تاریخ عالم میں بہت سے ایام ایسے آتے ہیں جو انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر گردش مہ و نجم ان ایام و واقعات کو دہرانے کے لئے ہی رو پذیر ہے۔ عظیم ہیں وہ لوگ اور قومیں جو اپنے عظیم ایام کو زندہ رکھتے ہیں اور عظیم ترین ہیں وہ لوگ جو اپنی اقوام کو عظیم لمحات اور عظیم ایام عطا کر دیتے ہیں جن سے انہیں عظمت و رفعت عطا ہوتی ہے اور ان ایام کی celeberation ان کے لئے باعث فخر ہوتی ہے۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا:
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بعد ایک عرصہ ہونے کو آیا کہ اُمت کو ایک ہدی خواں کا انتظار تھا جو اس ناقہ بے زمام کو سوئے قطار لے کر چلے جو علوم جدیدہ پر کامل دسترس رکھتے ہوئے علوم اسلامیہ کی تجدید کرے۔ جو فرسودہ روایات و خیالات کی دبیز تہہ میں سے حقیقی معانی کو عام فہم انداز میں اُمت مسلمہ کی نسل نو تک پہنچائے۔
یہ خواہش تو اس اُمت کے ہر خیر خواہ کی تھی اور دعائیں بھی سبھی بزرگ کرتے آئے تھے تو پھر کیوں نہ اُس خالق کائنات کو ترس آتا۔ اس بلکتی سسکتی اُمت پر۔ اس تلاش رہبر میں ٹھوکریں کھاتی ہوئی نسلِ نو پر۔ لہٰذا مقام ابراہیم کے پاس غلاف کعبہ کو تھامے ہوئے جب اس اُمت کے خیر خواہ نے گڑگڑا کر دعا کی تو رحمتِ حق جوش میں آئی اور اس نے وہ عظیم رہبر طاہر کی صورت میں 19 فروری 1951ء میں اس مرد درویش کی جھولی میں ڈال دیا۔ جس نے اگلے ہزار سال کے لئے امت مسلمہ کے عقائد، اصول، فروع اور مسائل حیات کے لئے ہدایت و رہنمائی عطا کرنا تھی۔ جس نے ایک ہزار سال قبل بند ہوجانے والے سلسلہ روایت حدیث روح کو تازہ کرنا تھا اور فہم قرآن کریم کو آئندہ ہزار سال تک کے لئے دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا تھا۔
تاریخ کی ایک ستم ظریفی ہے کہ اہلِ کرم و فضل کو ان کی حیاتِ ظاہری میں بہت کم تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ
اس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محروم نہیں پیران طریق
اس لئے رب کائنات کو اپنے محبوب بندوں کا چرچا چار دانگ عالم میں کرنا محبوب ہوتا ہے۔ اس کے اسباب بھی وہ خود ہی پیدا کر دیتا ہے۔ سید الاولیاء، غوث الاعظم حضور سید شیخ عبدالقادر الگیلانی مدظلہ کی حیاتِ مبارکہ مصائب دنیوی کی برداشت کے بعد بالآخر مقام رضا پر تفویض کی اعلیٰ ترین مثال ہے اور اسی مقام اعلیٰ و ارفع کا عکس ہمیں حضور شیخ الاسلام کی حیات مبارکہ میں نظر آتا ہے۔
طالبانِ دنیا کی مخالفت سے آغازِ سفر کرنے والے اس مردِ قلندر کو آج بفضلِ خدا و رسول امتِ مسلمہ کی اکثریت اپنا محبوب قائد، رہنما و مربی تصور کرتی ہے۔
عالمِ عجم سے لے کر عالمِ عرب تک آپ کی مقبولیت ضرور رحمت دوجہاں کی شفقت و کرم نوازی سے ہے۔ اسی عظیم بارگاہ کی عطا اور شان قاسمی کا ایک مظہر شیخ الاسلام کی ذات میں یوں نظر آتا ہے کہ آپ سے وابستہ و متعلق ہر شخص کو اس کی طلب سے بڑھ کر عطا نصیب ہوتی ہے اور اس پرلطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ سب سے زیادہ عنایت اسی شخص پر ہے۔
امتِ مسلمہ کو ظاہری خطابات کے ذریعے معرفتِ مقامِ مصطفوی عطا کرنے سے لے کر روحانی اور باطنی طور پر متوسلین کو بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچا دینا آپ کا خاصہ ہے۔ حضرت پیر خاکی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جب پوچھا گیا کہ شیخ الاسلام سے محبت کی وجہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ جسے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کچہری کی حاضری نصیب ہے وہ شیخ الاسلام سے مخالفت نہیں کر سکتا۔ بارگاہِ رسالت میں یہی مقبولیت ہے جو تشنگان علم و معرفت کے لئے فیض کے چشمے جاری کئے ہوئے ہے۔
