شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کا خطاب
مرتّب : صاحبزادہ محمد حسین آزاد
معاونت : مصباح کبیر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی شخصیت کے اندر ایک بڑا عظیم جوہر اور ایک بڑی عظیم چیز رکھی ہے جسے آپ عام طور پر شعور کے لفظ سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ بعض اوقات آپ یہ بات کرتے ہیں کہ یہ باشعور شخص یا باشعور انسان ہے کبھی کہتے ہیں کہ میرے شعور میں بھی یہ بات ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ میں نے یہ کام شعوری طور پر کیا ہے یا نہیں کیا ہے۔ اس کو انگلش میں Conscious mind کہتے ہیں اور لاشعور اور تحت الشعور کو Sub conscious mind کہتے ہیں۔ شعور کو اللہ پاک نے انسان کی پوری شخصیت میں رکھا ہے جس کا انسانی شخصیت میں بڑا دخل ہوتا ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ ساری کی ساری کارفرمائی شعور سے جنم لیتی ہے۔
پھر انسانی مزاج بھی شعور سے بنتے ہیں، انسان کی روحانیت کے ترقی پانے میں بھی اس کا اہم کردار ہے یعنی شکل و صورت کے ظاہری گوشوں کو چھوڑ کر باطنی شخصیت کے جتنے بھی گوشے ہوسکتے ہیں وہ سارے کے سارے شعور کے زیر اثر پرورش پاتے ہیں لہذا انسانی شخصیت میں شعور کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ یہ نکتہ کیسے Develop ہوا ایک ربط بتادوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنا کلام نازل فرمایا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ یہ شاعری نہیں ہے۔ ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے اور خود قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :
وَمَا عَلَّمْنٰه الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِيْ لَه ط اِنْ هوَا اِلاَّ ذِکْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ.
(يٰس، 36 : 69)
’’اور ہم نے اُن کو (یعنی نبيِّ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اُن کے شایانِ شان ہے۔ یہ (کتاب) تو فقط نصیحت اور روشن قرآن ہے‘‘۔ (عرفان القرآن)
جب یہ شاعری نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کلام ہے اور اس کلام میں کوئی تصنع اور بناوٹ نام کی کوئی چیز نہ ہے نہ ہوسکتی ہے نہ ایسا عقیدہ رکھنا چاہئے۔ یہ سارے کا سارا فطری کلام ہے اور کلام الہی ہے۔ جب یہ بات طے ہے اور اس پر ایمان رکھنا بھی ضروری ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے اللہ رب العزت نے اپنا کلام نازل فرمایا۔ احکام دیئے کچھ چیزوں کو بیان فرمایا کچھ حقائق سمجھائے، کچھ قیامت کے وقت میں رونما ہونے والے واقعات کا ذکر کیا۔ ان چیزوں کو بیان کرنا مقصود تھا اور قرآن مجید کا شروع سے اپنا ایک پیرا اور اسلوب چلا آرہا ہے۔
الم ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَيْبَ ج فِيْه ج هدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهمْ يُنْفِقُوْنَ.
(البقرة، 2 : 1 تا 4)
یہ عمومی اسلوب ہے جسے پڑھ کہ انسان اندازہ کرسکتا ہے کہ کوئی تصنع اور بناوٹ نہیں ہے۔ جب آدمی آخری پاروں اور آخری سورتوں پر پہنچتا ہے تو کلام الہی یہ صورت اختیار کرلیتا ہے۔
اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْo وَ اِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْo وَ اِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْo وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْo
(التکوير، 81 : 1 تا 4)
اب آپ دیکھتے ہیں یہاں وزن آگئے، قافیے آگئے، الفاظ کے اندر ایک نغمگی آگئی ہے۔ چند آیتیں اور سنیں۔
اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْo وَ اِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثََرَتْo وَ اِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْo وَ اِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ.
(الانفطار، 82 : 1 تا 4)
قرآن مجید کی ابتدائی سورتوں اور آخری پارہ کی ان سورتوں کے درمیان ایک سادہ لوح آدمی سن کر سمجھ سکتا ہے کہ کیا فرق ہے؟ یہاں ایک نغمگی ہے، ایسے لگتا ہے جیسے کوئی نغمہ سرا ہے۔ ایک الوہی نغمہ الاپا جارہا ہے۔ ان الفاظ میں ترنم ہے۔ ایک صوتی حسن ہے، الفاظ کے اندر ایک توازن ہے، بہاؤ ہے۔ جیسے کلام الہی ایک خوبصورت نغموں کی آبشار بن کر اتر رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ڈوبنے کا جتنا ملکہ اور ذوق دیا ہے اسی طرح کے حسن اس پر آشکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ اسی طرح سورہ الطارق کو پڑھئے۔
وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِo وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الطَّارِقُo النَّجْمُ الثَّاقِبُo اِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْها حَافِظٌo فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَo خُلِقَ مِنْ مَّـآئٍ دَافِقٍo يَخْرُجُ مِنْم بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِo اِنَّه عَلٰی رَجْعِه لَقَادِرٌo يَوْمَ تُبْلَی السَّرَآئِرُo فَمَا لَه مِنْ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍ
(الطارق، 86 : 1تا10)
یہاں آپ دو دو آیتوں کو مسلسل دیکھتے چلے آئیں۔ اسی طرح اگلی سورۃ ’’اعلیٰ‘‘ پر آجائیں :
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَیo الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰیo وَ الَّذِيْ قَدَّرَ فَهدٰیo وَالَّذِىْ اَخْرَجَ الْمَرْعٰیo فَجَعَلَه غُثَآءً اَحْوٰیo سَنُقْرِئُکَ فَـلَا تَنْسٰی.
(الاعلیٰ، 87 : 1 تا6)
آگے سورہ الغاشیۃ ہے :
هلْ اَتٰـکَ حَدِيْثُ الْغَاشِيَةِo وُجُوْه يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌo عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌo تَصْلٰی نَارًا حَامِيَةً.
(الغاشية، 88 : 1 تا 4)
آگے سورۃ فجر میں فرمایا :
وَالْفَجْرِo وَلَيَالٍ عَشْرٍo وَّ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِo وَ الَّيْلِ اِذَا يَسْرِo
(الفجر، 89 : 1 تا4)
آگے سورۃ البلد میں فرمایا :
لَآ اُقْسِمُ بِهذَا الْبَََلَدِo وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَo لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ کَبَدٍo
(البلد، 90 : 1 تا4)
کبھی فرمایا :
وَ الشَّمْسِ وَضُحٰهاo وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰهاo وَ النَّهارِ اِذَا جَلّٰهاo وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰهاo وَ السَّمَآءِ وَمَا بَنٰها.
(الشمس، 91 : 1 تا5)
یہ چند ایک نمونے آپ کو دیئے ہیں۔ اس سے میں آپ کو یہ نکتہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہمارے دین اور قرآن میں کئی چیزیں ایسی ہیں خواہ کوئی شخص عالم ہو، مفسر ہو، محدث ہو، محقق ہو، فلسفی ہو، جب تک اللہ پاک نے اس کو ذوق کا حظ وافر نہ عطا فرمایا ہو وہ باتیں مرتے دم تک اس کی سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ وہ لغت، گرائمر، صرف و نحو، منطق، فلسفہ و معانی کے پڑھ لینے سے بھی سمجھ نہیں آتیں۔ وہ صرف طریق ذوق سے آتی ہیں۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ نے انسان کو حواس دیئے ہیں جیسے دیکھنا، چکھنا، سونگھنا، سننا وغیرہ۔ لہذا کچھ چیزیں حواس سے معلوم ہوتی ہیں پھر ایک مقام آتا ہے جہاں حواس جواب دے جاتے ہیں۔ وہاں عقل کام آتی ہے۔ پھر کچھ چیزیں عقل و خرد اور فہم سے بالا تر ہوتی ہیں۔ عقل کے بھی خانے اور شعبے ہیں۔ جیسے ایک فیکٹری اور کارخانے میں بہت سارے شعبے ہوں وہ سارے مل کر کام کریں تو Product نکلتی ہے۔ اسی طرح کارخانہ عقل کے بہت سارے شعبے ہیں وہ سارے مل کر کام کرتے ہیں تو علم بنتا ہے اور دماغ کا Product وجود میں آتا ہے۔ حواس اور عقل سے جب انسان آگے گزرتا ہے تو امام غزالی فرماتے ہیں پھر مقام ذوق آتا ہے۔ الذوق کالمشاہدۃ اوالاخذ بالید۔ ’’ذوق یہ ہے کہ جیسے کوئی چیز دیکھ لے یا ہاتھوں سے پکڑ لے‘‘۔
جیسے دست بدست کوئی چیز انسان پکڑ لیتا ہے تو ذوق سمجھنے کا نام نہیں، ذوق دکھا دیتا ہے۔
ذوق کی جب آنکھ کھلتی ہے تو پردے اٹھنے لگتے ہیں، اس طرح انسان ترقی کرتا ہے۔ آگے جاتا ہے، حواس کے بعد عقل، عقل کے بعد فراست، فراست کے بعد بصیرت اور بصیرت کے بعد وجدان یہ چار چیزیں مل جاتی ہیں۔ کچھ چیزیں فراست میں آجاتی ہیں کچھ بصیرت میں کچھ ذوق میں آتی ہیں اور کچھ وجدان میں آتی ہیں پھر اس وجدان کے بعد عرفان آتا ہے پھر ایقان آتا ہے۔ یہ سارے درجے مومن کو نصیب ہوتے ہیں اور جہاں اس کی ساری استعدادیں ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اس سے آگے نہیں جاسکتا وہاں مقام وحی شروع ہوتا ہے۔ وہ مرتبہ نبوت ہے وہ عام انسان کے بس میں نہیں۔ نبوت وھبی چیز ہے۔ لہذا اگر حظ وافر نصیب نہ ہو تو بہت سی باتیں دین، ایمان اور اسلام کی سمجھ نہیں آتیں۔ یہ جو بات میں کررہا ہوں اور جس نکتہ کی بات چھیڑی ہے اور جو ان سورتوں سے اخذ کی ہے یہ بات نہ حواس میں آنے والی ہے نہ عقل میں، یہ بات مرتبہ ذوق کی ہے۔ اس کا تعلق ذوق سے ہے۔ علامہ اقبال بھی کئی جگہوں پر ان چیزوں کا اشارہ دیتے ہیں جب وہ فرماتے ہیں :
گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
خرد کی گھتیاں سلجھا چکا میں
میرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
یعنی عقل کی جو منزلیں طے کرنی تھیں وہ میں کرچکا لہذا اب صاحب جنوں کر یعنی ذوق تک لے جا اور وہاں تک لے جا جہاں مقام جنوں آجائے۔ کبھی عقل اور ذوق اور کبھی ذوق کی جگہ علامہ، عشق کا نام لیتے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا اسلوب ہوتا ہے۔ وہ عقل و خرد کا نمائندہ بوعلی سینا کو ٹھہراتے ہیں اور عشق و ذوق کا نمائندہ مولانا روم یعنی شیخ رومی کو ٹھہراتے ہیں اور دونوں کو دوڑاتے ہیں۔ محبوب کو تکنے کے لئے اور محبوب اونٹنی پر کجاوے پر سوار ہے رخ زیبا پر نقاب ڈالا ہوا ہے عقل بھی دوڑتی ہے کہ محبوب کا چہرہ تک لوں اور ذوق بھی دوڑتا ہے کہ تک لوں یعنی عقل بوعلی سینا کے روپ میں دوڑتی ہے اور ذوق و عشق مولائے روم کے روپ میں دوڑتا ہے۔ دونوں دوڑتے ہیں تو علامہ کہتے ہیں :
بوعلی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردہ محمل گرفت
بوعلی جو عقل کا نمائندہ تھا وہ اونٹنی کے پائوں سے صحرا میں جو گرد اڑ رہی تھی اس گرد میں گم ہوکر رہ گیا۔ وہ جو عشق و ذوق کا نمائندہ تھا رومی وہ بڑھا اور اس نے پردہ اٹھا کر دیکھ لیا۔ بات پلٹ کر پھر وہی آگئی کہ ذوق ایک ایسی حقیقت ہے کہ جب تک اس کا حصہ نصیب نہ ہو قرآن و سنت، حدیث اور ایمان کی بہت سی چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں یہ سارے جھگڑے، فرقے، مسلک، جماعتیں اور مفکر جو امت کو لڑا رہے ہیں اور دین کو ٹکڑے ٹکڑے کررہے ہیں۔ کسی کو وہ مقام و مرتبہ ذوق و حظ کا میسر ہے۔ کوئی حواس کی حد پر رکا کھڑا ہے اور جو کچھ اس کے حواس میں آتا ہے اسی کو مانتا ہے اور اسی کی ڈگڈگی بجا رہا ہے۔ کسی نے حواس کی سرحد پار کرلی وہ عقل تک پہنچ گیا وہ عقل کی دنیا کا شہسوار ہے اور فضائے عقل میں پرواز کررہا ہے۔ وہ عقل و خرد سے آگے کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔
کچھ وہ ہیں جو ’’گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور‘‘ کے مطابق جو عقل کی حد سے آگے گزر گئے وہ ذوق کی سرحد تک پہنچ گئے اور اب جو ذوق کے صحرا میں آگئے انہوں نے تک لیا۔ ان کی بولی ہی اور ہوگئی اب جو بولی وہ بولتے ہیں وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتی اور جو بولی یہ بولتے ہیں وہ اس پر ہنستے ہیں اس لئے کہ یہ بولی وہی بولتے بولتے آگے گزر آئے ہیں۔ نام لئے بغیر آپ کو امت میں جھگڑوں کی ساری روح سمجھا رہا ہوں کہ کوئی عقل کی حد پر کھڑے ہیں۔ آگے جانا نصیب نہیں، کئی ذوق میں آگے ہیں ان کو تکنا نصیب ہوا۔ اب جو تکتے ہیں وہ کسی اور بولی میں بات کرتے ہیں اور جو نہیں تکتے وہ کسی اور بولی میں بات کرتے ہیں۔
اس کی مثال زنانِ مصر اور زلیخا کی ہے۔ زلیخا نے چونکہ تک لیا تھا۔ لہذا اس کی بولی اور کیفیت اور ہوگئی تھی۔ زنانِ مصر نے چونکہ تکا نہیں تھا لہذا وہ طعنہ دیتی تھیں۔ جس نے تکا وہ عاشقانہ باتیں کرتی تھیں جنہوں نے نہیں تکا وہ عقل کی باتیں کرتی تھیں۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ اس کا حل اور نسخہ زلیخا کی سمجھ میں یہی آیا کہ سمجھانے سے یہ نہیں سمجھیں گی جو میں نے دیکھا ہے تھوڑا سا ان کو بھی دکھادوں۔ لہذا جو زلیخا نے دیکھا ایک مجلس منعقد کرکے اس کی جھلک ان کو بھی دکھا دی، بس دیکھنے کی دیر تھی ان کی بولی بدل گئی۔ وہ جو طعنہ دیتی تھیں کہ اپنے خریدے ہوئے غلام پر عاشق ہوگئی اور غلامی کی رٹ لگاتی تھیں اور طنز کرتی تھیں۔ بس ایک لمحے کی دیر تھی پردہ پلٹا، دیکھا تو قرآن کے مطابق سب بول پڑیں :
فَلَمَّا رَاَيْنَه اَکْبَرْنَه وَقَطَّعْنَ اَيْدِيَهنَّ وَقُلْنَ حَاشَ ِﷲِ مَا هذَا بَشَرًاط اِنْ هذَآ اِلَّا مَلَکٌ کَرِيْمٌ.
(يوسف12 : 31)
’’سو جب انہوں نے یوسف ( کے حسنِ زیبا) کو دیکھا تو اس (کے جلوہ جمال) کی بڑائی کرنے لگیں اور وہ (مدہوشی کے عالم میں پھل کاٹنے کے بجائے) اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور (دیکھ لینے کے بعد بے ساختہ) بول اٹھیں : اﷲ کی پناہ! یہ تو بشر نہیں ہے، یہ تو بس کوئی برگزیدہ فرشتہ (یعنی عالمِ بالا سے اترا ہوا نور کا پیکر) ہے‘‘۔
ہاتھ بھی کاٹ ڈالے چیخیں بھی نکل گئیں اور ہنسنے لگیں۔ خدا کی قسم یہ تو بشر اور انسان ہی نہیں اب یوسف علیہ السلام تو نہیں بدلے جو پہلے تھے وہی اب بھی تھے۔ زلیخا بھی وہی زنانِ مصر بھی وہی مگر یہ جو یک لخت بولی بدل گئی۔ قرآن کے مطابق یہ بولی کیوں بدل گئی صرف اس لئے کہ پہلے دیکھا نہیں تھا۔ اب دیکھ لیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب انسان ذوق کی دنیا میں آتا ہے، پردہ اٹھتا ہے تو بولی بدل جاتی ہے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
کوئی مثل نہیں ڈھولن دی
چپ کر مہر علی ایتھاں جا نہیں بولن دی
جو تکتے ہیں وہ بولتے نہیں ہم لوگ جو بولتے پھرتے ہیں تقریریں کرتے پھرتے ہیں اس کا مطلب ہے ہم نے تکا نہیں۔ ہم نابینا لوگ ہیں تک لیتے تو نہ وعظ کرتے نہ تقریریں کرتے کیونکہ ’’چپ کر مہر علی ایتھاں جا نئیں بولن دی‘‘۔ اصغر گونڈوی صاحب ایک شاعر گزرے ہیں وہ کہتے ہیں :
اگر خاموش رہوں میں تو تُو ہی ہے سب کچھ
جو کچھ کہا تو تیر احسن ہوگیا محدود
عرض کرنا مقصود یہ ہے کہ ذوق کے ساتھ بات اور ہوجاتی ہے اور عقل و خرد کے ساتھ بات اور ہوجاتی ہے۔ یہ جو قرآن مجید کی سورتیں آپ نے سنیں اس کی تفسیر اور اس کی معرفت عقل و خرد اور دلائل سے سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ سارا ذوقی علم ہے اب یہاں شعور کی بات کو سمجھاتا ہوں۔
اللہ رب العزت نے انسان کے اندر شعور رکھا ہے اس شعور کے اندر تین صلاحیتیں رکھی ہیں، اس کو Phases of conscious mind بھی کہتے ہیں۔ یعنی الگ الگ اس کے رخ ہیں، شعور کے Phases اور حصے ہیں آپ ان کو جو چاہیں نام دے لیں۔ اسی شعور کا ایک پہلو ہے جذبہ، دوسرا پہلو ہے ادراک، تیسرا پہلو ارادہ ہے۔ جذبے کو انگلش میں Emotion کہتے ہیں، وہ شعور کا Emotional اور Sentimental aspect ہے۔ دوسرا ادراک (Percepten) ہے جو اس کا Perceptional aspect ہے۔ تیسرا ارادہ (Intention) ہے جو اس کا Intentional aspectہے۔ یہ شعور کے تین گوشے ہیں، ہر انسان کی شخصیت کے اندر کسی میں جذبے کا پہلو غالب ہے یہ شخصیت کی فطری تشکیل اور اس کا حصہ ہے، کسی میں ادراک کا پہلو غالب ہے اور کسی میں ارادے کا اور کچھ مشقوں اور ریاضتوں سے طریقے Develop بھی ہوتے ہیں۔ شعور میں جو جذبے کا پہلو ہے اگر یہ Develop ہوجائے تو اس کی شخصیت میں ذوق کا جذبہ Develop ہوتا ہے اور یہ ترقی پاتا ہے۔ ذوق، وجدان، محبت، عشق، شوق، رغبت، محبت، جنون، یہ راستہ جذبہ سے ترقی اور نشوونما پاتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے ودیعت کیا ہے۔ اگر شعور میں ادراک کا پہلو Develop ہونے لگے تو علم وجود میں آتا اور انسان کی شخصیت کے جو علمی پہلو ہیں جیسے علم، عقل، فلسفہ وغیرہ ہزاروں گوشے ہیں وہ Develop ہوتے ہیں اور اگر انسان کی شخصیت میں ارادے کا پہلو غالب آئے۔ اس سے قوت عمل (Will Power) بڑھتی ہے اور عملی شخصیت بنتی ہے جبکہ ادراک سے علمی شخصیت بنتی ہے، جذبے سے روحانی شخصیت وجود میں آتی ہے۔ یہ تین چیزیں جب یکجا ہوتی ہیں بعضوں میں یکساں Develop ہوتی ہیں اور بعضوں میں کم و بیش اگر شخصیت میں یہ تینوں چیزیں موجود ہوں تو شخصیت کا ارتقاء کامل ہوگا اور دین کا فہم کامل ہوگا۔ قرآن کی معرفت کامل ہوگی اور اگر ان تینوں میں سے کوئی ایک پہلو Develop ہونے سے رہ جائے تو اس کی معرفت کم ہوگئی۔ اس وجہ سے دین اور قرآن کی معرفت کسی میں کم کسی میں زیادہ ہوتی ہے۔ ایمان و اسلام کی معرفت کسی میں کم کسی میں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ کسی کو یہ گوشہ معلوم ہے کسی کا اوجھل ہے۔ یہ کمزوریاں شخصیت کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ شعور سے ساری شخصیت Develop ہوتی ہے اور اسی سے قرآن اور ایمان کی ساری معرفت پیدا ہوتی ہے۔