وجود کائنات بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی انسان کیلئے نعمت و رحمت کی اعلیٰ مثال ہے۔ اس کرہ ارضی پر بنی نوع انسان بستے ہیں لہٰذا کائنات کی تمام تر رنگینیاں، رعنائیاں، زیبائشیں، دلکشی اور حشر سامانی انسان ہی کیلئے تخلیق کی گئی ہیں۔ انسان جسے معاشرتی حیوان کا نام بھی دیا گیا ہے ہمیشہ گروہ کی صورت میں رہنا پسند کرتا ہے، انسان جہاں بھی جائے، کہیں بھی رہے یہ اپنی آسائش کا سامان اکٹھا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ کسی بھی ماحول میں آہستہ آہستہ رہنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کرہ ارضی پر مختلف اقسام کے موسم اور آب و ہوا بنائے ہیں، کہیں خطے میں زمین ہموار اور آب و ہوا گرم ہے تو کسی قطعہ ارضی کو بلند و بالا پہاڑ، سنگلاخ چٹانوں سے مزین کیا ہے اور آب و ہوا کو بھی سرد رکھا ہے، کہیں سر سبز و شاداب وادیاں، لہلہاتی فصلیں، ندی نالے غرض کہ خطہ ارضی کو مختلف النواع موسموں سے مزین کیا ہے۔ انسان کی جبلت میں شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیت کردہ عقل سلیم کے ذریعے یہ اپنے رہنے کے لئے ہر طرح کے ماحول کو سازگار بنا لیتا ہے اور خود بھی اسی ماحول کا عادی ہو کر زندگی بسر کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ماحول کا خلاصہ ہوا، مٹی اور پانی ہے لہٰذا اس کے اندر حیاتیاتی، کیمیائی، طبیعاتی اور نباتاتی اجزاء و عناصر شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ لفظ ماحول کا اطلاق کل عالم میں موجود تمام اشیاء پر ہوتا ہے۔ ماحولیات اللہ تعالیٰ کے خاص نظام اعتدال و توازن پر قائم ہے۔ ماہرین ماحولیات جو ماحول سے فقط ہوا، مٹی اور پانی مراد لیتے ہیں، پاکیزگی یا آلودگی کے حوالے سے بھی وہ فقط ہوا، مٹی اور پانی کی ہی پاکیزگی یا آلودگی کے ہی قائل ہیں جبکہ بعض مفکرین نے ماحول کی پاکیزگی یا آلودگی میں معاشی و معاشرتی، طبعی و اخلاقی، دینی و سیاسی اور تعلیمی و تعلم کے پہلوؤں کو بھی ماحولیاتی پاکیزگی یا آلودگی میں شامل کیا ہے۔ ان مفکرین کا ماننا ہے کہ جس طرح ہوا، مٹی اور پانی کی پاکیزگی یا آلودگی انسان کی صحت، طبعیت اور رجحانات کو متاثر کرتی ہے اسی طرح مذکورہ دیگر عناصر بھی انسان کے اخلاق و کردار اور میلان و رجحانات پر شدید اثر انداز ہوتے ہیں اور کسی بھی معاشرے کے پاکیزہ یا آلودہ ہونے کا دار و مدار ان مذکورہ عناصر و اقسام پر بھی ہوتا ہے۔ اس بات کو مختصراً ایسے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان پر ماحول کے دو طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ایک ذہنی و اخلاقی طور پر اور دوسرا جسمانی و طبعی طور پر۔
موجودہ زمانے میں اگر ماحولیاتی پاکیزگی یا آلودگی کی بات کی جائے تو یہ پہلو نہایت توجہ کا طالب ہے کہ ماحولیاتی پاکیزگی کو ماحولیاتی آلودگی کسی خوفناک اژدھے کی مانند کھا گئی ہے اور باقی مانندہ پر اس اژدھے کی پرچھائیاں منڈلا رہی ہیں جو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جلد ہی ماحول میں صرف آلودگی کا راج ہوگا۔ ماحولیاتی پاکیزگی کیلئے خاطر خواہ توجہ اور انتظامات نہ ہونے کے مترادف ہیں جبکہ ماحولیاتی آلودگی کو پروان چڑھانے میں انسان کا اپنا کردار ہی دیدہ و دانستہ شامل ہے۔ یہ صرف لفظی جمع خرچ نہیں بلکہ دل دہلا دینے والی سچائی اور حقائق پر مبنی مشاہدہ ہے جسے ہر انسان اپنے گرد و نواح کے ماحول پر مفکرانہ نظر دوڑا کر انسانوں کی طرف سے ہی پھیلائے گئے ظلاظت و گندگی اور آلودگی کے مظاہر نظر آئیں گے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ غلاظت و تعفن کے انبار انسانی زندگی اور ماحول پر مہلک اثرات کا باعث بن رہے ہیں۔
من حیث القوم مجموعی طور پر ہم انسانوں نے ماحول کو پاکیزہ، صاف ستھرا اور پر فزا رکھنے کے امور کو بے دردی سے نظر انداز کر رکھا ہے اور اسے دوسروں کی ذمہ داری شمار کرتے ہیں، حالانکہ یہ سوچ اور فکر اس وقت دم توڑ جاتی ہے جب ہم کسی بھی مقام اور کسی بھی موقع پر ہمہ اقسام اشیاء کو ماحولیاتی آلودگی میں شامل کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کچرا دان سامنے بھی ہو تو ہم اس کا استعمال نہیں کرتے اور اگر اس وقت ماحول کو صاف رکھنے اور آلودگی نہ پھیلانے کا خیال ہمارے ذہنوں پر دستک دے بھی تو ہم اسے دھتکار دیتے ہیں۔ تب کچرے نہ پھیلانے کی ذمہ داری کا احساس ہمارے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتا بلکہ ہمارے ہی جیسے دوسروں انسانوں کی طرف سے پھیلائی گئی غلاظت و گندگی دیکھ کر یا تو ہم آنکھیں موند لیتے ہیں یا صرف انتظامیہ اور دوسرے لوگوں کو ہی برا بھلا کہتے ہیں اور تعفن و غلاظت کو دور کرنے میں عملی طور پر سست روی کا شکار اور دوسروں کو ذمہ دار سمجھ رہے ہوتے ہیں۔
معاشرے میں ایک طرف انسانی آبادی تیزی سے بڑھتی چلی جا رہی ہے اور دوسری طرف جنگلوں اور آبی ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے، گرد و نواح کے ماحول کو صاف رکھنے کی بجائے اسے مزید آلودہ کرنے کی طرف غیر سنجیدگی کا عمل جاری ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو سڑکوں پر نت نئی طرز کی حامل گاڑیوں کو تو دوڑائے چلا جا رہا ہے مگر ان سے نکلنے والے دھویں اور کثافتوں سے ماحول کو محفوظ رکھنے کی طرف توجہ دینا گوارا نہیں کرتا۔ صنعتی انقلاب کے ماحولیاتی آلودگی پر مُضرِ صحت اثرات کا علاج کھوجنا گویا معاشرے یا حکومت کی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔ اگر غور و فکر کی جائے تو یہ درخت ہی ہیں جو انسان کی زندگی کے ضامن ہیں، انہیں کی پیدا کردہ آکسیجن کی بدولت انسان سانس لے پاتا ہے، یہی درخت ماحول کو خوشگوار اور پُرفزا بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سورج کی تپش اور گرمی سے ماحول کو بچا کر سازگار کرنا درختوں ہی کی مرہون منت ہے۔ موسمی درجہ حرارت بڑھ جانے کی وجہ سے ماحولیات کا توازن ہچکولے کھا رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا باعث انسان کی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں کہ اس نے موحولیاتی آلودگی پر قابو نہیں پایا اور انسان کو سورج کی الٹراوائلٹ شعاعوں سے بچانے والی اوزون نامی گیس کی پرت میں سوراخ ہو گئے اور سورج کی شعاعوں براہ راست زمینی موسم پر اثر انداز ہو رہی ہے جو انسانی زندگی کیلئے خطرناک ہے۔
اسی طرح پانی انسانی حیات کیلئے دوسری بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر کوئی بھی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں انسانوں کو پینے کے صاف پانی کی سہولیات دیگر انسانوں کی نسبت کم میسر ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے مختلف حصوں میں گدلا پانی یا پھر صنعتی ترقی کی بدولت کیمیکل اور فضلوں کی بدولت زہریلا پانی ہے۔ کیمیائی مادے اور زہریلے، مُضرِ صحت اثرات انسانی جسم میں منتقل ہو کر مختلف النوع بیماروں کا سبب بن رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی صحت مند معاشرے کی تشکیل میں رکاوٹ نظر آتی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصولی ہدایات، مؤثر تعلیمات اور عملی اقدامات سے ماحولیات کو پاکیزہ رکھنے کی تلقین کی۔ قرآنی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان، لیل و نہار، دریا و سمندر، چرند پرند، باغات و حیوانات، بادل اور ہوا الغرض کائنات کی ہر چیز کو نظام توازن و اعتدال کے تحت تخلیق کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا نائب ہونے کے ناطے انسان کو اس ماحولیاتی توازن اور اعتدال کو برقرار رکھنے کا ذمہ دیا گیا ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کا احساس کرے اور دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ازخود کمر بستہ ہو کر اپنی بساط کے مطابق کائنات میں موجود نظام قدرت کے اعتدال اور توازن کو برقرار رکھنے کی سعی کرتا رہے اور اس نظام میں خلل ڈالنے سے گریز کرے۔
قرآن مجید شاہد ہے کہ اللہ رب العزت نے چاند اور سورج، پھل پھول، آسمان کی بلندی، سمندروں کی گہرائی، اناج اور دیگر لامحدود نعمتیں انسان کیلئے تخلیق فرمائیں اور انسان کے سپرد کرنے کے بعد اسے تعلیم بھی دی کہ یہ تمام نظام اللہ تعالیٰ نے بنائے ہوئے ایک خاص نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ پس ان سے فائدہ اور نفع حاصل کرو، اس نظام قدرت کے توازن و اعتدال میں خلل نہ ڈالو۔ کیونکہ اگر انسان اس نظام قدرت میں خلل ڈالے گا تو نقصان کا مرتکب ہوگا اور اس کے برے اثرات بھی برداشت کرنا ہونگے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا استعمال بھی اعتدال اور توازن سے ہی کرنا ہے اس میں اسراف سے کام نہیں لینا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماحولیات کے تحفظ سے متعلق ہدایات ارشاد فرمائیں کہ سایہ دار درخت کے نیچے اور راستے میں گندگی یا غلاظت نہ پھیلاؤ۔ درختوں کو بے جا کاٹنے سے منع فرمایا گیا کیونکہ ہرے بھرے درخت انسانوں اور جانوروں کو فائدہ دیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن حبشی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی پیڑ کو (بلاضرورت)کاٹے گا ، اللہ تعالیٰ اس کا سر جہنم میں ڈالے گا۔ (ابو داؤد: 5239)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذات خود درخت بھی لگائے اور ترغیب بھی دی۔ زمین کو غیر آباد چھوڑنے کی بجائے اسے کاشت کرنے اور زرخیز رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی مسلمان درخت لگاتا ہے یا کاشتکاری کرتا ہے اور اس پیڑ سے انسان، پرندے یا جانور پھل یا پتے کھاتے ہیں تو یہ پیڑ لگانے والے کیلئے صدقہ جاریہ ہے۔ (بخاری: 2320) ایک اور مقام پر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جو شجرکاری کی اہمیت کا واضح کرتا ہے کہ اگر قیامت کا وقت آ جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو اور قیامت برپا ہونے سے پہلے وہ اسے لگا سکتا ہے تو اُسے ضرور لگا دینا چاہیے، کیونکہ اس شجر کاری پر اجر ملے گا۔
کرہ ارضی پر ماحولیاتی آلودگی کے باعث اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات کی حیات کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی سمیت حیوانات کی حیات کو کرہ ارضی پر قائم رکھنے کیلئے آج ماحولیاتی اصلاح اور پاکیزگی کی اشد ضرورت ہے۔ ماحولیاتی کثافتوں کو دور کرنے کیلئے نہ صرف حکومت اور اداروں کو کام کرنا ہے بلکہ انسان کو اپنے اردگرد اپنے رہنے کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کیلئے کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ جس طرح انسان کا اس کرہ ارضی پر زندہ رہنا ضروری ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ دیگر مخلوقات چاہے وہ خشکی پر رہتی ہیں، جنگلوں اور پہاڑوں پر رہتی ہیں یا سمندروں کی گہرائیوں میں، تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں۔ ان کی حیات کو بھی آلودگی سے محفوظ رکھنا انسان ہی کی ذمہ داری ہے۔
افراد معاشرے میں ماحول کو گندگی اور غلاظت سے محفوظ رکھنے اور اصلاح و پاکیزگی کا رجحان پیدا کرنے کیلئے نصابی تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہے اور مرورِ زمانہ رائج تمام میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔ ماحول کے عالمی دن کے موقع کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً ماحولیات میں پاکیزگی کی اہمیت پر پروگرامز منعقد ہونے چاہییں، نیز سیر و سیاحت کی ضرورت و اہمیت پر جتنا زور دیا جاتا ہے اور جتنا پیسہ اور توجہ صرف کی جاتی ہے اتنی ہی توجہ سیرگاہوں کو صاف رکھنے پر بھی دی جانی چاہییں۔ اس ضمن میں حکومتی اداروں سے لے کر نجی سیاحتی گروپس کو بھی احساس ذمہ داری ہونا چاہیے کہ سیر و سیاحت کی آڑ میں ماحول کو گندگی کا ڈھیر نہ بنائیں بلکہ سیرگاہوں کو بھی صاف ستھرا رکھنا اپنا اولین فرض سمجھیں۔