سفر عربی زبان کا لفظ ہے جس کی جمع اَسفار ہے، اس کا معنی مسافت طے کرنا ہے، اس میں کشف اور کھلنے کا معنی بھی پایا جاتا ہے، جبکہ مسافر کا معنی مسافت طے کرنے والا ہے۔ ہر زمانہ میں انسان کو اپنی حاجت اور ضرورت کے تحت مختلف سفر درپیش رہے ہیں۔ سفر کے مقاصد میں دنیوی ضروریات کی تکمیل اور دینی تشنگی کی آبیاری مقصود رہی ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں حضرت ذوالقرنین، حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہم السلام کے اَسفار کا تذکرہ جمیل ارشاد فرمایا اور انسانوں کو سفر کرنے کی تلقین فرمائی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’فرما دیجئے کہ تم زمین پر چلو پھرو، پھر (نگاہِ عبرت سے) دیکھو کہ (حق کو) جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔‘‘
(الانعام: 11: 6)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’ فرما دیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لئے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اس نے مخلوق کی (زندگی کی) ابتداء کیسے فرمائی۔‘‘
(عنکبوت، 20: 29)
اعلان نبوت کے بعد نبی مکرم ﷺ نے مختلف سلطنتوں کے بادشاہوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور صحابہ کرام کو سفیر بنا کر ان ممالک کی طرف روانہ فرمایا۔ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ میں صحابہ کرام نے سفر کیا۔ دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ وفود کی شکل میں سفر کر کے مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوتے اور مشرف بہ اسلام ہو کر اپنے علاقوں کو واپس لوٹ جاتے۔
قرونِ اولیٰ میں سلف صالحین اور آئمہ حدیث طلب حدیث کی خاطر دور دراز علاقوں کے سفر کیا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ روئے زمین پر مجھ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا علم رکھنے والا کوئی موجود ہے اور اس تک سواریاں پہنچ سکتی ہیں تو حصول علم کی خاطر میں اس تک ضرور پہنچوں گا۔
سلف صالحین اور اولیائے عظام کے طریق پر گامزن رہتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی سفر و حضر میں یکسوئی و تنہائی سے مستفید ہوتےہوئے تسبیحات و وظائف اور ذکر اذکار کی کثرت کرتے ہیں۔ بچپن سے ہی آپ کا معمول ہے کہ آپ جس طرح روزانہ کی بنیاد پر حالت سکونت میں مطالعہ اور تحریر و تصنیف میں وقت گزارتے ہیں اسی طرح دوران سفر بھی تصنیف و تالیف آپ کا معمول ہے۔ بیرون ملک قیام کے دوران آپ کی زندگی کے بیشتر ایام اِسی معمول میں گزرتے ہیں اور اکثر اوقات آپ کو کسی پرفضا مقام پر گھنٹوں محو مطالعہ دیکھا جا سکتا ہے۔ بیرون ملک سفر کے دوران آپ اکثر کسی خاموش ساحل سمندر یا پرسکون باغ میں تحریر و تصنیف کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جب آپ کسی دوسری ملک خاص طور پر مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کے سفر پر ہوتے ہیں تووہاں پر موجود لائبریری کا تفصیلی دورہ کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1963ء میں مدینہ منورہ میں حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی ؒ سے اپنی دینی تعلیمات کا آغاز کیا اور 1979ء میں مکہ مکرمہ میں سند حدیث و اجازۃ العلم امام محمد بن علوی المالکی المکیؒ سے حاصل کیا۔ آپ نے 1966ء میں اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی حصول علم کی غرض سے سفر شروع کیا۔ آپ روزانہ جھنگ سے فیصل آباد پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے تھے۔آپ نے 1970ء میں مصطفوی مشن کے فروغ اور احیاء اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے جھنگ سے لاہور ہجرت کی اور 1986ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
1966ء میں جب آپ گیارہویں کلاس کے طالب علم تھے آپ نے اپنے شیخ کامل قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی کی جانب کوئٹہ کا سفر کیا اور آپ کے دست حق پرست پر بیعت انقلاب کی۔ جس کے بعد آپ نے پاکستان کے مختلف شہروں میں محافل میلاد النبی ﷺ ، مجالس ذکر اہل بیت اطہار، ہمہ جہت کانفرنسز اور سیمینارز میں شرکت کے لئے باقاعدہ سفر شروع کیے۔ آپ نے عملی سیاست کے دوران پاکستان کے گلی گلی اور کوچہ کوچہ میں عوام الناس کو مصطفوی سیاست کا طرز اور دستور مدینہ سے روشناس کرواتے ہوئے بیداری شعور کی مہم کا آغاز کیا۔ آپ نے اپنے اسفار پاکستانی قوم کو آئین پاکستان کے مطابق اپنے حق کے لئے جدوجہد کرنے اور پاکستان کی نسلوں کو عشق مصطفیٰ ﷺ میں کندن بنانے کی عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔
آپ نے ترویج و اقامت دین کی خاطر دنیا کے تمام براعظموں کے متعدد ممالک کے اسفار کیے ہیں اور لا تعداد بین الاقوامی کانفرنسز، سیمینارز، مذاکرات و مجالس اور عوامی اجتماعات میں شرکت کر چکے ہیں۔ آپ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلم و غیر مسلم تمام مذاہب و مکاتب فکرکے لوگوں تک اپنے خطابات اور کتب و رسائل کے ذریعے قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کو پہنچا رہے ہیں۔ آپ نے متحدہ عرب امارات سمیت قومی و بین الاقوامی سرکاری و غیر سرکاری ٹیلی ویژن کی نشریات کے ذریعے قرآن مجید سمیت دیگر اسلامی موضوعات پر متعدد لیکچرز دئیے ہیں، نیز امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، مشرق بعید اور دنیا کے دیگر مختلف ممالک کی نامور یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں بھی اعزازی لیکچرز دے چکے ہیں۔دنیا بھر سے لاتعداد غیر مسلم آپ کے دورہ جات کے دوران آپ کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں۔
آپ کا ایک نہایت مشہور سفر نامہ ’’مناظرہ ڈنمارک‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا جس میں آپ دعوتی و تبلیغی دورہ ڈنمارک 1987ءمیں عیسائی پادریوں کے ساتھ چرچ میں قرآن اور بائبل کے موضوع پر مناظرہ کی روداد شائع کی گئی۔ آپ نے اس مناظرے میں نہ صرف عیسائی پادریوں کو شکست دی بلکہ کتب عیسائیت میں موجود تضادات کو واضح کرتے ہوئے قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کی حقانیت کو نہایت احسن انداز سے بیان کیا جس کے مثبت اثرات عالمی سطح پر پورے یورپ میں آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اس مناظرے میں عیسائی پادریوں نے ہاتھ بلند کرکے اپنی شکست تسلیم کی اور کئی لوگ عیسائیت سے اسلام میں داخل ہوئے۔
شیخ الاسلام سفر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب سفر شروع ہوتا ہے تو دیگر مصروفیات نہیں ہوتیں، اس طرح یکسوئی، تنہائی اور علیحدگی میسر آتی ہے جس کے نتیجہ میں تسبیحات اور ذکر اذکار کے لئے وقت مل جاتا ہے۔ آپ قدرتی حسین و دلکش مناظر، سرسبز و لہلہاتے باغات، پرفضاسبزہ اور بلند و بالا پہاڑوں کی حسین وادیوں میں سفر کرنے کو نہایت پسند کرتے ہیں۔ آپ نے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے کارکنان اور رفقاء کے ہمراہ اسی طرز کے مقامات پر سیر و سیاحت بھی کی ہے۔ پاکستان میں آپ کا شریعہ کالج کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ یادگار ترین سیر و سیاحت لاہور میں واقع جلو پارک کی سیر ہے جبکہ قائدین و کارکنان کے ہمراہ شمالی علاقہ جات ناران کاغان کاتربیتی و سیاحتی دورہ ’’گولڈن جرنی‘‘ بھی کیا ہے۔
دوران سفر آپ اپنے ذوق کے مطابق قوالی یا پھر نعت شریف سننا پسند فرماتے ہیں۔ آپ ہمیشہ اور ہر جگہ سفر کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ آپ کبھی بھی کسی کی دل آزاری نہیں کرتے بلکہ دوران سفر رفقاء کی دل جمعی اور دلچسپی کی غرض سے ان کے ساتھ مزاح سے پیش آتے ہیں۔آپ کبھی بھی غیر اخلاقی یا بیہودہ کلام نہ خود کرتے ہیں اور نہ کسی کو مجال ہوتی ہے وہ ایسا کوئی جملہ بھی آپ کی موجودگی میں کہے۔ آپ کا مزاح نہایت شستہ، خوشگوار اور دل موہ لینے والا ہوتا ہے۔
سفر کے دوران جو رفقاء آپ کے ہمراہ ہوتے ہیں حتی کہ سیکیورٹی گارڈز یا ڈرائیورز کے آرام و سکون، رہائش، کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھناآپ کے مزاج اور طبیعت کا حصہ ہے۔ ان کی رہائش، کھانے پیسے اور ضروریات کے معاملے میں بھی یکطرفہ فیصلہ نہیں کرتے بلکہ مشاورت سے کام لیتے ہیں۔ آپ کی اب تک کی 73 سالہ زندگی میں جو لوگ کسی بھی ملک میں آپ کے شریک سفر بنیں ہیں ان کے ساتھ بیشمار یادگار، خوشگوار اور فقید المثال واقعات جڑے ہیں۔ آپ کی توجہ کے پیش نظر دنیا کے ہر کونے میں کسی بھی حوالے سے آپ سے ملنے والا ہر شخص آپ سے مل کر یہی محسوس کرتا ہے کہ یہ ملاقات خاص اسی کے لئے تھی۔
ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں آپ کے ہمراہ حسان پاکستان محمد علی ظہوری کو سفر کا موقع ملا توانہوں نے سفر کی روداد سناتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام مجھ سے اکثر اوقات نعتیہ کلام سنتے، پھر شہر مدینہ سے اپنی محبت و الفت کا والہانہ اظہار کرتے ہوئے اشکبار ہو جاتے۔ وہ لوگ جنہوں نے آپ کے ساتھ مدینہ طیبہ، شام، ایران و عراق کے تربیتی و تبلیغی دورہ جات کیے ہیں انہوں نے آپ کو ہجر وفراق رسول ﷺ اور محبت اہل بیت اطہار میں ماہی بے آب کی طرح مچلتے اور تڑپتے دیکھا ہے۔ دفتر امور خارجہ پاکستان کے ڈائریکٹر جی ایم ملک بیان کرتے ہیں کہ مؤذن رسول سیدنا بلال حبشی ؓ کے مزار اقدس پر آپ نے نہایت پرسوز انداز میں اذان دی وہاں پر موجود حاضرین پر رقت و گریہ زاری کی کیفیت طاری تھی۔ آپ کی امامت میں نماز بھی پڑھی اور یہ تمام وجد آوارمناظر اور کیفیات ناقابل بیان ہیں کہ ان کو الفاظ کی شکل دی جا سکے۔
پاکستان سمیت دنیا میں جب بھی کسی ایسے ولی کامل یا برگزیدہ ولی کے مزار کی زیارت کو جاتے ہیں جہاں اس سے منسلک کوئی بازار ہو تو وہاں سے یا بذات خود یا پھر کسی دوسرے شخص کو اپنی جیب سے پیسے دیکر ان قریب کی دکانوں سے کچھ نہ کچھ ضرور خریداری کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ موجود لوگوں کو اکثر اپنی طرف سے خریداری بھی کرواتے ہیں، کبھی انہیں پیسے دیکر تلقین کرتے ہیں کہ اپنے بچوں اور فیملیز کے لئے تحائف لے جائیں۔ کبھی رفقاء کی سحری و افطاری کے اخراجات بھی اپنی جیب سے کرتے ہیں۔لاتعداد افراد آج بھی عینی شاہد ہیں کہ مدینہ منورہ کے وزٹ کے دوران آپ کا ادب اور نیازمندی قابلِ رشک ہوتی ہے۔ آپ سراپا ادب بن کر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ عالیہ میں نہایت عاجزی اور انکساری کا پیکر بن کر حاضری دیتے ہیں جسے کسی حد تک دیکھا اور محسوس تو کیا جا سکتا ہے مگر الفاظ میں ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ آپ کا مدینہ طیبہ میں اکثر یہ معمول رہتا ہے کہ وہاں کے خادمین میں پیسے تقسیم کرتے ہیں اور جتنے جیب میں پیسے ہوں تمام کے تمام ان میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ مدینہ پاک کے غرباء میں صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔ آپ کا کوئی سفر حج یا عمرہ ایسا نہیں گزرا جب آپ نے تحریک منہاج القرآن کے رفقاء و اراکین کو اپنی دعاؤں میں یاد نہ رکھا ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں تو مدینہ طیبہ کے کتوں کا ادب بھی ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں۔
اللہ رب العزت نے شیخ الاسلام کی شخصیت کو تحمل و بردباری کا ایسا مظہر بنایا ہے کہ آپ سفر و حضر میں کبھی جذباتی نہیں ہوتے، اگرچہ کوئی بات آپ کی طبیعت یا مزاج پر گراں بھی گزرے تب بھی تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آپ نے اشاعت و تبلیغ اسلام کی غرض سے زندگی بھر جتنے بھی سفر دنیا کے طول و عرض میں کیے ہیں کبھی کسی سفر کا معاوضہ نہیں لیا، کبھی کسی تقریر کا پیسہ نہیں لیا۔ آپ اس معاوضے کو اپنے اوپر حرام قرار دیتے ہیں۔ آپ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ میں یہ کام اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب مکرم ﷺ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر کرتا ہوں اس کا معاوضہ وہ دیں گے، مجھے اس فانی دنیا سے کوئی معاوضہ نہیں چاہیے۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو صحت و سلامتی اور درازی عمر عطا فرمائے اور ہمیں بھی صدق دل سے مصطفوی مشن کا خادم بنائے، ہم سے وہ کام لیا جائے کہ جس سے حضور نبی اکرم ﷺ اس مصطفوی مشن کے صدقے ہماری اس نوکری کو قبول فرما لیں۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