دنیا جیسے جیسے علم و حکمت میں ترقی کے منازل طے کرتی اپنے آخری مُستقَرکی طرف بڑھ رہی ہے۔ انسانی عقل و شعور بھی اس کے ساتھ ساتھ حقائق کی دریافت(discovery) کی جانب پیشرفت کر رہی ہے۔ سورہ حٰم السجدہ کی 53ویں آیہ کریمہ میں ارشادربّانی ہے ’’عنقریب ہم ان کو انسان کے اندر اور خارج کی دنیامیں ایسے نشانات دکھائیں گے (یعنی ان کو نفسیات، طبیعات اور حیاتیات کے بعض حقائق سے آشنا کریں گے) کہ ان پر ثابت ہو جائے گا کہ قران اللہ کی سچی کتاب ہے۔ ‘‘ جدید دنیا کا انسان آج خطہ ارضی پر رونما ہونے والے ادوارِ گذشتہ کے ان انقلابات کا جائزہ لے رہا ہے، جس نے زمانے کو متاثر کیا اور اس ميںتغیر و تبدل کا باعث بنے، وہ ان اسباب، محرکات اوروجوہات پرغور کر رہا ہے، کہ جن کی وجہ سے مختلف انقلابات رونما ہوئے۔ ان انقلابات زمانہ سے انسان کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی حالات میںکیا تبدیلی آئی۔ اور انسان کے اخلاقی اور روحانی اقدار پر کیا اثر پڑا۔ مجموعی طور سے دنیا پر ان کی وجہ سے کس قسم کے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوئے۔ کیا ان انقلابات کے نتیجہ میںانسان کی فطرت کے اندر موجود اقرارِ الوہیت، فجور و تقوٰی کا امتیاز، بصیرت ِ نفس اور عدل و امانت کا خوابیدہ اور نیم مردہ احساس دوبارہ زندہ ہوسکا یا اس کی فطرۃ بالفعل میں خود غرضی، مطلب براری اور مفاد پرستی کی وحشت اور درندگی میں مزید اضافہ ہُوا، اور وُہ ایک اچھا انسان بننے کی بجائے زیادہ خونخوار درندہ بن گیا۔ جدید علم و حکمت(science)اپنے تجربی توثیق سے اس دریافت(research) میں انسانی جستجو کا بڑا ساتھ دے رہی ہے۔ ازمنہ قدیم سے لے کر دنیا میں برپا ہونے والے انقلابات زمانہ کے بنیادی وجوہات، محرکات، انسانی ماحول اور معاشرہ پر مرتب ہونے والے ان کے اثرات کے نتائج کتنے بھیانک تھے۔ نئی تحقیق و تفتیش نے ثابت کر دیا ہے کہ ان انقلابات کے مقاصد درحقیقت ہوس ملک گیری، حکومتوں میں توسیع، غیراقوام کی زمین، دولت، اموال اور املاک پر قبضہ، حرص و ہوا، لالچ اور حصول اقتدار کے سِواکچھ اور نہیں تھا۔ اکثر بادشاہوں، آمروں، حکمرانوںاور ہوس اقتدار کے پجاریوں نے ہمسایہ ممالک اور اقوام پر ناجائز فوج کشی کی، بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا اور لاتعداد بے گناہ انسانوں کو تہہ تیغ کیا، لاکھوں کروڑوں لوگ بچے، جوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد لقمہ اجل بنے۔ عہد قدیم اور جدید کے معلوم تاریخی ادوار میں مصر کے فراعنہ، عراق کے نمارید، یونان کے سکندر، بابل کے بخت نصر، ایرانیوں کے کمبوچہ، ساسانیوں کے شاہ پور بہرام گوراورارد شیر، کلدانیہ کے سرغون اور نرام سن، اشوریوں کے تغلت پلسر، نینوا کے اشور بنی پال، کرکوک کے شلمنسر، فلسطین کے ہیرو ڈوٹس، کار تھیج کے ہینی بال، شام کے بطلیمو س اور اینٹی گونس، حلب کے ہیٹی، اناطولیہ کے شبیلو لپو، روم کے جولیس سیزر، ہندوستان کے کوشائی کنشک، چندر گپت موریہ، آریہ برہمن، چین کے ہونگ ٹی اور ہُن، منگولیا کے آواری اور تاتاری، یونان اور رومہ کے کلیسائی جنگجو، ڈنمارک کے جرمن ٹیوٹائی، اٹلی کے ایٹیلا، گاتھوں کے ایلارک، افریقہ کے ونڈال، فرینکیوں کے کلووس اور سپین، جرمن اور آسٹریلیا کے شارل مین، فرانس کے چارلس، انگلستان کے برٹن، آئر لینڈ کے نارمن ہنری، مشرقی روم کے جسٹینٹن، اور یونان کے ہرکولیس غرضیکہ جس جس آمر، بادشاہ اور حکمران کا زمانہ دیکھیں۔ اُس نے اپنے اقتدار کی خاطر بے مقصد جنگیں لڑیں اور کروڑوں، اربوں لوگوں کو تہہ تیغ کیا۔ مفتوحہ شہروں کو جلا کر خاکستر کیا۔ بستیوں کی بستیاں مٹا دیں اور ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کیا کہ جنگل کے خوفناک درندے بھی ایسا نہ کرسکیں۔ چین کو حملہ آوروں نے کئی بار بری طرح تاراج کیا۔ فاتحین شہروں کو آگ لگا کر صفحہ ہستی سے مٹا دیتے تھے۔ چینی بادشاہوں نے دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے دیوار چین تعمیر کرائی۔ جس کی تعمیر کے دوران پانچ لاکھ چینی باشندے صرف رسد نہ پہنچنے کی وجہ سے بھوکے ہلاک ہوئے۔ پچھلی دو صدیوں میں رونما ہونے والے مشہور انقلابات میں انقلاب روس، انقلاب فرانس، انقلاب برطانیہ، انقلاب امریکہ اور انقلاب چین میں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ پہلی جنگ عظیم1914ء سے1918ء تک چارسال جاری رہی جس میں چودہ ملکوں نے حصہ لیا۔ 85 لاکھ سے زائد آدمی مارے گئے اور اتنے ہی لاپتہ ہُوئے یا قیدی بنا لیے گئے۔ دوسری جنگ عظیم1939 ء سے1945 ء تک چھ سال مسلسل جاری رہی۔ اس میں28 ممالک نے حصہ لیا جس میں مقتولین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تھی، یعنی پہلی جنگ عظیم میں شریک ممالک اور مقتولین سے یہ تعداد دوگنا تھی۔ یہ سب وہی اقوام ا ورممالک تھے جو اس وقت بھی اپنے آپ کو انسانیت اور حقوق انسانی کے تحفظ کا سب سے بڑا چمپئین اور علمبردار کہلانے پر مُصِرتھے اور اب بھی ہیں۔ ان جنگوں میں شریک ہونے والے اتحادی اقوام کا سب سے بڑا جواز یہ ہوتا تھا کہ وُہ یہ سب کچھ چھوٹے ملکوں کی آزادی، حفاظت اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی خاطرکر رہے ہیں۔ لیکن جدید علوم سے آراستہ تاریخ کے آج کا طالب علم، غیر متعصّب ناقدین اورغیر جانبدار مورخین جدید تحقیق و تفتیش کی روشنی میں ان جنگوں کے مقاصد اور نتائج کے بارے میں پوری دیانتداری سے اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ سب جنگیں یوروپی، امریکائی اور افرو ایشیائی اقوام کے آپس کے خفیہ معاہدات، اندورنی جھگڑوں، عہد شکنی کے بے شمار واقعات، اوراپنے مخالفین کو معاشی، سیاسی اور عسکری طور پر تباہ کرنے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی گئیں۔ جس کے نتیجہ میں نہ صرف کروڑوں اربوں انسان ہلاک ہُوئے بلکہ دنیا کے قدرتی وسائل اور اسباب بھی بری طرح تباہ ہُوئے۔ وہ اگر اس ہولناک تباہی اور پامالی سے بچ جاتے توآج روئے زمین پر بھوک و پیاس اور قحط کی وجہ سے کوئی شخص ہلاک نہ ہوتا۔ یہ امر غور طلب ہے کہ ان عالمی خونریزیوں اور ہمہ گیر فساد کے برعکس رحمت عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تئیس سالہ زمانہ انقلاب رحمت و نجات میں کفار، مشرکین اور مفسدین کے حملوں کی دفاع میں لڑے جانے والے اکیاسی غزوات میں مقتولین کی کل تعدادایک ہزار اور اٹھارہ رہی، جن میںدو سو انسٹھ مسلمان شہید ہُوئے اور غیر مسلم مقتولین کی تعدادسات سو انسٹھ تھی۔ بعثت نبوی کے بعد اسلام پھیلانے کی خاطر کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے صرف دفاعی جنگیں لڑی گئیں۔ اسلامی غزوات کے لیے رسول رحمت و نجات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مستحکم اصولوں کی بنا پر صلح و جنگ کے واضح قوانین وضع فرمائے۔ اور جہاد میں حصہ لینے والوں کو تفصیلی ہدایات مرحمت فرمائیں۔ اکیاسی اسلامی غزوات میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہ نفسِ نفیس ستائیس غزوات میں حصہ لیا اوروضع کردہ قوانین شریعت پر پہلے خود عمل پیرا ہو کر مسلمانوں کے لیے عملی نمونہ پیش فرمایا۔ ان شرعی احکام کی اتباع ہر مسلمان پر واجب تھی۔ اور جوہر دَور کے مسلمانوں کے لیے واجب ہے۔ حکم الہی کے مطابق نبی رحمت و نجات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت، دفاع، مظلوم مسلمانوں کی فریاد اور داد رسی، دشمن کی طرف سے عہد شکنی، فتنہ فساد، مسلمان سفیروں کے قتل، داخلی انتشار جس سے اسلامی ریاست کو شدید خطرات لاحق ہوں اور اسلام کے خلاف منافقین کی ریشہ دوانیوں کے سدِّباب کے لیے قتال اور جہاد کو جائزاور دین اسلام میں دنیوی اغراض و مقاصد، ملک ہوس گیری، نسلی منافرت، وطنیّت یا قومیّت کے نام یا جوش انتقام کے لیے لڑی جانے والی جنگ کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔ اس قسم کی جنگوں میں مرنے والوں کا خون حملہ آور کی گردن پر ہوتا ہے اور اس طرح جو مال یا زمین حاصل ہو وہ غصَب میں شمار ہوتی ہے۔ اسلام میں دشمن کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کی پابندی لازم اور عہد کو پورا کرنا فریضہ دینی ہے۔ غیر جانبدار اقوام کے ساتھ جنگ ناجائز تصور کی جاتی ہے۔ دُشمن کی جانب سے صلح کی پیش کش کو قبول کرنا اسلامی شعائر میں داخل ہے۔ دشمن جب بھی سیاسی پنا ہ یا امان کی طلب کرے۔ تو اُس کو وُہ دینی لازم ہے۔ دشمن کی جانب سے جاسوسی یا بغاوت جیسے جرائم کی صورت میں امان کا وعدہ خودبخود منسوخ ہوجاتا ہے۔ اس قسم کے جرم کی سزا ملکی قوانین کے مطابق دی جاتی ہے۔ دشمن کی جانب سے اظہار اسلام یا علامت اسلام نظر آنے پر جنگ سے دستبردار ہونا لازم ہوتا ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کے خلاف جنگ شروع کرنے سے پہلے لوٹ مار اور تباہ کاری کی ممانعت اور دشمن پر جنگ سے پہلے جنگ کی شرائط پیش کرنے کی ہدایت فرمائی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معرکہ کارزار میں شبخون مارنے پراظہار نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ البتہ دشمن کی جانب سے گوریلا جنگ شروع کرنے اور چھپ چھپ کر حملہ کرنے کی صورت میں مسلمانوں کو بھی اُن کی بے خبری میں حملہ کرنے کی اجازت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ کہ مسلمان دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزو نہ کریں، لیکن جب جنگ ہو جائے تو پھر ثابت قدم رہیں۔ اللہ سے عافیت اور خیریت طلب کریں او ر صبر و استقلال سے مقابلہ کریں۔ جہاد کے وقت اسلحہ بیکار ضائع کرنا ممنوع ہے۔ اطاعت امیر مسلمان پر لازم ہے اور امیر کے لیے اپنے ماتحتوں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ دشمن عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا قتل منع ہے۔ دشمن کے جو افراد جنگ میں عملاًحصہ لیں یا اُن میں جنگ کرنے کی صلاحیت ہو ایسے لوگوں سے قتال جائز ہے، لیکن وُہ شخص جو جنگ کے قابل نہ ہو یاجنگ میں حصہ لینے کا مزاج نہ رکھتا ہو وُہ غیر مقاتل ہے۔ اُس کا قتل جائز نہیں اللہ تعالیٰ نے قران حکیم میں اور رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں بچوں، بوڑھوں، عورتوں، درویش اور صوفی منش لوگوں، اندھوں، لنگڑوں، لولہے اور معذور لوگوں کو غیر مقاتل قرار دے کر ان کے ساتھ جنگ کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے میدان جنگ سے فرارکو گناہ عظیم قرار دیا ہے۔ نماز کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر میدان کارزار میں بھی نماز ادا کرنے کا باقاعدہ طریقہ بتایا گیا ہے اور نماز ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دین اسلام میں وسائل خوراک کو تباہ کرنے، شہری املاک کو نقصان پہنچانے، مکانات کو جلانا ان کو منہدم کرنا، اور ضیاع اموال کی سخت ممانعت ہے۔ کھیتوں، باغات اور درختوں کی تباہ کاری ممنوع قرار دی گئی ہے۔ جب تک یہ چیزیں کسی فوجی اقدام میں رکاوٹ نہ ہوں، اگر وُہ رکاوٹ کا باعث ہوں تو ان کو دور کرنا جائز ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دورانِ جہاد، صبرو ثبات، ذکر الہی، اللہ سے مدد و نصرت کی طلب، تقویٰ اختیار کرنے، وعدہ شکنی نہ کرنے، پابندی عہد اور اللہ سے فتح کے لیے دُعا مانگنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میدان جنگ میں رجز یہ اشعار پڑھتے اور اللہ اکبر کے نعرے بلند فرماتے تھے۔ عَلمِ اسلام کو بلند رکھنا، اسلامی شان و شوکت اور جاہ و جلال کامظاہرہ کرنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ فتح کے بعد نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بآوازِ بلند اللہ کا ذکر اور تسبیح بیان کرتے اور مجاہدین کو اللہ سے طلب مغفرت کی ہدایت فرماتے تھے۔ شریعت اسلامی میں اموالِ غنیمت کی تقسیم کے با قاعدہ حدود اور قیود متعین ہیں۔ لوٹ مار اور فساد پھیلانے کی اجازت قطعاً نہیں ہے۔ اسلام میں مفتوح خواتین کی عزت و ناموس اور عصمت کی پاسبانی مجاہدین کے فرائض دین کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ فوج کے اخلاق و کردار کا پورا پورا خیال رکھنا سپہ سالار کے فرائض منصبی میں شامل ہوتاہے، دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی اسلام میں سخت ممنوع اور غیر شرعی عمل تصور کیا جاتا ہے۔ فتح کے بعد قتل عام کو حرام اور املاک اور عبادت گاہوں کی بربادی کو سخت ترین گناہ اور قیدیوں کی حفاظت کو فرض کا درجہ دیا گیا ہے۔ اسلام میں ہر طرح کا فساد فی الارض اور دہشت گردی حرام ہے۔ جنگ کے علاوہ بھی اسلام میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کا قتل عام اور ان کو ایذا رسانی کی ممانعت ہے، عہد رسالت مآب اور عہد خلفائے راشدین میں غیر مسلم شہریوں کا تحفظ دینی احکام کا حصہ تھا۔ اسلام دین حرّیت و رحمت ہے۔ اس دین میں کسی کو مسلمان کرنے کے لیے جبرکرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی ریاست میں کسی بھی شہری کو جبراً مذہب بدلنے پر مجبور کیا جا سکتا۔ اسلام غیر مسلموں کو مکمل آزادی دیتا ہے، اسلامی مملکت غیر مسلموں کے عقائد و عبادات سے تعرض نہیں کرتی۔ ایک مشہور عیسائی مُستشرق پروفیسر فلپ کے۔ ہٹی اپنی کتاب’’دی ھسٹری آف عربز‘‘ کے صفحہ170 پر لکھتے ہیں۔ کہ ’’ غیر مسلموں کو اجازت تھی کہ وہ اپنی کمیونٹی کے سربراہوں کے نظام کے تحت اپنے مذہبی قوانین کے مطابق اپنے معاملات چلائیں۔ یہ جزوی خود مختاری(partial autonomy) جسے عرب جانشین ریاستوں نے برقرار رکھا تھا۔ بعد ازاں تُرک سلاطین نے بھی تسلیم کی تھی وُہ اسی کتاب کے صفحہ255 پررقمطراز ہیں: ’’ تیرہویں صدی ہجری تک شام کا بڑا حصہ زیادہ تر عیسائی رہا۔ درحقیقت لبنان بھی فتح ہونے کے بعد صدیوں تک عقیدے کے لحاظ سے عیسائی رہا جبکہ وہاں شامی زبان یعنی عربی بولی جاتی تھی‘‘۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری دہشت گردی کے خلاف اپنے معرکتہ الآرا ’’مبسوط تاریخی فتویٰ‘‘ کے صفحہ231 پر ’’اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق قواعد‘‘ (Legal maxims) کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: مسلم ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق سے متعلق قران و حدیث کے واضح احکامات، عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ صحابہ میں غیر مسلم شہریوں سے حسن سلوک کے نظائر کے ذریعے اس امر کی وضاحت ہو چکی ہے کہ اسلام غیر مسلموں کو نہ صرف مسلمانوں جیسے تمام حقوق عطا کرتا ہے بلکہ انہیں ہر قسم کا تحفظ بھی دیتا ہے۔ کئی صدیوں پر مشتمل اسلامی تاریخ میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق قواعد اور شرعی اصول جو اَخذ کیے جا سکتے ہیں:ان کے مطابق غیر مسلم شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی ریاست میں مسلم اور غیر مسلم کا قصاص اور دیت برابر اوراسلامی ریاست میں مسلم اور غیر مسلم کے خون کی حرمت اور حقوق و فرائض یکساں ہیں۔ غیر مسلموں کو اندرونی اور بیرونی جارحیت سے تحفظ دینا مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو اپنے مذہب پر قائم رہنے اور عبادات اور مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ سفارت کاروں کو تحفظ فراہم کرنااورغیر مسلم عبادت گاہوں اور مذہبی رہنمائوں کو تحفظ فراہم کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی ریاست معذوری، بڑھاپے اور غریبی میں غیر مسلموں کا خیال رکھے گی۔ تمام مذاہب کی حرمت کا تحفظ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
’’انقلاب رحمت محمدی‘‘ تاریخ عالم کا ایک عجیب و غریب اور بے مثال انقلاب تھا۔ جو ابتدائے آفرینش سے لے کر ظہور اسلام تک بلکہ اُس کے بعد کے تمام ادوار سے لے کر آج کے زمانہ تک سب انقلابات سے اپنے امن، سلامتی اور بنی نوع انسان سے نیک اور رحمدلانہ سلوک کی وجہ سے ممتاز اور منفرد تھا۔ اس عظیم الشان انقلاب کے مقاصد دوسرے انقلاباتِ زمانہ اور عالمی جنگوں سے یکسر مختلف اور جُدا تھے۔ انقلاب رحمت محمد ی قومیت کی بنیاد پر بپا نہیں کیا گیا تھا۔ رسول مجتبیٰ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر اسلامی انقلاب کے لیے عرب قومیت کا پرچم بلند کر کے عرب اقوام کو اکٹھا کرتے اور روم و ایران کے زیر تسلط عرب کے زرخیز علاقوں؛ شام و یمن کی بازیابی کے لیے اعلانِ جنگ کرتے، تو جزیرہ نمائے عرب کے سب قبائل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرچم تلے متحد ہو جاتے اور رومی اور ایرانی سلطنتوں کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ جیت جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عربوں کی عصبیت کے غیظ و غضب کی آگ سے قیصرو کِسرٰی کی سلطنتوں کو خاکستر کر دیتے، لیکن انقلابِ رحمت و نجات کی نوعیت جدا تھی۔ کیونکہ وہ صرف عربی قومیت کا انقلاب نہ تھا، یہ تو رحمتہ للعالمینی کا وُہ انقلابِ رحمت تھا کہ جس نے روما اور ایران کو بھی شمع رحمت کی شعاعوں سے منور کرنا تھا۔ وقتی طور پرعربی قومیت اور عصبیت کی آگ سے دونوں ظالم حکومتوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد دنیا کوعربی قومیت کے طاغوت کے پنجہ میں گرفتار کرانا نہ تھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامقصد تو پوری دنیا کو رحمت کی آزادی سے سرفراز کر نا تھا۔
جزیرہ نمائے عرب کے اقوام عرصہ دراز سے سخت اقتصادی مشکلات کا شکار تھے۔ قبائل کے غریب طبقات دولت کی منصفانہ تقسیم سے قطعاً نا آشنا تھے۔ امیرو غریب کے معاشی اور معاشرتی حالات کے مابین حد درجہ تفاوت تھا۔ ایک مختصر طبقہ طاقت اور اسلحہ کے بل بوتے پر تمام اقتصادی وسائل پر قابض تھا۔ قبائلی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد غریب اور نادار تھی۔ اگر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دعوت کے فروغ کے لیے معاشی اور معاشرتی اصلاحات کا نعرہ لگا کر بھی غریب اور مالدار طبقات کے درمیان دولت کے مساوی تقسیم کا اعلان کرتے، تو غریبوں کی ایک بہت بڑی تعداد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرچم تلے جمع ہو کر سرمایہ دار طبقہ کے خلاف بغاوت کر دیتی لیکن اس قسم کے انقلاب سے ایک طبقاتی کشمکش کا آغاز ہوتا جو دین اسلام کے اصولِ عدل اجتماعی کے منافی ہوتا۔ اور’’دنیا کے ہر انسان کو اسلام کی دعوت دینے‘‘ کے عالمگیر مشن کے راستہ میں رکاوٹ بنتا۔ اس کے بعد ایک طبقاتی جنگ شروع ہو جاتی جو رحمت اور نجات کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہوتی۔ موجودہ زمانہ میں مارکسزم، کمیونزم، سوشلزم نے اس ہتھیار کے ذریعے دنیا کو انقلاب کے راستے پر چلانے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا یہ ہتھیار بہت تھوڑی مدت تک کام کر کے ناکارہ ہو گیا۔ اور لاکھوں لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلِّم اخلاق تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت پاک کا ایک بنیادی مقصد ترویج اخلاق بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‘
’’اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقْ‘‘
(مجھے محاسَنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے)
لیکن عالمی انقلابِ رحمت کے قیام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز صرف اصلاحِ اخلاق کی مہم سے نہیں کیا۔ بے شک اس وقت عرب کی اخلاقی اور روحانی حالت سخت پراگندہ اور ناگفتہ بہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو تمام نیک انسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرچم تلے جمع ہو کر اصلاح معاشرہ سے ایک دنیا کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیدت مند بنا دیتے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منشاء دنیا کوتطہیر و تعمیر کے ایسے فطری نظام کے تحت لانا تھا کہ جس سے ہر شخص کے اندر فطرۃ بالقوہ میں موجود خوابیدہ احساس ذمہ داری خود بخود جاگ کر فطری طور پر تطہیر، احتساب اور انتظام کے عمل کو اپنالیتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیاست کے میدان کو بھی اپنی دعوت کی جو لانگاہ بنانے سے احتراز فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال فراست مومنانہ اس امر سے بخوبی آگاہ تھی کہ سیاسی انقلاب سب سے زیادہ وقتی، عارضی اورناپائیدار ہوتا ہے۔ محض حکومت کی تبدیلی انسانی ذہن اور معاشرہ میں تبدیلی نہیں لا سکتی۔ ان حالات میں مکہ مکرمہ میں بعثت کے بعد تیرہ برس آپ نے ’’صرف دعوت توحید و رسالت‘‘ پر توجہ مرکوز رکھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے افراد کو انسانی تشخص اور اللہ کے ساتھ انسان کے رشتہ عبودیت کی معرفت ہو گئی۔ وُہ موحِّد ہو کر غیر اللہ کی بندگی اور غلامی سے آزاد ہو گئے، اور صرف خدائے واحد کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی حقیقت سے آشنا ہو گئے توربّ ِجلیل کے سامنے ایک سجدہ نے ان کو ہزاروں مخلوقات کے سامنے سجدہ کرنے سے نجات دِلادی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرت، معیشت، سیاست اور عدالت کے میدانوں میں مکمل نظام مصطفیٰ کو نافذ کردیا۔ یہ صحیح وقت پر صحیح کام صحیح افراد سے کرانے کا وُہ مصطفوی طریقہ کار تھا۔ کہ دنیا کی ہر بگڑی شئے اپنے صحیح مقام اور مرتبہ پر آگئی۔ دنیائے ارضی فراعنہ، نمارید، شداداور قیصر و کسریٰ کی لعنتوں سے پاک ہو گئی اور انقلابِ رحمت و نجات کا پھریرا ساری دنیا پر لہرانے لگا۔
وُہ تمام انقلابات عالم جو دنیا کی معلوم تاریخ میں آج تک رونما ہُوئے۔ اپنی خون ریزی، قتل و غارت، دہشت گردی، بے مقصدیت، سطحیت اور معروضیت کی بنا پر تاریخ انسانیت میں اُس عزت و توقیر کا مقام و مرتبہ حاصل نہ کر سکے جو ظہور اسلام کے بعد’’ مصطفوی انقلاب رحمت و نجات‘‘ کو نصیب ہُوا ہے۔ مذاہبِ عالم اور سیکولر دنیا سے تعلق رکھنے والے ہزاروں عیسائی، یہودی، ہندو، سکھ، پارسی اور ملحد مورخین اور وقائع نگاروں نے ’’ پیغمبر انقلاب رحمت و نجات‘‘کو ازل سے ابد تک کے زمانوں کا واحد انسان کامل تسلیم کرتے ہُوئے لکھا ہے۔ کہ محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) دنیا کی وہ واحد ہستی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی تاریخ پر جو اثرات ڈالے، وہ کسی بھی دوسری مذہبی یا غیر مذہبی شخصیت نے نہیں ڈالے۔ انگریز مؤرخ ٹامس کارلائل نے پیغمبر اسلام کو ’’ نبیوں کا ہیرو‘‘ اور امریکی مصنف مائیکل ہارٹ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انسان قرار دیا ہے۔
اسلامی انقلاب کے دور رس اثرات نے نہ صرف آنے والے صحت مند عالمی تحریکات اور انقلابات کو متاثر کیا، بلکہ اس کی وجہ سے عالمی سطح پر علم و حکمت اور سائنس کے جدید علوم و فنون کوبھی فروغ حاصل ہُوا، اس عظیم انقلاب سے جدید دنیا کی جمہوری، اشتمالی، اشتراکی اور اصلاحی تحاریک نے بھی اثر لیا۔ یہ اس لحاظ سے بھی ایک منفرد اور انوکھا انقلاب تھا کہ عام طور پر انقلاب بپا کرنے سے پہلے انقلاب کاقائد اس کے لئے زمین ہموار کرتا ہے، عوام کی ذہن سازی کی جاتی ہے، اُن میں شعور کی بیداری کے لیے مہمات شروع کی جاتی ہیں۔ عوام کے ذہن کو تیار کیا جاتا ہے جس سے مروجہ نظام کے خلاف زیادہ سے زیادہ لوگوں اور اُن کے مختلف طبقات میں بے چینی جنم لیتی ہے۔ اور لوگ جب ہجوم در ہجوم اور جوق در جوق گھروں سے باہر نکل کر سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ نظام کے خلاف بغاوت ہو جاتی ہے، سول نافرمانی شروع ہو جاتی ہے۔ توڑ پھوڑ ہوتی ہے، گھیرائو جلائو ہوتا ہے، اور قوت غالبہ اور قاہرہ کے خلاف ایک عام بغاوت ہوتی ہے۔ ان حالات میں جب تبدیلی(change) کا میاب ہوجاتی ہے تو اُسے انقلاب(revolution) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو رسول مکرم نبی محتشم سرکارِ ہر دوسرِا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ’’ انقلاب رحمت و انقلاب‘‘ دنیا کے تمام گذشتہ اور موجودہ انقلابات سے بالکل مختلف، منفرد اور ممتاز ہے۔ یہ عظیم انقلاب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم معجزہ تھا۔ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے عرب معاشرہ، قبائلی زندگی اور عام معاشرت و سیاست میں کسی طرح کی بے چینی کے آثار نظر نہیں آتے تھے۔ انقلاب کے لیے زمین ہموار نہیں کی گئی‘ نبی مکرم و محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرزمین عرب پر اکیلے مومن اورپہلے مسلم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ہم خیال نہ تھا۔ انقلاب برپا کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دینے والے موجودنہ تھے۔ اور نہ ہی زندگی کے کسی مخصوص شعبہ میں انقلاب کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ ہر جگہ قبائلی زندگی اپنے قدیم رسوم و رواج کے مطابق جاری و ساری تھی۔ لوگ اپنے اپنے طور طریقوں سے زندگی گزار رہے تھے۔ بتوں کی پوجا جاری تھی، اصنام تر اشی بھی تھی اور اپنے ہی تراشیدہ بتوں کے سامنے سجدہ ریزی بھی تھی۔ زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی کہ ناگاہ اس عالم سکوت و یاس میں سر زمین مکہ کے کوہ فاران کی چوٹی سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی توحید اور وحدانیت کے داعی، واقفِ رموز و اسرار کائنات، قائد انقلابِ رحمت و نجات کے دِل بیتاب سے ایک عجیب صدا فضائے عرب میں بلند ہوتی ہے
’’اَلَّا نَعْبُدُ اِلَّا اللّٰه‘‘
’’ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں‘‘
یہ صدائے توحید و ایمان کرہ ارض پر بسنے والی مظلوم اور بے چین نوع انسانی کے لیے پیام نجات اور نوید امن لے کر آئی۔ یہ نعرہ رحمت الہی تھا۔ خوف و غم، حسرت و یاس اور ناامیدی کے بادل چھٹ جانے کی اطلاع تھی۔ غلامی؛ تحقیر انسانیت اور تذلیل آدمیت کی زنجیروں کے کٹ جانے کا اعلان تھا۔ یہ وہ اعلان نبوت تھا۔ جو ساری دنیا کے لیے توحید، عبدیت، حر ّیت، احترام، مساوات اور انصاف کی روشنی پھیلنے کا پیغام رحمت تھا۔ جرات و بہادری کے اس اعلان حق سے شہنشاہوں کے جلال پگھل جانے کا آغاز ہُوا۔ بادشاہ اپنے اپنے تخت شاہی سے اتر ناشروع ہو گئے۔ عام انسان غلامی و بے چارگی سے بلند ہو کر سرداروں اور بادشاہوں کے ہم پلہ ہوگیا۔ اس حالت میں تباہی اور بربادی کے دہانے کھڑی دنیا اُس آگ سے محفوظ ہو گئی جس میں وہ گذشتہ انقلاباتِ عالم کی وجہ سے کئی بار گرچکی تھی۔ انسانی زندگی کا یہ وہ انقلابِ رحمت و نجات تھا جس نے ساری دنیا کو اللہ کے نور اور جمال سے بھر دیا تھا!
ایک ہی صف میں کھڑے ہو
گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز