منہاج القرآن ویمن لیگ کے انیسویں یوم تاسیس کے موقع پر چیف ایڈیٹر محترمہ قرۃ العین فاطمہ کا پُرمغز خطاب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاO وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًاO
(الاحزاب، 33 : 45، 46)
اس آیت مبارکہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داعیانہ حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے :
’’اے نبی مکرم! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حسن آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذاب آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اس کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منور کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شاہد، مبشر، نذیر اور روشن چراغ ہونا بھی دعوت کے حوالے سے ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکمران، سپہ سالار، سیاستدان، مدبر، مفکر، مفسر، جج، تاجر غرضیکہ سبھی کچھ تھے لیکن اللہ رب العزت نے فرمایا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو داعی بنا کر بھیجا ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرائض نبوت میں دعوت کا پہلو اساسی نوعیت کا حامل ہے اور اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاص طور پر سراج منیر سے متصف کیا گیا۔ اس ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فکر مندی اور شب و روز محنت کا یہ عالم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
طٰهO مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىO
(طٰه، 20 : 21)
’’طاھا (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں) (اے محبوب مکرم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لئے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
باری تعالیٰ کی طرف سے تسلی پر مبنی یہ پیار بھرے الفاظ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوت کے کام میں اس قدر محو ہوچکے تھے کہ اپنی صحت اور جان کا خیال تک نہ تھا۔ بس ایک ہی غم کھائے جارہا تھا کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔
کسی مردہ قوم کے زندہ ہونے کا نام ہی انقلاب ہے۔ انقلاب کے لئے فضا سازگار کرنے کا عمل دعوت سے شروع ہوتا ہے۔ اگر داعی اخوت و محبت اور جمال کا پیکر بن جائے اور لوگوں کو اس میں روشنی کی کوئی کرن نظر آجائے تو لوگ اس کے اردگرد جمع ہونے لگیں گے انہیں اس کے قرب میں سکون محسوس ہوگا۔ اس لئے پہلے رغبت پیدا کریں پھر شعور آئے گا۔
ایمان لانے کے بعد سب سے بڑی ذمہ داری شعور مقصدیت سے آگاہی ہے۔ شعور مقصدیت سے مراد اس بات کا شعور حاصل کرنا ہے کہ ہماری جدوجہد کا مقصد کیا ہے؟ ہماری تحریک اور مشن کی منزل کونسی ہے؟ تحریک منہاج القرآن سے وابستہ لوگوں پر یہ چیز واضح ہونی چاہئے کہ ہماری تحریک کا مقصد محض وعظ و تبلیغ نہیں بلکہ ہماری تحریک کا مقصد مصطفوی انقلاب ہے اور ہماری منزل عالمگیر سطح پر احیاء اسلام اور غلبہ دین حق کی بحالی ہے۔ اگر یہ مقصد واضح ہو تو جدوجہد کی تفصیلات سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نہ تو صرف روائتی مذہبی ہیں اور نہ ہی روائتی سیاسی یہ دونوں چیزیں ہمارا کردار نہیں۔ ہماری جدوجہد کا مزاج انقلابی ہے۔ ہمارا نظریہ فکروعمل نہ تو روایتی مذہبیت ہے اور نہ ہی روائتی سیاست۔ ہماری جدوجہد کا عنوان انقلابیت ہے جس میں تین چیزیں کار فرما ہیں :
- شعور مقصدیت
- انتھک جدوجہد
- مصائب و مشکلات کا مقابلہ
اپنی منزل کو پانے کے لئے کچھ اہم تقاضے ہم سب کو پورے کرنے ہوں گے۔ جب احیاء اسلام کی خاطر انقلابی جدوجہد کا آغاز کیا جاتا ہے تو مصائب و مشکلات، پریشانیاں، مزاحمتیں، مخالفتیں اور دشمنیاں اس سفر کے لئے لازم ہیں۔ اس سفر میں کبھی ڈوبنا اور کبھی تیرنا ہوگا۔ یہ مخالف لہروں کے تھپیڑے ہیں آپ کبھی نیچے جائیں گے اور لہریں اوپر ہوں گی کبھی لہریں نیچے ہوں گی اور آپ اوپر ہوں گے۔ جو شخص مصیبت میں تو گھرا مگر اس کی نظر اس راحت پر رہی جو آگے آنے والی تھی تو وہ سفر میں کامیاب ہوگیا یہ چیز اخلاص اور وفاداری سے آتی ہے۔ مقصد کو پانے کے لئے قربانی چاہئے ایثار و قربانی کے بغیر کبھی منزل تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ مصطفوی انقلاب کی منزل کو اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا جب تک ہر کوئی اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق قربانی نہ دے۔ منزل جتنی عظیم ہو قربانی بھی اتنی ہی عظیم دینا پڑتی ہے۔
مصطفوی انقلاب کی ماؤں بہنوں اور جیالوں کو سخت کوش اور جانفشاں بننا ہوگا۔ اس راہ انقلاب کے مجاہدوں اور مجاہدات کو اتنا سخت اور جانفشاں ہونا چاہئے کہ حوصلے پتھروں سے زیادہ سخت اور فولاد سے زیادہ مضبوط ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت مصطفوی انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتی۔ ہر تحریکی بہن بھائی اپنے قول، اپنے عمل، اپنی طبیعت اور جدوجہد میں نظم و ضبط پیدا کرے۔ آپ کی شخصیت اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی پیکر ہونی چاہئے۔ برے اخلاق کے حامل لوگ مصطفوی انقلاب نہیں لاسکتے۔ دوسروں سے حسد کرنے والے دلوں میں عداوت اور عناد رکھنے والے کبھی بھی انقلاب کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ مصطفوی انقلاب لانے کے لئے آپ کے اندر جرات و بہادری، عفو ودرگزر اور حوصلہ ہونا چاہئے۔ آپ کے دلوں کے اندر محبت الہٰی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طوفان موجزن ہوں۔ جب آپ کی اپنی شخصیت اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ سے آراستہ ہوگی تو دوسرے لوگ بھی آپ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ اعمال صالحہ میں (نماز کی پابندی، روزے کی پابندی، تلاوت کی پابندی، صدقہ و خیرات کی پابندی اور ذکر و اذکار کی پابندی شامل ہے۔
انقلاب کی راہ پر چلنے والوں کا دل ہر طرح کے حرص، طمع، لالچ اور غرض سے پاک و صاف ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ کے دل میں شہرت اور جاہ و منصب کا لالچ ہے اور آپ کے دل میں مفاد پرستی، خود پرستی اور خود غرضی ہے تو یاد رکھیں خود غرضی اور انقلاب یہ دو چیزیں کبھی یکجا نہیں ہوسکتیں۔ انقلاب تو اپنے مفاد کو قربان کر دینے کا نام ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے لئے جیئیں اور مریں گے تو انقلاب کی منزل بہت قریب آجائے گی۔ عظیم مقصد کے لئے سرفروشی کا جذبہ چاہئے۔ طاغوتی اور استحصالی نظام کو بدلنے کے لئے جوانیاں لٹانے اور گردنیں کٹانے کے نعرے کو ایک حقیقت میں بدلنا ہوگا۔ اقامت دین کے لئے حسینی سنت پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں شجر اسلام کی آبیاری سرفروش مجاہدوں اور مجاہدات کی طرح اپنے خون سے کرنا ہوگی تب تمام دشمن طاقتیں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گی۔ ہر طرف اسلام کی عظمت و شوکت کے جھنڈے لہرائیں گے۔
منزل کو آپ لوگ دور سے دیکھیں گے تو اسے پانا مشکل نظر آئے گا لیکن جب سفر طے کریں گے تو منزل ہمارے سامنے ہوگی اور اگر زندگی میں کچھ بننا اور کرنا ہے تو ڈرنا، پریشان ہونا اور سوچنا چھوڑ دیں۔ اگر ڈریں گے تو مریں گے اگر پریشان ہوں گے تو کمزور بنیں گے اگر سوچیں گے تو صرف سوچتے ہی رہ جائیں گے اور عمل کرنا مشکل ہوجائے گا۔ لہذا زندگی بذات خود، خود جینے کے قابل نہیں ہے اسے جینے کے قابل بنانا پڑتا ہے۔ یہ دنیا تو کہیں خوش نما باغات اور سبزہ زار پر مشتمل ہے اور کہیں یہ وسیع صحراؤں اور کانٹے بھرے جنگلات پر محیط ہے۔
ہے ظلم کا بازار، مایوس نہ ہونا
ہر کار ہے آزاد مایوس نہ ہونا
سسکی ہے فغاں ہے آنسو بھی لہو بھی
ہیں کرب کے آثار، مایوس نہ ہونا
گرداب ہے طوفان ہے ہر سمت دھواں ہے
ہر رستہ قہر بار، مایوس نہ ہونا
سایہ نہ سکوں ہے، سحر ہے نہ صبا ہے
جھلسے ہوئے اشجار، مایوس نہ ہونا
عدل، امن، انساں سب کچھ ہے یہاں بکتا
طاقت کا ہے بیوپار، مایوس نہ ہونا
سچائی، صبر، جرات، منزل کا یقیں رکھو
گر نظم ہے تلوار، مایوس نہ ہونا
پریشاں ہو، دکھی ہو، آزردہ میرے راہی
ہیں سیدِ ابرار، مایوس نہ ہونا
ہر نبی کی جدوجہد کا مقصد انقلاب لانا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بین الاقوامی سطح پر جمہوری اور عادلانہ معاشرے کی بنیاد رکھی۔ قائد انقلاب کا فرمان ہے کہ ’’ہم تو عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیاسے ہیں جو شخص یہ پیاس بجھائے گا ہم اپنی دستاریں بھی اس کے قدموں پر نثار کردیں گے اور عشق سننے سنانے کی نہیں بلکہ چکھنے کی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھ سے پیار کرنے کا دعویٰ کرنے والو پہلے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار کرو، مجھ سے محبت کرنے والو پہلے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تعلق قائم کرو، مجھے چاہنے والو پہلے میرے پیارے محبوب سے چاہت کو پختہ کرو۔ کیونکہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری چاہت ہیں اور پھر کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ خدا کی چاہت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاہت کون ہے تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے محبت، پیار اور عشق کرنا ہے تو پہلے حسین علیہ السلام سے محبت پیار کرو کیونکہ میری چاہت حسین علیہ السلام ہیں۔ قرآن مجید نسبت غلامی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پختہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىO
(النجم، 53 : 39)
اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے کوشش کی ہوگی‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
اگر انسان کو صحیح توکل نصیب ہوجائے تو پھر انسان تقدیر کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ تقدیر خود اس کی طرف دیکھتی ہے۔ وہ قضا کا منتظر نہیں بلکہ قضا اس کی منتظر ہوتی ہے۔ اس کے اٹھنے اور آگے بڑھنے والے قدم ہی تقدیر بن جاتے ہیں۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی امت مسلمہ کے ایمان کا مرکز و محور ہے۔ امت مسلمہ کی بقا و سلامتی اور ترقی کا راز اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جملہ عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز ومحور سمجھے۔ ہمارے ایمان کی مضبوطی اور استحکام کا دارومدار بھی ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق عشقی مستحکم کرنے پر ہے۔ کائنات کا تمام تر حسن و جمال ابدالآباد تک آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں کی خیرات ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا کے خوش قسمت ترین انسان تھے کہ انہوں نے حالت ایمان میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہ تھی۔ دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں دنیا و مافیہا کی ہر نعمت سے بڑھ کر عزیز تھا۔ وہ ہر وقت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہتے تھے۔ اس حسن بے مثال کی جدائی کا تصور بھی ان کے لئے سوہان روح بن جاتا۔ ان مشتاقان دید کے دل میں ہر لمحہ یہ تمنا دھڑکتی رہتی تھی کہ ان کا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی ان سے جدا نہ ہو اور وہ صبح و شام اس محبوب کی زیارت سے اپنے قلوب و اذہان کو راحت و سکون پہنچاتے رہیں۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ رب کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیرت و صورت میں ایسا یکتا و تنہا اور بے مثال بنایا تھا کہ کائنات رنگ و بو میں کوئی دوسرا اس کا ہم سر نہ تھا۔
مَااَجْمَلَکَ۔ تیری صورت، مَا اَحْسَنَکَ۔ تیری سیرت
آج اگر امت مسلمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت پر چلتے ہوئے ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت اور ادب و تعظیم کا تعلق مضبوط تر کرلے تو پھر یہ دوبارہ ایک ناقابل تسخیر قوت بن سکتی ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ تحریک منہاج القرآن امت مسلمہ کا اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹا ہوا تعلق پھر سے بحال کرنا چاہتی ہے۔ اس کے بانی حضور شیخ الاسلام نے اس تعلق کو بحال کرنے کے لئے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعے جس قدر شعور اجاگر کیا ہے دور حاضر میں اسکی مثال ملنی مشکل ہے۔
تحریک منہاج القرآن کا فریضہ اولین دعوت الی الخیر ہے۔ یہ نیکی کی طرف بلاتی ہے اور بدی اور برائی کے راستے سے روکتی ہے۔ یہ تحریک تن من دھن کی قربانی دینے اور باطل سے ٹکرانے اور سامنا کرنے کی دعوت دیتی ہے جو اہل حق اور دعوت دینے والوں کے لئے ضروری ہے۔ حضور شیخ الاسلام کا فرمان ہے کہ قرآن و سنت کے احکام کی تعبیر نو بھی اجتہاد ہے۔ اللہ تعالیٰ خدمت دین کا کام بندوں ہی سے لیتا ہے فرشتوں سے نہیں۔ آج مذہبی حلقوں کی عصبیت، تشدد اور تنگ نظری نے نوجوان نسل کو مذہب سے متنفر کردیا ہے۔ تحریک منہاج القراان کوئی فرقہ وارانہ یا ہنگامی تحریک نہیں بلکہ یہ ایک دائمی انقلابی تحریک ہے۔ جب تک سیاسی انقلاب کے ذریعے حقوق کی آزادی، معاشی انقلاب کے ذریعے تخلیقی جدوجہد کی بحالی اور سماجی انقلاب کے ذریعے عدل و انصاف اور مساوات کی فراوانی میسر نہ آئے کسی بھی نظام کے نفاذ سے صالح اور مثالی معاشرہ وجود میں نہیں لایا جاسکتا۔
تحریک منہاج القرآن کی دعوت کے 7 اہداف ہیں۔
- الدعوہ الی اللہ
- الدعوہ الی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
- الدعوہ الی القرآن
- الدعوہ الی العلم
- الدعوہ الی الاخوۃ
- الدعوہ الی الجماعۃ
- الدعوہ الی الاقامۃ
تحریک منہاج القرآن احیائے اسلام، غلبہ دین حق اور مسلمانوں کو سیاسی و معاشی، معاشرتی و ثقافتی، علمی و فکری اور اخلاقی و روحانی زوال سے نجات دلانے کے لئے جس انقلابی پروگرام کی داعی ہے وہ پانچ مرحلوں پر محیط ہے۔
- مرحلہ دعوت
- مرحلہ تنظیم
- مرحلہ تربیت
- مرحلہ تحریک
- مرحلہ انقلاب
مرحلہ انقلاب کے تین پہلوؤں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
- علمی و فکری انقلاب
- اخلاقی و روحانی انقلاب
- معاشی و معاشرتی انقلاب
خوابِ غفلت کا شکار امت کے افراد کو بیدار امت بنانے کے لئے ایک ایسے ہمہ گیر انقلاب کی ضرورت ہے جس سے زندگی کے سارے شعبے اصلاح یافتہ ہوں۔ فکروعمل کے سارے دھارے فقط اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفاداری کی بنا پر از سر نو وضع کئے جائیں۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی و وفاداری کے سوا ساری غلامیوں کا طوق گلے سے اتار پھینکا جائے۔ لہذا ہمیں سب وفاداریوں کے بت توڑنے ہوں گے۔ سب مفادات سے تائب ہونا ہوگا۔ درد مندی کو اپنا کردار بنانا ہوگا۔ تقویٰ و طہارت کو اپنا ہتھیار بنانا ہوگا۔ صدق و اخلاص کو اپنا معیار بنانا ہوگا۔ یہی منہاج القرآن کا مشن اور یہی اس کا پیغام ہے۔
ہمیں جوانوں میں Frustation اور مایوسی کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ ہاتھ میں کشکول گدائی پکڑنے والی قومیں کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں۔ دور فتن میں ایمان کی حفاظت اجتماعی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔ قائد انقلاب کا فرمان ہے کہ ’’مخالف لہروں کے تھپیڑے کھائے بغیر کشتی کبھی ساحل مراد تک نہیں پہنچتی‘‘۔ انقلاب کی لغت میں مایوسی اور بے یقینی نام کی کوئی چیز نہیں۔ من کے اندر اگر تبدیلی نہ آئی تو تن کٹ بھی جائے پھر بھی انقلاب نہیں آسکتا۔ حقیقی مذہبیت اور مثالی سیاست کو یکجا کرکے انقلابیت پیدا کریں اور ایک انقلابی اور منافق میں یہ فرق ہوتا ہے کہ انقلابی ہمیشہ منہ پر جبکہ منافق پشت پر تنقید کرتا ہے۔ حق اسے کہتے ہیں جو خودبخود نہ ملنے کی صورت میں چھین کر بھی لیا جاسکے۔ اسلام محض فکر کا نہیں عزم و ارادہ کا نام ہے۔ انقلاب سماجی اور معاشرتی سطح پر مکمل تبدیلی کا نام ہے۔ اے مسلمان بہنوں، ماؤں اور بھائیو! اتحا دتمہاری قوت، انقلاب تمہارا سفر اور فتح تمہاری منزل ہے اور ہدایت کا آغاز شعور مقصد سے ہوتا ہے اور معاشرے کے تباہ شدہ نظام کی بحالی کے لئے جدوجہد کرنا عظیم ترین جہاد ہے۔
اسلام خدائے زندہ کا زندہ نظام حیات ہے اور اس کے بنیادی عقیدے توحید، رسالت اور آخرت انقلاب کے سنگ ہائے میل ہیں اور ساتھ ہی زندگی کے تین تقاضے بھی ہیں۔
- عقیدہ توحید۔ وحدت انسانیت کی اساس ہے۔
- رسالت پر ایمان۔ نظریاتی اتحاد کی ضمانت ہے۔
- اور عقیدہ آخرت۔ انسانوں کو خود آگہی اور جوابدہی کا درس دیتا ہے۔
انسانیت کا پہلا، آخری اور کامل دین اسلام ہے اور اسی کی قامت زیبا پر دین فطرت پیغام انقلاب اور نوائے جہاد کا جامہ راست آتا ہے۔
یہی وہ دین اسلام ہے جس کے قابل فخر فرزندوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ، حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے لوگ شامل ہیں جن پر ملت اسلامیہ کو بجا طور پر ناز ہے اور یہی وہ دین اسلام ہے جس نے عقائد کو سنوارا، اخلاق کو سدھارا، اعمال کو نکھارا، معاملات کو بنایا، جذبۂ جہاد کو ابھارا، ایثار کا سبق دیا، روحانیت سے آشنا کیا، نظریاتی سیاست، ربانی معیشت اور مصطفوی معاشرت سے روح عصر کو ہم آہنگ کیا۔ جنہوں نے سلگتے مسائل کو چھیڑا، تسلی بخش حل پیش کیا، وحدت انسانی کا اصول بنایا، عالمی انسانی برادری کا نظریہ متعارف کرایا، رنگ و نسل کے امتیاز کو اٹھایا اور تقویٰ کو عزت کا معیار بنایا۔ جس کے صدقے میں علم کی روشنی عام ہوئی، عشق و خرد کی پرورش ہوئی، مظلوموں کی ڈھارس بندھی جس دین کے علمبردار ایسے ہوں جس کے نامور سپوت ایسے ہوں جس کا پیغام ایسا ہو جس کا فیض اس قدر ہو تو کون ذی ہوش انسان ہے جو اس تابناک تاریخ اور شاندار تعلیم کا منکر ہوجائے؟ یہ دین قیامت تک آنے والے ہر معقول آدمی کا دین ہے۔ کوئی جلد اور کوئی بدیر تسلیم کرے گا ان شاء اللہ۔
یہ تو ہے دین کا رخ روشن جو علم کی ہر کسوٹی پر پرکھا گیا، کردار کے ہر پیمانے پر ناپا گیا اور امتحان کے ہر مرحلے سے گزارا گیا اور جواب میں اس نے ہر دور کے انسان کو قیادت و رہنمائی فراہم کی اور ہر زمانے کی انقلابی قوت مانا گیا۔ یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ عورت معاشرے کا ایک بیش بہا سرمایہ ہے جس کا تحفظ ہر لحاظ سے لازمی ہے۔ لیکن اس کو نہ تجوری میں بند کیا جاسکتا ہے نہ گھر کی چار دیواری میں قید کیا جاسکتا ہے۔ یہ ذی روح ہے احساس و ادراک کی مالکہ ہے۔ عقل و شعور رکھتی ہے۔ اگرچہ کمزور ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی عنایت سے طاقت و مزاحمت سے مالا مال ہے۔ سوجھ بوجھ، حلم وتدبر، ایثار و قربانی کے جذبات سے بھرپور ہے۔
اے مسلمان عورت تو اپنے حقیقی منصب اور مقام کو خودی کے دائرے میں رہ کر پہچان اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی زندگی کی پیروی میں زندگی کی شاہراہ پر گامزن رہ تاکہ تیری آغوش میں بھی حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ جیسے فرزند پرورش پاسکیں اور تو قوم کے لئے باعث فخر ہستی ثابت ہوسکے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کیا ہے؟ ایک نور، شفاف، خراماں پیکر، ایک تبسم خاندان، ایک برق متحرک، ایک آبگینہ الفت، ایک پیکر سعادت، ایک سراپا محبت، ایک سرتا سر معصومیت، عورت دنیا کے بنی نوع انسان کی ماں ہے۔ عورت رحمدلی اور نرم مزاجی کا مجسمہ اور صبرو شکر کی زندہ تصویر ہے۔
لیکن آپ ماؤں اور بہنوں کا مشن کے لئے باہر قدم رکھنے سے پہلے کچھ اور بھی حقوق و فرائض ہیں۔ آپ کا ایک گھر ہے جس کی خودمختار ملکہ ہیں۔ پہلے آپ کو اپنے شوہر کی قریب ترین شریک زندگی بننا ہوگا۔ اپنے بچوں کی شفیق ترین ماں بننا ہوگا ایک اچھی بہن اور بیٹی بننا ہوگا۔ اطاعت شعار بیوی بننا ہوگا اور اپنے پڑوسیوں کی اچھی ہمدرد بننا ہوگا اور یہی سچ ہے کہ پہلا انقلاب آپ کو اپنے گھر میں لانا ہوگا کیونکہ عورت کی تربیت سے قوموں کا انقلاب وابستہ ہے۔
(اے نیک عورت) تیرا زیور چاندی سونا نہیں بلکہ تیری حیاء ہے۔ تیرا حسن تیری شکل و صورت نہیں بلکہ تیری پاکیزگی ہے۔ تیرا لباس ریشم و مخمل نہیں بلکہ تیری سلیقہ شعاری ہے۔ اگر تو شادی شدہ ہے تو تیری دنیا تیرا شوہر ہے اپنے آپ کو اس دنیا سے باہر نہ لے جا۔
بیاہ کے بعد اپنے سُسر کو اپنا باپ اور ساس کو اپنی ماں سمجھ۔ انہوں نے تیرا راستہ بڑے شوق اور چاؤ سے دیکھا ہے۔ یہاں ایک بات کہنا ضروری سمجھتی ہوں کہ چادر عورت کے محاسن جسم کی محافظ تھی عورت نے اسے اتار کر جسم سے الگ کردیا۔ خاندان جس کی وہ معمار تھی عورت نے خود اپنے ہاتھوں سے اسکا شیرازہ بکھیر دیا۔ حجاب جواسے غیر مردوں کی ہوس ناک نگاہوں سے بچاتا تھا عورت نے اسے تار تار کردیا۔ حیا جو اس کا حقیقی زیور اور موجب عزت و افتخار تھا عورت نے اسے دور جہالت کا ڈھکوسلہ اور دقیانوسیت کا لیبل لگاکر گلے سے اتار دیا۔ لیکن یہیں پر میں تحریک منہاج القرآن کی ماؤں، بہنوں اور خصوصاً تحریکی بہنوں کو مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ انہوں نے اس حجاب اور پردے کی عزت و وقار کو بحال رکھا ہوا ہے اور تحریک منہاج القرآن کی پہچان بنا دیا ہے اور جب اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مشن کے لئے جان ہتھیلیوں پر رکھتے ہوئے گھروں سے نکلتی ہیں تو پتہ چلتاہے کہ قبلہ قائد انقلاب شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بیٹیاں فخر کے ساتھ سر اٹھائے راہ انقلاب کے لئے چلی آرہی ہیں۔
آخر میں اتنا کہوں گی کہ ہماری اصل منزل مصطفوی انقلاب کی طرف آنا ہے۔ ایک ایسا عمل جو معاشرے کی وضع کردہ اقدار، مسلط کردہ روایات اور فرسودہ نظریات کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ انقلاب قدرتی آبشار کی طرح خود پھوٹتا ہے اور رواں دواں پہاڑی ندی کی طرح اپنا رستہ خود بناتا ہے۔ انقلاب نہ ماحول کا محتاج ہوتا ہے کہ اس میں ابھرے اور نہ کسی مخصوص طریق کار کا پابند کہ وہ جگہ بنائے۔ ماحول بھی خود تیار کرتا ہے پس منظر بھی خود بناتا ھے۔ مزاج کی پرورش بھی خود کرتا ہے۔ اٹھان کا وقت بھی خود طے کرتا ہے طریق کار بھی خود وضع کرتا ہے۔
نشیب میں بھی نگاہیں اٹھان پر رکھنا
قدم زمین پہ زمین آسمان پر رکھنا
دہکتی آگ سمجھتے ہو حرف حق کو اگر
تو پھر یہ آگ خوشی سے زبان پر رکھنا
اسی غبار سے خوشبو کی لہر آئے گی
تمام بوجھ یقین کا گمان پر رکھنا
کچھ اپنے آپ کرنا جہت کے اندازے
قدم نہ صرف قدم کے نشان پر رکھنا
جو کوئی خدمت تہذیب تم کو کرنی ہے
تو پستیوں کو اٹھا کر چٹان پر رکھنا
تعلقات ہواؤں سے بھی رہیں لیکن
بھروسہ رکھنا تو اپنی اڑان پر رکھنا
کسی کو تم سے نہ کوئی دکھ پہنچے
تمام بارِ جہاں اپنی جان پر رکھنا