بے مثل و بے نظیر ہو، تم لاجواب ہو
عرفانِ ذات حق کی مقدس کتاب ہو
جاہ و شرف میں کوئی تمہاری نہیں مثال
سلطانِ کائنات، رسالت مآب ہو
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام جہانوں کے لئے رحمت اور اپنی توحید کی پہلی دلیل بناکر اس دنیا میں بھیجا۔ ارشاد ربانی ہے :
يٰاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ کُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْکُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًاo
(النساء، 4 : 174)
’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں ذاتِ حق جل مجدہ کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نُور (بھی) اتار دیا ہے‘‘۔
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری زندگی کو سراپا معجزہ اور دلیل قاطع بنادیا۔ وہ صادق، امین، دُرِّ یتیم، باعث تخلیق کائنات۔ بعد از خدا بزرگ توئی کی زندگی کا سفر شکم مادر سے لے کر وجود کی تخلیق تک معجزہ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کا لمحہ لمحہ معجزہ، بعد از وصال آپ کا فیضان تادم قیامت معجزہ، آپ کا فرش پر رہنا معجزہ اور فرش تا عرش جانا بھی معجزہ، لامکاں سے پھر مکاں تک کا سفر بھی معجزہ اور روز حشر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا اظہار بھی معجزہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کا ہر دور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے مثال اور لاجواب ہونے کا گواہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے ہر لمحہ سے ہوتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت کا دائرہ کار محض جن و انس تک محدود نہ تھا بلکہ جملہ مخلوقات چاہے حیوانات ہوں، نباتات یا جمادات بھی اس دریائے رحمت کے دائرہ میں سمٹ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کا دم فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں بیٹھنے والے ہی نہ بھرتے تھے بلکہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں شیدائی اور فریفتہ نظر آتا ہے۔ بے زبان جانور ہوں یا درندے، ننھے پرندے ہوں یا سرسبز شاداب درخت، درخت کے سوکھے تنے ہوں یا پہاڑ، پتھر ہو یا کنکریاں، سورج ہو یا چاند ہر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں ڈوب کر وجد میں جھومتا دکھائی دیتا ہے۔
تابع فرماں چاند
میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گہوارے میں تشریف فرما ہیں جدھر انگلی اٹھاتے چاند اس ادا پر فدا ہوکر اسی سمت جھک جاتا ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کلام کرتے ہیں تو وہ بھی جھک جھک کر اس بارگاہ میں جواب عرض گزارتا ہے۔ امام ابن عساکر اور امام سیوطی روایت کرتے ہیں :
’’حضرت ابن عباس بن عبدالمطلب بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی نبوت پر دلالت کرنے والی ایک خاص نشانی نے مجھے آپ کے دین میں داخل ہونے کی ترغیب دی۔ میں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایام طفولیت میں گہوارے کے اندر چاند کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور انگلی مبارک کے ساتھ جس طرف اشارہ فرمایا کرتے تھے چاند اسی طرف جھک جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس کے ساتھ باتیں کرتا تھا اور وہ میرے ساتھ باتیں کرتا تھا اور مجھے رونے نہیں دیتا تھا‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں چاند بھی بصد احترام و محبت حاضر ہوتا اور دیگر مخلوقات کی طرح وہ بھی آپ کا مطیع اور تابع فرماں تھا۔
بادل کا سایہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گہوارے سے نکل کر بچپن کی حدود میں قدم رکھتے ہیں ہر دیکھنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن اور عادات و اطوار کو دیکھ کر فریفتہ ہوجاتا ہے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ اپنے بچوں سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتیں۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعی بہن شیما تپتی دوپہر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر گھر سے باہر چلی گئیں حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پایا تو بے تاب ہوکر باہر نکلیں۔ تپتی دوپہر میں سورج کی تمازت دیکھ کر پریشان ہوئیں۔ جیسے ہی بیٹی کو دیکھا جلال آگیا۔ شیما نے جواب دیا۔ اماں جان! میرا قریشی بھائی دھوپ کی تمازت سے محفوظ ہے۔ بادل اس پر سایہ کرتا ہے۔ یہ چلتا ہے تو بادل اس کے ساتھ چلنے لگتا ہے اورجب ٹھہر جاتا ہے تو بادل بھی ٹھہر جاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک بارہ برس ہے۔ آپ اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ بصرہ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے ہمراہ قیام کیا تو بحیرہ راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ’’اللہ نے انہیں رحمت للعلمین بنادیا ہے‘‘۔
ابو طالب نے حیران ہوکر پوچھا : ’’آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘۔ بحیرہ راہب نے کہا ’’تم گھاٹی کے اس جانب تھے۔ میں نے دیکھا کوئی چیز ایسی نہ تھی جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام کے لئے جھک نہ گئی ہو‘‘۔
کھجور کے تنے کا واقعہ
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں ’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک تنے کے ساتھ کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے پھر صحابہ کرام نے آپ کے لئے منبر بنوادیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد کرنے لگے تو وہ تنا اس طرح رونے لگا جس طرح اونٹنی اپنے بچے کی خاطر روتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہوگیا۔
(جامع ترمذی، کتاب المناقب)
رحمت دو عالم، سرکار مدینہ، حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز کھجور کے خشک تنے سے ٹیک لگاکر خطاب فرماتے تھے۔ ایک انصاری صحابیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بہترین لکڑی کا منبر بنواکر حضور کی بارگاہ میں پیش کیا اور استدعا کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس منبر پر جلوہ افروز ہوکر خطاب فرمایا کریں۔
جمعہ کے روز جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے تومجمع نے ایک درد و آلام میں ڈوبی ہوئی رونے کی آواز سنی۔ وہ آواز کھجور کے خشک تنے سے آرہی تھی۔ اس کا رونا ایسا درد ناک تھا جیسے اونٹنی اپنے بچے سے بچھڑ کر بلکتی ہے کوئی بچہ اپنی ماں سے جدا ہوکر روتا ہے اس کی فریاد اتنی غم ناک تھی کہ لگتا تھا شدت غم سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ اس آواز کو تمام حاضرین نے سنا۔ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے منبر سے نیچے تشریف لائے اپنا دست شفقت درخت پر رکھا اور پھر اسے سینے سے لگایا۔ کھجور کا تنا خاموش ہوگیا مگر روتے ہوئے بچے کی طرح ہچکی لگی ہوئی تھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر فرمایا اگر تو پسند کرے میں تیرے لئے دعا کروں اور اللہ تعالیٰ تجھے جنت الفردوس میں اس مقام پر جگہ دے جہاں میں ہوں تو وہاں ابد تک رہے۔ انبیاء اولیاء تیرے پھل کھایا کریں۔
آپ کے اس فرمان کے جواب میں کھجور کے تنے نے کہا ایسا ضرور فرمایئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کھجور کے تنے کو مسجد میں دفن کرادیا۔
٭ سائنسی تجربات نے ثابت کیا کہ نباتات زندگی کے ساتھ ساتھ شعور بھی رکھتے ہیں۔ اپنے احساسات کا اظہارکرتے ہیں۔ پودے سوچتے ہیں یاد رکھتے ہیں۔ اچھے اور نیک لوگوں کی قربت میں خوش ہوتے ہیں۔ پیچیدہ اور منفی خیالات رکھنے والے لوگ ان کو ناگوار گزرتے ہیں۔ پودوں کے لئے دل میں پیارو محبت کے جذبات رکھنے والا جب پودا لگاتا ہے۔ اس کی آبیاری اور دیکھ بھال کرتا ہے تو پودوں کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔
(محمد رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم . خواجه شمس الدين عظيمی)
نبی کریم رحمت للعالمین ہونے کی حیثیت سے آسمانوں اور زمین کی ہر مخلوق سے واقف ہیں اور آپ کی شان رحمت کو ہر مخلوق مانتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے رحمت ہیں۔ درخت نے جب یہ دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے تو اسے حضور کی جدائی شاک گزری اور اس نے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔ رحمت للعالمین کا دریائے رحمت جوش میں آگیا۔ آپ نے لکڑی کے تنے پر دست شفقت رکھ کر دعا دی۔ باشعور تنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عنایت پر خوش ہوا اور رونا ترک کردیا۔
دیمک کے باشعور ہونے کا واقعہ
کفار مکہ اور اہل قریش نے اسلام کی روز بروز بڑھتی ترقی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحابہ کرام کی بے مثال محبت اور اطاعت سے خائف ہوکر معاشی بائیکاٹ کا اعلان کیا اور عہد نامہ لکھ کر کعبہ میں لٹکادیا۔ اس عہد نامہ کی رو سے دوسرے علاقوں کا کوئی بھی تاجر بنوہاشم سے کوئی تجارتی لین دین نہیں کرسکتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مع اہل و عیال شعب ابی طالب نامی گھاٹی میں مقیم ہوگئے۔ یہ دور نہایت اذیت اور تکلیف کا دور تھا۔ یہاں تک کہ آپ اور آپ کے اصحاب نے درختوں کی جڑیں تک کھاکر گزارہ کیا۔
تین برس کے بعد ایک دیمک نے عہد نامہ کے تمام الفاظ کو چاٹ لیا لیکن اللہ کے نام کو نہ چاٹا۔ جو حضور کو اذیت دینے کے ارادے سے لکھے گئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار قریش کو اطلاع بھیجی کہ قریش نے متفقہ طور پر جو عہد نامہ لکھا تھا اسے دیمک نے چاٹ لیا۔ صرف اللہ کا نام اس میں باقی رہ گیا۔ اسی طرح یہ معاشی بائیکاٹ اللہ کی رحمت اور حضور کی عظمت کے طفیل اختتام کو پہنچا۔
٭ دیمک چیونٹی کی ایک قسم ہے یہ پندرہ سے بیس فٹ تک اونچا گھر بناتی ہے۔ دیمک کی عقل و دانش کا حال یہ ہے کہ جب وہ اپنا گھر بناتی ہے تو ہر گھر محرابوں پر اٹھایا جاتا ہے۔ چلتی اس طرح مضبوط ہوتی ہے کہ کئی آدمیوں کا بوجھ سہارسکتی ہے۔ اس ننھے سے کیڑے نے عقل و دانش کا مظاہرہ کرکے عہد نامہ کے صرف ان الفاظ کو چاٹا جو کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے کے لئے لکھے تھے۔ وہ ننھا کیڑا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکالیف اور مصائب کو برداشت نہ کرسکا اور اپنی محبت کا اظہار اُن الفاظ کو چاٹ کر کیا جن کی وجہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن خالق و مالک ہستی اللہ کے رسول نے جس واحد ذات کے قابل پرستش ہونے کا برملا اعلان کیا۔ اس کے نام کو دیمک نے نہیں چاٹا۔
کھجور کی لکڑی کی اطاعت
غزوہ بدر میں حضور عکاشہ بن محض بڑی جانبازی اور دلیری سے لڑ رہے تھے کہ ان کی تلوار ٹوٹ گئی۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اس وقت حضور کے ہاتھ میں لکڑی کی چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھڑی حضرت عکاشہ کو دے کر فرمایا۔ عکاشہ جنگ جاری رکھو۔
حضرت عکاشہ نے چھڑی ہاتھ میں لی تو وہ مضبوط، چمکدار اور تیز دھار تلوار کی مانند ہوگئی۔ حضرت عکاشہ نے جنگ بدر کی فتح تک اس تلوار کو استعمال کیا۔ اس تلوار کا نام ’’العون‘‘ تھا۔
لکڑی میں روشنی
ایک اندھیری رات میں جب بارش خوب زوروں پر تھی۔ حضرت قتادہ بن نعمان انصاری نماز باجماعت کے لئے مسجد میں آئے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت قتادہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کھجور کی ایک شاخ دی اور فرمایا یہ شاخ دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ تمہارے پیچھے روشنی کرے گی۔ حضرت قتادہ کھجور کی شاخ لے کر گھر کی طرف چلے تو یہ شاخ مشعل کی طرح روشن ہوگئی۔
٭ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے :
’’ہم نے ہر چیز معین مقداروں سے تخلیق کی ہے‘‘۔
یہ معین مقداریں ہی ہیں جن سے زمین پر مختلف چیزیں تخلیق پاتی ہیں مثلاً لوہے کے اندر معین مقداریں کام کررہی ہیں۔ لکڑی کے اندر بھی معین مقداریں کام کررہی ہیں۔ اگر یہ معین مقداریں کسی طرح تغیر کا شکار ہوجائیں تو لوہا، لوہا نہیں رہے گا اور لکڑی، لکڑی نہیں رہے گی۔ فرض کیا تخلیق کرنے والی معین مقداروں کا فارمولا یہ ہے کہ لکڑی میں سات معین مقداریں کام کررہی ہیں اور لوہے میں آٹھ معین مقداریں۔ اب اگر لکڑی کی اس معین مقدار میں ایک مقدار کا اضافہ کردیا جائے تو لکڑی لوہے میں بدل جائے گی اور اگر لوہے میں سے ایک معین مقدار کو کم کردیا جائے تو وہ لکڑی میں تبدیل ہوجائے گا۔
(محمد رسول الله. جلد دوم. خواجه شمس الدين عظيمی)
اللہ رب العزت نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مخلوقات پر تصرف عطا فرمایا اور یہ تصرف سورج، چاند، ستاروں، زمین و افلاک اور ان میں موجود ہر شے پر عطا فرمادیا۔ آپ کی زبان اقدس نے لکڑی کو تلوار کی مانند کہا تو لکڑی نے آپ کی اطاعت و اتباع کی اور اس میں موجود معین مقداروں (Chemical Composition) میں تبدیلی واقع ہوئی اور وہ تلوار بن گئی۔
جب آپ نے لکڑی کو روشن ہونے کا کہا تو ایک دفعہ پھر آپ کے تصرف کی وجہ سے لکڑی نے آپ کی اطاعت کی۔ اس مضمون سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کائناتی زندگی اور کائناتی سسٹم کا امین اور حاکم بنادیا ہے اور تمام مخلوقات آپ کی بارگاہ میں آپ کے رتبے اور عظمت کے سامنے سرجھکائے کھڑی رہتی ہیں۔ ننھے دیمک سے لے کر سورج تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قصیدے پڑھتا نظر آتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و محبت کی تسبیح میں سرگرداں دکھائی دیتا ہے۔
تو گلشن کونین میں یوں جلوہ نما ہے
ہر شے سے عیاں طلعت انوارِ خدا ہے