انسان ایک معاشرتی حیوان ہے اور انسانی زندگی کی خوشی اور غم کا کھیل اسی معاشرہ یا سماج کے گرد گھومتا ہے۔ ہمارے رشتے ناطوں سے جڑی خوشیاں اور اپنوں اور غیروں کے دیئے ہوئے دکھ/ غم کی داستانیں ابتدائے آفرینش سے چلی آرہی ہیں لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ خطہ ارض پر موجود مختلف معاشروں میں سے بعض خوشحال اور مطمئن دکھائی دیتے ہیں اور کچھ معاشرے سماجی و اقتصادی زوال کا شکار محسوس ہوتے ہیں۔ درحقیقت مذکورہ معاشروں میں جب اقتدار عالیہ کا فروغ ہوتاہے تو کُلی سطح پر خوشحالی اور اطمینان کی لہر سماج میں پھیل جاتی ہے لیکن اگر مثبت اقدار زوال پذیر ہوں تو ان معاشروں میں نفسا نفسی، بے چینی اور معاشرتی انحطاط پیدا ہوتاہے جو بالآخر قوموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور نتیجہ کے طور پر تاریخ عالم میں قومیں مٹ جاتی ہیں۔
گویا یہ معاشرتی انحطاط اس قدر خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتاہے۔ اس لیے عقلمند معاشرے اپنی سماجی زندگی میں ان اقدار کو زندہ رکھتے ہیں جو سچ، عدل و انصاف، حقوق کی منصفانہ تقسیم، رزق حلال، ایثار، قربانی، امن و امان، دولت کی عادلانہ تقسیم اور علم و ہنر کے فروغ پر مبنی ہوتی ہیں اور وجہ بنتی ہیں تعمیر معاشرہ کی۔ ان تمام خوبیوں کو سماجی زندگی میں پانے کے لیے ضروری ہے کہ افراد معاشرہ کی تربیت نہایت خوش اسلوبی سے کی جائے اور یہ ’’تربیت‘‘ کب سے شروع ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ماں کی گود سے ہی فرد کی اس تربیت کا آغاز ہوجاتا ہے جو بہترین سماج کی ضامن ہوتی ہے نپولین کا معروف قول ہے ’’تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تم کو پڑھی لکھی قوم دوں گا۔‘‘ تاریخ عالم میں سماج کا وجود پیدا ہی اس وقت ہوا جب انسان کو اپنے زندہ رہنے،کھانے پینے اور روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مددکی ضرورت پڑی اور باہمی مدد کا یہ رویہ پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب ماں اپنی گود میں پلتے ہوئے بچے کی بہترین نگہداشت کرکے اسے دوسروں سے مہربانی اور ایثار کرنا سکھاتی ہے۔ ماں بچے سے ہمدردی کرکے اس کو اس کی جوانی کے دنوں کے لیے ہمدردی کا درس دیتی ہے جب باپ سخت محنت کرکے روزگار کماتااور گھر لاتاہے تو وہ اولاد کو رزق حلال کا اور محنت کا وہ جوہر سکھاتا ہے جو بہترین سماجی زندگی کی بنیاد ہے۔
تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیے تو معلوم ہوگا کہ ابتدائی زمانوں میں ابنِ آدم صرف خود کے لیے زندگی بسر کرتا تھا۔ کسی اور سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ خود شکار کرتا اور اپنی ہی بھوک مٹاتا۔ ہمدردی اور مددکے جذبے کے نتیجے میں انسان نے مل جل کر رہنا شروع کیا۔ گویا اس نے قبیلے،خاندان کی شکل میں رہنا شروع کیا۔ پتھروں سے آگ جلائی اور ہڈی کے برتن اور ہتھیار بنائے۔ کھال سے تن ڈھانپا غرض انسان نے مختلف ضروریات زندگی کو پورا کرنے اور زندگی گزارنے کے لیے باہمی میل جول قائم کرکے سماج کی بنیاد رکھی۔ سماج لفظ سنسکرت زبان کے دو لفظوں سے مل کر بنا ہے۔ سم اور آج سم کے معنی ہیں اکٹھا یا ایک ساتھ اور آج کے معنی ہیں رہنا۔ یعنی سماج کے معنی ہیں ایک ساتھ رہنا۔
اور ایک ساتھ مل جل کر رہنا بھی ایک فن ہے۔ جس کے لیے افراد کا ایک دوسرے کے حقوق کا ادب کرنا اور ایک دوسرے کے مرتبے کا احترام کرنا ضروری ہے۔ سماجی زندگی میں ادب و احترام کی اہمیت ایسے ہی ہے جیسے انسان کے جسم میں دوڑتا ہوا خون کیونکہ جس طرح انسانی جسم کے تمام اعضاء اس وقت ٹھیک کام کرتے ہیں جب تک ان میں خون کی گردش باقی رہتی ہے۔ جسم انسانی کا کوئی بھی عضو ہو اگر اس کو خون کی ترسیل نہ ہو تو وہ بے کار ہوجاتاہے۔ بالکل اسی طرح اگر سماج میں ادب و احترام زندگی کے ہر شعبہ میں موجود نہ ہو تو اہم ترین شعبہ جات زندگی کی کارکردگی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ادب والدین کا ہو یا اساتذہ کا، بڑے بہن بھائی کا ہو یا بزرگوں کا، رشتے داروں کا ہو یا دوست احباب اور ہمسایہ داروں کا، آقا یا مالک کا ہو یا کاروباری شراکت دار کا، قاضی وقت کا ہو یا علمائے کرام کا۔ الغرض سماجی زندگی کے یہ تمام روپ اپنے بہترین نکھار کو پاسکتے ہیں اگر ہم ان تمام رشتوں اور مرتبوں کا ادب کریں بلکہ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم اللہ کے عطا کردہ علوم و فنون اور نعمتوں کا بھی ادب و شکر کریں گے تو اللہ کریم ہم کو مزید سرفراز فرمائے گا۔
جہاں تک بات ہے احترام کی تو جناب والا احترام وہ بہترین رویہ ہے جو سماجی زندگی کو مکمل کرتا ہے۔یہ وہ احترام ہے جو افرادمعاشرہ کی خو بن جائے تو ہماری سماجی زندگی بے جا اورلغو طور طریقوں سے نجات پاجائے۔ یہ وہ احترام ہے جو قانون اور اصول کی پابندی کرواتا ہے۔ یہ وہ احترام ہے جو عدل و انصاف کے ترازو کو غلط جھکنے نہیں دیتا۔ یہ وہ احترام ہے جو فرزندان شوق کو علم کے بیش بہا خزانوں کی خیرات عطا کرتاہے۔یہ وہ احترام ہے جو عبادت کو اصل روح عطا کرتا ہے۔ یہ وہ احترام ہے جو مزدور کی محنت کو دیکھ کر پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ادا کرتا ہے۔ یہ وہ احترام ہے جو طبیب کو مسیحائی کا درجہ عطاکرتا ہے۔ یہ وہ احترام ہے جو اذان سے شروع ہوتا ہے اور سجدہ پر تکمیل پاتا ہے۔ یہ وہ احترام ہے جو حوّا کی بیٹی کو چادر دیتا ہے اور زندہ درگور ہونے سے بچاتا ہے۔ بے شک یہ انسانیت کا وہ احترام ہے جس کی تلقین خیر الوریٰ، رحمت اللعالمین، سرور دوجہاں، شافع محشر رسول خدا محمدa نے فرمائی ہے۔ انسانیت کا یہی وہ احترام ہے جس کے تحت ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل تصور کیا جاتاہے۔
ادب و احترام پر مشتمل اخلاق ہی انسان کو حیوان سے جدا کرتا ہے۔ اگر یہ فرق باقی نہ رہے تو محض یہ نفرتیں انسان کو حیوان سے الگ کرتی ہے کہ انسان بول سکتا ہے اور جانور یا حیوان اپنی بات سمجھانے سے قاصر ہے۔ گویا ادب و احترام پر مشتمل اخلاق ہی انسانیت کی معراج اور اس کے ارتقاء کا ذریعہ ہے۔ باادب بامراد کے مصداق باادب شخص ہی ہر ایک کی نظر میں معزز و محترم ہوتاہے۔ عربی کا ایک مشہور قول ہے: الدین کلہ ادب۔
یعنی دین سراپا ادب کا نام ہے۔ اسلام کا ہر حکم اور اس کا ہر فرمان ادب و اخلاق کی مکمل تصویر ہے۔ اسلام ادب کا آئینہ ہے بلکہ ادب اس کی پہچان اور شناخت ہے۔ اپنے مزاج پر گرفت کرکے اور اپنی ذات کی نفی کرکے دوسروں کو راحت پہنچانے کا نام ادب اور اپنے قول و فعل کے ذریعے دوسروں کی دل آزاری کا باعث بننا بے ادبی ہے اور دور حاضر کی بات کی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس دور کی ایک بڑی خامی جو سماجی زندگی کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے بے ادبی ہے۔ ماں اور باپ سے بے ادبی زمانے کی ہوا بن گئی ہے۔ باپ کے سامنے آواز اونچی کرکے بولنا فیشن کا درجہ پایا گیا ہے۔ ماں باپ کی نصیحت کو بے ادبی کی نظر کردینا نئی نسل کی پہچان بن چکی ہے۔ دنیاوی جدید علوم کو تو حاصل کرلیتے ہیں بچے پر کتاب ہدایت میں موجود والدین کے ادب کی تلقین فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اسی واسطے اقبال نے کہا تھا:
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ایک زمانہ تھا کہ استاد محترم کی جوتی اٹھا کر لانے والے بادشاہ وقت بن جایا کرتے تھے اور ایک یہ زمانہ آگیا کہ استاد کو ماہانہ تنخواہ لینے والا ملازم تصور کرلیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈگری یافتہ تو ہوجاتی ہے نسل نو لیکن تعلیم یافتہ نہیں ہوپاتی اورنسل نو کی یہ حالت قابل رحم محسوس ہوتی ہے۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ سماجی رویوں میں بگاڑ کی بڑی وجہ ادب و احترام کے رویہ کا خاتمہ ہی ہے۔ جب افرادمعاشرہ کبھی ازراہ ادب اور کہیں از راہ احترام روزمرہ زندگی میں ایک دوسرے کو آسانیاں فراہم کیا کرتے تھے تو کوئی سماجی مشکل نہیں ہوا کرتی تھی۔
چند رویوں کی کمائی میں پورے خاندان خوشی سے گزر بسر کرلیتے تھے اور اب معاشرہ اور خاندان کا ہر فرد کماتا ہے لیکن ادب و احترام کی سماجی زندگی میں کمی کے سبب کسی کو حقوق پورے نہیںملتے اور زیادہ کمائی کے باوجود برکت اور اطمینان جیسی بے بہا نعمت کہیں نظر نہیں آتی۔ اگرچہ گھروں میں ماضی کے مقابلے میں اشیاء کی بہتات ہے لیکن خوشی و سکون نام کی کیفیت کا دور دور تک نشان نہیں۔
اس سب کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ماضی میں ہمارے معاشرہ میں ادب و احترام کا جو رویہ مضبوطی سے موجود تھا وہ شادی بیاہ کی خوشیوں اورمرگ کے ماتم میں روپیہ پیسہ سے بڑا کردار ادا کرتا تھا۔ دور حاضر میں کوئی اپنا بیمار ہوجائے تو تیمار داری و عیادت کے لیے کوئی نہیں آتا۔ جلتی پشیمانی پر ہاتھ رکھنے کی بجائے محض فون کال پر حال پوچھ لیا جاتا ہے۔ زندگی بھر کی خوشیاں اپنی اولاد پر قربان کرنے کے بعد جب والدین نسل نو کو کامیابی کی سیڑھیاں چڑھوادیتے ہیں تو وہی بچے والدین کو کم علم گرداننے لگتے ہیںاورکہتے ہیںکہ دور جدید کے تقاضوں سے ہمارے والدین انجان ہیں جبکہ ایسا کہنا شدید بے ادبی اور احترام کی کمی ہے۔ آخر میں اسی نصیحت پر آج کی اس گفتگو کا اختتام کرتے ہیں۔
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے
پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر
سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئی
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر