شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کی 73ویں سالگرہ 19 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم منہاج القرآن انٹرنیشنل کے رفقائے کار اور ان سے محبت رکھنے والے احباب منارہے ہیں۔ 19 فروری کے دن تحریک منہاج القرآن کی طرف سے شیخ الاسلام کے ساتھ محبت و عقیدت کا والہانہ اظہار کیاجاتا ہے۔ کیک کاٹے جاتے ہیں، ان کی شخصیت اور فن و محاسن کو اجاگر کرنے کے لئے تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور انہیں جملہ ذمہ داران، وابستگان، رفقائے کار مقدور بھر علمی استعداد کے مطابق خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بلاشبہ اللہ کے برگزیدہ بندے اللہ کی نعمت ہوتے ہیں۔ اللہ رب العزت جب کسی قوم، ملک اور معاشرے کی بہتری کا ارادہ فرماتا ہے تو اس قوم میں اہل علم و اہل تقویٰ اور اپنے انعام یافتہ بندے پیدا فرما دیتا ہے۔ وہ بندے افراد اور قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ سورہ فاتحہ میں اللہ رب العزت نے ایک دعا عنایت کی ہے کہ نیک اور انعام یافتہ بندوں کی راہ پر چلنے کی دعا مانگتے رہا کرو، یہی نیک ہستیاں ظلمت کے اندھیروں کو علم کے نور سے منور کرتی ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ایسی ہی اللہ کی انعام یافتہ نابغہ روزگار ہستی ہیں جنہوں نے ہزار ہا خطابات اور 700سے زائد کُتب کے ذریعے اُمت کو فکری اعتبار سے استقامت و پختگی عطا کی اور اسلام اور اسلام کی مقبول و معتبر شخصیات کی طرف اٹھنے والی انگلیوں اور تنقید کا موثر جواب دیا۔ جب بھی اسلام، پیغمبر اسلام، اصحاب رسولؐ، اہل بیت اطہار سمیت اسلام کے عقائد و وظائف پر کوتاہ اندیش انگشت نمائی کرتے ہیں اور نئی نسل کو گمراہی اور بے عملی کی طرف راغب کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں تو شیخ الاسلام کا قلم تلوار بن جاتا ہے اور تشکیک و ابہام کا قلع قمع کر دیتا ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا معاملہ ہو یا شانِ صحابہ ؓ و شانِ اہل بیت کا دفاع، انتہا پسندی، دہشت گردی اور فتنہ خارجیت ہو یا فروغ علم و امن کا چیلنج، حقوق نسواں کی بات ہو یا یوتھ امپاورمنٹ کا مکالمہ ہر ایشو پر شیخ الاسلام کامل راہ نمائی مہیا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس اَمر میں کوئی کلام نہیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری رواں صدی ہجری کے مجدد اور عصرِ حاضر کی دانش ہیں۔ آپ کو اللہ رب العزت نے دین کے جملہ پہلوؤں اور جہتوں میں خدمت کی توفیق اور مواقع عنایت فرمائے ہیں۔ اگر ہم شیخ الاسلام کی خدمات کے بیسیوں پہلوؤں میں سے صرف ایک پہلو اصلاح احوال کا لے لیں تو اس میدان میں اللہ رب العزت نے شیخ الاسلام کو اخلاقی و روحانی اصلاح احوال، فکری و نظریاتی اصلاح احوال، اعتقادی اصلاح احوال، علمی و تعلیمی اصلاح احوال، تنظیمی و انتظامی اصلاح احوال اور معاشرتی اصلاح احوال کی توفیقات سے نوازا ہے۔ شیخ الاسلام نے اپنی 42 سالہ تنظیمی و تحریکی زندگی میں دعوت و تبلیغ کے آفاقی مشن کو نفرت و کدورت اور فتویٰ بازی سے پاک صاف رکھا۔ آپ نے ہر مسلک، مذہب اور ان کے راہ نماؤں کا احترام کیا۔ دوستوں اور دشمنوں کی مخالفت کا انہی کے لب و لہجہ میں کبھی جواب نہیں دیا۔ آپ نے اپنے کارکنان کی اعلیٰ اَخلاقی تربیت کی اور اُنہیں بھی انتقامی رویوں اور تعصب کے زہر سے کوسوں میل دور رہنے کی ہدایت فرمائی۔ الحمداللہ اصلاح احوال کے حوالے سے شیخ الاسلام کی ان ہمہ جہتی خدمات کی وجہ سے آج پاکستان میں اعتدال و روداری کے مثبت رویے فروغ پذیر ہیں اور عوامی حلقے تکفیر و تکذیب، طعن و تشنیع کے کلچر سے کراہت محسوس کرتے نظر آتے ہیں اور فتویٰ بازوں کے لئے علمی میدان میں بہت کم جگہ باقی رہ گئی ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ شیخ الاسلام کو صحت و تندرستی والی لمبی عمر عطا فرمائے۔