فرمانِ الٰہی
اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَاللهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ. الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ. لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللهِ ذٰلِکَ هُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْمُ. وَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُهُمْ م اِنَّ الْعِزَّۃَ ِللّٰهِ جَمِیْعًا هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ.
(یونس، 10: 62 تا 64)
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہے۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)، اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔(اے حبیبِ مکرّم!) ان کی (عناد و عداوت پر مبنی) گفتگو آپ کو غمگین نہ کرے۔ بے شک ساری عزت و غلبہ اللہ ہی کے لیے ہے (جو جسے چاہتا ہے دیتا ہے)، وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
فرمانِ نبوی ﷺ
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُولُ: إِنَّ یَسِیْرَ الرِّیَاءِ شِرْکٌ، وَ إِنَّ مَنْ عَادَی ِللّٰهِ وَلِیًّا، فَقَدْ بَارَزَ اللهَ بِالْمُحَارَبَۃِ. إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْأَبْرَارَ الْأَتْقِیَاءَ الْأَخْفِیَاءَ، الَّذِیْنَ إِذَا غَابُوْا لَمْ یُفْتَقَدُوْا، وَإِنْ حَضَرُوْا لَمْ یُدْعَوْا وَلَمْ یُعْرَفُوْا. قُلُوْبُهُمْ مَصَابِیْحُ الْهُدَی یَخْرُجُوْنَ مِنْ کُلِّ غَبْرَاءَ مُظْلِمَۃٍ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ.
(المنہاج السوی، ص: 639)
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک معمولی دکھاوا بھی شرک ہے اور جس نے اولیاء اللہ سے دشمنی کی تو اس نے اللہ تعالیٰ سے اعلان جنگ کیا، بے شک اللہ تعالیٰ ان نیک متقی لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو چھپے رہتے ہیں، اگر وہ غائب ہو جائیں تو انہیں تلاش نہیں کیا جاتا اور اگر وہ موجود ہوں تو انہیں (کسی بھی مجلس میں یا کام کے لئے) بلایا نہیں جاتا اور نہ ہی انہیں پہچانا جاتا ہے، ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں ایسے لوگ ہر طرح کی آزمائش اور تاریک فتنے سے (بخیر و عافیت) نکل جاتے ہیں۔‘‘