سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے مرحوم کا جھنگ میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطا ب تھا۔ پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ وزیر اعلیٰ سے قبل ایک مقامی نوجوان کو دعوت خطاب دی گئی۔ اس نے چند منٹ خطاب کیا اور سٹیج پر بیٹھے بہت سے قومی سطح کے قائدین اور پنڈال میں موجود ہزاروں افراد کو مبہوت کر کے اپنی نشست کی طرف لوٹ گیا۔ حنیف رامے خطاب کیلئے آئے تو صورت حال حوصلہ افزاء نہ رہی تھی، ہزاروں کا مجمع بکھر چکا تھا۔ انہوں نے اپنا خطاب جلد ہی سمیٹ لیا۔ وہ جان گئے تھے کہ اس نوجوان سے بہتر خطاب ہی جانے والے قدموں کو روک سکتا ہے۔ جلسہ ختم ہو گیا مگر ہر کوئی اس نوجوان کی خطابت کے نقوش اپنے ذہن کی تختیوں پر سجائے خوشگوار حیرت کا احساس لئے چلا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لینے والے اس نوجوان سکالر کو اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کے اعتراف میں امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی نے سکالر شپ آفر کیا۔ مگر والد محترم کی خوشی امریکہ جانے میں نہ تھی تو اس نوجوان نے والد کی خوشی کے لئے دنیا کی سب سے اعلیٰ یونیورسٹی کی سکالرشپ کو ٹھکرا دیا۔ اس کا شوق سفارش بن کر قریبی عزیزوں اور والد محترم کے دوستوں تک پہنچا مگر بات نہ بن سکی۔ نماز فجر کے بعد ایک روز چہل قدمی کیلئے والد محترم اسے اپنے ہمراہ لے گئے، ان کارخ قبرستان کی طرف تھا۔ شفیق والد سکوت کو توڑتے ہوئے گویا ہوئے کہ ’’بیٹا اگر ہاورڈ چلے گئے تو میرے جنازے میں شریک نہ ہو سکو گے اور میری آرزو ہے کہ میرا جنازہ تم خود پڑھاؤ۔ رہی ہاورڈ یونیورسٹی تو میں دیکھ رہا ہوں کہ وہاں پڑھانے والے تمہارا لیکچر سننے کی خواہش کیا کریں گے‘‘۔ علم و معرفت کے سمندروں کو سینے میں چھپانے والا یہ مضطرب نوجوان لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں ہونے والے ایک قومی سیمینار سے خطاب کرکے باہر آیا تو ہوٹل کے داخلی دروازے پر اس کی منتظر ایک اعلیٰ عمر رسیدہ علمی شخصیت نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا اور ماتھا چوم کر کہا ’’بیٹا تم غلط ملک میں ہو تمہارے خلاف اتنا حسد ہو گا کہ برصغیر کی تاریخ میں کسی کے ساتھ نہ ہو ا ہو گا۔ لوگ تمہاری جان کے در پے ہو جائیں گے اس لئے اپنی حفاظت کرنا اور میں تمہارے علمی و تحقیقی کام کا انتظار کروں گا‘‘۔ اس نوجوان کا نام محمد طاہرالقادری تھا، اسکا روشن ماتھا چومنے والے ممتاز ماہر قانون اے کے بروہی تھے، ہاورڈ یونیورسٹی جانے کی اجازت نہ دینے والے اپنے دور کے عظیم صوفی محدث اور فقیہ فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ جن کا اس واقعہ کے تین ماہ بعدوصال ہو گیا تھا اور محمد طاہر نے حسب وصیت اپنے والد گرامی کا جنازہ خود پڑھا کر ان کی شدید خواہش کو مکمل کیا۔ 19فروری 1951ء کو جھنگ جیسے پسماندہ شہر میں پیدا ہونے والے گوہر نایاب کو آج دنیا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے جانتی ہے۔ 19 فروری کا عظیم دن ملت اسلامیہ کی تاریخ میں اعلیٰ ترین دنوں میں شامل رہے گا کیونکہ اس دن ایسی ہستی نے جنم لیا جو امت کی مسیحا ہے اور آنے والی نسلوں اور اہل علم و فن نے اس کی فکر سے رزق شعور لینا ہے۔ 19 فروری کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاص کرم امت پر ہوا اور یہ عظیم ہستی نصیب ہوئی جس نے امت کو دل کی آنکھ کھولنے کا شعور عطا کیا۔ آج کے دن پاکستان یورپ اور دنیا بھر میں بسنے والے تحریک کے عظیم کارکن اللہ کے حضور سجدہ ریز ہیں ان کی جبینیں جھکی ہیں اور آنکھوں میں تشکر کے گرم آنسو ہیں، ان آنکھوں سے آنسو اس دعا کے ساتھ رواں رہتے ہیں کہ اللہ حضور شیخ الاسلام کو دائمی تندرستی اور عمر خضر عطا فرمائے اور ہر کارکن کے لبوں پر یہ دعا مچل جاتی ہے کہ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مقدسہ کے صدقے اور واسطے میری عمر بھی اس عظیم قائد کو لگادے جو مسلمانوں کے دلوں میں دھڑکن بن کر زندہ ہے جو چمکتے ہوئے سورج کو برملا کہہ رہا ہے۔
کوئی مہر تاباں سے جاکے کہہ دے کہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھ لے
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں
سینکڑوں جہتوں کو اپنی شخصیت میں سمیٹ کر مصطفوی انقلاب کی طرف بڑھنے والی یہ عظیم المرتبت ہستی زندگی کی 57 بہاریں دیکھ چکی اس کی داڑھی کے بالوں کی سیاہی سفیدی میں بدل چکی مگر اس کا عزم و حوصلہ پہاڑوں سے زیادہ مضبوط اور غیر متزلزل دکھائی دیتا ہے۔ حالات کے زیر و بم نے اسکے حوصلوں، ولولوں اور ہمہ جہت صلاحیتوں کو پہلے سے زیادہ جواں کر دیا ہے۔ 27 سالہ تحریکی جدوجہد میں ایک ہزار سے زائد کتابیں (جن میں تین سو سے زائد چھپ چکی ہیں) لکھ کر پوری دنیا کے اہل علم کو ورطہ حیرت میں ڈال چکے ہیں۔ لاکھوں افراد اس علمی خزانہ سے پیاس بجھا کر معاشرے میں بلند مقام پر فائز ہو رہے ہیں۔ اسلام کے حوالے سے ہزاروں موضوعات پر 6ہزار سے زائد لیکچر ز کی آڈیو، ویڈیو سی ڈیز اور کیسٹس دنیا کے 150 ملکوں میں مسلمانوں کے علمی، مذہبی اور روحانی ذوق کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ دنیا بھر میں منہاج القرآن کے اسلامک کلچرل اور ایجوکیشنل سینٹرز اسلام کے حقیقی پیغام امن سلامتی اور محبت کو عام کر رہے ہیں۔ دنیا کے پانچ براعظموں میں تحریک منہاج القرآن کو عالم اسلام کی سب سے بڑی تحریک کا اعزاز دلانے والے اس قائد کے علمی و تحقیقی کارناموں کی گونج مشرق ومغرب میں سنی جارہی ہے۔ عالم عرب کے جید علماء و شیوخ تک ان کی عربی تصانیف کی خوشبو پہنچ چکی ہے۔ تجدید و احیائے دین کے اتنے وسیع کام کے اعتراف میں عرب دنیا کے شیوخ الفقہ والحدیث نے متفقہ طور پر انہیں شیخ الاسلام کا منصب دیا ہے کیونکہ وہ اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ یہ عجمی شخصیت ایسی ہے کہ الفاظ، اصطلاحیں، ادبی فقرے اور صدیوں سے منصہ شہود پر آنے کے منتظر علمی، ادبی اور روحانی نکات قطار میں ہاتھ باندھے مؤدب کھڑے منتظر ہوتے ہیں کہ کب اس نابغہ کی زبان اور قلم سے ظہور پذیر ہونے کا شرف حاصل کرسکیں۔ دقیق اور پیچیدہ ترین نقاط کی گرہیں وہ اس انداز میں کھولتے ہیں کہ سطحی علم رکھنے والا سادہ ترین شخص بھی انتہائی آسانی سے گہرائی تک پہنچ کر فہم و ادراک کی دنیا کو تابندہ کرلیتا ہے اور اسے نور باطن اور یقین کی دولت بے بہا نصیب ہوجاتی ہے۔ 24 گھنٹوں میں ایک سیکنڈ کا ایک ہزارواں حصہ بھی حضور شیخ الاسلام کی پُر حکمت آواز سے محروم نہیں ہے پوری دنیا میں ہر وقت وہ مختلف موضوعات پر خطابات کرتے دیکھے اور سنے جاتے ہیں اور اس دوران لاکھوں کروڑوں آنکھیں آنسوؤں کی برسات میں دلوں کا زنگ بہانے میں مصروف رہتی ہیں۔ حضور شیخ الاسلام نے عرفان القرآن کی شکل میں ملت اسلامیہ کو ایسا نادر ترجمہ عطا کیا جس نے عالم اسلام کو علم و عرفان کے چھپے گوشوں تک رسائی کا موقع فراہم کردیا ہے۔ انہوں نے ایسا عظیم تحفہ امت کو دیا ہے جو ان کے علمی کارناموں میں آفتاب بن کر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ ’’جامع السنہ‘‘ کی شکل میں وہ قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں اور اہل علم کو ایسا نایاب تحفہ دینے جارہے ہیں جو حدیث کے حوالے سے اٹھنے والے ہر فتنے کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دے گا۔ حضور شیخ الاسلام کا تجدیدی کام رہتی دنیا تک اسلام کے ہر گوشے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت اور ان کی شان کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کے آگے بند باندھنے کے لئے کافی ہے۔ امت کے سکالرز کو ہمیشہ ایسی علمی ڈھال میسر ہوگی جس سے اسلام پر ہونے والے علمی فکری حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جاتا رہے گا۔ قائد تحریک منہاج القرآن نے اپنی شبانہ روز محنت سے اسلاف کے علمی خزانہ کو نئی نسلوں کے سامنے اس انداز میں نکھار دیا ہے کہ اشکال اور غیر یقینیت کا قلع قمع ہوگیا ہے۔ اسلام کا مبہم، غیر واضح اور غیر حقیقی چہرہ دکھانے والوں کی صدیوں کی محنت کو حضور شیخ الاسلام کے چند سالہ تحقیقی علمی کام نے راکھ کردیا ہے۔ اللہ کے خصوصی احسان اور قدمین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کا اظہار دوبارہ ایمان کا محور و مرکز بنتا جارہا ہے۔ بدعقیدگی دفن ہورہی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس کو بیان کرنے کا عقیدہ امت کی پہلی ترجیح بن رہا ہے۔ گوشہ درود کا قیام امت میں روحانی انقلاب کی وہ بنیاد ہے جو قیامت تک امت کے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق عشقی کو دوام دیئے رکھے گا اور تاریخ اسلام میںیہ سہرا بھی حضور شیخ الاسلام کے سر ٹھہرا۔ تحریک منہاج القرآن کے نوجوان اور پرعزم سکالرز پوری دنیا میں حضور شیخ الاسلام کے تجدیدی کام کو انتہائی سرعت سے پھیلارہے ہیں۔ یورپ کی چکا چوند میں بسنے والوں کو زندگی کا مقصد عطا کرنے والی فکر ان نوجوانوں کے ذریعے ہی فروغ پذیر ہے جو نائٹ کلبوں اور سینماؤں کے مکین بن گئے تھے۔ اسلام سے نابلد ہوجانے والے خاندانوں کی حقیقی رونق حضور شیخ الاسلام کی سی ڈیز اور کتابوں کی بدولت واپس آچکی ہے۔ دیار غیر میں مسلمان بچے اور بچیوں کے ایمان کو دیمک کی طرح کھاجانے والے غیر اخلاقی مراکز اب اسلامک سینٹرز کا روپ دھار کر مشن سے وابستہ پرعزم نوجوانوں کے جذبوں کو مزید تقویت دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ نوجوان بچیاں پردے اور حیاء کے حقیقی تصور کو سمجھ کر تحریک منہاج القرآن کے عظیم مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں اور معصوم بچوں کی تربیت بھی احسن انداز میں شروع ہوچکی ہے۔ کیونکہ منہاج القرآن ویمن لیگ کے اجتماعات میں معصوم بچے بھی اپنی ماؤں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور تربیت کے غیر محسوس عمل سے گزر رہے ہیں۔ ڈش اور کیبل کی لعنت کے خلاف شیخ الاسلام کی سی ڈیز اور کیسٹس ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کو بربادی اور تباہی کے گڑھوں سے محفوظ رکھ رہی ہے۔ ’’گناہ سے نفرت کرو گناہ گار سے نہیں‘‘ کا پُرحکمت پیغام نوجوانوں کو حضور شیخ الاسلام کا دیوانہ بناچکا ہے۔ موبائل سکرین پر انڈین اور انگلش گانوں اور فلموںسے لطف لینے والی آنکھیں اور کان اب شیخ الاسلام کے خطابات سننے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں سفر کے دوران بھی MP3 کے ذریعے حضور شیخ الاسلام کے خطابات اور نعتیں سن کر یہ آنکھیں نم ہوتی ہیں۔ اس عظیم قائد کی کتابوں اور خطابات سے استفادہ کرنے کے لئے ایک عالم منہاج القرآن کی ویب سائٹس کا دیوانہ ہوچکا ہے۔ عوام الناس سے لے کر اہل علم ہستیوں تک ہر کوئی Q-TV پر آنے والے خطابات کو سننا باعث سعادت سمجھتا ہے۔ یورپ، جنوبی ایشیا، خلیج اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں تحریک منہاج القرآن کو فروغ مل رہا ہے۔ تنگ نظری، انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی مذموم اور مکروہ سازشوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کا فریضہ بھی حضور شیخ الاسلام انتہائی جرات اور حکمت کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام نے گستاخانہ خاکوں کے فتنے کی سرکوبی کے لئے عوامی سربراہوں کے نام جو تاریخی مراسلہ لکھا اس نے پوری دنیا میں سوچ کی ایسی بند جہتوں کو کھول دیا ہے کہ آئندہ کوئی اسلام دشمن ایسی ناپاک جسارت نہیں کرسکے گا۔ پوری اسلامی دنیا میں صرف شیخ الاسلام کی طرف سے دلیل کی زبان میں اردو، عربی اور انگلش میں مراسلہ دنیا کی 100 موثر ترین شخصیات کو بھیجا گیا جن میں یورپ، برطانیہ، امریکہ سمیت دیگر درجنوں ممالک کے سربراہان بھی شامل تھے۔ اکثر سربراہان نے مراسلہ کا انتہائی مثبت تحریری جواب دیا اور اعتراف کیا کہ اس مراسلہ نے ہماری سوچ کو ایک مثبت راہ دکھائی ہے جو مستقبل میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی طرف بڑھنے میں ہماری رہنمائی کرے گی۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ حضور شیخ الاسلام کی فکر اور ان کا تجدیدی کام رہتی دنیا تک مسلمانوں کے قلوب کو امنگ اور دین کی تڑپ دے کر حقیقی زندگی عطا کرے گا اور اگلے ایک ہزار سال تک امت کی رہنمائی کے لئے شیخ الاسلام کی فکر زندہ و تابندہ رہے گی اور انسانیت ہمیشہ 19 فروری کے مقدر پر رشک کرتی رہے گی اور قیامت تک حضور شیخ الاسلام امت مسلمہ کے ارب ہا مسلمانوں کے دلوں میں نور باطن بن کر زندہ و جاوید رہیں گے کیونکہ پچھلے ہزار سالوں کا علمی قرض چکانے کا اہم ترین کام ان کو مقدر ہوا ہے۔ جس کے اثرات اگلے 1000 سال تک رہیں گے۔
کسے معلوم تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے زمانے میں اولڈ کیمپس سے نیو کیمپس جاتے ہوئے یونیورسٹی بس کی چھت پر سفر کے دوران اونگھ آنے کے دوران اپنی پہلی تصنیف کے مسودہ کے گرنے اور ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوشش کے بعد نہ ملنے پر شدت غم سے ہفتوں علیل رہنے والا نوجوان سینکڑوں نایاب اور منفرد کتابوں کا مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ علم، بصیرت، حکمت اور امن و محبت کا ہمالیہ بن کر انسانیت کا فخر بن جائے گا۔