شیخ الاسلام... مخزنِ علم و عرفان

مسز فریدہ سجاد

اچھا قائد وه ہے جو زمانہ شناس، علم و حکمت کا خوگر اور حق و باطل میں تمیز کرنے والا ہو۔ جو اپنے ویژن اور بصیرت کی بنا پر لوگوں کو کسی اہم مقصد پر جمع کر کے نہ صرف ان میں تحرک پیدا كرتا ہے بلکہ انہیں سوئے منزل بھی گامزن كرتا ہے۔ وہ اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو فوقیت دیتا اور اقتدار کی حرص سے مبرا قوم کے تابناک مستقبل کے لیے ہمہ وقت فکرمند رہتا ہے۔ وہ وسیع سوچ کا مالک اور حقیقت پسندی سے کام لیتا ہے۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ قائد ہمیشہ متاثر کن مبلغ ہوتا ہے۔ جس کی زبان سے نکلنے والا ایک ایک لفظ اس کی قوم کے لیے قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور جس کی ایک آواز پر منتشر افرادِ ملت متحد ہو جاتے ہیں۔ قیادت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ قائد اگر شیر کی مانند ہو تو اس کے پیچھے چلنے والی بھیڑیں بھی خود کو شیر جیسا محسوس کرتی ہیں۔

عصرِ حاضر میں ہم اگر دیکھیں تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات میں وہ تمام تر قائدانہ صلاحیتيں موجود ہیں جو اپنی سیرت و کردار اور فہم و فراست سے کم اہلِ علم کو شیر کی مانند بنا دیتی ہیں۔ راقمہ کی نظر میں شیخ الاسلام پیدائشی (By- birth) قائد ہیں۔ جو قیادت کے اوصاف اور کردار کی تاثیر لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ آپ زندگی میں جس مقام پر کھڑے ہوئے اور آپ کو جس طرح کے حالات درپیش آئے، آپ کی فطرت میں قیادت خود بخود جھلکتی ہوئی نظر آئی۔

شیخ الاسلام كا شمار ہمہ جہت شخصیت کے حامل نا بغۂ روزگار ارباب علم و حكمت میں ہوتا ہے۔ آپ علمی میدان میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اگرچہ آپ کے علمی و عملی کمالات کا صحیح ادراک اربابِ علم ہی کر سکتے ہیں تاہم راقمہ اپنی کم علمی اور محدود فہم و فراست کے ساتھ حسبِ سابق امسال بھی قائد ڈے کےموقع پر اپنی بساط کے مطابق درج بالا عنوان کا سرسری خاکہ اپنے قارئین کی نذر کر رہی ہے اور اہلِ علم کو ’’میرا قائد سلطنت علم کا بے تاج بادشاہ‘‘ کے عنوان پر قلم اٹھانے کی دعوت دے رہی ہے کہ وہ نوکِ قلم سے شیخ الاسلام کے علمی و تحقیقی اور تجدیدی کارہائے نمایاں کی وسعت، گہرائی اور مختلف جہات سے طلباء و محققین کو روشناس کروا نے کا فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔

شیخ الاسلام کی شخصیت میں دو نایاب خصوصیات کا طاقتور امتزاج موجودہے۔ جس نے آپ کو علم کی دنیا میں علم کا بحر ِبیکراں بنایا:

(1) علم کی جستجو

(2) گہری دانش و بینش

بچپن میں ہی شیخ الاسلام کی ذات میں علم وفضل کے اوصاف نمایاں اور حصولِ علم کی رغبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے مروجہ اسلامی نصاب اور درسِ نظامی باقاعدہ پڑھنے سے قبل محض سات آٹھ سال کی عمر میں علم العقيدہ و الكلام، تصوف و روحانیت اور فقہ و سیرتِ رسول ﷺ پر مشتمل كثيرکتب کا مطالعہ کیا جبکہ باقاعدہ رسم بسم اللہ 1963ء میں مدینہ طیبہ میں بارہ سال کی عمر میں حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی سے نسبت تلمذ سے ہوئی۔ اس ذریعے سے آپ کو صرف ایک واسطے کے ساتھ اعلیٰ حضرت سے شاگردی کی نسبت حاصل ہوئی۔ بچپن میں آپ نے جب سيال شريف میں حضرت خواجہ قمر الدین سیالوي صاحب کے سامنے تقریر کی تو انہوں نے بےساختہ فرمایا:

