اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی خالقیت اور ربوبیت سے اپنے یکتا شاہکار تخلیق کو مظہریت اور محمدیت کی جملہ صفات سے متصف کیا اور تمام عالمین کے لئے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کائنات میں رحمت اور محبت تقسیم کر نے کے لئے اپنا محب اور محبوب بنایا، اس وقت جب تخلیق اول کے نوری وجود سے نکلنے والی محبت کی انتہائی شدید لہریں اپنے خالق اور حسنِ مطلق کے گرد طواف کی حالت میں مصروف حمدوثنا تھیں تو محبت کی ان انتہائی طاقتور لہروں سے دوسری جانب عالم خلق کا ایک زبردست اور حیرت انگیزمادی نظام بھی وجود میں آ رہا تھا، کائنات کے مرکز (Nucleus) سے محبت کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں، نور کی ہر شعا ع سے ایک نیا جہاں تخلیق ہو رہا تھا، اربوں، کھربوں، جگمگاتے ستارے، سیارے، نیبولے اور کہکشائیں اتنی حیرت انگیز سرعت سے جنم لے رہی تھیں، کہ انسانی فکر وخیال جس کے تصور سے قاصر ہے، جب اشیاء اور اجرام اپنی اصل، منبع اور مرکز حیات سے اجزا کی صورت میں منتشر ومنفجر ہو رہے تھے، تو ان کا آپس میں تصادم ناگزیر تھا لیکن قربان جائیں قدرت خداوندی پر کہ خالق حقیقی نے فیضانِ وجود محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو عظیم قوتوں، یعنی مرکز گریز قوت (Centrifugal Force) اور مرکز مائل قوت (Centripetal Force) سے ان کو ایسا متوازن کر دیا کہ وہ باہمی تصادم سے محفوظ رہے، اس توازن اور اعتدال کا قانون عالمین وکائنات میں موجود ہر شے، اس کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے (Atom) اور ذرے کے معمولی سے معمولی جو ہر پر یکساں لاگو نظر آتا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے ذرے (Atom) کے مرکز (Nucleus) میں مصروفِ طواف بے پناہ توانائی کے حامل اس کے جوہری اجزا، پروٹون، نیوٹران اور الیکٹران کو ایسا معتدل، متناسب اور متوازن کر دیا ہے کہ مجال ہے کہیں ان میں ہلکا سا تصادم ہو، اس کے برعکس حضرت انسان نے اپنے تخریبی مقاصد کی تکمیل کے لئے ان نظرنہ آنے والے جوہری ذرات کو جب آپس میں ٹکرایا تو جوہری دھماکہ نے گہوارۂ امن دنیائے ارضی میں ہلاکت آفرینی کا ایک ایسا بھیانک طریقہ ایجاد کیا کہ ساری دنیا اُس کی دہشت سے کانپ رہی ہے، اللہ سبحانہ وتعالی کا اپنی مخلوق کے ساتھ کریمانہ سلوک ملاحظہ فرمایئے کہ اس ذات جل شانہ نے کھربوں اربوں کہکشاہوں، ستاروں، سیاروں، نبیولوں اور ان کے درمیان مادے کی چوتھی حالت پلازما کے آئن زدہ گیسی پل (Ionized Gaseous Bridge) کو، کہ جس کی موجودگی کا اشارہ قرآن مبین نے الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ میں سَمَوات اور اَرض کے درمیان لفظ بَيْنَهُمَا سے دیا ہے، ایک ایسے عجیب وغریب اعتدال، توازن اور تناسب سے قائم کیا ہے کہ انسانی عقل وفہم سے ماوراء تیز رفتاری سے سفر (سلوک) کرنے اور اپنے مرکز ومحور کے گرد گردش کے باوجود ان کے درمیان تصادم کا خطرہ اس وقت تک ناممکن بنا دیا گیا ہے جب تک کہ خالق کائنات کی مشیّت ہو، یہ جملہ مخلوق آپس میں اور زمین کے ساتھ ٹکرانے سے ایک معین وقت (الساعۃ) تک محفوظ اللہ کی رضا کی جستجو میں مصروف سفر ہیں، تمام مخلوقات کو ایک انتہائی زبردست طاقت نے جب ان کے مرکز یعنی نور اول سے جدا کیا تو ان کے ذرات (Atoms) میں زبردست انتشار وخلفشار کی وجہ سے کروڑوں، اربوں درجہ نیوکلیائی توانائی (Trinitrotoluene-TNT) کا اخراج شروع ہوا، اپنے اصل سے جدا ہونے والے ان باریک اجزاء کے فراق (Spontaneous Disintegration) کی آتش ہجر (Radioactivity) کا اندازہ عشق کی آگ میں جلنے والا کوئی عاشق نامراد ہی کر سکتا ہے یا رومی کی وہ بانسری کہ جب سے اسے بانس کے جنگل سے کاٹا گیا، اس کے نالہ ہجر سے آج تک ہر قلب حزیں تڑپ رہا ہے۔
دانائے راز مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے کائنات کے ان کھربوں کہکشاؤں، ستاروں اور سیاروں کی اس المناک جدائی کی تصویر اپنی مشہور زمانہ مثنوی میں بانسری کے استعارئہ میں کس کمال سے کھینچی ہے، فرماتے ہیں : ۔
1۔ بشنو از نے چوں حکایت می کند وزجدائی ہا شکایت می کند
’’بانسری سے سن کیا حال سناتی اور ہجر وفراق کی کیا شکایت کرتی ہے۔‘‘
2۔ کز نیستاں تامرا ببریدہ اند از نفیرم مرد و زن نالیدہ ام
’’کہ جب سے مجھے بانس کے جنگل (جھنڈ) سے کاٹ (جدا) دیاگیا ہے میرے نالہ وفغاں سے مرد اور عورتیں روتی ہی رہتی ہیں۔‘‘
3۔ سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق تابگویم شرح درد اشتیاق
’’ میں (سننے والے کا ایسا) سینہ چاہتی ہوں ( جوپہلے ہی) فراق کے مارے پارہ پارہ (ہو) تاکہ (میں اس کو اپنا ہمراز سمجھ کر) درد شوق (کا حال) کھول کر سناؤں۔
4۔ ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش باز جوید روزگار وصل خویش
’’جوشخص اپنے اصل (جائے پیدائش ) سے دور ہو جاتا ہے، وہ پھر اسی وصل کی تلاش کرتا ہے۔‘‘
5۔ من بہر جمعیتے نالاں شدم جفت خوشحالاں وبدحالاں شدم
’’میں ہر مجلس میں نالہ زن ہو چکی ہوں اور (نالہ نے سے جان پانے والے) خوش حال لوگوں اور(نالہ نے سے اثر نہ لینے والے، روحانیت سے عاری، جسمانی خواہشات میں جکڑے ہوئے) بدحال لوگوں کی صحبت میں رہ چکی ہوں۔‘‘
6۔ ہرکسے از ظن خود شد یار من وز درون من نہ جست اسرار من
’’ہر شخص اپنی دانست میں میرا یار بنا، اور (حالانکہ) اس نے میرے دل کے بھیدوں کو (کہ ازاں جملہ ایک طلب قرب حق ہے) دریافت نہ کیا۔‘‘
یہ دنیا رنج و راحت کا غلط اندازہ کرتی ہے خدا ہی خوب واقف ہے کہ کس پر کیاگزرتی ہے۔
7۔ سر من از نالہ من دور نیست لیک چشم وگوش را آں نور نیست
’’ میرا بھید میری آہ وزاری سے جدا نہیں ہے، لیکن (لوگوں کی) آنکھ اور کان کو وہ ( ذوق بصارت و سماعت) کا نور حاصل نہیں ہے۔ (جس سے عاشق کی حالت کو دیکھ کر اور اس کے نالہ وفغاں کو سن کر حقیقت کو سمجھ سکیں)
8۔ تن زجاں وجاں ز تن مستور نیست لیک کس را دید جاں دستور نیست
’’ بدن جان سے اور جان بدن سے پوشیدہ نہیں ، مگر یہ طریقہ نہیں کہ کوئی جان کو دیکھ سکے۔ (یہی حال اس آہ وزاری کے بھید کا ہے۔)‘‘
9۔ آتش ست ایں بانگ نے ونیست باد ہر کہ ایں آتش ندارد نیست باد
’’بانسری کی آواز ایک آتش (سوزاں) ہے اور (صرف) ہوا نہیں ہے، جو شخص اس آگ سے بہرہ ور نہیں وہ (خدا کرے) میری طرح آتش ہجر و فراق میں جل کر نیست ونابود ہو جائے۔‘‘
ابتدائی مراحل میں جب اربوں، کھربوں باریک اجرام عظیم الجثہ کہکشاؤں، ستاروں، سیاروں اور نبیولوں کی صورت میں جدا ہوکر ہجروفراق کی انتہائی المناک کیفیت سے دوچار ہوئے تو حُسن کائنات سے جدائی کے غم نے ان میں انتہائی زبردست انتشار وانفجار پیدا کیا، جدید سائنس نے جو ہر شئے کی صرف ظاہری حالت پر نگاہ رکھتی ہے، کائنات کی روح اور باطنی کیفیات سے عدم آگہی کی بنا پر اپنی اصطلاح میں اس کیفیت کو بگ بینگ یعنی عظیم کائناتی دھماکہ سے موسوم کیا ہے، چونکہ جدید سائنس کا تعلق صرف ان ظاہری امور سے ہوتا ہے جو عقل وشعور اور حسی مدرکات کی گرفت میں آتے ہیں، کائنات کی روحانی اور باطنی کیفیات ابھی تک سائنس کی نگاہ سے اوجھل ہیں، لیکن ایک عظیم حقیقت کے باوصف اب جدید سائنسی ریسرچ بھی اس جانب توجہ دینے پر مجبور ہوگئی ہے۔
امید ہے مستقبل میں سائنس جب بھی حیات کائنات اور اس کی روح کی حقیقت کو سمجھنے کے قابل ہو جائے گی، عالم انسانی جدید سائنسی اکتشافات کی روشنی میں حقیقت الحقائق کی معرفت کے نئے گوشوں سے آشنا ہو سکے گی۔
مشہور عربی مقولہ ہے کُلُّ شَئٍی يَرْجِعُ اِلٰی اَصْلِه. ’’یعنی ہر شئے اپنے اصل کی جانب لوٹتی ہے۔‘‘ چنانچہ یہ بے حد وحساب اجرام فلکی بھی اپنے اصل کے ساتھ واصل ہونے کی تمنا لئے اپنے ’’مستقر‘‘ کی طرف رواں دواں ہیں، کہ جس کے اصل ٹھکانے کا اندازہ فقط اس ذات کو ہے جو زبردست علم والی ہے۔ اپنی مخلوق کے اس سیر سلوک کے بارے ارشاد الٰہی ہے۔
’’وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَالِکَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ‘‘
’’اور سورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ زبردست علم والی ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے۔‘‘
یہاں سورج کو تمام شموس و قمور کائنات کا نمائندہ اور مستقر کو ایک مقرر وقت پر ایک متعین مقام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی نجم کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر کہ یہ تمام شموش و قمورِ اور اجرام نور اول میں فنا ہونے کے لئے رواں دواں ہیں، اس حقیقت سے یہ سب بخوبی آگاہ ہیں کہ ’’اصل‘‘ میں فنا ہونا ہی بقا ہے، اصل ہی وہ واحد مخلوق ہے جو خالق کے ساتھ واصل ہو سکتی ہے، ورنہ وصل تو دور کی بات ہے خالق حقیقی کی دید بھی دیگر مخلوق کے لئے روا نہیں، محبوب سبحانہ وتعالی کے حسن وجمال کی دید تو فقط محب یکتا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہی مختص ہے جو عبدہ کے مقام پر فائز ہے، بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ
عبد دیگر عبدہ چیزے دِگر ایں سراپا انتظار او منتظر
پانی کا قطرہ بھی سمندر میں ملنے اور اس میں فنا ہونے کے بعد باقی رہتا ہے، ورنہ اپنے اصل کی بجائے جب وہ زمین پر گرتا ہے، تو فنا ہو جاتا ہے۔
محبوب نبی محتشم سرکار ہر دوسرا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر آسمان پر توجہ فرماتے اور عالمِ بالا کی مخلوق کو اپنی نگاہ فیض گنجور سے نوازتے تھے۔ دنیائے ارضی کو اپنے وجود بشری سے فیضیاب کرنے کے باوجود نور اول نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وجود سے نکلے ہوئے اجزاء پر ہمیشہ نگاہ التفات رکھتے تھے اور ان کی تعریف وستائش فرمایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلام ربانی میں سے اکثر اُن آیات بینات کی تلاوت کثرت سے فرماتے تھے کہ جن میں ارضین وسموات کا ذکر ہوتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت ذوق و شوق سے سورہ آل عمران کے بیسویں رکوع کی تلاوت فرماتے تھے جس میں اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے کہ میں قادرمطلق ہوں میری قدرت کا تماشہ دیکھنے اور مشاہدہ کرنے والے جب میری نشانیوں کو دیکھ کر مجھے قادر مطلق ماننے پر مجبور ہوتے ہیں تو میں بتاؤں کہ وہ لوگ کیسے ہوتے ہیں اور اُن صاحب عقل افراد کی نشانیاں کیا ہوتی ہیں، یہ صاحبان فکر، جو حقیقت کے متلاشی اور دانش و بینش سے بہرہ ور ہوتے ہیں، نقل اور عقل سے متعلق جو چیزیں بھی جب ان کے مشاہدہ میں آتی ہیں، تو وہ ان کو خوب پرکھتے ہیں، وہ تفکر، تدبر اور تعقل سے کام لیتے ہیں، متضاد کیفیات کو سمجھتے ہیں، وہ اپنے رب جل شانہ کی عطا کردہ عقل ودانش سے اوہام و شبہات اور فاسد خیالات کے شائبوں میں سے صاف وشفاف وقائق اور آثار پہچاننے کی کامل صلاحیت رکتھے ہیں، اور ان کی زندگی کا ہر سلوک اس حد تک متصوف ہوتا ہے کہ ان کے قلوب یادالہی میں مشغول، کھڑے، بیٹھے اور پہلو پر لیٹے ہر حال اور کیفیت میں یاد الہٰی میں لگے رہتے ہیں، ان کی زبان پر ہر وقت اسی کا نام، دل میں اُسی کی یاد، اور فکر وذہن اُسی کے معارف میں غوطہ زن ہوتے ہیں، وہ سموات وارضین (COSMOS) کی تخلیق پر جب غور و فکر کرتے ہیں، تو ان کے قلب حزیں سے بے ساختہ یہ نعرہ مستانہ نکلتا ہے کہ اے ہمارے رب تونے یہ سب کچھ عبث اور باطل تو نہیں بنایا اور یہ سب تیرا کارخانہ قدرت ہی ہے جو تیری ہی ذات وصفات، خالقیت اور حاکمیت اعلیٰ کی طرف نشان دہی کر رہا ہے اور تو تمام عیبوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے، پس اے ہمارے پروردگار تو ہم کو دوری و مہجوری کی آگ سے بچا لے۔
اللہ تعالی جل شانہ نے اپنی بے حدوحساب مخلوقات ارضی کے ساتھ انتہائی بہترین سلوک کے نتیجہ میں ان کے لئے آسمان کو چھت بنایا، چمکتے ستارے اللہ سبحانہ وتعالی کے روشن چراغ ہیں، جو دنیا کو روشنی سے جگمگا رہے ہیں، ’’إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ‘‘ صنّاعِ ازلی نے آسمان کو نیلگوں بنا کر انسانی بصارت کے لئے فرحت ومسرت کا باعث بنایا، گنبد افلاک کی کشادگی دیکھ کر انسان کو راحت ملتی ہے اور وہ اکثر دوسرے انسانوں کے لئے کشادہ دل ہو جاتاہے، عرفاء فرماتے ہیں، ’’جس گھر سے جس قدر آسمان نظر آتا ہے، اس گھر کو اللہ سبحانہ وتعالی اتنی ہی فرحت اور آسودگی عطا فرماتا ہے، گنبد افلاک صانع آفاق کا حقیقی آئینہ دار ہے‘‘۔
امام ابو حامد محمد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ آسمان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ آسمان کو پیار و محبت سے دیکھنے والوں کو اللہ سبحانہ وتعالی کی یاد آتی ہے، شوق عبادت بڑھتا اور اشتیاق قرب الہی زیادہ ہوتا ہے، غم کم، وسوسہ گم اور خوف وحزن دور ہوتا ہے، دل سے کی گئی التجائیں عند اللہ مقبول ہوتی ہیں اور سکون قلب میسر آتا ہے۔ ارشاد الہی ہے۔
’’وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَO’’
(الحجر، 15 : 16)
علامہ طنطاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیہ کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ بادشاہ اپنے محل کو ہر طرح مزّین ومرصّع کرے لیکن اپنی رعایا میں کسی کو ایسا نہ پائے جو اس کو دیکھ کر اس کی صناعیّت کو سمجھے اور بادشاہ کے ذوق وشوق کی داد دے، زَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ‘‘ کا فقرہ اسی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ یہ دیکھنے کی چیز ہے اسے بار بار دیکھ، حدیث قدسی ہے۔
تَفَکَّرُوْا فِی آياتِهِ وَلَاتَفَکَّرُوْا فِی ذَاتِه.
’’اس کی نشانیوں پر غورکرو اور اس کی ذات میں غور نہ کرو۔‘‘
اللہ تعالی جل مجدہ نے اپنے کلام مبین میں انسان کو کائنات کے بارے میں ذکر وفکر کی دعوت دیتے ہوئے ساڑھے سات سو بار تخلیق وتسخیر کائنات، تین سو گیارہ مرتبہ سماء (آسمانوں) یعنی ماورائے زمین اور چار سو اکاون بار ارض (زمین) کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے۔
’’أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍO’’
(ق، 50 : 6)
’’کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا ہے کہ ہم نے اس کو کیسا (عظیم الشان، مستحکم، وسعتوں کے ساتھ) بنایا ہے اور (کیسے کیسے حسین اور خوبصورت ستاروں سے) آراستہ کیا ہے اور اس میں (کسی قسم کا نقص و) شگاف نہیں ہے‘‘۔
اپنی تمام مخلوق اور خاص کر انسان کے ساتھ اللہ سبحانہ وتعالی عمانوالہ کے انتہائے سلوک پر غور کریں، تو عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے، اور کلام الٰہی کا یہ جملہ بار بار زبان پر جاری ہوتا ہے کہ
’’فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِO’’
(الرحمٰن، 55 : 13)
’’پس (اے انسانو اور جنو!) تم دونوں اپنے رب کی کِن کِن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘۔
بیشک اللہ سبحانہ وتعالی کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی دی ہوئی نعمتوں کو نہیں جھٹلا سکتا۔ جیساکہ وہ عظیم واعلیٰ وارفع ہے، اسی طرح اپنی مخلوق کے ساتھ اس کا ہر عمل اور سلوک بے حد عظیم واعلیٰ وارفع ہے، ہر انسان یہ کہنے پر مجبور ہے کہ
’’رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً‘‘
(آل عمران : 191)
’’اے ہمارے رب تونے اس (تمام کارخانہ قدرت) کو بے کار اور بے فائدہ پیدا نہیں فرمایا‘‘
بیشک اللہ سبحانہ کی ہر ایجاد موجدِ اعلیٰ کی رفعتوں کی اعلیٰ نشانی کی مظہر اور کمالِ تصوف ہے، ہر شئے بزبان خود اعلان کر رہی ہے کہ ہمیں دیکھنے والو، جیسا جیسا تم ہمیں دیکھوگے اور ہم میں غوروفکر کر کے ہمیں سمجھو گے، تمہارے سر اور تمہارے دل اُسی قدر ہمیں پیدا کرنے والے کے سامنے جھک جائیں گے، بیشک قدرت کے یہ سب کرشمے انسان کے لئے خزینہ معرفت ہیں، کامیاب وہ ہے جو مخلوق کی پیدائش کے اسرار اور کائنات کے عجائب کا مطالعہ ومشاہدہ کرے اور اللہ سبحانہ وتعالی کے سامنے سرتسلیم خم کر دے، کائنات کا پورا کارخانہ عقل وفہم رکھنے والوں کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی کی معرفت کاذریعہ ہے اور وہ جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خالق ہر دوسِرا کی قدرتوں اور مخلوق کے ساتھ سلوک کو نہ جان سکے، بیشک یہ ان کی ناسمجھی اور بے عقلی کی دلیل ہے اور یہ سب کچھ عاقلوں کے لئے ’’لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ‘‘ (البقرہ : 164) کھلی نشانیاں ہیں۔ (جاری ہے)