لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْئٍ فَاِنَّ اﷲَ بِهِ عَلِيْمٌo کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلاًّ لِّبَنِي اِسْراءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْراءِ يْلُ عَلٰی نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰةُط قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰةِ فَاتْلُوْها اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo فَمَنِ افْتَرٰی عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ فَاُولئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَo قُلْ صَدَقَ اﷲُ قف فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًاط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَo
(آل عمران، 52 تا 95)
’’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔ تورات کے اترنے سے پہلے بنی اسرائیل کے لیے ہر کھانے کی چیز حلال تھی سوائے ان (چیزوں) کے جو یعقوب (علیہ السلام) نے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں، فرما دیں: تورات لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو۔ پھر اس کے بعد بھی جو شخص اللہ پر جھوٹ گھڑے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ فرما دیں کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے، سو تم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی پیروی کرو جو ہر باطل سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے ہوگئے تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے‘‘۔
(ترجمه عرفان القرآن)
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عَنْ اَبِي الْجَوْزَائِ اَوْسِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ: قَحَطَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ قَحْطًا شَدِيْدًا فَشَکَوْا إِلَی عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها فَقَالَتْ:انْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم فَاجْعَلُوا مِنْهُ کُوًی إِلَی السَّمَائِ حَتَّی لَا يَکُوْنَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَائِ سَقْفٌ، قَالَ فَفَعَلُوْا فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّی نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ حَتَّی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
’’حضرت ابو جوزاء اوس بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی ناگفتہ بہ حالت کی) شکایت کی۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور (یعنی روضہ اقدس) کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہٰذا اس سال کا نام ہی ’’عَامُ الْفَتْق‘‘ (پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا۔ ‘‘
(ماخوذ از المنهاج السّوی من الحديث النبوی صلى الله عليه وآله وسلم، ص 550.551)