دین اسلام میں اتحاد اور اتفاق کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اکٹھا کرتے ہوئے نفرت اور عداوت کو ختم کیا اور سب کو ایک اللہ کے دین پر یکجا کیا۔ قرآن مجید کی سورہ آل عمران میں ارشاد باری ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ لِلّٰهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا.
(آل عمران، 3: 103)
’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو۔‘‘
اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: "شیطان انسان کا بھیڑیا ہے۔ بکریوں کے بھیڑیے کی طرح، یہ بھیڑیا اس بکری کو پکڑتا اور لقمہ بناتا ہے جو اپنے ریوڑ سے الگ اور دور ہوجائے ، خبر دار کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے جدا ہو، تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم متحد اور جماعت کے ساتھ رہو۔(مسند احمد)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو مسلمانوں کو جسدِ واحد کی مانند قرار دیا۔ فرمانِ مصطفیٰ ہے ؛
مثل المومنین فی توادهم و تراحمهم و تعاطفهم کمثل الجسد إذا اشتکی عضوا تداعی له سائر جسدهٖ بالسهر والحمٰی. صحیح بخاری.
ترجمہ: ایمان والوں کی آپس کی محبت، رحم دلی اور شفقت کی مثال ایک انسانی جسم جیسی ہے کہ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو (وہ تکلیف صرف اُسی حصہ میں منحصر نہیں رہتی، بلکہ اُس سے) پورا جسم متاثر ہوتا ہے، پورا جسم جاگتا ہے اور بخار و بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان تمام تعلیمات کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے اور ہم نے آپس میں ہی فرقہ بندی بنا لی ہے۔ ایک دوسرے کو اسلام کے دائرے سے خارج سمجھتے ہوئے ہم شدت پسندی کی راہ اختیار کر رہے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے یکسر مختلف عمل ہے۔
تاریخ کے اوراق میں نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہود و نصارٰی نے 1924 میں اسلامی خلافت کا خاتمہ کیا۔ پھر انھوں نے اسلامی ریاستوں کو مختلف چھوٹے اور بڑے ملکوں میں تقسیم کردیاجس کی سب سے واضح مثال سوڈان کی تقسیم ہے، جس کو 2011ء میں انہوں نے دو ملکوں میں تقسیم کر دیا اور ایک نیا عیسائی ملک جنوبی سوڈان کے نام سے قائم کیا۔ ملک شام چار ملکوں فلسطین,جارڈن,سوریا,اور لبنان میں بدل گیا اور پاکستان بھی تقسیم ہو کر ایک حصہ بنگلہ دیش بن گیا۔ ترکستان کو پہلے دو حصوں مشرقی اور مغربی ترکستان میں تقسیم کیا۔ مشرقی ترکستان پر چین نے قبضہ کیا اور اب تک اس پر قابض ہے اور اس نے اس کا نام سنکیانگ رکھا ہوا ہے، اور مغربی ترکستان پر روس نے قبضہ کیا اور اسے پانچ ملکوں ترکمانستان، تاجکستان، قزاقستان، ازبکستان، قرغزستان میں تقسیم کردیا۔ انڈونیشیا اور ملیشیا کی تقسیم ہوئی اور اب بھی ان کا ارادہ عراق، شام، پاکستان وغیرہ کو مزید تقسیم کرنے کا ہے، جس تقسیم کا واضح مقصد مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنا اور ان کو آپس میں لڑانا ہے۔ ابھی حال ہی میں قطر بھی اسلامی فوجی اتحاد سے خارج کر دیا گیا ہے۔
مسلم ممالک قدرتی ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود آج محکوم کیوں ہیں؟
کیونکہ بھُلا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی۔ جب پہلی بار مسجدِ اقصیٰ میں 1961ء میں حملہ ہوا تو اس کے نتیجے میں او آئی سی یعنی اسلامی ممالک کی تنظیم کا قیام وجود میں آیا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ تنظیم اس طرح عمل درآمد نہیں کر پائی جس طرح کرنا چاہیے, جو کہ صرف تب ہی ممکن ہوگا جب تمام مسلم ممالک ایک ہو کر فیصلے لیں گے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور اس وقت ستاون اسلامی ممالک کرہ ارض پہ موجود ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک سروے کے مطابق قریباً 1.9 بلین ہے۔ اتنی کثیر تعداد کے باوجود بھی ہم مسلمان کسمپرسی اور حالت زار کا شکار ہیں تو اس کی وجہ واضح ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد کی کمی ہے۔ مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد تو دور کی بات ہم اپنے ہی ملک میں موجود مسلمانوں کے ساتھ بھی اتفاق و اتحاد سے برتاؤ کرنے کے قائل نہیں رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو جتنا نقصان مسلمانوں نے پہنچایا اتنا کبھی اسلام دشمنوں نے بھی نہیں پہنچایا۔ رحلت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہی مسلمانوں میں پھوٹ پڑنی شروع ہوگئی۔ گروپ بندی کی بنیاد رکھی گئی۔ اور مسلمانوں نے آپس میں ہی جنگیں کی۔ اور اس کا نقصان بھی صرف مسلمانوں نے ہی اٹھایا۔ آج پاکستان میں بھی فرقہ واریت عروج پر ہے ہم نے دیکھا کہ کس طرح اہل تشیع کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا چاہے سانحہ ہزارہ کو دیکھا جائے یا سانحہ پشاور کو۔ مسلمان ہو کر ہم ایک دوسرے پر فتوے لگاتے ہیں اور لوگوں میں انتشار پھیلاتے ہیں جس کا فائدہ براہ راست اسلام دشمنوں کو پہنچتا ہے۔ ان کو موقع ملتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہی خلاف استعمال کر سکیں اور وہ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ اندلس میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی، مگر انہیں اس وقت زوال سے دو چار ہونا پڑا جب مسلمانوں نے اللہ کے کلام کو پس پشت ڈال دیا، فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے۔ بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبال؛
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
ایک طرف کشمیر پر بھارت ظلم و ستم تھا رہا ہے تو دوسری طرف اسرائیل فلسطین پر۔ امریکا نے افغانستان میں جنگ کی تو دوسری طرف یمن اور شام میں یہودیوں کے مظالم ہیں۔ لیکن ہم اس ظلم کے خلاف کیسے بولیں جب ہم آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کی کشیدگی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ عراق اور کویت کی بھی جنگ ہے۔ ایران نے امریکا کی مداخلت سے خود کو آزاد کر لیا تو سعودی عرب امریکا سے اسلحہ کی فروخت کرتا ہے ایران کے خلاف۔ گویا مسلمان ملکوں میں انتشار پھیل رہا ہے اور مغربی دنیا مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔متحدہ عرب امارات ہے جس نے لیبیا اور یمن میں اپنی عسکری قوت کا استعمال کیا ہے جدید ترین اسلحے کا طالب ہے ۔ وہ ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں جس کو امریکا اور اسرائیل بھی خطرہ تصور کرتے ہیں۔ مصر اور اُردن کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں تو خود کو مسلم دنیا میں تنہائی سے بچانے کیلئے اسرائیل متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات بہتر کر رہا ہے۔ چونکہ متحدہ عرب امارات سے ایران کی سرحدیں قریب ہیں اور یہاں سے اسرائیل کو ایران پر ہوائی حملہ کرنے میں آسانی ہوگی اس لئے بھی اسرائیل کا مفاد ان کے ساتھ جڑا ہے۔ کئی اسلامی ممالک اسرائیل کو آزاد ریاست بھی تسلیم کر چکے ہیں اور اس کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ اسرائیل کا استحکام مسلمانوں کے لیے کتنا برا ثابت ہو رہا ہے۔
ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا محبت کی زباں ہوجا
امریکا نے اپنی جنگ میں پاکستان کی مدد چاہی افغانستان کے خلاف اور پھر پاکستان کو ہی دہشت گردوں کی زد میں کھڑا کر دیا۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد تصور کیا جانے لگا۔ نقصان بھی ہم نے اٹھایا اور بدنام بھی ہم ہی ہوئے۔ جبکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال مسلم اتحاد کے بہت بڑے خواہاں تھے۔ اقبال نے فرمایا؛
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
ممکن ہے کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
تو کہیں فرمایا؛
بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم استعماری طاقتوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے اور ہمیشہ مسلمان ملکوں کی حمایت کی۔ 1940ء میں قرارداد پاکستان منظور کراتے وقت قائد اعظم نے جو خطاب کیا اس میں واضح طور پر برطانوی حکومت کوفلسطینیوں کے مطالبات کو پورا کرنیکا کہا۔ یروشلم کے عظیم مفتی محمد امین الحسینی نے قائدِ اعظم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک خط تحریر کیا جس میں اس نے کہا کہ ہم آپکی قابلِ قدر کاوشوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام اسلامی ممالک میں اسلامی اخوت اور مسلمانوں کے مابین تعاون کیلئے خدا کے حکم کے مطابق اسلام اور مسلم دنیا کی خدمت کیلئے مسلسل کوشش کررہے ہیں۔پوری اسلامی دنیا آپ کے اور مسلم لیگ کے مؤقف کی قدر کرتی ہے اور مسلمانوں کی خدمات میں آپ کی مستقل و مبارک کاوشوں کی تعریف کرتی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا؛ یاد رکھنا ہم ایک ایسی ریاست کی تشکیل کر رہے ہیں جو پوری اسلامی دنیا کی منزل کا تعین طے کرنے میں اپنا پورا کردار ادا کرے گی۔ لہٰذا ہمیں ایک وسیع تر نقطۂ نظر کی ضرورت ہے، ایک ایسا نقطئہ نظر جو صوبوں، محدود قوم پرستی اور نسل پرستی کی حدودوقیود سے ماوراء ہو۔ انہوں نے شمالی افریقی عربوں کی کھل کر حمایت کی۔ قائداعظم نے انڈونیشیاء، ملایا، سوڈان، لیبیاء، تیونس، مراکش، نائیجیریا اور الجزائر میں آزادی کی تحریک کو ہر ممکن سفارتی اور مادی امداد فراہم کی۔انہوں نے انڈونیشیا پر ڈچ حملے کو پاکستان پر حملہ کے مترادف کہا اور ڈچ بحری جہازوں کو جنگی سامان انڈونیشیاء لے جانے کیلئے جگہ فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ اور بدقسمتی سے ہمارے نااہل حکمرانوں نے ماضی میں امریکا کو اپنی ائیر بیس فراہم کی کہ وہ افغانستان پر حملے کرے اور پھر نتیجتاً بھاری نقصان ہوا۔ لہٰذہ اقبال کی بات سچ ثابت ہوئی کہ
بھلا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
لیکن حال میں ہی پاکستان کے سابق سربراہ سے امریکی صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ ہمیں اپنی بیسس فراہم کریں گے افغانستان کے خلاف تو جواباً اس نے بے باکی سے ایبسلوٹلی ناٹ یعنی ہرگز نہیں کا منہ توڑ جواب دیا۔
نہ صرف مسلم ملکوں میں انتشار پھیلایا گیا ہے بلکہ ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنا کر مسلمانوں کی دل آزاری بھی کی گئی۔ لیکن چونکہ مسلمان ممالک ایک پلیٹ فارم پر آ کر آواز نہیں اٹھاتے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی آواز اقوام متحدہ کے بے رحم کانوں تک نہیں پہنچ پائی۔ لیکن صد شکر کہ یہ اعزاز بھی پاکستان کو حاصل ہوا کہ اقوام متحدہ میں ناموسِ رسالت کیلے آواز بلند کی اور دنیا سے تسلیم کروایا کہ چاہے مسلمانوں کے ساتھ مظالم ہوں یا یہ بے حرمتی یہ سب اسلاموفوبیا کا ہی نتیجہ ہے۔ اب ساری دنیا نہ صرف یہ بات تسلیم کرتی ہے بلکہ اب ہر سال اینٹی اسلاموفوبیا ڈے بھی منایا جائے گا جو مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کا آغاز اس سال مارچ میں ہوا۔
ہم بحیثیت انسان بھی اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں فرق نہیں پڑتا کہ کہاں کیا ظلم کیا جا رہا ہے۔ اگر کشمیری مرتے ہیں یا فلسطینی تو ہم انکا درد محسوس ہی نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ ہم نہیں ہیں۔ کیونکہ ہمارے گھروں میں بمباری اور گولیوں کی آوازیں نہیں آتی اور کیونکہ ہمارے سب اپنے ہمارے ساتھ ہیں اور ہماری قوم تو حالتِ جنگ سے نہیں گزر رہے۔ ان کے مرنے کی خبریں اب ہمارا معمول ہیں کیونکہ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ مسلم قوم کی بنیاد ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پر ہے جو کہ ساری دنیا میں موجود مسلمانوں کو ایک جسم اور ایک جان بنا دیتا ہے۔ وطنیت کا یہ یورپی تصور جو قوموں کو رنگ، نسل اور علاقے کی بناء پر تقسیم کرتا ہے اسلام کے عالمگیر تصور اخوت کا دشمن ہے۔ بقول اقبال
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
پہلے تو ہم دوسرے اسلامی ممالک میں مظالم پر خاموش رہتے آئے یہاں تک کہ ہم مکمل بے حس ہو گئے اب ہمیں اپنے ملک میں ہوتا ظلم بھی دکھائی نہیں دیتا۔ حالیہ سانحہ پشاور پر زیادہ لوگ اس لئے بھی خاموش رہے کہ وہ تو الگ فرقے کے لوگ مارے گئے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا ہوگا کہ ہم اپنے فرقے کے لیے بھی بے حس ہونگے اور تب تک جب تک ہماری اپنی ذات کی باری نہ آجائے۔ لیکن تب کوئی بچا ہی نہیں ہوگا جو ہمارے لئے آواز اٹھائے جیسے ہم نے کسی کیلئے آواز نہیں آٹھائی۔
ضرورت آج اس امر کی ہے کہ ہم فرقہ بندی اور رنگ و نسل کی تفریق سے بالا تر ہو کر ایک قوم ہو کر چلیں۔ مسلمانوں میں اگر اتحاد ہو جائے تو یہ قیصر و کسریٰ کے ایوان ہلا سکتے ہیں۔ مسلم امہ کا اتحاد اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ بقول حکیم الامت:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر