں اور غلطیوں سے سیکھیں، اپنی کامیابیوں پر نظر رکھیں۔ اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی اہمیت دیں اور ناکامیوں کے اسباب کا سدباب کرنے کیلئے اپنی اصلاح کو اہمیت دیں۔ اپنے ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کے اہداف کا تعین کریں اور حال میں اس کیلئے سنجیدہ کوشش جاری رکھیں۔ اپنے ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن رہیں۔ اپنی ناکامیوں کو اپنے اوپر مسلط نہ ہونے دیں جبکہ اپنی ترقی کو اپنا غرور نہ بننے دیں۔ اظہار رائے کیلئے مثبت رویہ اور متداول نقطہ نظر رکھیں۔ انا و عناد پر مبنی، حقائق سے عاری اور متشدد رویے سے گریز کریں۔ اگر آپ کی رائے کے مقابلے میں دوسرے کی رائے درست ہو تو اسے تسلیم کرنے میں عار محسوس نہ کریں بلکہ دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ناپسندیدہ مگر حقائق پر مبنی رائے کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔ جن معاملات پر عبور اور دسترس نہ ہو اظہار رائے سے گریز کریں۔ ہر معاملے میں اظہار رائے مقاصد کے اہداف سے دوری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