خصوصی معاونت: نازیہ عبدالستار
تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ سے وہی قومیں منصب قیادت پر فائز رہی ہیں جو علوم و فنون میں دوسری قوموں سے آگے تھیں قوموں کو علم کی راہ پر گامزن کرنے میں علماء و اساتذہ کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ یہی تو ہیں جو ایک قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد بھی ایسے ہی ایک استاد کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے جس نے نہ صرف ہمارے دلوں کو گنبد خضریٰ سے جوڑا بلکہ لاکھوں کروڑوں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے کردار سنوارنے اور نکھارنے میں اپنی زندگی کو وقف کیا۔ جنھوں نے نہ صرف ہمارے ظاہر کو نکھارا بلکہ باطن کو بھی جلا بخشی وہ ایک ایسے استاد و مربی ہیں جن کے بارے میں جامعۃ الازہر شریف کے اساتذہ کو بھی یہ کہنا پڑا کہ ’’آج ہمیں ہمارا بچھڑا ہوا بیٹا مل گیا‘‘ کیوں کہ انھوں نے نہ صرف اپنے ملک و قوم کو تعلم و تحقق کی جانب راغب کیا بلکہ عرب و عجم کو بھی ترقی اور علم و تحقیق کے موتی ڈھونڈ کردیئے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے اس معلم کو جن کا نام شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہے۔ اللہ کریم ہمیں ان کے سایہ علمی و تحقیقی معارف سے کبھی محروم نہ رکھے۔ (آمین)
زندگی میں ضرورتِ شیخ و مربی کی اہمیت پر روشنی ڈالنے اور شیخ الاسلام کو دلچسپ انداز میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ نے 3 روزہ پینل ڈسکشن بعنوان ’’شیخ الاسلام سیریز فکر و نظر کو جس نے پھر بال و پر دیئے‘‘ کا اہتمام کیا ہے۔ جس کی 3 نشستوں کو قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے:
پہلی نشست:
- ہوسٹ: رافعہ ملک
- مہمان: ڈاکٹر فرح ناز (صدر منہاج القرآن ویمن لیگ)، عائشہ مبشر (زونل ناظمہ سندھ، ڈائریکٹر وائس)
رافعہ ملک: ایک شیخ، قائد اور استاد کسے کہتے ہیں اور ان کی تعریف کیا ہے؟
ڈاکٹر فرح: یہ تینوں اصطلاحات مختلف ہیں اور تینوں ہی اہم ہیں۔ اگر شیخ و معلم کے بارے میں بات کریں یہ تینوں ہستیاں ہی معاشرے کی معمار ہیں جن پر معاشرے کی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے جب انسان اللہ کے راستے پر چلتا ہے اور شعور کی منزلیں طے کرتا ہے تو یہ تینوں ہستیاں انسان کی شخصیت میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں اور اس کو ایک مقام تک پہنچانتی ہیں۔ انسان کو زندگی کی اقدار اور نظریہ سیکھا تی ہیں۔
1۔ استاد: استاد اصل میں اس کو کہا جاتا ہے جو کسی کو کوئی کام سکھادے۔ انسان کی زندگی میں بہت سے استاد آتے ہیں۔ اگر ماسٹر کی ڈگری حاصل کریں تو تقریباً 50 اساتذہ سے واسطہ پڑتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے کا استاد مختلف ہوتا ہے۔
2۔ قائد: قائد اس شخص کو کہا جاتا ہے جو قومی سطح پر نیشنل پارٹی کی نمائندگی کرتا ہے،جو رہنمائی کی اہلیت رکھتا ہے،جس کے پیروکار ہوں۔ قائد جس گروپ کی نمائندگی کرتا ہے اس کے مسائل کا حل بھی فراہم کرتا ہو۔
3۔ شیخ: شیخ ایک روحانی اصطلاح ہےشیخ کوئی مقام اور عہدہ نہیں بلکہ زندگی کے راستے کا شعور دیتا ہے۔شیخ ایک صاحب دانش اور معتبر ہستی کا نام ہے جو پیشوا ہوتا ہے وہ ہاتھ پکڑ کر پیغام حق تک لے جاتا ہے،انسان کی تربیت کرتا ہے اگرہم معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو یہ خیال کرنا کہ اداروں سے تبدیلی آتی ہے تو یہ ایک وسوسہ ہےجبکہ تبدیلی کے لیے مربی کا ہونا بہت ضروری ہےجیسے کہ تاریخ میں جو سب سے بڑا انقلاب آیا ہے وہ نبی کریم ﷺ کی ہستی سے بپا ہوا ادارے تو بعد میں بنے۔آپ ﷺ کے سیرت و اخلاق کی وجہ سے لوگوں نے زندگی کی نئی راہیں دیکھیں۔ اساتذہ بہت ہوسکتے ہیں لیکن شیخ و مربی ایک ہی ہوتا ہے وہ ایک منزل تک لے کر جاتا ہے اور یہ اللہ کے کرم سے ہوتا ہے۔
مربی کی علامات: جس کی صحبت میں چند لمحے گزارنے کے بعد آپ کو دنیا بیزار لگے آپ کی اخلاقیات میں تبدیلی نظر آئے شیخ کو ملنے کے بعد معافی کی صلاحیت میں اضافہ ہوجائے ا،ٓقا علیہ السلام سے محبت میں اضافہ ہوجائے جیسا کہ اقبال نے کہا:
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
نیک لوگوں کا راستہ تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ تبدیلی کے لیے صاحب حال کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کے اندر کو جان کر سیدھی راہ پر ڈال دے اس کو مربی کہا جائے گا۔ اگر ہماری زندگی میں کوئی شیخ و مربی نہیں تو ہم نفس کی پیروی کررہے ہیں۔ اگر شیخ و مربی ہماری زندگی میں ہیں تو ہم نفس کو ضبط کریں گے اور شیخ کی پیروی کریں گے۔ شیخ کے بغیر زندگی بالکل کھوکھلی ہے۔ شیخ کے ساتھ تعلق کو معلم اور جائے مربی کو مکتب کہتے ہیں۔
رافعہ ملک: شیخ الاسلام کا طریقہ تدریس کیا ہے؟
عائشہ مبشر: جہاں تک میں نے شیخ الاسلام کو پڑھا اور سمجھا ہے وہ ان کی علمی ثقاہت ہے جس کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ایک معلم کے لیے ضروری ہے کہ جو پڑھانا ہے اس پر وہ عبور رکھتا ہو۔ وہ علم جو دور جدید کے تقاضوں کے ساتھ تبدیل نہ ہو وہ مٹ جاتا ہے۔معلم وہ ہے جومعاشرے میں آنے والے مسائل کا حل بھی جانتا ہو۔ ایک دوسری چیز ان کی تحقیقی صلاحیت ہے۔ ہر نئی چیز کی جستجو شیخ الاسلام کے طریقہ تدریس کا حصہ ہے۔ تیسری چیز تہذیب اخلاق ہے جوشیخ الاسلام کے طریقہ تدریس کا حصہ ہے۔ لیکچر کے دوران وہ ہر ایک پر نگاہ رکھتے ہیں ان کے طلبہ میں ہر عمر ہر جنس اور ہر ذہن کے لوگ موجود ہیں آپ کی گفتگو علمی اصطلاحات سے بھرپور ہوتی ہے۔ ڈاکٹر، انجینئرز، استاد، عام، خاص ہر طرح کا طبقہ آپ کے علم سے مستفید ہوتا ہے۔ ایک اچھے استاد کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اُس میں قائدانہ صلاحیتیں ہوں۔ بنیاد ی طور پر استاد اپنے سبجیکٹ کا لیڈر ہوتا ہے اگر اس میں کردار کی مضبوطی، علم پر عبور اور انداز میں شکستگی نہیں ہوگی تو لوگ اس کو تسلیم نہیں کریں گے۔
ہمارے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں گریجویٹس اور ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کرچکے ہیں۔ ہیں لیکن وہ ترقی نظر نہیں آتی جو ملک میں ہونی چاہیے۔ تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ ایک استاد کو تہذیب اخلاق کا تعلق قائم کرکے طلبہ میں جستجو کے مادے کو ابھارنا چاہیے۔استاد جس بھی مضمون کی تعلیم دے رہا ہو اسے اپنے طلبہ کو اتنا ماہر کردینا چاہیے کہ اگر عملی طور پر وہ کسی بھی میدان میں آئیں تو خود کو اجنبی محسوس نہ کریں۔
استاد طلبہ کو تہذیب، اخلاق ،علم بھی سکھاتا ہے زندگی کا شعور بھی دیتا ہےاور مقصد حیات بھی دیتا ہے۔ اگر شیخ الاسلام کو بطور استاد سامنے رکھیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔بطور معلم شیخ الاسلام علم کے موتی سمیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ الازہر کے شیوخ بھی آپ کو الازہر کا بچھڑا ہوا بیٹا کہتے ہیں۔
رافعہ ملک: شیخ الاسلام کی بطور معلم وہ کون سی خصوصیات ہیں جو آج کے استاد کے لیے مینارہ نور ہیں؟
ڈاکٹر فرح ناز: بطور قائد، شیخ اور معلم کے اوصاف پر آپ کی شخصیت پورا اترتی ہے وہ خصوصیات جو شیخ الاسلام اپنے معلم کو دیتے ہیں وہ تین ہیں۔ ایک استاد کے لیے تین پیمانے ہیں۔
1۔ مضمون پر عبور: جو مضمون پڑھانا ہے اس پر اسے کتنا عبور ہے اور اس مضمون پر وہ کتنا اپ ڈیٹ ہے؟
2۔ آپ کے پاس علم ہے آپ نے علم کو کس طرح بیان کیا؟ طلبہ کو کس طرح پڑھایا آپ کے پڑھانے کا انداز کیا ہے۔ آپ نے علم کو کتنا سمجھایا ہے۔ کتنا طلبہ کے اندر اتارا ہے۔
3۔ آپ بطور استاد اپنے کردار و اخلاق میں کتنے بلند ہیں۔ میری نظر میں یہ تین پیمانے ہیں جو استاد ان خصوصیات یا خوبیوں کا حامل ہے وہ بہترین استاد ہے جو کبھی بھی اپنے طلبہ کے ذہنوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ شیخ الاسلام کی ذات ہمیں یہ تین پیمانے دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔
شیخ الاسلام کی نہ صرف اپنے مضمون پر مہارت ہوتی ہے بلکہ اس مضمون پر جتنی بھی تحقیقات ہوچکی ہیں، کی تفصیل بھی بیان کرتے ہیں۔ آپ کے لیکچر کے بعد بلکہ محقق کے لیے نئی راہیں کھلتی ہیں کہ ہم اس مضمون کوا س طرح سے بھی بیان کرسکتے ہیں جب کہ عام استاد نے جو ایک مہینہ پہلے مضمون پڑھایا تھا ایک مہینہ بعد بھی اس پر وہی لیکچر ہوگا جیسا کہ بالخصوص ہمارے دینی ادارہ جات میں معلمین کرتے ہیں جو انھوں نے پانچ یا دس سال پہلے لیکچر تیار کیا ہوتا ہے آج بھی وہی لیکچر دیتے ہیں یہ ہمارے معلم کے لیےبہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ آج کی گفتگو کا مقصد بھی یہ ہے ہم ان خامیوں کو دورکریں۔ ان پیمانوں کو اپنائیں جو ہمیں شیخ الاسلام کی ذات معلم ہونے کی حیثیت سے دیتی ہے۔ شیخ الاسلام کا نظریہ صرف پڑھا دینا نہیں وہ تعلیم کے ساتھ تربیت اور تعلیم کے ساتھ تعمیر اورشعور کو لازمی قرار دیتے ہیں تب جاکر ان کا نظریہ مکمل ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام جو پڑھا رہے ہوتے ہیں وہ سیکھا بھی رہے ہوتے ہیں۔ آپ اپنے طلبہ کو عملی مشق تک پہنچادیتے ہیں طالب علم اس کا اطلاق و نفاذ سیکھ جاتا ہے۔اگر فقہ سکھارہے ہیں تو فقہ کا اطلاق بھی سکھارہے ہوتے ہیں۔
کسی بھی مضمون کا عملی اطلاق سکھا دینا بہت ضروری ہے جو کہ آج کے معلم میں نظر نہیں آتا۔ آپ شیخ الاسلام سے کوئی مضمون بھی پڑھ لیں آپ کلاس روم سے باہر جانے سے پہلے اس کا عملی اطلاق بھی سیکھ چکے ہوں گے یہ ان کی امتیازی خصوصیت ہے۔
رافعہ ملک: آپ کی نظر میں شیخ الاسلام کی تعلیمات کے نتائج و ثمرات کیا ہیں؟
عائشہ مبشر: یہ ثمرات دو طرح کے ہیں۔ ایک انفرادی اور دوسرے اجتماعی ثمرات ہیں جو کسی کی نظر سے بھی اوجھل نہیں ہیں۔ شیخ الاسلام نے اخلاق حسنہ اور تہذیب اخلاق کے ذریعے رفقاء، شاگردوں کے کردار کو سنوارا ہے۔علم حاصل کرنے کے پیمانے دیئے ہیں۔ منہاج القرآن کے ادارہ جات دنیا بھر میں نظر آئیں گے۔ شیخ الاسلام انسانیت کو بلا رنگ و نسل اور مذہب خدمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ انفرادی سے اجتماعی ثمرات کا اظہار ہے کہ چوتھی نسل نے بے شک براہ راست ان سے پڑھا نہیں لیکن وہ ان کے لیکچر سنتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی کتب پڑھتے ہیں۔ ان سے اپنے عقائد و باطن کو سنوارتے ہیں۔ ان کے سٹوڈنٹس معاشرے میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی بہت بڑی خصوصیت ہے کہ جو اُن کی ایک کتاب پڑھ رہا ہے، لیکچر آڈیو یا ویڈیو سن رہا ہے وہ علمی طور پر سیراب ہورہا ہے۔
اس وقت شیخ الاسلام کے ہزاروں کی تعداد میں شاگرد میڈیکل، ایجوکیشن ریسرچ سیکٹر میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس وقت جدید ٹیکنالوجی میں منہاج القرآن اپنی ہم عصر آرگنائزیشنز میں سے 50 سال آگے ہے۔ شیخ الاسلام نے اپنی صلاحیت اور جدت اخلاق سے اپنے طلبہ کو اتنا باشعور کیا ہے کہ جنھوں نے منہاج القرآن کو وہ جہت دی ہے کہ اگلی صدی تک بھی اس کو کوئی زوال نہیں ہے۔ اگر ہم شیخ الاسلام کی تعلیمات کی پیروی کریں تو ہم اپنے اپنے میدان میں ماہر ہوسکتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی نذر:
انھیں پڑھو زندگی ملے گی
انہیں سنو آگہی ملے گی
یہ ارتقاء کا پیغام بھی ہے
ضمیر نو کا امام بھی ہے
یہ قوم سے ہم کلام بھی ہے
جو کھوچکی شعور دوراں
اے عظیم قائد اے عظیم انسان تجھے سلام تجھے سلام
دوسری نشست:
- ہوسٹ: رافعہ ملک
- مہمان: ڈاکٹر فرح ناز (صدر منہاج القرآن ویمن لیگ)
رافعہ ملک: شیخ اور استاد کے حقوق کیا ہیں۔ ایک شاگرد ہونے کے ناطے ہمیں اس کا خیال کس طرح کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر فرح ناز: اسلام کی تاریخ عظمتوں کی تاریخ ہے اور اہل عظمت لوگوں کا اعتراف کرنا ہمارے اوپر فرض ہے۔ جو قوم اساتذہ کی قدر نہیں کرتی، ان کی تاریخ مسخ کردی جاتی ہے جو اساتذہ کا احترام کرتے ہیں وہ بلندیوں کو چھوتے ہیں اس لیے شیخ اور استاد کے حقوق جاننا بہت ضروری ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ
جس شخص نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں لہذا ادب و احترام بہت ضروری ہے اس کے لیے امام زین العابدینؓ نے رسالہ حقوق میں بڑی وضاحت کے ساتھ حقوق بیان فرمائے ہیں۔
1۔ جس سے علم حاصل کرتے ہو اس کی عزت کرو۔
2۔ اس کی بارگاہ کو محترم مانو جب تک ان کی مجلس میں بیٹھے ہو۔
3۔ جب وہ گفتگو کررہا ہو اس کی بات توجہ سے سنو۔
اساتذہ کے حقوق میں مزید اضافہ کردیا جائے تو یہ شیخ کے حقوق بن جائیں گے۔ ہماری تاریخ نے ہمیں کتنے عظیم رہنما دیئے ہیں اگر ان کے اصول و نظریات کو جان کر عمل کے سانچے میں ڈھالیں تو ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
4۔ جب استاد تمھیں علم دے رہا ہو تو تمام توجہ اس کے پیغام پر مرکوز رکھو جس سے تمھیں رہنمائی مل رہی ہوتی ہے۔
5۔ جب تم استاد کے پاس بیٹھو تو اس کی طرف رخ کرکے بیٹھو کبھی بھی اس کی طرف پشت نہ کرو۔
6۔ جب ان کی بارگاہ میں بیٹھو تو کوشش کرو کہ تمھاری آواز ان کی آواز سےبلندنہ ہو۔
7۔ ا گر کوئی شخص سوال کرے تو استاد کے جواب سے پہلے جواب نہ دو۔
8۔ جب ان کے سامنے پیش ہوں تو کسی کی غیبت نہ کرو۔
9۔ جب تمھارے سامنے کوئی تمھارے استاد کی خامیاں بیان کررہا ہو تو تم اس کو منع کرو حضرت علیؓ نے بھی فرمایا: اپنے استاد کی لغزش تلاش نہ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ استاد سے اس وقت تک فیض نہیں پایا جاسکتا جب تک استاد کی ذات میں فنا نہیں ہوجاتے۔ یاد رہے کہ ہر انسان خوبی و خامیوں کا مجموعہ ہے۔
10۔ اگر تمھیں استاد کی کوئی خامی نظر آئے تو اس کی پردہ پوشی کرنی چاہے ان کی خوبیوں کا اظہار کرو۔
11۔ اپنے استاد کا احترام کرو خواہ وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو۔ غیبت تو بہت دور کی بات ہے اگر اصل میں بھی کوئی چیز نظر آئے تو بھی پردہ ڈالو۔
12۔ کبھی اپنے استاد کے دشمنوں/ ناقدین کی ہم نشینی اختیار نہ کرو۔
13۔ جو تمھارے استاد سے محبت رکھنے والا ہو تم اس سے عداوت نہ کرو۔
ضروری نہیں کہ ان کے پیروکاروں میں ایک طرح کی محبت کرنے والے ہوں اس میں مضبوط اعصاب اور شخصیت کے حامل افراد بھی ہوسکتے ہیں اور کمزور بھی ہوسکتے ہیں ان سے دشمنی نہ رکھو۔ انہی پیرامیٹرز کو اپنانے سے ہمارے سامنے بہت سے راستے کھلتے ہیں اور ہماری زندگی سنور جاتی ہے اور شیخ کے ساتھ ہمارے تعلق میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔
استاد کےحقوق کے نتائج و ثمرات
اگر تم ان حقوق کو بجا لاؤ گے تو ملائکہ تمھارے حق میں گواہی دیں گے کہ تم نے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے علم حاصل کیا اور تمھیں اللہ کی بارگاہ میں بہترین مقام حاصل ہوگا۔ علم ایک روشنی ہے جب تک ہم ان حقوق کو بجا نہیں لائیں گے اس نور کو نہیں پاسکیں گے۔
حضرت ابو حنیفہؒ ایک باغ میں بیٹھے تھے ان کے شاگردبھی اُدھر ہی بیٹھے لکھ رہے تھے۔ا ن کے شاگرد امام ابو یوسفؒ موجود تھے۔ ایک بچہ گیند پھنکتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ فوراً کھڑے ہوجاتے ہیں اورسارے صفحات بکھرجاتے ہیں پھر سارے صفحات ترتیب دیتے ہیں پھر وہ بچہ اگیند پھنکتا ہے پھر سے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دوبارہ صفحات ترتیب دیتے ہیں۔ حتی کہ سات بار ایسا ہوتا ہے۔ امام ابو یوسف بڑے حیران ہوئے جب ساتویں بار ایسا ہوا تو ان سے رہا نہ گیا امام ابو یوسف پوچھتے ہیں کہ استاد محترم بچے نے تو بار بار آنا ہے اور آپ بچے کے آنے پر بار بار کھڑے ہوجاتے ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ نے جواب دیا آپ کو علم نہیں یہ میرے شیخ کا پوتا ہے وہ سو بار بھی آئے گا تو میں سو بار کھڑا ہوں گا۔
رافعہ ملک: کیا استاد کی رائے میں اپنی رائے کو ضم کردینا چاہیے یا ادب کے ساتھ شاگرد کے پاس حق ہوتا ہے کہ وہ آزادی رائےکے ساتھ اختلاف رائے کرسکتا ہے؟
ڈاکٹر فرح ناز: اختلاف کا مطلب اور طریقہ کار جاننا بہت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں طریقہ کار یہ ہے کہ اختلاف سے شروع ہوتے ہیں اور مخالفت تک پہنچ جاتے ہیں۔ مخالفت کی وجہ انا ہوتی ہے وہ ان کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ کسی نقطہ نظر سے یا علمی نکتہ سے اختلاف ہوجانا اور اگرکوئی دوسرا نکتہ نظر پیش کرنا ہو تو حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے اگر اسلام کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اسلام میں وسعت اختلاف رائے سے ہی آئی ہے۔اپنے استاد سے اختلاف کرسکتے ہیں جب ہم ادب کی بات کرتے ہیں تو ادب کا مطلب مکمل اطاعت نہیں ہوتا۔ مختلف نکتہ ہائے نظر پیش کرسکتے ہیں مگر اپنے دائرے میں رہ کر کریں اس لیے ادب اور اختلاف کو جاننا بہت ضروری ہے۔جس بھی اختلاف کے بارے میں بات کررہے ہوں اس کے پس منظر اور محرکات کو سامنے رکھ کر بات بیان کریں۔ بڑے ادب کے دائرے میں رہ کر بیان کریں کہ مجھے اس بات پر اختلاف ہے۔اختلاف تنقید کی وجہ سے نہیں کرنا۔ آپ دلائل کی بنیاد پر اختلاف رکھیں لیکن مخالفت کا راستہ اختیار نہیں کرسکتے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے ہمیں حق کی راہ پر گامزن رکھے۔ اگر ہماری زندگیوں میں کمی ہے تو ہمیں بہترین صحبت عطا فرمائے جو ہمیں اپنے مقصد سے آشنا کردے۔
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
تیسری نشست:
- ہوسٹ: ایمن یوسف
- مہمان: ڈاکٹر فرح ناز (صدر منہاج القرآن ویمن لیگ)، ڈاکٹر شاہدہ نعمانی (نائب صدر منہاج القرآن ویمن لیگ
ایمن یوسف: شیخ الاسلام کا خواتین سے متعلق واضح نظریہ کیا ہے؟ آج کل خواتین کے نظریات ہمیں فکر میں مبتلا کرتے ہیں، کیا اس نظریہ کے حوالے سے ہمارے شعور میں کمی آرہی ہے؟
ڈاکٹر فرح : شیخ الاسلام کی شخصیت کا مطالعہ کریں تو وہ علم بھی، فکر بھی اور علوم کا جامہ اور حقائق کا مجموعہ بھی ہیں اور بہت سے نظریات کے بانی بھی ہیں۔ خواتین کے حوالے سے جو ان کا نظریہ ہے وہ ایک تسلسل ہے حضور نبی اکرم ﷺ کے نظریہ کا۔ جو نظریہ نبی اکرم ﷺ نے دیا اس کا عملی اظہار شیخ الاسلام کی ذات سے ہمیں ملتا ہے اس نظریہ کی روشنی میں عورت انسان ساز ہے۔ عورت اس کائنات میں ایک ولی کا مقام بھی رکھتی ہے اوروہ تعمیر ملت کی بنیاد بھی ہے۔ تعمیر سیرت انبیاء علیھم السلام کا جو مشن تھا اس کی کنجی ایک عورت کے پاس ہے۔انسانیت کی معراج کا حوالہ بھی عورت ہے۔
عورت اپنے تشخص و اختیار اور روحانی مقام کے ساتھ بہت اہم کردار کی حامل ہے۔ اگر کسی قوم کے مستقبل کو دیکھنا ہو تو اس قوم کی ماؤں کو دیکھیں جو ماؤں کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے وہی اسی قوم کا مستقبل ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام عورت کو ایک گھر کے اندر بند کرکے ناکارہ نہیں کرتے آپ سے قدامت پسند نظریات کا نچوڑ ملتا ہے۔ دوسری طرف ایک انتہا ہے یعنی مرد وزن کی برابری کا تصور ملتا ہے۔ شیخ الاسلام کے نظریہ کے مطابق عورت معاشرہ کے اندر ایک فعال کارکن، شہری اور کامیاب ماں اور بیوی بن کر معاشرے کی تعمیر میں ایک بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ساری ذمہ داریاں الگ الگ ہیں اگر ایک عورت کو گھریلو عورت کے طور پر دیکھتے ہیں تو اسے یہ نہیں کہتے کہ اپنا کیریئر دیکھو اور اپنا گھر قربان کردو۔
آپ ایک گھریلو عورت کی بھی تربیت کرتے ہیں۔ میرج کونسلنگ کرتے ہوئےنصیحت کرتے ہیں کہ جب آپ نے زندگی کا نیا سفر شروع کرنا ہے تو گھر کو کتنا وقت دینا ہے یہ کتنا ضروری ہے۔ اپنے کردار، فکر، عمل کو کچھ وقت کے لیے محدود کرنا ہے۔ اپنے گھر کو مضبوط کرکے پھر معاشرہ میں بھی کردار ادا کرنا ہے مثلاً تعلیم، جاب، معاشرے کی بہتری کے لیے گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ باقی کام کیا جاسکتا ہے۔ جیسے ہماری زندگی میں نماز، زکوٰۃ، حج اپنی جگہ ہیں۔ آپ نے بچے کی خاطر نماز کو نہیں چھوڑنا بلکہ آپ نے بچے اورنماز اور گھر سب کو دیکھنا ہے اگر گنجائش ہے تو حج کرنے بھی جانا ہے۔ حج کو اس لیے ترک نہیں کرسکتے کہ آپ نے نمازیں ادا کرلی ہیں۔ سب چیزیں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں یہ ساری ذمہ داریاں بروقت ادا کرنی ہیں۔
ایمن یوسف: شیخ الاسلام کے نظریہ خواتین کو آپ منہاج القرآن ویمن لیگ کے تناظر میں کیسے دیکھتی ہیں۔ آپ اپنے ذاتی تجربات سے کچھ بیان کریں۔
ڈاکٹر شاہدہ: 1988 ء کی بات ہے میری جب شیخ الاسلام سے بات ہوئی تو ایک حیرت کدہ تھا جس میں ہم سب ڈوب جاتے تھے۔ وہ چیزیں جو کسی مولوی نے کبھی نہیں بتائیں۔مشاہدہ میں آیا ہےجتنی بڑی شخصیات ہیں اگر ان کے قریب جائیں تو ان کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے مایوسی ہوتی ہے لیکن شیخ الاسلام کے جتنے قریب ہوئے تو ان کی شخصیت کا اندازہ ہوا کہ کتنی عظیم ہستی ہیں۔وہ سب کی بلخصوص خواتین کی بہت شفیق باپ کی طرح رہنمائی فرماتے ہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ سب سے بڑی تنظیم ہے شیخ الاسلام ویمن لیگ کی سرپرستی فرماتے ہیں اور بہت حوصلہ افزائی فرماتے ہیں اگر آپ ویمن لیگ کی ایک کارکن کو بھی دیکھیں گے تو اس کا کردار معاشرے میں الگ سے نظر آئے گا۔ شیخ الاسلام کا قوم کے ساتھ اخلاص بہت زیادہ ہے۔ ویمن لیگ کی کارکن نے ایک خاتون کے مسئلہ کو شیخ الاسلام کے سامنے بیان کیا۔ شیخ الاسلام نے فرمایا آپ تنظیمی کام کو بعد میں کریں پہلے خواتین کے مسائل کو حل کریں۔ میں ورطہ حیرت میں ڈوب گئی کہ ابھی تو کام شروع ہورہا ہے کیسی عظیم شخصیت ہیں کہ اپنے کام سے ہٹ کر معاشرتی مسائل کو حل کررہے ہیں۔ ہماری خواتین گھر اورسسرال سے نکل ہی نہیں رہیں جبکہ شیخ الاسلام کا تصور اس سے بہت بالاتر ہے انھوں نے خواتین کی صلاحیتوں کو صحیح رخ پر استعمال کرنے کا ایک پلیٹ فارم دیا ہے جو منہاج القرآن ویمن لیگ ہے۔
شیخ الاسلام کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں وہ ایک سمندر ہیں جہاں جہاں جائیں گے آپ اس میں ڈوبتے چلے جائیں گے اور موتی نکالتے جائیں گے۔ ان کے بہت احسانات ہیں۔ بطور قائد و مربی جو ان سے وابستہ ہوگئے ہیں وہ تو بہت مستفید ہورہے ہیں ان کی شخصیت کا اہم پہلو فکر کی آبیاری ہے۔ جہاں تک بات ایک خاتون کی ہے تو جب ہم نے ڈاکٹر صاحب سے بات کی تو ذہن کے بند دریچے کھل گئے کہ اسلام میں عورت کا مقام کیاہے؟ ڈاکٹر صاحب کاامت مسلمہ پر احسان ہے کہ انھوں نے بتایا کہ دین نے عورت کو بہت سےحقوق دیے۔ عورت کے متعلق سیاسی، سائنسی اور روحانی حوالے سے جو فکر انھوں نے دی وہ کہیں سے نہیں ملتی جب کہ دنیا کےقانون میں عورت کو محدود کیا جاتا رہا ہے۔
ایمن یوسف: عورت کی آزادی کا تصور کیا ہے اور ایمپاورمنٹ کیا ہے؟
ڈاکٹر فرح : ایمپاورمنٹ اختیار و ملکیت کی ایک بحث ہے اسی سے ایمپاورمنٹ کی بحثوں نے جنم لیا۔ ایمپاور انسان تین طرح سے ہوتا ہے۔ معاشی حوالے سے ذاتی مہارت یا اختیارات کے حوالے سے یہ تین دائرے ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین نے کبھی تینوں دائروں میں خود کو پلان ہی نہیں کیا۔ اگر وہ ایک مہارت میں ماہر ہے تو وہ گھر کی سطح پر ناکام ہوجاتی ہے جو عورت بطور ماں ناکام ہےوہ کسی اور شعبے میں بلند مقام حاصل کرے کہ اپنے بچوں کے لیے رول ماڈل نہیں بن سکتی۔ اس کی پہلی کامیابی اس کا گھر ہے۔ باقی سطحیں اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں پھر اس کے ساتھ مربوط ہوکر بڑے مقام تک پہنچ سکتی ہے۔ ایمپاورمنٹ کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے شعور میں کتنے پختہ ہیں؟اپنے معاملات میں کتنے تربیت یافتہ ہیں ؟آپ مسائل کو کیسے حل کرتے ہیں؟ایک خاتون میں اللہ نے بڑی طاقت رکھی ہے۔ سب سے زیادہ قائل کرنے کا مادہ خاتون کے پاس ہے۔ سب سے زیادہ طاقتورعورت ہے۔ اس لیے حضور علیہ السلام نے فرمایا بہترین خاتون وہ ہےجس کا شوہر گھر میں آئے تووہ اس کو دیکھ کر خوش ہوجائے اور اسے لگے کہ میرے پیچھے بہت بڑی طاقت ہے۔ ایک عورت اپنے فیصلوں، علم اور سوچ میں اتنی تربیت یافتہ ہو کہ وہ اپنے راستے بنانا جانتی ہو۔ وہ انسانیت کی تعمیر کی بنیاد فراہم کرتی ہو۔ اگرعورت کا کردار معاشرہ سے نکال دیں تو معاشرہ یکدم سے نیچے گر جاتا ہے۔ ایمپاورمنٹ کی تھیوری کو سمجھنے اور اس کی گہرائی میں اترنے کی ضرورت ہےکہ عورت اپنے مسائل کے حل میں جتنی پختہ ہو گی اتنی ہی کامیاب اور ایمپاور اور آزاد ہو گی۔
ایمن یوسف: منہاج القرآن ویمن لیگ کا نیٹ ورک بہت بڑا ہے۔ آپ کی نظر میں اس نیٹ ورک کے معاشرتی نتائج کیا ہیں؟
ڈاکٹر شاہدہ : منہاج القرآن ایک مصطفوی مشن ہے اس کو کسی زمانے سے منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ خواتین کے حوالے سے اس تحریک کے ذریعے ایک سماجی انقلاب بپا ہوا ہے۔ شیخ کی تربیت سے جوخواتین تیار ہوئیں تو اُن کا اثر نسلوں تک جائے گا اور جارہا ہے۔ انقلاب کی بنیاد منہاج القرآن ویمن لیگ فراہم کررہی ہے۔ ویمن لیگ کے کسی بھی ممبر سے ملیں عام خاتون کی نسبت واضح فر ق نظر آئے گا۔
ایک اچھی ماں کے ذریعے اچھا معاشرہ ملتا ہے۔عام خواتین کے مسائل سے اندازہ ہوتا ہے ان میں شعور کی کمی ہے۔ جبکہ منہاج القرآن ویمن لیگ معاشرے کو فکرو کردار دے رہی ہے۔ معاشرے میں تربیت کا فقدان ہے۔ ویمن لیگ کے حوالے سے 2 چیزیں میں بیان کروں گی ایک حیا اور دوسری اخلاقیات۔ ویمن لیگ حیا کے دائرے میں رہ کر اپنا کردار ادا کررہی ہے کوئی ویمن لیگ کے اجتماع میں سے گزر جائے تو خواتین کے کردار کی تعریف کیے بغیر نہیں جائے گا۔
دوسرا نقطہ اخلاقیات کا ہیں خواہ ان کی عائلی زندگی ہو، ادارہ ہو، یا سماج ہو وہ اس میں ممتاز نظر آتی ہیں اور اس کا بڑا گہرا اثر معاشرے پر پڑا ہے۔اس کے علاوہ شیخ الاسلام کی فکر تربیت اور لٹریچر کا اثر بچوں کی زندگی پر بھی پڑ رہا ہے یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔ یہ ایک بڑا انقلاب ہے۔ شیخ الاسلام کا نظریہ خواتین ہماری ثقافت، کلچر، معاشرے پر اثر ڈالتا ہے۔ خواتین کے معاشرے پر اثرات دو طرح سے نظر آتے ہیں۔ یا وہ مختلف عمر کے افراد پر کام کررہی ہیں یا کسی ذہنیت پر کام کررہی ہوتی ہیں یعنی ایک ہی سمت پر کام کرتی نظر آتی ہیں۔ شیخ الاسلام نے مرد و زن اور سماج دونوں پر کام کیا ہے۔ آپ نے مختلف عمر کے لوگوں اور مختلف ذہنیت کے لیے بھی کام کیا ہے جس کی وجہ سے منہاج القرآن ویمن لیگ کے پلیٹ فارم پر بڑی تعداد میں خواتین پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ہیں۔ شیخ الاسلام خواتین کی تعلیم کو بہت پسند کرتے ہیں ان کو بہت موٹی ویٹ کرتے ہیں وقت کا صحیح استعمال بتاتے ہیں کہ کیسے گھر، تعلیم اور معاشرے کے لیے کام کرنا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ٹائم ٹیبل بھی بناکر دیتے ہیں۔ ایسی خواتین جس میں صلاحیتیں ہیں اُس کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔ اُس کو ہر میدان میں کامیابی کے پیمانے دیتے ہیں اور راستے دکھاتے ہیں۔
ایمن یوسف: ایک خاتون کی عظمت و کردار اور وقار سے متعلق شیخ الاسلام کا پیغام کیا ہے؟
ڈاکٹر فرح: وہ خاتون کی تربیت اس طرح سے کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ اپنے آپ کو اتنا مضبوط کریں کہ اپنے تشخص پر کبھی حرف نہ آنے دیں۔ کوئی آپ کی طرف انگلی نہ اٹھاسکے۔ کوئی آپ کے اندر لچک نہ محسوس کرے۔ جہاں بھی آپ کام کرنا چاہیں سب راستے کھلے ہیں لیکن اپنے مقام کو کبھی مجروح نہ ہونے دیں۔
ڈاکٹر شاہدہ: اگر عورت اپنے کردار کو مضبوط کرلے تو یہ اس کی قوت ہے میرا کام جیل میں موجود خواتین پر تھا اور کراچی کے ماحول کی وجہ سے مجھے بہت سے لوگوں نے منع کیا کہ آپ بطور عورت جیلوں میں کیوں جارہی ہیں مگر شیخ الاسلام کی بات میرے ذہن میں تھی کہ اگر آپ کے سامنے ایک پولیس والا بھی ہے اور آپ اپنے کردار، گفتار، معاملات کو مضبوط کرلیں تو معاشرے میں ہر کام کو سرانجام دے سکتی ہیں اپنے کردار کو اتنا اچھا بنائیں کہ ہر کوئی آپ کی عزت کرنے پر مجبور ہوجائے۔