’’اس بچے پر ہمیں فخر ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ بچہ آسمان علم و فن پر ایک نير تاباں بن کردرخشنده و تابندہ ہوگا۔‘‘

اسی طرح لڑکپن میں غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی نے جب آپ کا پُر جوش خطاب سنا تو فرحت و مسرت سے فرمايا:

’’اس نوجوان سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں۔ یہ ایک عالم کو فیض یاب کرے گا۔‘‘

الله رب العزت كے فضل وکرم، آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی توجہات اور صالح ہستیوں کی دعاؤں اور نيك تمناؤں کا ہی اثر تھا کہ آپ نے نہ صرف بہترین اساتذہ کرام سے علمی فیض حاصل کیا بلکہ علومِ شریعہ کے ساتھ ساتھ علومِ عصریہ میں بھی آپ نے اعلیٰ گریڈز کے ساتھ ڈگریز حاصل کیں۔ آپ نے Punishment in Islam ,Their Classification and Philosophy کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی ذات میں حرمین شریفین، بغداد، شام، لبنان و طرابلس، مغرب و شنقیط (مراکش و موریطانیہ)، يمن (حضرموت ) اور برصغیر پاک و ہند کی شہرہ آفاق علمی و روحانی شخصیات کے لا محدود فیوضات مجتمع ہیں۔ جن کے طُرق سے آپ کی سند کا اتصال ائمہ حدیث و تصوف اور حضور نبی اکرم ﷺ کی مقدس بارگاہ تک جاتا ہے۔ آپ نے اپنے سلسلہ سند کی دو کتب اسانید (1) الجواهر الباهرة فی الأسانيد الطاهرة (2) السبل الوهبية في الأسانید الذهبية میں اپنے پانچ سو سے زائد طُرق ِعلمی کا ذکر کیا ہے۔

گویا شیخ الاسلام کی زندگی کا طائرانہ جائزہ لینے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ كی شخصیت صرف ایک دو پہلوؤں تک ہی محدود نہیں بلکہ بیک وقت جمیع پہلوؤں کو اپنی جدوجہد کے احاطے میں لے کر میدانِ عمل میں کارفرما ہے۔

آپ کی تجدید و احیائے دین کے باب ميں سرانجام دی گئی خدمات کو دیکھتے ہوئے اب آپ کے ناقدین بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ آپ اس صدی کے مجدد ہیں۔ عصرِ حاضر میں آپ کی شخصیت حضور نبی اکرم ﷺ کی درج ذیل حدیث مبارک کی مصداق نظر آتی ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا يَقُوْمُ بِدِيْنَ اللهِ إِلَّا مَنْ حَاطَهُ مِنْ جَمِيْعِ جَوَانِبِهِ.

مسند الفردوس للديلمي، 5/190، الرقم/7920. دلائل النبوة لأبي نعيم، ص/282. تاريخ ابن عساكر، 17/299

’’اللہ تعالیٰ کے دین کو صرف وہی قائم کر سکے گا جو اس کی تمام جہات کا احاطہ کرے گا (یعنی تجدیدِ دین کا فریضہ تبھی ادا ہوسکے گا جب دین کے تمام گوشوں اور پہلؤوں پر کام ہوگا)۔‘‘

