سوال: باتھ روم میں لگے بیسن پر وضو کرتے ہوئے کلمات طیبہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
آج کل باتھ روم ایک ہوتا ہے، اس میں حاجت روی اور غسل کی سہولت ہوتی ہے۔ باتھ روم ایک بند کمرے کی طرح ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ باتھ روم میں ہی لوگ وضو بھی کرتے ہیں کیونکہ باتھ روم میں ہی سنک لگا ہوتا ہے۔ کیا ننگی حالت میں وضو ہوجاتا ہے؟ تیسری بات یہ ہے کہ حدیث میں ہے کہ بسم اللہ پڑھے بغیر وضو نہیں ہوتا۔ اگر وضو کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی تو وضو نہیں ہوا۔ اگر آدمی بھول گیا اور درمیانِ وضو یاد آیا کہ بسم اللہ نہیں پڑھی تو اس وقت درمیان میں پڑھ لے تو کیا وضو ہو جائے گا؟ یا آخر میں بسم اللہ پڑھ لے تو کیا وضو ہوگا؟
جواب: سوالات کے جوابات ترتیب کے ساتھ درج ذیل ہیں:
غسل خانے یا کسی بھی ایسے محفوظ مقام پر جہاں کوئی دوسرا شخص ستر نہ دیکھ سکے، وہاں برہنہ ہو کر غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن کھلی جگہ جہاں لوگوں کا آنا جانا ہو وہاں برہنہ غسل کرنے کی ممانعت ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ یَعْلَی اَنَّ رَسُولَ اللهِ رَاَی رَجُلًا یَغْتَسِلُ بِالْبَرَازِ بِلَا إِزَارٍ فَصَعَدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللهَ وَاَثْنَی عَلَیْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ حَیِیٌّ سِتِّیرٌ یُحِبُّ الْحَیَاءَ وَالسَّتْرَ فَإِذَا اغْتَسَلَ اَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَتِرْ.
حضرت یعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کھلی جگہ میں ننگے غسل کرتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہت حیاء والا اور پردہ پوش ہے، اس لئے حیاء اور پردے کو پسند فرماتا ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی کھلی جگہ غسل کرے تو اسے ستر چھپا لینا چاہیے۔
(ابی داود، السنن، 4: 39، رقم: 4012، دار الفکر)
بعض محدثین کرام نے اس حدیث مبارکہ کو کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ نقل کیا ہے:
عَنْ صَفْوَانَ بْنِ یَعْلَی بْنِ اُمَیَةَ عَنْ اَبِیهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ حَیِیٌّ سِتِّیرٌ فَإِذَا اَرَادَ اَحَدُکُمْ اَنْ یَغْتَسِلَ فَلْیَتَوَارَ بِشَیْئٍ.
حضرت صفوان بن یعلی بن اُمیہ، اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ پردہ پوش ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی غسل کا ارادہ کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ کسی چیز کا پردہ کر لیا کرے۔
(احمد بن حنبل، المسند، 4: 224، رقم: 17999، موسسة قرطبة، مصر)
مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے معلوم ہوا کہ اصل مقصد دوسرے لوگوں سے ستر چھپا کر غسل کرنا ہے وہ کپڑے سے چھپا لیں یا دیواروں کی آڑ میں، یعنی کوئی دوسرا شخص ستر نہ دیکھ سکے تو مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بند غسل خانے میں بلا کراہت غسل ہو جاتا ہے۔
غسل کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اگر جسم پر نجاست لگی ہوئی ہو تو پہلے اُسے دھویا جائے پھر مکمل وضو کیا جائے، اور سارے جسم پر پانی بہایا جائے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے::
عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ ﷺ اَنَّ النَّبِیِّ ﷺ کَانَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنْ الْجَنَابَةِ بَدَاَ فَغَسَلَ یَدَیْهِ ثُمَّ یَتَوَضَّاُ کَمَا یَتَوَضَّاُ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ یُدْخِلُ اَصَابِعَهُ فِی الْمَاءِ فَیُخَلِّلُ بِهَا اُصُولَ شَعَرِهِ ثُمَّ یَصُبُّ عَلَی رَأْسِهِ ثَلَاثَ غُرَفٍ بِیَدَیْهِ ثُمَّ یُفِیضُ الْمَاءَ عَلَی جِلْدِهِ کُلِّهِ.
نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب غسل طہارت شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو دھوتے۔ پھر نماز جیسا وضو کرتے پھر اپنی انگلیوں کو پانی میں داخل کرتے اور ان سے بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے پھر ہاتھوں سے تین لپ پانی اپنے سر پر ڈالتے۔ پھر پانی کو اپنے سارے جسم پر بہایا کرتے تھے۔
(حدیث مبارکہ متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں) (بخاری، الصحیح، 1: 99، رقم: 245، دار ابن کثیر الیمامۃ بیروت)
اور حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لَا یَتَوَضَّاُ بَعْدَ الْغُسْلِ.
(احمد بن حنبل، المسند، 6: 68، رقم: 24434)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ غسل کے بعد دوبارہ وضو نہ فرماتے تھے۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ دیگر محدثینِ کرام نے بھی نقل کی ہے۔
لہٰذا دورانِ غسل وضو کر لیا جائے تو دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر دوران غسل ننگی حالت میں کیا ہوا وضو برقرار رہتا ہے تو پھر غسل خانے میں برہنہ حالت میں بھی وضو کر سکتے ہیں لیکن دوران وضو دعائیں وغیرہ نہیں پڑھ سکتے۔ بہر حال وضو ہو جاتا ہے۔
وضو کے شروع میں یا ہر عضو کو دھوتے ہوئے بسم اللہ پڑھنا مسنون اور باعث برکت ہے۔ احادیث میں یہ ضرور آیا ہے کہ بسم اللہ کے بغیر وضو نہیں لیکن وہ روایات اس درجہ کی نہیں ہیں کہ ان سے وضو سے پہلے یا درمیان میں بسم اللہ پڑھنا فرض یا واجب ثابت کیا جا سکے۔ لہٰذا جب بھی یاد آئے پڑھ لے لیکن بھول جائے تو دوبارہ وضو کرنے کی ضروت نہیں ہے، وضو ہو جائے گا۔
سوال: کیا اجنبی کو خون عطیہ کرنا جائز ہے؟ اپنے جسم کا خون کسی اجنبی کو عطیہ کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟
جواب: خون کسی اجنبی کو عطیہ کرنا جائز ہے۔ اس سلسلے میں چند امور کی وضاحت درج ذیل ہے:
سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خون صرف اس شخص کو دیا جائے، جومرض یا زخمی ہونے کی وجہ سے موت وحیات کی کشمکش میں ہو، اور اسے خون کی ایسی ضرورت ہو کہ اگر خون نہ دیا جائے تو موت کا اندیشہ ہو۔
ایسے شخص کو خون دینے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
قَدْ فَصَّلَ لَکُم مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْهِ.
(الانعام: 119)
حالانکہ اللہ تعالی نے ان سب جانوروں کی تفصیل بیان کردی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے ، مگر وہ بھی جب تم کوسخت ضرورت پڑ جائے توحلال ہے۔
اس آیتِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ بوقتِ ضرورت حرام غذا کا استعمال کرنا بھی جائز ہے۔ کسی ایسے مریض یا زخمی کو خون دینا جس کی شفایابی انتقالِ خون سے ہی ممکن ہو، حقیقت میں غذا دینے جیسا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں خون عطیہ کرنا جائز ہے ۔
دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ جس سے خون منتقل کیا جا رہا ہے، یعنی جو شخص خون عطیہ کر رہا ہے، اس کو کوئی ظاہری ضرر اور نقصان تو نہیں ہو رہا۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
عن ابن عباس قال رسول الله ﷺ لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام.
(احمد بن حنبل، المسند، رقم حدیث: 2921)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اسلام میں نہ نقصان (اٹھانا) درست ہے اور نہ نقصان پہنچانا جائز ہے ۔
خون عطیہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا بھی لازم ہے کہ انتقال خون کی تجویز کسی ماہر ڈاکٹر کی ہو۔ کسی عطائی یا نیم حکیم کی نہ ہو۔
اگر درج بالا امور کو دھیان میں رکھ کر خون عطیہ کیا جائے ، تو یہ نہ صرف جائز بلکہ باعثِ ثواب بھی ہے۔