اسی طرح آپ کا در اپنے متعلقین کی ہر ایک حاجت کے لئے فیض رسا ہے کیونکہ اہل اللہ ظاہری و باطنی امراض کے طبیب ہوتے ہیں۔ ظاہری و باطنی بیماریوں کو دور کرنا ان ہستیوں کی توجہ سے وابستہ ہے۔ ان کا کلام دوا ہے۔ اور ان کی نظر شفا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہم نشین بدبخت نہیں ہوتا۔ اور یہی لوگ اللہ کے ہم نشین ہیں کہ ان کو دیکھنے سے خدا یاد آ جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جس نے ان کو پہچان لیا اس نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا اور ان ہستیوں کو جو کچھ ملتا ہے۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے و وسیلے کے طفیل ملتا ہے اور وہ بھی اپنی جملہ کاوشوں کے نتائج کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ پاک کا تصدق گردانتے ہیں۔
اگر حضور شیخ الاسلام کی زندگی کے مختلف گوشوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ رب العزت نے آپ کو اتنی متنوع جہات عطا فرمائی ہیں اور ہر جہت میں اتنی عمیق و گہرائی ہے کہ ایک ایک گوشے کی تفصیلات میں جانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت کے حوالہ سے لکھنے والا ہر شخص اپنا انوکھا اور منفرد رنگ لئے ہوئے ہوتا ہے۔ ان بے شمار جہات میں سے آپ کے علم و معرفت، قوت گویائی، فصاحت و بلاغت، قوت فیصلہ اور دیگر بہت سی صفات کو عام طور پر بیان بھی کیا جاتا ہے اور عوام میں اس کا شعور بھی ہے لیکن آپ کی روحانیت کے حوالے سے بات بہت کم کی جاتی ہے۔
پچھلے پچیس (25) سال کے دوران ہم نے آپ کی زندگی میں روحانی توجہات و فیوضات کے ان گنت واقعات دیکھے ہیں کہ قلم خود بخود اس موضوع پر لکھنے کے لئے اٹھ جاتا ہے لیکن اس حوالہ سے لکھنے کے لئے جو نظر، بصیرت اور فہم و فراست درکار ہے ہم اس سے دور دور تک واقف نہیں۔ تاہم اپنی بساط کے مطابق چند ایک واقعات قارئین کی نذر کررہے ہیں جن سے حضور شیخ الاسلام پر اﷲ رب العزت کی عطا اور کرم نوازی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
1۔ ایک دفعہ حضور شیخ االاسلام مع اپنی فیملی کہیں جانے کے لئے روانہ ہونے لگے۔ ڈرائیور نے گاڑی گیٹ سے باہر نکالی تو آپ نے ایک نوجوان لڑکے کو دیکھا جس کو چند افراد نے رسیوں سے باندھ کر پکڑا ہوا تھا۔ اس نوجوان کے والدین روتے ہوئے حضور شیخ الاسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ حضور ہمارے بیٹے کی تین روز سے زبان بند ہے اور بیماری کی شدت اور نہ بولنے کی وجہ سے ہر ایک کو مارتا ہے۔ اس کی یہ حالت ہم سے دیکھی نہیں جاتی۔ آپ دعا فرمائیں کہ ہمارا بیٹا بولنا شروع ہوجائے۔ محترمہ امی جان (بیگم فعت جبیں قادری صاحبہ) فرماتی ہیں کہ یہ میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ آپ گاڑی سے نیچے تشریف لائے اور آپ نے اس نوجوان پر دم کرنا شروع کیا آپ نے دم کر کے پھونک ماری اور فرمایا: بولو وہ نوجوان خاموش رہا۔ دوسری دفعہ آپ نے پھر دم کر کے پھونک ماری تو اس کے منہ سے ہلکی سی آہ، آہ کی آواز نکلی۔ جیسے جیسے آپ کلامِ پاک پڑھ کر پھونکتے چلے گئے، اسی طرح نوجوان نے آہ سے لفظ ’’اللہ‘‘ کہنا شروع کر دیا آپ نے اس کو کلمہ پڑھایا پھر درود پاک پڑھایا۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلنے والے الفاظ کی تاثیر کا اثر تھا کہ نوجوان نے بولنا شروع کر دیا۔ اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر والدین خوشی سے اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنے لگے اور مجھے اُس وقت یہ حدیث قدسی یاد آئی کہ حقیقتاً جو لوگ اپنے آپ کو اﷲ رب العزت کی ذات میں فنا کر دیتے ہیں۔ ایسے برگزیدہ بندوں کو اللہ رب العزت اپنا محبوب بنالیتا ہے اور پھر ان کے کان بن جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں اور ان کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتے ہیں اور ان کی آنکھ بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتے ہیں۔
2۔ اسی طرح کا ایک واقعہ کشمیر بیکرز والے افضل صاحب کا ہے جو تحریک و مشن کے فعال کارکن ہیں۔ ان کو ڈاکٹرز نے Blood Cancer بتایا اور لاعلاج قرار دیتے ہوئے جواب دے دیا اور اس بیماری کی وجہ سے ان کی صحت دن بدن بگڑنی شروع ہو گئی۔ حالت یہ ہوگئی کہ نقاہت کی وجہ سے وہ بستر سے اٹھ نہ سکتے تھے۔ اِسی حالت میں وہ حضور شیخ الاسلام کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے لیکن قبلہ شیخ الاسلام نے شفقت فرماتے ہوئے فرمایا کہ آپ نہ آئیں میں خود آپ کی عیادت کے لئے آؤں گا۔ افضل صاحب کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ جب قبلہ شیخ الاسلام ہمارے گھر تشریف لائے تو نہ صرف خصوصی دعا فرمائی بلکہ پینے کے لئے پانی دم کرکے دیا اور فرمایا کہ پانی باقاعدگی سے پیتے رہو۔ افضل صاحب کی بیماری کی وجہ سے میں بہت پریشان تھی۔ آپ نے مجھے دیکھا اور شفقت بھرے انداز میں فرمایا۔ بیٹا فکر نہ کرو۔ ہم حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں التجا کریں گے اور اس کی زندگی کی بھیک مانگیں گے۔ ان شاء اللہ یہ جلد شفایاب ہوں گے۔ جب آپ نے تسلی دی تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ منوں بوجھ میرے دل سے اتر گیا ہے۔ اس کے بعد جو بھی ان کی عیادت کے لئے آتے وہ دیکھ کر روئے جبکہ میں ان کو تسلی دیتی کہ یہ انشاء اللہ ٹھیک ہوجائیں گے۔ ایک دن افضل صاحب مجھے کہنے لگے کہ مجھے ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے۔ میرا مرض لاعلاج ہے۔ میں ٹھیک نہیں ہوں پھر تم کیسے کہتی ہو کہ میں ٹھیک ہوجاؤں گا؟ میں نے ان سے کہا جب حضور شیخ الاسلام نے فرمادیا ہے کہ اللہ رب العزت آپ کو شفایاب کرے گا تو مجھے اس بات پر یقین ہے۔ آج اس واقعے کو گزرے تیرہ سال ہوچکے ہیں اور افضل صاحب نہ صرف ایک صحت مند زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بیماری کے عرصے میں بیٹا بھی عطا فرمایا ہے اور خاص بات وہ بتاتے ہیں کہ میں نے بیماری کے اول دن سے لے کر اب تک حضور شیخ الاسلام کا دم کیا ہوا پانی پینا نہیں چھوڑا۔ حضور شیخ الاسلام جب بیرون ملک تشریف لے جانے والے ہوتے ہیں تو میں دو دو ٹن پانی گاڑی میں رکھ کر قبلہ شیخ الاسلام کی رہائش گاہ پر لے جاتا ہوں اور دم کروا لیتا ہوں اور اس پانی کو استعمال کرنے کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
3۔ محترمہ گلزار بی بی جو قبلہ قائد محترم کے گھر کی خادمہ ہیں گذشتہ کئی سالوں سے خدمت کر رہی ہیں بتاتی ہیں کہ یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب حضور شیخ الاسلام کی چھوٹی صاحبزادی محترمہ قرۃ العین خدیجہ باجی کے گلے کا آپریشن تھا۔ محترمہ امی جان (بیگم رفعت جبین قادری صاحبہ) ہسپتال میں خدیجہ باجی کے پاس تھیں کہ میں روتی ہوئی اُن کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ میری بغل کے نیچے بننے والی گلٹیوں کے آپریشن کے بعد ان گلٹیوں کو ڈاکٹرز نے cancer کی گلٹیاں قرار دیا ہے اور ان گلٹیوں کا مواد ٹیسٹ کے لئے بھجوا دیا ہے۔ آپ حضور شیخ الاسلام سے میرے لئے خصوصی دعا کروائیں۔ یہاں میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ یہ آپریشن شوکت خانم میں ہوا تھا حالانکہ شوکت خانم ہسپتال میں آپریشن صرف cancer کے مریضوں کا ہی ہوتا ہے۔
محترمہ امی جان (بیگم رفعت جبین قادری صاحبہ) سے اپنی خادمہ کی اتنی بے بسی دیکھی نہ گئی اور حضور شیخ الاسلام سے عرض کرنے لگیں کہ گلزار بی بی غریب خاتون ہے اور وہ اپنی اس بیماری کا علاج نہیں کروا سکتی کیونکہ cancer کا علاج بہت مہنگا ہے اور پھر غریب کے لئے cancer کا لفظ ہی موت کے مترادف ہے آپ اس پر ایسی نظر فرمائیں کہ رپورٹ بالکل clear آئے حضور شیخ الاسلام نے دعا فرمائی تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ دنوں بعد رپورٹ آئی تو تمام ڈاکٹرز بھی حیران ہو گئے کہ اس رپورٹ میں cancer کی گلٹیوں کے بجائے سادہ گلٹیاں نکلیں اور ماشاء اللہ وہ اب ایک صحتمند زندگی گزار رہی ہیں۔
4۔ یہاں میں خود اپنا واقعہ بیان کرنا اپنی سعادت سمجھوں گی جب اللہ رب العزت نے پہلے بیٹے (حیدر مصطفی) کی ولادت کے 8 سال بعد دوسرا بیٹا (جعفر مصطفیٰ) عطا فرمایا تو وہ ایک ماہ بعد ہی خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس درد کو ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے کہ یہ کس قدر تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے لیکن حضور شیخ الاسلام اور آپ کی فیملی کی شفقت و محبت نے مجھے نہ صرف اس غم و اندوہ سے رہائی عطا کی بلکہ آپ نے محترمہ قرۃ العین فاطمہ باجی کی صاحبزادی درۃ الزھراء کی پہلی سالگرہ کے موقع پر میرے لئے خصوصی دعا فرماتے ہوئے اس کرم نوازی کو دہرایا اور فرمایا کہ جن سے اولاد کی نعمت چھن گئی ہے اللہ تعالیٰ انہیں اچھا اور صحت و سلامتی والا نعم البدل عطا فرمائے۔ محفل میلاد کے اختتام پر فرمایا: آج آپ نے دعا سنی؟ میں نے عرض کیا جی حضور آپ نے میرے لئے ہی دعا فرمائی ہے۔ یہ سن کر آپ مسکرا دیئے۔
اسی طرح ویمن لیگ کے سالانہ یوم تاسیس جنوری 2006ء کے موقع پر محترمہ امی حضور (بیگم رفعت جبین قادری صاحبہ) نے قریب پڑے ہوئے گلدستے سے ایک پھول عطا کیا اور فرمایا: فریدہ بیٹی غم نہ کرو انشاء اللہ اگلے یومِ تاسیس کے موقع پر آپ کی گود میں بیٹا ہو گا (اور پھر اللہ رب العزت نے 20 اگست 2006ء کو علی مصطفی کی صورت میں بیٹا عطا کیا)۔ اس دوران مجھے لمحہ بہ لمحہ یہ باور ہوتا رہا کہ حضور شیخ الاسلام نے مجھ ادنیٰ کارکن پر جتنی شفقت و مہربانی فرمائی ہے میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتی لیکن میری یہ خوش بختی ہے مجھے اس تحریک کی ادنیٰ خادمہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور میرے رہنما و مربی قبلہ شیخ الاسلام ہیں۔
ان تمام حقائق و واقعات کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ آج کے دور میں اللہ رب العزت نے ہم پر جو احسان کیا ہے اور حضور شیخ الاسلام مدظلہ العالی کی صورت میں جو عظیم ہستی عطا کی ہے۔ ہمیں اس کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے، آج ہمیں اس بارگاہِ ایزدی میں سجدہ شکر بجا لانا ہو گا اور اس نعمت کبریٰ کو پہچانتے ہوئے ان کا دست و بازو بننا ہو گا۔ اِن کے مشن اور تحریک کی ترویج و اشاعت، نصرت و کامیابی اور تنفیذ کے لئے اپنا تن، من، دھن، وقت اور تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانی ہوں گی تاکہ ہم آج اس عظیم ہستی شیخ الاسلام کے سامنے اور کل وجہ وجودِ کائنات آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کی توقع کر سکیں۔