کیونکہ آج کے دور میں تجدیدِ دین درحقیقت وہی ہے جو دین کے تمام میادین میں ہو، کیونکہ آج دینی اقدار من حیث المجموع زوال کا شکار ہیں۔ ماضی قریب میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک فردِ واحد نے اپنی فکر و دانش اور فہم و فراست سے ملتِ اسلامیہ کی اصلاح کے لیے اتنے مختصر دورانیے میں اتنی زیادہ علمی خدمات انجام دی ہوں، بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہی عالمِ اسلام کی علمی و فکری اور ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ آپ کی صرف علمی خدمات کی ہی فہرست بہت طویل ہے۔ اختصار کے پیش نظر چند اہم علمی خدمات درج کی جاتی ہیں:

• شیخ الاسلام نے دینِ اسلام کے لیے سو سال کے علمی، تحقیقی، فکری، نظریاتی، روحانی، سیاسی، سائنسی اور اقتصادی عملی اثاثہ کو جدید تقاضوں کے مطابق تحریک منہاج القرآن کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر مرتکز کر دیا ہے۔ آج آپ کی قائم کردہ تحریک دنیا میں 90 سے زائد ممالک میں اسلام کا آفاقی پیغام ِامن و سلامتی عام کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہے۔

• سینکڑوں موضوعات پر ایک ہزار سے زائد کتب تصانیف کی ہیں۔ جن میں سے 640 کتب اردو، عربی اور انگریزی زبان میں شائع ہو چکی ہیں۔ آپ نے قدیم و جدید ہر طرح کے سینکڑوں موضوعات پر 10 ہزار سے زائد خطابات اور دروس دیے ہیں۔ آپ کی تمام تصانیف و تالیفات، ترتیب و تدوین مواد قلزم ذخّار کا درجہ رکھتی ہیں اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر قیامِ امن اور تعلیماتِ اسلامیہ کے رخ روشن کو دنیا کے سامنے دلائل و براہین کے ساتھ پیش کرنے کی عملی جدوجہد دینِ اسلام کا وہ عظیم اثاثہ ہے جو اقوامِ عالم، امتِ مسلمہ اور پاکستانی قوم کی صدیوں تک رہنمائی کرتا رہے گا۔

• آپ کی کتب کے دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی تراجم ہو رہے ہیں۔ اگرچہ پرنٹنگ پریس وغیرہ کو شروع ہوئے بھی دو تین صدیاں بیت چکی ہیں، لیکن ایسا کبھی تاریخ میں نہیں ہوا کہ کسی کی زندگی میں ہی اس کی پانچ سو سے زائد کتب طبع ہوچکی ہوں۔ یہ شیخ الاسلام کی تجدیدی خدمت ہے۔

• علوم القرآن ہوں یا علوم الحدیث؛ اِیمانیات و عبادات ہوں یا اِعتقادیات (اُصول و فروع)؛ سیرت و فضائلِ نبوی ہوں یا ختم نبوت اور تقابلِ اَدیان؛ فقہیات ہو یا اَخلاق و تصوف؛ اَوراد و وظائف؛ اِقتصادیات و سیاسیات ہو یا فکریات؛ دستوریات ہو یا قانونیات؛ شخصیات ہوں یا سوانح؛ سائنس ہو یا حقوقِ اِنسانی، عصریّات ہو یا اَمن و محبت اور ردّ تشدد و اِرہاب یا سلسلۂ تعلیماتِ اِسلام؛ الغرض شیخ الاسلام نے ہر موضوع پر نادر کتب تالیف کی ہیں۔

• قرآن فہمی کے باب میں آپ کا ایک عظیم شاہ کار 8 جلدوں اور 5 ہزار موضوعات پر مشتمل مضامینِ قرآن کا مجموعہ ’اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقُرْآنِیَّة (قرآنی اِنسائیکلوپیڈیا)‘ ہے۔

• آپ نے اردو زبان میں نہایت ہی آسان ، سلیس اور تفسیری شان کا حامل ترجمہ لکھا ہے جو کہ عرفان القرآن کے نام سے موسوم ہے۔ جب کہ آپ نے مغربی ممالک میں بسنے والی مسلم نوجوان نسل کے لیے موجودہ دور کی سلیس انگلش زبان اور محاورہ ميں The Manifest Quran کے نام سے انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے کہ قرآن مجید کے کسی مترجم نے عربی سے براہ راست دو دیگر زبانوں ميں بیک وقت قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہو۔

