شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ خدائے لم یزل کا عظیم تحفہ ہیں۔ آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ نے دینِ اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں ہمہ جہت تجدیدی خدمات سر انجام دی ہیں۔ جن کی بدولت دورِ جدید کا پریشان حال مسلمان اپنے شاندار ماضی کے ساتھ متعلق ہونے اور آنے والے مستقبل میں اپنے قیام کی بقاء کے قابل ہوا ہے۔ آپ نے اُمتِ مسلمہ کو اجتماعی زوال کی پستیوں سے نکال کر بامِ عروج کی طرف گامزن کیا۔ آپ کی شخصیت قدیم اور جدید کے مابین ایک مضبوط پُل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس نے یاس و قنوط کی کیفیت میں ڈوبی اُمت کو نئی زندگی بخشی۔ اُمتِ مسلمہ پر بالخصوص اور عالمِ انسانیت پر بالعموم آپ کے احسانات کا احاطہ مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ زیرِ نظر آرٹیکل میں آپ کے اُمت پر کیے گئے احسانات میں سے ایک احسان کا ذکر نظرِ قارئین ہے۔
وہ اِحسان نسلِ نو بالخصوص مغربی دنیا میں مقیم نوجوانانِ اُمت پر ہے جواپنے ملک سے باہر بیرونِ ممالک روزگار کی تلاش میں نکلے ہوئے والدین کے ساتھ کئی دہائیوں سے دیارِ غیر میں مقیم ہیں یا پھر وہ نوجوان جو تلاشِ روزگار کے لیے پردیس کی سختیاں جھیل رہے ہیں۔
اخلاقیات کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو۔ اخلاقیات دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں۔ عقل و شعور کے ساتھ ساتھ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دینے والااور ممتاز اور نمایاں مقام عطا کرنے والا وصف اخلاقی اقدار ہیں جن کی بدولت معاشرے احترامِ آدمیت، وحدتِ نوعِ انسانی، امن و آشتی، پُر امن بقائے باہمی، برداشت اور رواداری جیسی انسانی و اخلاقی اقدار کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اگر اخلاقی قدریں معاشرے سے ناپید ہو جائیں تو معاشرہ بدترین اخلاقی و روحانی ضعف اور فکری پسماندگی سے دوچار ہو جاتا ہے۔
اِس تناظر میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے بیرونی دنیا میں مقیم نوجوانانِ امت کے اخلاق و کردار سنوارنے ميں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ شیخ الاسلام نے یورپ اور مغرب کے ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے ایمان کے تحفظ اور اسلامی اقدار کو فروغ دینے، نسل نو کے ایمان کو بچانے اور ان کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے ایک منظم پلیٹ فارم عطا کیا۔ 100 سے زائد ممالک میں تحریک منہاج القرآن کےتنظیمی دفاتر قائم کیے۔ بیرونی دنیا میں 90 سے زائد ممالک میں مساجد، اسلامک سینٹرز اور دینی تعلیم کے مراکز قائم کیے جہاں بچوں اور ان کے والدین کے لیے روزانہ، ہفتہ وار حلقہ درود و فکر، ماہانہ اجتماعات، محافل میلاد، الہدایہ تربیتی کیمپس، سیمینارز اور تربیتی و اصلاحی پروگراموں کے انعقاد کا ایسا مربوط نظام کیا گیا ہے کہ وہاں پر موجود نوجوان نسل کو دینی اور اخلاقی تربیت کے لیے مکمل ماحول میسر آ چکا ہے۔
مغربی ممالک میں قیام پذير مسلمانوں خاص طور پر نوجوان نسل کے ایمان، عقیدہ اور اخلاق و کردار کو بچانے اور مغربی معاشرے کی خرافات سے محفوظ رکھنے میں حضرت شیخ الاسلام نے جو گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اُن ميں سے چند نمایاں خدمات کا تذکرہ قارئین کے پیشِ خدمت ہے:
1۔ تہذیبی و ثقافتی حملہ کا تدارک
عصرِ حاضر میں مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار سے کون شخص آگاہ نہیں ہے۔ اس تہذیبی حملے نے سب سے بڑا نقصان نوجوان نسل کا کیا۔ جس کے زیر اثر نوجوان نسل کے معاشی اور سماجی تصوراتِ زندگی بدل رہے ہیں۔ اخلاقی، عائلی، سماجی اور معاشرتی قدریں کمزور پڑتی جا رہی ہیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ فحاشی، عریانی اور بے راہ روی کے سیلاب نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دیارِ غیر میں والدین اپنے بچوں کی اخلاقی اقدار کے تحفظ کے حوالے سے پریشان نظر آتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں دور جدید کی تہذیب و ثقافت کی تند و تیز آندھیوں سے نوجوان نسل کے ایمان کی بجھتی ہوئی شمع کو محفوظ کرنے میں شیخ الاسلام کے عظیم کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے نہ صرف پاکستان بلکہ ملکِ پاکستان سے باہر بسنے والے لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب بپا کیا ہے، آپ نے انہیں اخلاقی و روحانی بے راہ روی سے بچاکر ہدایت کی روشن راہ پر گامزن کیا۔ انہیں مقصدِ حیات سے روشناس کرایا۔ معاشرے کی بگڑی قدروں کو پامال ہونے سے بچایا۔ بے راہ روی، دین سے دوری اور اخلاقی و روحانی اقدار سے بیگانگی کو ختم کرنے کے لیے مکمل راہنمائی فراہم کی۔ ان کے فکرو نظر کو انقلاب آشنا کردیا۔ یہی وجہ کے کہ بیرونِ ملک تحریکِ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر منعقدہ تربیت و روحانی اور علمی پروگراموں میں دنیا بھر سے مسلم نوجوانوں کی کثیر تعداد دیکھنے کو ملتی ہے جو اپنے اصلاحِ احوال اور اخلاقی و روحانی تربیت کی غرض سے شیخ الاسلام کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔
2۔ نوجوانوں کی فکری و نظریاتی تربیت
دورِ جدید میں نوجوانوں کی فکری اور نظریاتی تربیت ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسلام دشمن عناصر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ نسلِ نو کے افکار و نظریات کو تشکیک و ابہام کا شکار کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں شیخ الاسلام نے فکر و فلسفہ اور نظریاتی اصولوں کی پاسداری کی۔ یورپ و برطانیہ میں مقیم مسلم فیملیز اور نوجوانوں کی اِخلاقی و روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ اُنہیں عصری چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی ایک مکمل گائیڈ لائن مہیا کی۔ اس کے ساتھ ساتھ مادیت پرستی، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور اسلاموفوبیا جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے نوجوانوں کوفکری و نظریاتی واضحیت فراہم کی۔ آپ نے الہدایہ کیمپوں کے ذریعے یورپ کے مسلمانوں کو انتہا پسندی اور تنگ نظری سے بچاتے ہوئے امن کا حقیقی درس دے کر یورپ میں مسلمانوں کا مستقبل محفوظ کردیا۔ اس انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں یورپ کے مسلمانوں کا وقار بلند ہوا اور انہیں عزت، احترام اور جرأت کے ساتھ جینا نصیب ہوا۔
3۔ دہشت گردی، انتہا پسندی کا متبادل بیانیہ
امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مسلمانوں کے ساتھ نتھی کیا گیا اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے جینا دوبھر کر دیا گیا۔ یورپ کے مسلمان نسل پرستی، تعصب اور زندگی کے تمام شعبوں میں ناانصافی کا شکار ہوئے۔ متعدد یورپی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز رویہ پروان چڑھایا گیا۔ انہیں دہشت گرد اور انتہا پسند کے ٹائٹل کے ساتھ جانا جانے لگا۔ دینِ اسلام کے پُر امن چہرے کو مسخ کرنے کے ناپاک عزائم بنائے گئے جن کی بدولت مغربی دنیا میں بسنے والے نوجوانوں کے دینِ اسلام پر اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ ان کے عقائد کمزور اور متزلزل ہونے لگے۔ اسلام دشمن عناصر کے اسلام کے خلاف مذموم عزائم صرف یہیں ختم نہیں ہوئے بلکہ انہیں انتہا پسند بنانے، دہشت گرد ثابت کرنے اور انہیں مشتعل کرنے کے لیے ڈنمارک میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت، سویڈن میں قرآن مجید جلانے کا دل سوز واقعہ اور انگلستان کے متعدد شہروں میں انگلش ڈیفنس لیگ کے جلوس جیسے ہتک آمیز عوامل بھی اختیار کیے گئے۔ تاکہ اس کے نتیجے میں مسلمان شدید ردِ عمل دیں اور انہیں دنیا کے سامنے دہشت گرد ظاہر کیا جا سکے۔
اِس بین الاقوامی تناظر میں دین اسلام کے عظیم داعی اور مبلغ شیخ الاسلام امن و سلامتی کے فروغ کی طاقتور آواز بن کر اُبھرے جو اس وقت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ ٹورنٹو ہو یا وینکوور۔۔۔ نیو جرسی ہو یا واشنگٹن ڈی سی۔۔۔ اوسلو ہو یا گلاسگو۔۔۔ مانچسٹر، برمنگھم یا لندن، استنبول ہو یا حیدر آباد دکن۔۔۔ ٹوکیو ہو یا ڈیووس جنیوا۔۔۔ ہر جگہ آپ نے اپنے خطابات، کانفرنسز، تصانیف اور تربیتی نشستوں کے ذریعے اسلام کو امن، محبت، رواداری اور آشتی والا دین ثابت کیا اور نوجوانانِ اُمت کا دین پر اعتماد بحال کیا۔ ان کے افکار و نظریات اور عقائد کا تحفظ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیا کے نوّے سے زائد ممالک میں امتِ مسلمہ کے نوجوانوں کے افکار و نظریات اور عقائدِ صحیحہ کے تحفظ میں شیخ الاسلام کی عظیم کاوشیں تاریخِ انسانی کے ماتھے کا جھومر بن کرجگمگا رہی ہیں۔ آپ نے دینِ اسلام کی حقیقی امن و محبت اور سلامتی والی تصویر اقوامِ عالم کے سامنے پیش کی۔ بلاشبہ آپ کی کاوشوں کی بدولت آج یہ آواز پوری دنیا میں ہر کہیں سنائی دے رہی ہے کہ اسلام دین امن ہے جو مذہبی جنون، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وجود میں آیا۔
3۔ ملی و بین الاقوامی مسائل کے بارے میں نوجوانوں میں بیداری شعور کا اقدام
ملک و ملت کی ترقی میں نوجوانوں کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی تربیت تعمیری اور مثبت بنیادوں پر کی جائے تو یہ معمارِ وطن ہیں لیکن اگر درست سمت فراہم نہ کی جائے اور ان میں متشدد نظریات، انتہا پسندی اور تنگ نظری کو فروغ دیا جائے تو یہ تخریبی کاموں میں ملوث ہو کرقوموں کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے اس حوالے سے اُمتِ مصطفوی پر یہ احسان کیا کہ آپ نے دینِ اسلام کی اعتدال پر مبنی تعلیمات سے انہیں روشناس کرایا۔ ان میں امن و محبت، رواداری، بقائے باہمی، بھائی چارے کے جذبات کو فروغ دیا، ملک و ملت اور دین کے لیے مفید اور کارآمد فرد بننے کا شوق اور ولولہ پیدا کیا، انہیں ملی و بین الاقوامی مسائل سے متعلق عقلی بنیادوں پر شعور فراہم کیا۔ آپ نے نسلِ نو کو ان کی دینی و ملی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیوں اور قوتوں کو اصلاحِ معاشرہ کے لیے بروئے کار لانے کا شعور بیدار کیا۔ اس ضمن میں آپ نے تحریکِ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے دنیا بھر میں بسنے والے نوجوانوں کو شعورِ مقصدیت فراہم کرنے کے لیے ویمن لیگ، یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ اور ایگرز جیسے شعبہ جات کا ایک نیٹ ورک فراہم کیا جونسلِ نو کی تربیت میں مصروفِ عمل ہے۔
4۔ مسلم خواتین کی درست سمت رہنمائی
خواتین کو فکری و نظریاتی اور علمی و عملی جدوجہد میں شریک کار بنانے کے لیے 5 جنوری 1988ء کو شیخ الاسلام نے منہاج القرآن ویمن لیگ کی بنیاد رکھی، جس کے ذریعے خواتین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا گیا۔ اس فورم کے تحت دنیا بھر میں خواتین ہر شعبہ زندگی بالخصوص تعلیم و تربیت، قیام امن اور اصلاح معاشرہ میں اپنا متحرک کردار ادا کررہی ہیں۔ یہ اعزاز بھی شیخ الاسلام اور تحریک منہاج القرآن کو ہی حاصل ہے کہ انہوں نے اسلامی تہذیب کی درخشندہ روایات کے مطابق خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ سماجی، معاشی، قانونی اور سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔
شیخ الاسلام خواتینِ اسلام کو نیکی، تقویٰ، طہارت اور پاکیزگی کا پیکر بننے اور اس کی محافظت کا شعور دے رہے ہیں۔ خواتین کے اعمال و احوال اور عقائد اسلامی کی اصلاح کے لیے خصوصی تربیتی پروگرامز مثلاً حلقہ جاتِ عرفان القرآن، دروسِ قرآن، محافل ذکر و نعت، تربیتی ورکشاپس، الہدایہ کیمپس، سالانہ اعتکاف، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنسز، محرم الحرام کے اجتماعات کا انعقاد آپ کی زیرِ سرپرستی ہر سطح پر کیا جا رہا ہے۔
مغربی دنیا میں شیخ الاسلام کے افکار و نظریا ت کی امین بیٹیاں جس خلوص و جذبے کے ساتھ مغربی یلغار کا مقابلہ کرتے ہوئے دینِ متین کی خدمت میں اپنا فعّال کردارا ادا کر رہی ہیں اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ شیخ الاسلام اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ امت مسلمہ میں بیداری شعور اور اِصلاحِ احوال خواتین کی تعلیم و تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ خواتین کے لیے ایسے تعلیمی و تربیتی ادارہ جات کا قیام عمل میں لائے کہ جہاں علوم اسلامیہ کے ساتھ خواتین کو جدید علوم سے بھی آراستہ کیا جاسکے۔
خلاصہ کلام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اللہ رب العزت کے ان چنیدہ اور برگزیدہ شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے تجدید و احیائے دین کی خاطر اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا بامقصد استعمال کیا۔ آپ جیسی شخصیات علامہ اقبال کے شعر کے مصداق:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
صدیوں بعد اُمت کو نصیب ہوتی ہیں۔ آپ جیسی اعلیٰ صفات رکھنے والی ہستی اقبال کے بندہ مومن کے پیمانہ پر سو فی صد پوری اترتی ہے جو دیکھنے میں تو انسان اور بندہ خاکی ہوتا ہے مگر اس میں فرشتوں کی سی پاکیزگی پائی جاتی ہے۔ بقول اقبال :
ہمسایۂ جِبریلِ امیں بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
اس کا جسم تو خاکی ہوتا ہے لیکن اس کی سرِشت اور نہاد نورانی ہوتی ہے۔ وہ اپنے باطن کی صفائی اور پاکیزگی کی وجہ سے جبریلِ امین کا ہمسایہ ہوتا ہے یعنی خدا کا قرب حاصل کرکے زندگی بسر کرتا ہے۔ اُسے نسلی وطنیت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ خود کو بدخشانی یا بخاری وطنیت کی حدوں میں محدود نہیں کرتا۔ یعنی اپنی قومیت کی بنیاد جغرافیائی وطنیت پر نہیں رکھتا بلکہ ایمانی اور روحانی وطنیت پر رکھتا ہے۔ وہ وطن دوست تو ہوتا ہے، لیکن وطن پرست نہیں ہوتا۔ وہ اپنے دین کے لیے اپنا وطن ترک کر سکتا ہے، لیکن اپنے وطن کے لیے اپنے دین کو ترک نہیں کر سکتا۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ اسلام ہی اُس کا وطن ہے۔
سُنا ہے، خاک سے تیری نمود ہے، لیکن
تیری سرِشت میں ہے کوکبی و مہتابی
بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے
اقبال کا یہ کلام شیخ الاسلام کی دینِ متین کے لیے کی جانے والی خدمت کا بہترین عکاس معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی ذات کو محض پاکستان کی حدود تک محدود و مقید نہیں کیا بلکہ اپنی زندگی کا آرام اور سکون دینِ اسلام کی سربلندی کی خاطر قربان کر دیا۔ آپ شرق تا غرب دنیا کے ہر کونے میں دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے کوشاں ہیں۔
شیخ الاسلام نے بلادِ غیر میں تنظیمات اور دفاتر قائم کرکے یورپ میں بسنے والوں کو خدمتِ دین کے لیے ایک منظم پلیٹ فارم عطا کیا، بیرونی دنیا میں منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے محافل میلاد، الہدایہ تربیتی کیمپ، سیمینار اور پروگراموں کا ایسا جال بچھایا کہ نوجوان نسل کودینی و اخلاقی تربیت کے لیے مکمل ماحول میسر آیا۔ منہاج یونیورسٹی کے سیکڑوں سکالرز کو دنیا بھر میں بھجوا کر یورپ میں مسلمانوں کی اگلی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا مستقل بندوبست کیا۔ بیسیوں ٹی وی چینلز پر انٹرویوز دیے، سیکڑوں تعلیمی اداروں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت اور اسلام کے تصور ِجہاد پرموثر اور فکر انگیز خطابات کیے اور ان مواقع پر سوال و جواب کی نشستیں بھی منعقد کی گئیں۔ الغرض ! آپ اپنی جدوجہد کے ذریعے نوجوانوں میں علم دوستی ، امن و محبت ، محنت اور سچائی جیسے اوصاف پیدا کر رہے ہیں۔ ان کی بے مقصد زندگیوں کو بامقصد بنارہے ہیں، بے راہ روی کا شکار نوجوان آپ کی صحبت و سنگت سے ہدایت کی راہ پر گامزن ہوگئے ہیں۔ آپ نے اُنہیں عشق ساقی کوثر کے جام پلا کر دنیا کی رنگ رلیوں اور لہوو لعب سے نکال کر راہ حق پر گامزن کر دیا ہے۔
نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی