پاکستان کی سیاست کی تاریخ میں ایک اور خونی باب کا اضافہ کرکے 2007ء کا سورج غروب ہوچکا اور 2008ء کا آفتاب پاکستان کے ماتھے پر بدنامی کا ایک اور بڑا داغ لے کر طلوع ہوچکا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام کے ساتھ لفظ شہید کا اضافہ ہوچکا اور وہ گڑھی خدا بخش میں اپنے والد کے پہلو میں ابدی نیند سوچکی ہیں۔ وہ وطن عزیز کی بڑی پارٹی کی چیئرپرسن تھیں جنہیں منظر سے ہٹادیا گیا۔ ان کے ساتھ 30 افراد کو بھی موت کی وادی میں پہنچا دیا گیا۔ ان کے سفاکانہ اور بہیمانہ قتل پر پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔ 3 دن تک وطن عزیز میں ہُو کا عالم رہا، سڑکیں ویران اور نظام زندگی معطل رہا۔ عوام غم اور خوف کی کیفیت میں رہے۔ ان کے بہیمانہ قتل پر لاکھوں آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ ان حالات میں حکومت کی طرف سے ان کی موت کے حوالے سے متضاد بیانات کا سلسلہ جاری رہا جو عوام کے لئے مزید تکلیف اور اذیت کا باعث بنا۔ نجی ٹی وی چینلز اور عالمی میڈیا کے مطابق ان کا قتل گولیاں لگنے سے ہوا مگر بعد ازاں حکومت کی طرف سے ان کی موت کا سبب گاڑی کے سن روف کا لیور سر میں لگنا قرار پایا۔ حکومت ایسا کہہ کر ایک ناقابل تردید حقیقت پر پردہ ڈالنے پر مصر دکھائی دیتی ہے مگر موت کی حکومتی وجہ کو قبول کرنا دن کو رات قرار دینے کے مترادف ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد سے قبل ان کی جان کو لاحق خطرات کے حوالے سے بہت خبریں آرہی تھیں ان کے وطن پہنچنے پر کراچی میں ان کے استقبالی جلوس پر خود کش حملہ ہوا جس میں 160 افراد ہلاک ہوئے مگر محترمہ محفوظ رہیں۔ یہ واقعہ بھی پاکستان میں ہونے والی بدترین دہشت گردی تھی۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے ان کو مسلسل کہا جاتا رہا ہے کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے مگر انہوں نے اسے خاطر میں نہ لاکر بھرپور انتخابی کمپیئن میں جلسوں سے خطابات کا سلسلہ جاری رکھا۔ 27 دسمبر کو لیاقت باغ کے میدان میں انہوں نے عوام سے جذباتی خطاب کیا اور جلسے کے اختتام پر ان کے چہرے پر خوشی اور مسرت کے جذبات واضح تھے۔ جذباتی کارکن ان کی گاڑی کے گرد نعرے لگا رہے تھے۔ اسی دوران ہی وہ بدقسمت گھڑی آگئی جب وہ کارکنوں کے جذباتی نعروں کا جواب دینے کے لئے گاڑی کا سن روف کھلوا کر باہر آگئیں اور ہاتھ ہلاکر ان کے نعروں کا جواب دینے لگی۔ اس سے پہلے اخبارات میں چھپنے والی تصویروں میں سن روف کے باہر حفاظتی نقطہ نظر سے ان کے ساتھ ناہید خان یا شیریں رحمان دکھائی دیتی تھیں مگر اس مرتبہ وہ اکیلے ہی باہر آئیں۔ چند لمحوں بعد فائرنگ اور دھماکے کی آوازوں کے دوران سر اور گردن میں گولی لگنے سے وہ گاڑی کے اندر گر گئیں۔ اس کے بعد انہیں ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں۔ یوں وزیراعظم لیاقت علی خان کے بعد لیاقت باغ دوسرے وزیراعظم کا مقتل بن گیا۔ اس لحاظ سے راولپنڈی انتہائی بدنصیب شہر ہے کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی بھی اسی شہر میں ہوئی تھی۔ پاکستان کی سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں اختلاف رائے کا کلچر نہیں جبکہ جمہوریت کی روح ہی اختلاف ہوتا ہے۔ یہاں نظریات سے اختلاف کو جرم سمجھا جاتا ہے اور جان لینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ نادیدہ قوتیں ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں چاہتیں اور نام نہاد جمہوریت کو بھی اپنی مرضی کے مطابق چلاکر ملک میں سیاسی عدم استحکام کو موجود رکھنا چاہتی ہیں۔ موجودہ انتخابی نظام اس ملک میں جمہوریت کا سب سے بڑا قاتل ہے۔ محترمہ کا قتل اس نظام کی ناکامی کا تازہ ترین ثبوت ہے۔ پاکستان میں منشور کی سیاست متناسب نمائندگی کے پارلیمانی نظام سے ممکن ہے مگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوریت تو چاہتی ہیں مگر اس ظالمانہ نظام کو بدلنے کے لئے تیار نہیں جو لیڈروں کو خون میں نہلانے کا ایک سبب ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس المناک سانحے کے بعد PPP اس نظام انتخاب کو بدلنے کا مطالبہ کرتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ پر زور مطالبہ صرف پاکستان عوامی تحریک نے کیا اور الیکشن سے لاتعلقی کا اعلان بھی اسی بنیاد پر کیا گیا۔ بے نظیر کے بہیمانہ قتل کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے لاہور پریس کلب میں کینیڈا سے ٹیلیفونک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسے جمہوری اور سیاسی آزادی کا قتل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے لئے خفیہ ہاتھوں کی گھناؤنی سازش اور خطرناک اقدام ہے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرات مند باپ کی دلیر بیٹی اور بڑی سیاسی رہنما تھیں جنہیں نادیدہ قوتوں نے منظر سے ہٹادیا اور دعا کی کہ اللہ فیڈریشن اور ملک کو بچالے۔ پاکستان عوامی تحریک نے محترمہ بے نظیر بھٹو جو تحریک منہاج القرآن کی تاحیات رفیق بھی ہیں کی جمہوریت کے لئے خدمات پر انہیں ’’شہید جمہوریت‘‘ کا خطاب دیا اور 7 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔ مرکزی سیکرٹریٹ پر قرآن خوانی کے بعد ان کی مغفرت کے لئے دعائیں کرائی گئیں۔ بے نظیر بھٹو کا قتل قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی بہت بڑی ناکامی اور ملک کی سالمیت اور یکجہتی کے خلاف بڑی سازش ہے۔ سندھ، سرحد اور بلوچستان کو پنجاب کے خلاف کرکے ملک توڑنے کا گھناؤنا منصوبہ بنانے والی ملک دشمن قوتیں اپنے ہدف کو ٹارگٹ کرنے میں کامیاب رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان استعماری قوتوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ وہ اس کی نیوکلیئر طاقت کو ختم کرکے کمزور ملک کے طور پر دیکھنا چاہتی ہیں جو بڑی طاقتوں کا غلام بن کر جئے۔ قوم ملکی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم کوشش کو ناکام بنادے اور متحد ہوکر اس عظیم سانحے اور اس کے ملک پر پڑنے والے منفی اثرات کا صبر، استقامت اور یکجہتی سے مقابلہ کرے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا سفاکانہ قتل ایک قومی سانحہ ہے اور ملک کو ایسے حادثات سے بچانے اور ترقی کی شاہراہ تک لے جانے کے لئے ظالمانہ انتخابی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ 16 کروڑ عوام بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے سیاسی شعور کی سطح کو مزید بلند کرکے حالات کا بغور جائزہ لیں اور اس استحصالی، ظالمانہ اور منافقانہ نظام انتخاب کو بدلنے کے لئے ہونے والی سنجیدہ کوششوں کا حصہ بنیں ورنہ خدا نہ کرے قتل و غارت گری کی یہ آگ ملک کی سالمیت اور یکجہتی کو بھسم نہ کردے۔