تحریک منہاج القرآن اور اسکی قیادت کے حوالے سے چند اہم امتیازی نکات قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں۔
1- قائد تحریک کی تحریر و تحقیق، دعوت و تبلیغ، تنظیم و تحریک کے میدان میں جتنی بھی خدمات ہیں وہ ادھوری ہی تصور کی جاتیں اگر وہ اپنی اولاد کو خصوصی تعلیم و تربیت کے مراحل سے گذار کر اپنے فکری و نظریاتی ثمرات کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کا اہتمام نہ کرتے۔ اولاد کی تربیت کے حوالے سے ان کی ادا کی گئی یہ ذمہ داری انہیں باقی تمام تحریکوں اور قیادتوں سے ممتاز کرتی ہے گذشتہ چند صدیوں کے دوران اور عصر حاضر میں بھی ایک مثال بھی نہیں ملے گی کہ کسی نے اپنی اولاد کو یوں خصوصی توجہ و کوشش سے اپنی فکر کا اس قدر بدرجہ اتم حامل اور باصلاحیت بنایا ہو جس قدر ڈاکٹر طاہرالقادری نے بنایا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے دونوں فرزند ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری عجزو انکساری، علم و عمل کا پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ شاندار انتظامی صلاحیتوں کے حامل لیڈرز ہیں سونے پر سہاگہ یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے پوتے اور پوتیوں کی بھی اپنی زندگی میں ہی فکری آبیاری کر دی ہے۔
اگر ڈاکٹر صاحب اپنی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بیدار مغز اولاد کی فکری آبیاری کرنے کی بجائے انہیں دنیا کمانے میں مصروف کر دیتے تو دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین کی بگڑی ہوئی اولادوں سے کہیں بڑھ کر دولت اکٹھی کر سکتے تھے مگر پھر وہی لوگ کچھ یوں تنقید کر رہے ہوتے کہ باپ علم و عمل کا پہاڑ ہے اور بیٹوں کا حال دیکھیں جو اپنے بیٹوں کی تربیت نہیں کر سکتا وہ کل کو قوم کی تربیت کیا کرے گا لہٰذا ہر حال میں تنقید کرنا بعض لوگوں کا نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے۔
2- میرے نزدیک تاریخ اسلام کے اندر ارتغرل ایک ایسا کردر ہے جس نے اسلام کی کھوئی ہوئی ناموس کی بحالی کے لیے عسکری محاذ پر بے پناہ کامیابیاں حاصل کیں اور انمٹ نقوش چھوڑے۔ دوسری شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہے جنھوں نے عرب و عجم، شرق و غرب کی یوتھ کو متوجہ کیا فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کا میدان میدانِ حرب تھا اور موخرالذکر کا میدان قرطاس و قلم۔
ارتغرل کی تحریک اولیاء کی توجہات اور وقت کی عظیم روحانی شخصیت غوث العصر امام ابن العربی کی روحانی قیادت میں نامساعد ترین حالات میں پروان چڑھتی رہی جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تحریک بھی اولیا کی توجہات اور غوث العصر حضرت سیدنا طاہرعلاؤالدینؒ کی روحانی قیادت میں آگے بڑھ رہی ہے۔
ارتغرل نے اس دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کرکے قائدانہ اوصاف پیدا کئے جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کرکے قائدانہ اوصاف پیدا کئے۔
جس طرح ارتغرل کے ساتھی اپنے رہنما کے ساتھ وفا، یقین اور استقامت کے رشتے سے بندھے تھے اور اس کے حکم کی بہر طور انجام دہی کو ممکن بناتے تھے، ڈاکٹر طاہرالقادری کے جانثار کارکن بھی اپنے قائد کے اشارے پر تجدید دین اور احیائے اسلام کے اس مصطفوی مشن میں مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے لیے وفا کا پیکر بنے ہوئے یقین اور استقامت کے ساتھ قربانیوں کی ایک لازوال داستان رقم کیے ہوئے ہیں۔
ارتغرل کی تحریک کی بنیاد محبت رسول ﷺ اور تکریم اولیاء جیسے بنیادی عقائد پر قائم تھی اسی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کی تحریک کا خمیر بھی عشق رسول ﷺ اور تکریم اولیا سے اٹھا ہے۔
3- تحریک منہاج القرآن میں prophetic potential پایا جاتا ہے۔ یعنی حالات جس قدر بھی مخالف ہوجائیں یہ تحریک مسلسل آگے بڑھتی رہے گی جس طرح اگر ہم اسلام کے ابتدائی حالات کا مطالعہ کریں تو ایسے لگتا ہے جیسے سلطنت اسلام پہلی صدی ہجری سے شاید آگے نہ بڑھ پائے مگر اس قادر مطلق نے اسلام میں اسقدر potential بھر دیا ہے کہ بدترین حالات کا سامنا کرنے کے باوجود قیامت تک اسلام وسعت پذیر رہے گا۔
تحریک منہاج القرآن نے اپنے ٹارگٹ کے حصول کے لئے now or never کے اصول کے تحت کئی ایسے معرکے لڑے کہ جس کے بعد یوں لگتا تھا کہ بس اب تحریک ختم ہو جائے گی مگر نبی مکرم علیہ السلام نے اپنی توجہات سے اس تحریک میں اتنا potential بھر دیا ہے کہ ہر قسم کے نامساعد حالات کے باوجود یہ تحریک آگے بڑھ رہی ہے اور ہمیشہ بڑھتی رہے گی اور اسلام کی نشاۂ ثانیہ کا فریضہ ضرور سر انجام دے گی، ان شاءاللہ
4- عصر حاضر کی قوتوں کو اگر خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف Political Islam سے خطرہ ہے جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تحریک پولیٹیکل اسلام کی نمائندہ ایسی تحریک بن کے ابھری ہے کہ ایسی تحریک جس کا تعلیمی و تربیتی فکری و نظریاتی دائرہ کار زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی قیادت کا فکری و جذباتی ارتقاء توازن و اعتدال کے پیرائے میں ہوا ہے اس لئے مذہبی اور سیکولر انتہاپسندی کا شکار ہوتی ہوئی دنیا کے لئے یہ قیادت ایک مسیحا کا کردار ادا کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی جدوجہد کو اگر روایتی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جدوجہد کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کریں گے تو یہ زیادتی ہو گی، ان کی جدوجہد کو پرکھنے کے پیمانے مختلف ہونے چاہئیں کیونکہ ان کو درپیش چیلنجز مختلف ہیں ان کے افکار مختلف ہیں ان کے ٹارگٹس مختلف ہیں۔
5- قیادت کے ارتقائی عمل میں سب سے اہم عنصر فکری و جذباتی نشونما کا پہلو ہوتا ہے اگر قیادت کا فکری اور جذباتی ارتقاء کسی لسانی علاقائی یا نسلی تعصب یا نفرت کی بنیاد پر ہوا ہے تو ایسی قیادتیں انسانیت کے لئے خون خرابے کا باعث بنتی ہیں ایسی مثالوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی قیادت کا فکری و جذباتی ارتقاء توازن و اعتدال کے پیرائے میں ہوا ہے اس لئے مذہبی اور سیکولر انتہاپسندی کا شکار ہوتی ہوئی دنیا کے لئے یہ قیادت ایک مسیحا کا کردار ادا کر سکتی ہے۔
6- اپنی نظریاتی و فکری جامعیت اور ہمہ گیریت کے اعتبار سے یہ تحریک رسول نما تحریک ہے یعنی اس تحریک میں دین کے کسی گوشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا یعنی بغیر کسی deviation کے یہ تحریک نبی مکرم علیہ السلام کی تعلیمات کے تابع چلنے والی تحریک ہے اس لئے اس تحریک کو ہر اس فرد یا جماعت یا گروہ کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا جن کے دینی تصورات افراط و تفریط کا شکار ہیں یا وقت کے ساتھ ساتھ جن کے زاویہ فکر میں تعلیمات رسالت مآب ﷺ سے کچھ درجے انحراف وقوع پذیر ہوچکا ہے۔
7- اس تحریک کا ایک امتیاز یہ ہے کہ حق کی نمائندہ تحریک ہے اور حق ہمیشہ بے نیاز ہوتا ہے۔ اس تحریک میں صرف انہیں لوگوں کی خدمات قابل قبول ہوں گی جن کے جذبے بے لوث، ارادوں میں خلوص اور نیت میں للٰہیت ہوگی۔ جس کسی نے بھی کارکنان کے پروٹوکول اور گل پاشی کی آڑ میں اپنے نفس کو پال لیا یا اپنی خدمات کو تحریک پر احسان جانا تحریک اپنے دامن میں ایسے لوگوں کا وجود برداشت نہیں کرے گی۔