• شیخ الاسلام تفسیر کے باب میں بھی اجتہادی نوعیت کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں، آپ نے عربی زبان میں ایک جامع تفسیر مرتب کی ہے جو 20 جلدوں پر مشتمل ہوگی۔

• گزشتہ دو صدیوں ميں علمی نوعیت کے کام زیادہ تر حواشی اور شروحات کی نوعیت کے تھے۔ شیخ الاسلام نے عصرِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ایک ایک موضوع اور اس کی جزئیات کو قرآن مجید کی آیات مبارکہ اور حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث سے ثابت کرکے قرآن و سنت کا ایک compendium اُمتِ مسلمہ کے سامنے پیش کیا جو بلاشبہ آپ کی ایک انفرادی اور تجدیدی خدمت ہے۔ جس کو آپ نے نصف صدی سے بھی کم عرصہ میں میدان علمیہ و فکر یہ اور ذہنیہ کا احاطہ کرتے ہوئے احیائے اسلام اور تجدیدِ دین کا حق ادا کر دیا ہے۔

• آپ نے عصری تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے نئی ابواب بندی کے ساتھ احادیث کے متعدد مجموعے لکھے، جن کی اب تک کی تعداد 120 سے زائد ہے۔ آپ نے علم حدیث میں 60 سے زائد موضوعات پر اربعینات تحریر فرمائیں جو کہ اردو ترجمہ اور تخریج و تحقیق کے ساتھ مرتب کی گئی ہیں اور ہر اربعین کے شروع میں اس موضوع سے متعلق قرآنی آیات کو بھی جمع کیا گیا ہے جبکہ بعض مقامات پر احادیث کی شروحات میں محدثین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں۔

• آپ نے آٹھ جلدوں پر مشتمل علوم الحدیث کے موضوع پر الموسوعة القادرية في العلوم الحديثية کے نام سے عظیم الشان انسائیکلوپیڈیا ترتیب دیا ہے۔ اِس موسوعہ کے ذریعے آپ نے حجیتِ حدیث و سنت کے باب ميں عظیم الشان خدمت سرانجام دی ہے۔ آپ نے انکارِ حدیث اور حدیث کے مقام و مرتبہ کو کم کرنے کے فتنہ کا قلع قمع کر دیا ہے۔

• جَامِعُ السُّنَّة فِیمَا یَحْتَاجُ إلَیْهِ آخرُ الأمَّة (Encyclopaedia of Sunnah) علم الحدیث میں مختلف النوع جدید موضوعات پر مشتمل چالیس جلدوں کا مجموعہ آپ کی ضخیم ترین تصنیف ہے۔ یہ کتاب 25000 احادیث پر مشتمل ہے۔ جو جلد چھپ کر منظرِ عام پر آ رہی ہے۔

• آپ نے قیامِ اَمن اور انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اُردو، انگریزی اور عربی زبان میں 46 کتب پر مشتمل ’فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب (Islamic Curriculum on Peace and Counter-Terrorism) تشکیل دیا ہے۔

• 1994ء میں جب پاکستان میں کوئی سرکاری ویب سائٹ موجود نہ تھی اور یونیورسٹیوں، اخبارات، بینک و دیگر کاروباری اِداروں میں سے بھی کوئی اِدارہ آن لائن نہیں تھا۔ اس وقت www.minhaj.org کو کسی آرگنائزیشن کی پہلی پاکستانی ویب سائٹ ہونے کا اِعزاز حاصل ہوا۔ منہاج اِنٹرنیٹ بیورو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے احکامات اور ہدایات کے مطابق ویب ڈویلپمنٹ کی اہمیت کے پیش نظر اِسلامی تعلیمات کے وسیع تر فروغ، اسلام کے بارے میں عالمی سطح پر پھیلائی جانے والی افواہوں اور خدشات کا اِزالہ کرنے کے لیے اور اِسلام کا نکھرا ہوا حقیقی چہرہ دکھانے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔

• طلباء و طالبات کے لیے منہاج یونیورسٹی لاہور (MUL) قائم كی ہے۔ جس میں شاندار اور منفرد نوعیت کے ڈگری پروگرامز جاری ہیں۔ محنتی اور تجربہ کار تدریسی عملہ طلبہ و طالبات کو معیاری تعلیم و تربیت فراہم کر رہا ہے۔ مستحق طلبہ و طالبات کو کروڑوں روپے کا مالی ریلیف فراہم کیا رہا ہے۔ یہ واحد یونیورسٹی ہے جس میں انتہا پسندی کے خاتمے اور بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے School of Peace and Counter Terrorism اور تصوف کے شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں۔

• تعلیمی شعبہ جات میں منفرد خدمات انجام دینے والا دوسرا بڑا تعلیمی ادارہ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز ہے۔ جو لاہور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن، منہاج یونیورسٹی لاہور اور عالمِ اسلام کی ممتاز یونیورسٹی جامعۃ الازہر مصر سے الحاق شدہ ہے۔ جہاں علوم شریعہ کے ساتھ ساتھ جدید عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔

• اندرون و بیرون ممالک دینِ اسلام کے جامع، عالم گیر، آدمیت آموز اور انسان دوست نظریات کو فروغ دینے اور دینی و عصری، تعلیمی و تربیتی اور اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے نظام المدارس کے تحت تقريباً 165 ادارے اور مراكزِ علم كے 2800 مراكز كا قيام عمل ميں لایا گیا ہے۔

• منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے زیرِ اہتمام سیکڑوں اسکولز میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ جنہیں 15 ہزار سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ زیورِ تعليم سے آراستہ کر رہے ہیں۔

• طلباء و طالبات کے تحقیقی کام اور مطالعہ کے لیے بین الاقوامی معیار کی لائبریریاں قائم کی گئی ہیں۔

• علوم القرآن کے فروغ کے لیے منہاج القرآن انٹرنیشنل نے قرآن فہمی اور رجوع الی القرآن کے لیے ماہانہ بنیادوں پر دروس عرفان القرآن کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ جس کے تحت دنیا بھر میں سینکڑوں مقامات پر منہاج القرآن کے علماء اور سکالرز دروس ِقرآن دیتے ہیں اور قرآن حکیم سے ٹوٹے ہوئے تعلق کی بحالی کا سامان بہم پہنچاتے ہیں۔

• منہاج القران ویمن ليگ کے پلیٹ فارم سے خواتین اور طالبات کی تعلیم و تربیت کے لیے ملک اور بيرون ممالک میں الہدایہ پراجیکٹس کا آغاز کیا گیا ہے۔ جن میں قواعدِ تجوید و گرامر، لفظی و بامحاورہ ترجمہ، تفسیر و اہم مضامین، علم الحدیث، سیرت الرسول ﷺ ، بنیادی و فروعی عقائد اور بنیادی فقہی مسائل کی تعلیم دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں نسلِ نو میں جدید سائنسی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے دلچسپ انداز میں اِسلامی تعلیمات اور اَقدار کو فروغ دینے کے لیے شعبہ اُمورِ اَطفال کی بنیاد رکھی گئی ہے تاکہ ان میں دینی رغبت پیدا ہو اور ان کی کردار سازی کا عمل اَحسن انداز سے طے پا سکے۔

• بیرون ممالک مقیم مسلم خاندانوں کے بچے اور بچیوں کو قرآن حكيم اور تجوید و قرأت پڑھانے کے لیے آن لائن ای لرننگ ڈیپارٹمنٹ کے تحت تعلیمی پروگرامز کے ذریعے 40 سے زائد ممالک میں نسل نو نورِ قرآن سے منور ہو رہی ہے۔

