راولپنڈی کی سیاسی تاریخ میں تحریک منہاج القرآن کی بیدارئ شعور ریلی جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی کرپٹ اور استحصالی نظام انتخاب کے خلاف ایک ریفرنڈم تھا۔ لیاقت باغ گرا ؤنڈ سے ملحقہ کالج روڈ اور گورڈن کالج روڈ سمیت مری روڈ پر بھی ہزاروں افراد موجود تھے اور چوک میں لگی بڑی سکرین جس پر دن کی روشنی میں بھی واضح دکھائی دیتا ہے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا تاریخی خطاب دیکھ رہے تھے۔ یہ ریلی اس لحاظ سے بھی منفرد رہی کہ لاہور میں دفاع پاکستان ریلی بھی اسی وقت تھی۔ تحریک انصاف نے پنڈی گھیپ میں جلسہ رکھا ہوا تھا, جماعت اسلامی نے پشاور اور PPP اور دیگر جماعتوں کے جلسے بھی اس وقت تھے۔ جلسوں کی بہتات کے باوجود عوام پر یہ واضح ہوگیا کہ لیاقت باغ کی ریلی انتظامات کی خوبصورتی اور عوامی شرکت کے لحاظ سے سارے جلسوں پر بھاری تھی۔ لیاقت باغ میں ہونے والی عوامی ریلی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کینیڈا سے سکرینوں پر دکھائی دے رہے تھے اور عوام کا جوش و خروش تھا کہ تھمنے کو نہیں آرہا تھا۔ پنڈال کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور جتنی کرسیاں مردوں کے لئے لگائی گئی تھیں اتنی ہی خواتین کے لئے مختص تھیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خطاب 2:15 پر شروع ہوا جبکہ پنڈال اس سے ایک گھنٹہ قبل لبالب ہوچکا تھا اور تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ سوا چار گھنٹے کے انتظار کے بعد شرکاء ریلی نے سکرین پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو دیکھا تو فرط جذبات سے لاکھوں لوگ کھڑے ہوگئے مری روڈ پر موجود ہزاروں افراد بھی خوشی سے سکرین کی طرف دیکھ کر دونوں ہاتھوں کو مسلسل ہلائے جارہے تھے جبکہ لیاقت باغ گراؤنڈ کے ساتھ کھڑی بسوں کی چھتوں پر بھی سینکڑوں افراد اسی کیفیت سے سرشار دکھائی دیئے۔ 5 منٹ تک لاکھوں افراد نے کھڑے ہوکر اور ہاتھوں کو ہلاکر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا استقبال کیا۔ اس وقت سٹیج سے پنڈال کا منظر دیکھنے کے لائق تھا۔ عوام کا متلاطم سمندر جو تاحد نظر پھیلا ہوا تھا اور تحریک کے تین رنگوں کے جھنڈوں کا تحرک یہ ظاہر کررہا تھا کہ عوام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ایک جھلک دیکھنے کو کتنے بے تاب ہیں۔ Minhaj.tv کے ذریعے ریلی کی کارروائی براہ راست پوری دنیا میں دیکھی جارہی تھی اس طرح کروڑوں افراد بالواسطہ طور پر ریلی میں شریک تھے اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندگان کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ انتخابی نظام کینسر زدہ ہو چکا، ملک و قوم کو صحت یاب کرنے کے لئے سرجری کرنا ہو گی۔ ملک کو ایسے سرجن کی ضرورت ہے جو پیچیدہ سرجری کا ماہر ہو۔ قومی حکومت تشکیل دی جائے جو موجودہ آئین کے تابع رہ کر نیا سوشل کنٹریکٹ دے۔ قومی حکومت میں دیانت دار اور باکردار اہل لوگو ں کا شامل کیا جائے جو اداروں کے اختیارات کا تعین کرے۔ انہوں نے کہا کہ میں سپریم کورٹ کو سپریم مانتا ہوں۔ قومی حکومت کے لیے راستہ سپریم کورٹ کے علاوہ کوئی نہیں کھول سکتا۔ پاکستان کو جمہوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں جو دہشت گردی سے پاک ہواور اس کی سا لمیت کو بیرونی مداخلت سے خطرہ نہ ہو۔ بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ نہ جمہوری ہے نہ اسلامی ہے اور نہ ہی انسانی ہے۔ ہمارا سیاسی کلچر تسلسل سے آئین کے چہرے پر تھپڑ مار رہا ہے اور ہم پھر بھی جمہوری کہلوانے کی ضد پر قائم ہیں۔ ہمارے ملک میں جو جمہوریت ہے اسے جمہوریت کہنا اس کی توہین ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ موجودہ نظام, جمہوریت نہیں نظام مجبوریت ہے، قوم اسے رد کر دے۔ اس نظام نے پاکستان کو کرپشن کے عالمی گراف میں بھوٹان، سری لنکا، ایتھوپیا اور بنگلہ دیش سے بھی اوپر پہنچا دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ عوام تانگے کی پچھلی نشست کی سواریاں نہ بنیں جنہیں آگے آنے والے گڑھے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ وہ ایسے نظام کو مسترد کر دیں جس نے انھیں غلام بنا رکھا ہے۔ تحریک منہاج القرآن ماڈریٹ، امن پسند اور اعتدال پسند پاکستان دیکھنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ سے لڑائی کرو نہ اس کے غلام بن کر رہو۔ ہمیں آ زادانہ فیصلے کرنے والی پُرامن قوم بن کر رہنا ہو گا۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم الیکشن نہیں لڑیں گے مگر نظام انتخاب کی تبدیلی کے لئے قوم کے شعور کے دروازے پر ضرور دستک دیتے رہیں گے۔ کیونکہ یہی حقیقی تبدیلی کا راستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا جمہوری نظام ہو جہاں صحت اور تعلیم ہر دو پر جی ڈی پی کا دس فی صد خرچ کیا جائے۔ موبائل عدالتیں ہوں جو تین دن میں فیصلہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اب حقیقی تبدیلی نہ آئی تو عوام غور سے سن لیں کہ پھر کبھی نہ آسکے گی اور ملک مزید اندھیروں میں چلا جائے گا۔ قوم حقیقی تبدیلی چاہتی ہے تو موجودہ نظام انتخاب کے خلاف بغاوت کر کے سڑکوں پر نکل آئے۔ جس نظام سیاست کو جمہوریت کہا جا رہا ہے اس نظام کے ذریعے جو پارلیمنٹ وجود میں آئے گی اس سے ملک و قوم میں تبدیلی نہیں بلکہ مزید مایوسی جنم لے گی۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ اس استحصالی نظام انتخاب نے عوام کی عزت, آبرو, جینے کا حق, بنیادی ضروریات زندگی, آزادئ فکر, مواخذہ کا حق سب چھین لیا ہے, آئندہ نسلوں کو بدلنے اور قومی, آئینی اداروں اور حقیقی جمہوریت کو بچانے کی خواہش اور حقیقی تبدیلی اس استحصالی نظام انتخاب کو دریا برد کیے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ نظام سیاست فقط اشرافیہ کی جمہوریت ہے اور انہیں اقتدار میں لانے کی ڈیوائس ہے۔ صرف آج حکومت کی تبدیلی کا نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کا موزوں ترین وقت ہے۔ میری جنگ سیاسی جماعتوں سے ہے نہ سیاسی قیادتوں سے بلکہ اس استحصالی سیاسی انتخابی نظام سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاشرہ نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے اور نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ یہ معاشرہ انسانی ہے۔ نہ ترقی یافتہ ہے نہ ترقی پذیر ہے بلکہ زوال پذیر ہے۔ بے سمت اور بے مقصدیت میں بہتا ہجوم ہے۔ 80 فیصد عوام دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں۔ 60 فیصد عوام انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیتے اور 40 فیصد بھی وہ ہیں جنہیں مختلف حیلوں سے ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ پوری دنیا میں MNA کو ترقیاتی کاموں کے بجٹ میں ایک روپیہ نہیں دیا جاتا, ترقیاتی کام سرکاری محکموں کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ جہاں MNA اپنی حدود سے تجاوز کرے ادارے اس کی فوری گرفت کر لیتے ہیں۔ یہاں MNA اپنے حلقے کی تقدیر کا مالک ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اظہار آزادئ رائے میڈیا کا بنیادی حق ہے, لیکن جب آمر اقتدار میں آتے ہیں تو میڈیا کی زبان کھینچ لیتے ہیں اور جب سیاست دان آتے ہیں تو میڈیا کو اتنا بولنے پر لگا دیتے ہیں کہ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انہوں نے کہا کہ میں استحصالی نظام انتخاب کو ملک اور قوم کی تباہی کاراستہ سمجھتا ہوں۔ یاد رکھیں! اگر عوام نے آج بھی آنکھیں نہ کھولیں تو پچھتائیں گے۔ 18 دسمبر کو ملک میں ایک ہی ایسی آواز تھی جس نے ملک و قوم کو لاحق مرض کی درست نشاندہی کی اور قوم کو بتادیا کہ اگر وہ اب بھی علاج کیلئے تیار نہ ہوئے تو اللہ ایسے مواقع قوموں کی زندگی میں بار بار نہیں لاتا۔ اس لئے خود اپنی حالت کے بدلنے کا خیال اب کرنا ہی ہوگا۔ ورنہ جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات تو ہے ہی۔ فیصلہ قوم نے کرنا ہے۔