فرمانِ الٰہی
هُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ط فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْـلِهٖ ج وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗٓ اِلاَّ اللهُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ.
(آل عمران، 3: 7)
’’وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو الله کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘
فرمانِ نبوی ﷺ
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا وَ یَمَنِنَا مَرَّتَیْنِ فَقَالَ رَجُلٌ: وَ فِي مَشْرِقِنَا یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مِنْ هُنَالِکَ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ وَلَھَا تِسْعَۃُ أَعْشَارِ الشَّرِّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے الله! ہمارے لئے ہمارے شام میں اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما اور ایسا آپ ﷺ نے دو مرتبہ فرمایا: تو ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول الله! اور ہمارے مشرق میں (بھی برکت ہو) تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: وہاں سے تو شیطان کا سینگ نکلے گا اور وہاں دس میں سے نو حصوں (کے برابر) شر ہو گا۔‘‘
(المنهاج السوی من الحدیث النبوی ﷺ، ص: 100)