انسانی معاشرہ مرد اور عورت کے وجود سے تشکیل پاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور فلاح صرف مرد حضرات پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ عورت بھی بحیثیت ایک فرد نہایت اہم کردار سرانجام دیتی ہے۔ یوں تو آج دنیا کی کوئی قوم، کوئی مذہب بھی عورتوں کے مقام و حیثیت اور ان کے سماجی کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ تاہم اسلام نے جس طرح سے عورت کے مقام و مرتبہ کو انسانی معاشرے میں بلند کیا ہے اور عورت کے ہمہ جہت کردار کو مذہبی و اخلاقی اور معاشرتی و سماجی ہر اعتبار سے اہمیت سے ہمکنار کیا ہے اس کی کوئی دوسری نظیر دکھائی نہیں دیتی اور یہ امر حقیقت ہے کہ اسلام سے بیشتر عورت نہایت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور تھی بلکہ عورت کے وجود کو تمام برائیوں کا مرقع اور قابل نفرت سمجھا جاتا تھا۔
قدیم یونانی فکر سے لیکر موجودہ مغربی فکر تک یہ تسلسل قائم نظر آتا ہے۔ قدیم یونانی روایات کے مطابق پینڈور (Pundore) ایک عورت تھی جس نے ممنوعہ صندوق کو کھول کر انسانیت کو طاعون اور غم میں مبتلا کردیا۔ ابتدائی رومی قانون میں بھی عورت کو مرد سے حقیر و کمتر قرار دیا گیا۔ ابتدائی عیسائیت بھی اس طرح کے افکار کی حامل تھی۔
زمانہ جہالت میں عورت ظلم و ستم کی چکی میں پسی ہوئی تھی۔ اہل عرب بیٹیوں کی پیدائش کو اپنے لئے باعث عار سمجھتے تھے اور اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ عورتوں کو وراثت میں کوئی حق نہ دیا جاتا تھا۔ ان سے زنا عام تھا لیکن اسلام نے زمانہ جاہلیت کے برعکس عورتوں کو عزت و تکریم بخشی۔ اسلام کی تاریخ ’’حقوق نسواں‘‘ کے حوالے سے نہایت درخشندہ روایات کی امین رہی ہے۔ روز اول سے ہی اسلام نے عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کردار کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی ہے۔ کیونکہ جب تک افراد معاشرہ باہمی حقوق ادا نہیں کرتے اور اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں تب تک وہ ایک فعال معاشرہ قائم کرنے میں کماحقہ کردار ادا نہیں کرسکتے۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ ہم فرض کا مطالبہ تو کرتے ہیں مگر حق ادا نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔ جہاں تک معاشرے میں خواتین کے کردار کا تعلق ہے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ دنیا کی نصف سے زائد آبادی عورتوں پر مشتمل ہے اور بقائے نسل انسانی کے لئے، بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے لئے، اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت جیسے اہم افعال کے لئے عورت کا کردار بحیثیت ماں کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ نپولین بونا پاٹ نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دے دو میں تمہیں اچھی قوم دے دوں گا۔
گویا ملک و قوم کی ترقی و کامرانی کا راز بھی مرد و عورت کا مرہون منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احیائے اسلام کی عالمگیر تحریک کے بانی و سرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جو کہ نامور اسلامی انقلابی لیڈر،عظیم فلاسفر، مجتہد زمانہ اور نابغہ عصر شخصیت کے حامل ہیں بھی خواتین کے مصطفوی و انقلابی کردار کے زبردست حامی اور علمبردار ہیں۔ آپ نے سفر انقلاب کے آغاز سے خواتین کی اخلاقی و روحانی، تعلیم و تربیت اور ان میں دینی شعور و انقلابی فکر کو اجاگر کرنے کے لئے شادمان مسجد (لاہور) میں 4 فروری 1984ء سے درس قرآن کا آغاز فرمادیا تھا۔ حضور شیخ الاسلام معاشرے میں خواتین کے کردار کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی دعوتی و تحریکی فکری و انقلابی سرگرمیوں کا دائرہ کار صرف مردوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ 5 جنوری 1988ء کو منہاج القرآن ویمن لیگ کے باقاعدہ قیام کو عمل میں لائے تاکہ اس پلیٹ فارم سے مشن کی انقلابی فکر اور پیغام خواتین تک بھی پہنچایا جائے اور معاشرے کے موثر اکثریتی حلقے کو فعال اور زیادہ موثر کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جائے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خواتین کے مقام و مرتبہ کے تعین میں قرآن مجید کی درج ذیل آیت کریمہ کی روشنی میں بہت واضح اور ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً.
(النساء، 4 : 1)
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اس سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلایا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں کو تخلیق کے درجے میں ایک ہی مرتبہ میں رکھا ہے۔ دونوں کا منبع تخلیق، نقطہ آغاز ایک Cell تھا جب کسی کو اعلیٰ و ادنیٰ، گھٹیا یا بلند رکھنا ہوگا تو یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کا مادہ تخلیق کیا ہے اگر تو ان کی ساخت و ہیئت ایک جیسی ہے تو پھر ماننا ہوگا کہ انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے اگر اسلام یہ تسلیم کررہا ہے کہ مردو عورت دونوں کی تخلیق کا منبع ایک جیسا ہے۔ شیخ الاسلام نے دنیا میں معاشرے کے جن پسماندہ اور مظلوم طبقے کو بلند کیا ان میں سے عورت سرفہرست ہے۔ عورت پر سے دائمی معصیت کی لعنت ہٹادی گئی اور اس پر سے ذلت کا داغ دور کردیا گیا۔
دوسرا بڑا امتیاز اگر کوئی مرد و عورت میں پایا جاتا تو وہ یہ ہوتا کہ مرد اپنے اعمال کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ مقبولیت اور فوقیت رکھتے جبکہ اس نظریے کی بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نفی فرمادی ہے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کا استحقاق دونوں کے لئے برابر ہے ان دونوں میں سے جو کوئی بھی عمل کرے گا اسے پوری اور برابر جزا ملے گی۔ ارشاد ربانی ہے:
’’ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا‘‘۔
اسلام عورت کے لئے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن ہے اور اس کی روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ولی الامر کے سپرد کی ہے۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ اسلام نے مردوں پر تو لازم ٹھہرایا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں پر اپنی کمائی خرچ کریں۔ ان کا کھانا پینا، روٹی کپڑا ساری ضروریات زندگی فراہم کرنا مرد کی ذمہ داری ہے مگر عورت کے لئے یہ لازمی قرار نہیں دیا کہ وہ روزی کمائیں اور اپنی کمائی شوہر کو دیں یا اسے خرچ کرے۔ اگر وہ ایسا کرتی ہے تو یہ اس کا اخلاقی عمل ہے اس کے برعکس اہل مغرب جو عورت کی آزادی اور مساوات کا نعرہ بلند کرتے ہیں، وہاں یہ بات ناپید ہے۔ انہوں نے بحیثیت معاشرتی فرد عورت پر بھی روزی کمانا لازمی قرار دے دیا ہے کہ وہ اپنا بوجھ خود اٹھائے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی عورت اپنے وجود کے تحفظ کے لئے اپنا تقدس بھی پامال کربیٹھی ہے۔ وہاں عورت ایک کھلونا اور شوپیس بن کر رہ گئی ہے۔
شیخ الاسلام عورتوں کی بے جا آزادی اور بے راہ روی کے سخت خلاف ہیں۔ شیخ الاسلام کے نزدیک معاشرے میں عورت کی عزت و احترام اور اس کی عصمت کا تحفظ اس کی شرم و حیاء اور رازداری میں پوشیدہ ہے۔ تاہم قائد تحریک عورت کے بالکل گھر میں مقید ہونے اور صرف اپنے آپ کو گھریلو امور تک محدود کرلینے کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ ان کی رائے میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو بھی بے پایاں صلاحیتیں دے رکھی ہیں اور وہ بھی اپنے مادہ تخلیق کی رو سے مردوں سے کسی طرح کمتر اور حقیر نہیں ہیں۔ بلکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کا زوج قرار دیا ہے اور عربی زبان میں زوج ’’جوڑ‘‘ کو کہتے ہیں اور جوڑ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک اس میں ہم سری اور ہم سفری کا جواز نہ پایا جائے مرد، عورت کا جوڑ اور عورت مرد کی۔ قائد محترم نے اپنے ایک خطاب ’’اسلامی معاشرے میں عورتوں کا مقام‘‘ میں بڑی وضاحت سے مرد و عورت کے تصور ہمسری کو بیان فرمایا ہے۔ مرد و عورت کا ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ، قدم سے قدم ملاکر چلنے کا تصور نہ ہو تو دونوں کو ایک دوسرے کا زوج قرار نہیں دیا جاسکتا اور پھر ہمسفر کے لئے جتنی عزت و تکریم، راحت و آرام ضروری سمجھی جائے اتنا ہی ہمسفر اچھا رہے گا ہمسفر اچھا ہوگا تو سفر بھی اتنا ہی اچھا گذرے گا۔
یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے بہترین بیوی کو دنیا کی سب سے قیمتی متاع قرار دیا ہے اور اسلام کو سب سے پہلے قبول کرنے والی حضور علیہ السلام کی راز دار، ہمسفر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ذات ہی تھی جنہوں نے نہ صرف سب سے پہلے کلمہ اسلام قبول کیا بلکہ سب سے پہلے عمل کرنے والی بھی ایک عورت تھی۔ سب سے پہلے حضور علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھنے والی بھی ایک عورت تھی اور اسلام کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے والی بھی ایک عورت یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک عورت کا وجود کتنی اہمیت کا حامل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا راز نبوت بھی ایک عورت سے بیان فرمایا اور قربان جائیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ایمان و ایثار پر جنہوں نے نبوت کی تصدیق بھی سب سے پہلے کی اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے پہلی راوی بھی حضرت خدیجہ قرار پائی۔ ایک عرصہ تک حضور علیہ السلام کے معاش میں حضرت خدیجہ کا مال تجارت اور اکتساب دولت ہی شامل رہا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت پر اکتساب دولت پر کوئی پابندی نہیں ہے کیونکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاخود بہت بڑی تاجرہ تھیں اور حضور علیہ السلام نے ان کے لئے کاروبار کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی تھی۔
حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ جس طرح اسلام نے عورت پر اقتصاد و معیشت کے لئے کوئی قدغن نہیں لگائی اسی طرح اسلام نے اخلاقی و روحانی، علمی و فکری کسی اعتبار سے عورت کو پیچھے نہیں رکھتا۔ حضور علیہ السلام نے خود حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے لئے تعلیم کا انتظام فرمایا اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بہت بڑی سکالر تھیں اور فقہ کی عالمہ تھیں، شاعری، سائنس، طب اور تاریخ و فلسفہ پر بڑا عبور رکھتی تھیں انہی کے بارے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا آدھا دین عائشہ کی وجہ سے محفوظ ہوگا۔ آٹھ ہزار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں۔ اسلام نے عورت کے لئے ایک بھرپور معاشرتی زندگی کا تصور دیا ہے۔ وہ بیٹی، بہن، بیوی اور ماں ہر روپ میں قابل احترام اور معزز قرارپائی۔ شیخ الاسلام کے نزدیک عورت اپنی عصمت و کردار کے تحفظ اور تقدس کے ساتھ کوئی بھی کام کرسکتی ہے۔
شیخ الاسلام کے نزدیک عورت امور سلطنت میں سربراہ ریاست کے علاوہ کوئی بھی ذمہ داری سرانجام دے سکتی ہے۔ پروفیشنل امور میں عورت جج، قاضی، ڈاکٹر، انجینئر، استاد،ٹیچنگ، طب، ہوم اکنامکس، تحریر و تصنیف وغیرہ کی ذمہ داریاں زیادہ احسن انداز میں ادا کرسکتی ہے بلکہ اسلام نے قانون کے نفاذ میں بھی عورت کے اس حق کو مستحضر رکھا ہے۔ اسے ملکیت کا حق عطا کیا ہے۔ عورت کے حق ملکیت میں جہیز اور مہر کا حق بھی شامل ہے۔
اسلام میں بیوی کے حقوق شوہر کے فرائض اور شوہر کے حقوق بیوی کے فرائض قرار پائے ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی بیوی کو جو گھر کی نوکرانی سمجھا جاتا ہے، اس تصور کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام میں عورت پر شوہر کی طرف عائد فرائض میں یہ ہے کہ وہ اسے جب اپنی خواہش نفسانی پورا کرنے کے لئے بلائے اس کی تعمیل کرے، اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کی حفاظت کرے، اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے اور اپنی عصمت کی حفاظت کرے۔ البتہ اگر وہ اپنے گھر کا کام کاج کرتی ہے تو یہ اس کا اخلاقی فریضہ ہے اور اگر شوہر اپنی بیوی کو سہولت دینے اور اس کی صحت کا خیال کرتے ہوئے اس کے لئے نوکر چاکر کا انتظام کرے یا اس کی مدد کرے تو یہ اس کا حسن سلوک ہوگا جسے اسلام پسند کرتا ہے۔
قائد تحریک منہاج القرآن مردوں کے لئے ایک سے زائد شادیوں کو جائز تو سمجھتے ہیں مگر اسے زیادہ مستحسن نہیں گردانتے کیونکہ شیخ الاسلام کے نزدیک اسلام کا رجحان یک زوجگی کی طرف ہے اور ان حالات میں جہاں اسلام نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ہے اسے عدل و مساوات سے مشروط ٹھہرایا ہے کہ مرد ان تمام معاملات میں جو اس کے بس میں ہیں مثلاً غذا، لباس، مکان، شب باشی اور حسن معاشرت میں سب کے ساتھ عدل کا سلوک کرے گویا ایک سے زائد شادیوں کا قرآنی فرمان دراصل حکم نہیں بلکہ اجازت ہے جو بعض حالات میں ناگزیر ہوجاتی ہے اس لئے قائد محترم اپنے بیٹوں اور مشن و تحریک کے تمام بیٹوں کو ہمیشہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے کی تلقین فرماتے ہیں اور اپنے طرز عمل کو نمونے کے طور پر پیش کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ اسی طرح شیخ الاسلام بیوی کو گھر میں باندی بناکر رکھنے کے طرز عمل کو بھی سخت ناپسند فرماتے ہیں۔
آپ عورت کی صحت و تندرستی کی خاطر کم شرح پیدائش کے حق میں ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار خواتین کے ساتھ نشست کے دوران آپ نے فرمایا کہ بچہ پیدا کرنے کی تمام مشقت و تکلیف عورت برداشت کرتی ہے۔ مرد کو کیا معلوم کہ بچے کی پرورش و تربیت سازی کا مرحلہ کتنا کٹھن ہوتا ہے جس سے خصوصی طور پر عورت دوچار ہوتی ہے۔ اسلئے آپ کے نزدیک زیادہ بچوں کی پیدائش مناسب نہیں اس سے عورت کی صحت متاثر ہوتی ہے اور نتیجتاً ساری اولاد مسائل میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ جہاں تک بچیوں کی تعلیم و تربیت کا معاملہ ہے تو اس بارے میں بھی آپ کا موقف یہ ہے کہ خواتین کی تعلیم و تربیت بھی اتنی ہی اہم اور ضروری ہے جتنی کہ مردوں کی۔ اسلامی معاشرے میں یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی شخص لڑکی کو لڑکے سے کم درجہ دے کر اس کی تعلیم و تربیت نظر انداز کردے۔
صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ ہے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ
’’اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے تعلیم دے اور یہ اچھی تعلیم ہو اور اس کو آداب مجلس سکھائے اور یہ اچھے آداب ہوں پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لئے دوہرا اجر ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام اگر باندیوں تک کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کو کار ثواب قرار دیتا ہے تو وہ آزاد لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیم سے محروم رکھے جانے کو کیونکر گوارا کرسکتا ہے۔ آپ کے نزدیک حصول علم میں ہر طرح کا امتیاز اور تنگ نظری کو مٹانے کی خاطر مرد و عورت دونوں پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔
الغرض اسلام نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے دی اور ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کے حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہستی ماں ہے اور ماں کا درجہ باپ سے تین گنا زائد قرار دے دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت کا حق دار بھی ٹھہرایا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام اپنی بیٹیوں کے ساتھ بیٹوں سے بھی زیادہ شفقت فرماتے ہیں۔ جب کبھی بھی ویمن لیگ کی بہنوں، بیٹیوں اور منہاج القرآن یوتھ لیگ کے بھائی اور بیٹوں کی خدمات کا ذکر کرتے ہیں تو آپ ہمیشہ بیٹیوں کی حوصلہ افزائی کی خاطر از راہ شفقت ان کے کام و خدمات کو نمبر ون قرار دے دیتے ہیں۔
یہ تو شیخ الاسلام کے چند عظیم خیالات و نظریات اور حقوق نسواں کے بارے میں چند تفردات جو میں نے آپ کے سامنے اختصار کے ساتھ بیان کئے۔ یہ سمجھ لیں کہ یہ ابھی ایک جھلک ہے اسی سے آپ کو یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری حقوق نسواں کے کس قدر علمبردار ہیں اور آپ دختران اسلام کے مقام و مرتبہ کے بہت بڑے حامی ہیں اور یہ کہ آپ کا اسلام کی بیٹیوں کے بارے میں انداز فکر اور طرز عمل کتنا ہمدردانہ اور شفیقانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت مسلمہ کی تمام مائیں بہنیں اور بیٹیاں انہیں اپنے سروں کی چادر اور عصمت و تقدس کا امین سمجھتی ہیں اور آپ کے فرمودات اور ہدایات کے مطابق مصطفوی مشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو دختران اسلام سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ آپ کی نظر میں اسلام کی بیٹیوں کا کردار کیسا ہونا چاہئے اس کے لئے میں آپ کے ایک خطاب کے چند کلمات کو اقتباس کے طور پر پیش کرتی ہوں۔
’’اے دختران اسلام! آج اسلام کو آپ کی ضرورت ہے۔ دین اسلام پر حملے ہورہے ہیں۔ آج دین کو بچانے کے لئے آپ کو اپنے گھروں سے نکلنا ہوگا۔ گھر گھر دعوت دین کا پیغام پہنچانا ہوگا۔ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا۔ آج پھر سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کی سیرت کے سانچے میں ڈھلنا ہوگا۔ آپ کا کردار ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے رنگ میں رنگا ہونا چاہئے۔
آج اسلام کے لئے مر مٹنے اور سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے مجاہدانہ اور انقلابی کردار کو از سرِ نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آج پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرح اپنا مال و دولت اسلام کی راہ میں نچھاور کردینے والی بیویوں کی ضرورت ہے۔ آج پھر پرچم اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے سیدہ زینب جیسی بہنوں کی ضرورت ہے۔ جنہوں نے اپنا بھائی، بیٹا اور سارا کنبہ قربان ہوتے دیکھا۔ آج پھر حضرت سمیہّ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا جیسی عظیم مجاہدات اسلام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جنہوں نے جام شہادت نوش کرلیا مگر اسلام پر آنچ نہ آنے دی۔
لہذا اے دختران اسلام! آپ پر آج بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ایک نسل آپ کی گود میں پروان چڑھتی ہے۔ آج اگر آپ بیٹی ہیں کل ماں ہونگی اور اگر ایک عظیم ماں ہو تو اولاد بھی عظیم ہوتی ہے۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار فرمایا کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میری کبھی تہجد کی نماز قضا ہوئی ہو، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ نے فرمایا: بیٹا فرید تمہاری تہجد کی نماز کیسے قضا ہوسکتی ہے تمہاری ماں نے تمہیں کبھی بغیر وضو دودھ نہیں پلایا۔ جب مائیں ایسے کردار کی حامل ہوں تو بیٹے فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ جیسے پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسی مائیں جن کے پاؤں موسیقی کی دھن پر رقص کرتے ہوں۔ جن کو مستیوں سے فرصت نہ ملے، جن کی بے پردگی اور بے حیائی پر آسمان بھی شرمائے۔ ان کی کوکھ سے کبھی بھی محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد جیسے عظیم مجاہد اسلام پیدا نہں ہوتے۔
آج اگر آپ اسلام کا بول بالا چاہتے ہیں، امت مسلمہ کا احیاء دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں ایسی عظیم بیٹیاں اور عظیم مائیں تیار کرنا ہونگی۔ شیخ الاسلام نے ہمیشہ انقلابی جدوجہد میں خواتین کے کردار کو ہر اول دستہ قرار دیا۔ دنیا میں آج تک کوئی ایسا انقلاب یا بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی جس میں خواتین کی جدوجہد شامل حال نہ ہو۔ ایران کا اسلامی انقلاب بھی اس وقت بپا ہوا جب عورتیں اپنے شیر خوار بچوں کو بھی لیکر میدان جنگ میں اتر پڑیں۔ انقلاب مصطفوی کا سفر مدینہ کے گلی کوچوں سے لیکر کربلا کے تپتے ریگزاروں پر اپنے بھائی، بیٹوں اور سہاگ کو قربان کرکے حضرت زینب اور حضرت سکینہ رضی اللہ عنہما نے جس طرح طے کیا وہی سفر ہر انقلابی تحریک کو طے کرنا ہوگا۔ اپنا وقت، اپنا مال حتی کہ اگر ضرورت پڑے تو اپنی جانیں اور اولاد تک اسلام کی سربلندی کی خاطر قربان کردینے والی بیٹیاں، اسلام کی بیٹیاں اور مصطفوی انقلاب کی جدوجہد میں مصروف حضور شیخ الاسلام کی بیٹیاں کہلانے کی حقدار ہیں۔