• بیرون پاکستان پوری دنیا میں اسلامی مراکز، کمیونٹی سنٹرز اور تعلیمی ادارہ جات قائم کیے گئے ہیں جن كی تعداد تقريباً 72 سے زائد ہے۔ جو مقامی آبادی کو علم و حکمت سے منور کرتے ہوئے ان کی فکری، اخلاقی اور روحانی اصلاح کا فریضہ بخوبی نبھا رہے ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی و تحقیقی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی مسلسل محنت، جدوجہد اور عزم مصمم کی خوبصورت کڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ آپ کی علمی قدرو منزلت کا معترف ہے اور اپنے پرائے سب اس کا اعتراف کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام نہ صرف خود PhD ڈاکٹر ہیں، بلکہ آپ کے دونوں بیٹے اور آپ کی بہو بھی PhD ڈاکٹر ہیں۔ نیز آپ کے پوتے شیخ حماد مصطفیٰ القادری بھی PhD کر رہے ہیں۔ آپ کے شاگردوں میں سے بھی اس وقت تقریباً 70 مرد و زن PhD کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں قومی اور بین الاقوامی جامعات (Universities) میں آپ کی فکرو شخصیت اور خدمات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی لیول پر تحقیقی کام بھی ہورہے ہیں۔ یہ بھی آپ ہی کا ایک منفرد اعزاز ہے کہ آپ کی زندگی میں ہی آپ کی شخصیت اور خدمات پر پی ایچ ڈی لیول کا تحقیقی کام ہو رہا ہے۔

اگر ہم جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پچھلی دو صدیوں میں اتنا بڑا علمی و تحقیقی کام کسی نے نہیں کیا۔ لہٰذا کارکنان و رفقاء علم سے محبت اور مطالعے سے شغف پیدا کریں۔ اللہ کے فضل و کرم سے شیخ الاسلام کی علمی خدمات اس قدر ہیں کہ آپ کو ہر موضوع پر کتاب مل جائے گی۔ یہ سب آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی خیرات ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی ذاتی لائبریری قائم کرے، ان کتب کا خود بھی مطالعہ کرے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے، اس لیے کہ منہاج القرآن، تحریکِ علم بھی ہے۔ اس چشمۂ فیضان سے ہر ایک کو سیراب ہونے کی ضرورت ہے۔

المختصر شیخ الاسلام کی زندگی کے جمیع پہلوؤں میں سے صرف علمی پہلو کا ہی احاطہ کرنا ممکن نہیں کجا جمیع پہلوؤں کا تذکرہ کیا جائے۔ آپ حقیقی معنوں میں نہ صرف اسلام کے پیامبر ہیں بلکہ آپ کی قیادت ہی عالمِ اسلام کی دراصل نجات دہنده ہے۔ آپ جیسی سحر انگیز علمی شخصیت کا فیض صرف موجودہ صدی تک ہی نہیں بلکہ آئندہ کئی صدیوں تک بھی جاری و ساری رہے گا۔ امسال قائد ڈے کے موقع پر درج ذیل فرمانِ قائد:

’’میں علم کے دریا اور سمندر کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ کچھ اس میں سے کاسہ لوں اور اس طرح ہوتا ہوں کہ جیسے میں نے ابھی تک علم کے سمندر کو چھوا ہی نہیں اور بالکل پیاسا ہوں۔ آپ بھی اپنی پوری زندگی سیکھنے اور سکھانے میں گزاریں۔‘‘

کی روشنی میں ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار و تعلیمات کو سمجھنے، ان پر عمل پیرا ہونے اور ان کی ترویج و اشاعت کرنے کے لیے شب و روز محنت کرنے كا تجدیدِ عہد کرنا ہے۔ باری تعالیٰ ہمیں آپ کے علمی مقام کو سمجھنے کے لیے دیدۂ بینا عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ)