تحریر : ضیاء نیّر (شعبہ ادبیات، فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین (رض)
سیدنا امام حسین علیہ السلام کا اسم گرامی تاریخ عالم کے ایوانوں میں چاند سورج کی طرح جگمگا رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی آب و تاب میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی بلکہ اس کی لازوال روشنی اقصائے جہاں میں چاروں طرف پھیل رہی ہے۔ شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کا وہ شعر جس سے ہم نے اپنے مضمون کا آغاز کیا۔ اس حقیقت ثابتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جیسے جیسے انسان کا شعور بیدار ہورہا ہے جبر و استبداد کے شکنجے میں جکڑی ہوئی انسانیت کا ہر فرد امام عالی مقام علیہ السلام سے اپنائیت اور یگانگت کا ناقابل شکست رشتہ قائم کرنے کے سوا اور اور کوئی چارہ نہیں رکھتا۔
امام کا وجود گرامی کربلا کے حوالے سے باطل کے مقابلے میں حق کا ایک زندہ جاوید استعارہ بن چکا ہے۔ ہر دور میں جہاں بھی مظلوم و مقہور انسانوں پر جبر و استبداد کے پہاڑ توڑے گئے اور یزیدی قوتوں نے حق کو دبانے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ رکھا وہاں باطل کے خلاف محاذ آرا مٹھی بھر لشکر نے اسوہ شبیری رضی اللہ عنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس روایت کو زندہ کرنے کی ضرور سعی کی۔ جو فرات کے کنارے میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے بہتّر جانثاروں نے قائم کی تھی آج کربلا محض ایک بیاباں صحرا اور ویرانے کا نام نہیں جہاں بھوک اور پیاس کی حکمرانی تھی اور جہاں نہتے بہتّر نفوس نے بے پناہ یزیدی لشکر کے مقابلے میں جو اسلحہ اور کثرت تعداد میں ان کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتا تھا شجاعت اور ایثار و قربانی کی ایسی فقیدالمثال تاریخ رقم کردی جسے کبھی دہرایا نہیں جاسکا اور نہ اس کی نظیر آئندہ پیش کی جاسکتی ہے۔
حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی اسرار و رموز میں واقعہ کربلا کے باب میں امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کو جو انہوں نے یزیدیت کے شکنجے میں پھنسی ہوئی روحِ اسلام کو ابدالاباد تک آزاد کرنے کے لئے دی یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر
موسیٰ (ع) و فرعون و شبیر (رض) و یزید ایں دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوّتِ شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری است
چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت حریت را زہرا اندر کام ریخت
خاست آں سر جلوہ خیرالامم چوں سحاب قبلہ باراں در قدم
تا قیامت قطع استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ جو شہر علم کا دروازہ ہیں اور ان کے فرزند عالی مقام اپنی شہادت میں اس ذبح عظیم کی معنوی تفسیر ہیں ہر فرعون کے لئے موسیٰ علیہ السلام اور ہر یزید کے لئے شبیر (حسین رضی اللہ عنہ) دو ایسے کردار ہیں جو دو مدمقابل قوتوں کی علامت بن کر سامنے آتے ہیں حق کا احیاء قوت شبیری سے ہے اور باطل داغ حسرت لئے آخر کار اپنی موت مرجاتا ہے۔ جب بطور طرز حکومت خلافت کا رشتہ قرآن سے منقطع ہوگیا تو آمرانہ شخصی حکومت نے اسلام کی حریت (روح آزادی) کے سر چشمے کو زہر آلود کردیا ایسے میں بہترین امت کا ایک بطل جلیل اٹھا اور بادل کی طرح برس کر اس نے اسلام کی خشک کھیتی کو سیراب کردیا ان کی اس قربانی نے قیامت تک ظلم و جبر کی جڑ کاٹ دی اور امامِ مظلوم کا وہ خون ناحق جو لشکر یزید نے بہایا اس سے اسلام کا چمن از سر نو ہرا بھرا ہوگیا‘‘۔
سیدالشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ نے حرمت دین کے تحفظ کے لئے جو شہادت قبول کی اس نے یزیدیت کا نام و نشان ہمیشہ کے لئے مٹا دیا اور اسلام کا پودا طاقت پکڑ کر ایک تنآور درخت کی طرح پھولنے اور پھلنے لگا۔ خواجہ اجمیر حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا امام حسین علیہ السلام کی پیش کی گئی قربانی کو بجا طور پر بنائے لا الہٰ سے تعبیر کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔
شہ است حسین (رض)، شہنشاہ است حسین (رض)
دیں است حسین (رض) دیں پناہ است حسین (رض)
سرداد نہ داد دست درد ستِ یزید
حقّا کہ بنائے لا الہ است حسین رضی اللہ عنہ
آج کے اس دور فتن میں جب ہر طرف طاغوتی طاقتوں کے ہاتھوں معصوم انسانوں کا خون بے دریغ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اس امر کی ضرورت ناگزیر ہے کہ آمادۂ شر یزیدی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے امام حسین رضی اللہ عنہ کے کردار کو پھر سے زندہ کیا جائے۔ ظالم چاہے کتنا ہی ستمگر اور ظالمانہ طاقتوں کا مالک کیوں نہ ہو ظلم کی حکمرانی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ اسوہ شبیری پر عمل پیرا ہونے سے ظالم کا وقار اور دبدبہ ریت کے دیوار کی طرح زمین بوس ہوکر رہتا ہے۔
یہ فیض سیدالشہداء (رض) ہے نوع انساں پر
کہ ہر زمانے میں ظالم ہے بے وقار اب بھی
آج یہ وقت کا تقاضا اور اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ شہید کربلا سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے اس پیغام کی معنویت و اہمیت کو ہر سطح پر اجاگر کیا جائے جو انہوں نے اپنی اور اپنے بہتّر ساتھیوں کی جانیں راہ حق میں قربان کرکے ہر دور کے اہل ایمان کو دیا۔ یہ پیغام اس ابدی حقیقت کو قلوب و اذہان میں ذہن نشین کرنے سے عبارت ہے کہ ایک حق گو مسلمان کبھی ظلم کے ساتھ مفاہمت نہیں کرسکتا۔
ہر زمانے میں یزید پیدا ہوتے رہیں گے ان کی شخصی آمرانہ حکومت بعض اوقات جمہوریت کے لبادے میں ایک چیلنج بن کر سامنے آئے گی۔ اہل اسلام کے سواد اعظم کو عدل و انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے ظلم کے آگے ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جانا ہوگا۔ انہیں حتی الامکان کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ ملت اسلامیہ میں اسلام کی روح حقیقی معنوں میں بیدار ہوجائے۔ میں اپنے مضمون کو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام لکھے ہوئے سلام کے چند اشعار کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔
رخِ حیات لہو سے اجالنے والا
عزیمتوں کی نئی طرح ڈالنے والا
حسین (رض) اب بھی شب کذب میں سر آفاق
صداقتوں کا ہے سورج اچھالنے والا
زمین کربلا اب بھی ہے چشم دید گواہ
نہیں تھا حکم خدائی وہ ٹالنے والا
بنائے لا الہٰ سر دے کے کرگیا محکم
وہ گرتی قدروں کو دیں کی سنبھالنے والا
حسین رضی اللہ عنہ اپنے بہتّر چراغوں کی لو سے
شب حیات کو دائم اجالنے والا
وہی ہے ملت اسلامیہ کا کھیون ہار
بھنور سے ڈوبتی کشتی نکالنے والا
رضائے مولا پہ سب کچھ لٹا گیا نیّر
وہ خود کو حرف مشیت میں ڈھالنے والا