سوال: کیا دوران نماز موبائل بند کرنے سے نماز ادا ہو جائے گی؟
جواب: اگر یہ عمل بار بار نہ ہو بلکہ ایک یا دو بار ایسا کر لیا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ عمل قلیل ہے۔ اس کے برعکس اگر اس نے بار بار ایسا کیا تو عمل کثیر کی بناء پر نماز فاسد ہو جائے گی۔
موبائل سامنے رکھے ہونے کی صورت میں نمازی نے دورانِ نماز اگر ایک آدھ مرتبہ موبائل پر آنے والے فون کا نمبر دیکھ کر زبان سے تکلم کیے بغیر اسے بند کر دیا تو اس سے بھی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ جیسا کہ امام طحطاوی فرماتے ہیں:
(لو نظر المصلی إلی مکتوب وفهمه) سواء کان قرآنا أوغیره قصد الاستفهام أو لا أساء الأدب، ولم تفسد صلاته لعدم النطق بالکلام.
طحطاوی، مراقی الفلاح: 187)
نمازی نے (دورانِ نماز) ارادتاً یا غیر ارادی طور پر کسی تحریر کی طرف دیکھا اور اسے سمجھ لیا خواہ وہ قرآن یا اس کے علاوہ کوئی تحریر ہے تو ادب کے خلاف ہے لیکن نطقِ کلام نہ پائے جانے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔
سوال: حضرت یوسف کی زندگی پر 28 گھنٹوں کی ایک فلم بنائی گئی ہے۔ اس میں حضرت یوسف کے بچپن سے لے کر اس وقت تک کی تفصیل بتائی گئی جب حضرت یوسف حضرت یعقوبؑ سے 40 سال بعد ملے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ فلم دیکھنا جائز نہیں کیونکہ اس میں حضرت یوسف اور حضرت یعقوبؑ کی اداکاری بھی کی گئی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ کئی واقعات اس میں غلط بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن یہ فلم لوگوں کی ہدایت کا بھی ذریعہ ہے۔ دوسرا یہ کہ آج کل ٹی وی پر جو برے پروگرام دکھائے جاتے ہیں ان سے تو یہ فلم اچھی ہی ہے۔ اور کیا یہ فلم دیکھنا جائز ہے؟ اور فلم بنانے والوں کے لئے کیا یہ فلم بنانا جائز ہے؟ اور کیا حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ پر ایسی فلم بنانا جائز ہے جس میں حضور ﷺ کی اداکاری بھی کی گئی ہو؟
جواب: اسلامی تہذیب و تمدن اور تعلیمات پر فلمیں بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ ڈیجیٹل دور اہلِ اسلام سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ نئی نسل تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے منبر و محراب کی اہمیت اور حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے جدید خطوط پر کام کریں۔ ہمارے دانست میں اسلامی تاریخ، شخصیات اور معاشرت کو فلمانے میں کوئی حرج نہیں۔
آپ کا بچوں کو اسلامی فلمیں دیکھانا درست عمل ہے۔ایسی فلمیں اور ڈرامے جو واقعتاً اسلامی تاریخ، اسلامی تہذیب اور تعلیمات کی عکاس ہوں ان کا دیکھنا جائز ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کو فلمانے میں کوئی حرج نہیں، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ بنائی جائے گی اور نہ ہی اسے پردہ سکرین پر لایا جائے گا، بلکہ باقی کرداروں کی مدد سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور تعلمیات کو ناظرین تک پہنچایا جائے گا۔
سوال: کیا میک اپ پر وضو ہو جاتا ہے؟
جواب: اعضائے وضو پر اگر کسی چیز کی تہہ جمی ہو اور پانی جِلد تک نہ پہنچ پائے تو وضو نہیں ہوگا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَینِ.
(الْمَآئِدَة، 5: 6)
اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔
اگر میک اپ میں صرف رنگ ہوں اور وہ اعضائے وضو تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ نہ ہوں تو میک اپ پر وضو ہو جائے گا۔ لیکن اگر میک اپ کی تہہ جمی ہو جو پانی کو اعضائے وضو کی جلد تک نہ پہنچنے دے تو میک اپ پر وضو نہیں ہوگا۔
سوال: ایک غیر شادی شدہ سیدہ لڑکی جو گریجویٹ ہے اور اس کی مالی حالات بھی بہت اچھے ہیں یعنی اس کو ملازمت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر وہ بغیر مجبوری کے ملازمت کرنا چاہتی ہے تو کیا اسلام اس کو اجازت دیتا ہے؟ اگر ملازمت کی جگہ غیر مردوں سے واسطہ پڑتا ہو تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟ عورت کی ملازمت کی جائز صورتیں کون سی ہیں؟
جواب: اسلامی تقاضوں کے مطابق باپردہ اور محفوظ رہتے ہوئے باعزت طریقے سے عورتیں ملازمت کرسکتی ہیں۔ مگر اس میں بھی چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
ملازم عورتیں مرد افسروں کے ماتحت نہ ہوں۔
عورتوں کے کام کے شعبے مردوں سے الگ ہوں۔
کسی بھی حوالہ سے مردوں کو عورتوں تک رسائی نہ دی جائے۔
درج بالا امور کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ مرد افسران ملازم خواتین کو غلط مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرد افسران غریب عورتوں کو تنخواہوں میں اضافے، ملازمت میں ترقی اور اعلیٰ عہدوں کا لالچ دے کر ان کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔
ایسی اور اس جیسی برائیوں سے ممکنہ حد تک پاک شعبہ جات میں خواتین ملازمت کرسکتی ہیں۔
سوال: اذان سے پہلے درود کیوں پڑھاجاتا ہے؟
جواب: قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًاo
(الأحزاب، 33: 56)
بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔
اس حکم باری تعالیٰ میں نبی کریم ﷺ پر درودوسلام بھیجنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہے اور نہ ہی اذان سے پہلے درودوسلام پڑھنے کی قرآن وحدیث میں کہیں ممانعت آئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
جب تم مؤذن سے اذان سنو تو وہی کلمات کہو جو وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر میرے لیے جنت میں وسیلہ کی دعا مانگو، کیونکہ وہ جنت کا ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا، اور مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں گا، اور جو شخص میرے لیے اس مقام کی دعا مانگے گا اس کے حق میں میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔
(مسلم، الصحیح، کتاب الصلاة، باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم یصلی علی النبی ﷺ ثم یسأل الله له الوسیلة، 1: 509، الرقم: 738)
اس حدیث مبارکہ میں اذان کے بعد درود پڑھنے کا حکم ہے لیکن پہلے پڑھنے کی ممانعت نہیں ہے۔ لہٰذا اذان سے پہلے پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ منع کی کوئی دلیل نہیں ہے۔