جب کرہ ارض پر انسانی زندگی نے جنم لیا تو آبادی بہت کم تھی اور قدرتی وسائل کی کثرت تھی۔ آہستہ آہستہ آبادی میں اضافہ ہوتا گیا لہذا وسائل اور آبادی کا تناسب بہت بہتر رہا۔ جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے خوراک اور رہائش کے انتظام کے لیے کاشتکاری کے لیے استعمال ہونے والا رقبہ رہائشی علاقوں میں تبدیل ہورہا ہے اور آبادی کے پھیلائو کے ساتھ ساتھ ایندھن کی ضرورت بھی بڑھتی گئی اور درخت جو کہ ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھے ان کی لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کیا جانے لگا۔ اور یوں جنگلاتی رقبے میں کمی کی وجہ سے ماحول میں فطری تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ اس کے علاوہ کاشتکار رقبے کی کمی کے باعث ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کیمیائی کھادوں اور ادویات کا استعمال شروع ہوگیا اور ان کا بے جا استعمال ماحولیاتی تبدیلیوں میں اضافے کا باعث بنا۔
صاف و نظیف پانی کا حصول بھی انسانوں کے لیے ایک اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے کیونکہ تیسری دنیا میں آبادی میں اضافہ ہونے کے باعث بہت سا حصہ صاف پانی کے حصول سے محروم ہے بلکہ انسانوں کی کثیر تعداد آلودہ پانی کا استعمال کررہی ہے۔ آبادی کے بڑھنے سے گنجان آباد علاقے میں کچی بستیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور ایسی بستیاں چونکہ تعمیراتی اصولوں کے مطابق نہیں بنتیں۔ لہذا وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو مزید خراب کرنے کا باعث بنتی ہیں جس کی وجہ سے پورا ماحول خراب ہورہا ہے اور ان آبادیوں میں بسنے والے انسان مہلک امراض میں مبتلا ہورہے ہیں اور ان بیماریوں کے منفی اثرات پورے ماحول کو پراگندہ کررہے ہیں۔
آبادی میں اضافے کی وجہ سے پسماندہ ممالک کی حکومتوں کے لیے عوام کو بنیادی ضروریات مہیا کرنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے کئی قسم کی معاشرتی پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔ غریب والدین کے لیے اپنے بچوں کو تعلیم دلانا ناممکن ہوگیا ہے اور یوں معاشرے میں ناخواندہ شہریوں میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے بہت سی معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔
آبادی میں اضافے کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی میں کوڑے کرکٹ کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ گندے پانی کے نکاس کا نامناسب انتظام اور فاضل مواد ماحول کی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کررہا ہے۔ جس کے نتیجے میں بہت سے مہلک امراض اور وبائوں کے پھیلنے کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا ہے اور کثیر آبادی کی وجہ سے طبی سہولیات کی فراہمی میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان ایشیا کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ آب و ہوا کے اعتبار سے پاکستان بنیادی طورپر گرم معتدل خطے کا حصہ ہے لیکن اس کے باوجود مختلف مقامات میں آب و ہوا مختلف ہے۔ پاکستان میں جنگلات صرف پانچ فیصد رقبے پر موجود ہیں جبکہ مطلوبہ رقبہ اس سے پانچ گنا زیادہ ہے چراگاہیں اور میدان کل رقبے کے تقریباً 4 فیصد حصے پر مشتمل ہیں اور اس میں بھی بڑی تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور اگر ملک کے آبی ذخائر کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں پانچ اہم دریا موجود ہیں جو تمام کے تمام بھارت سے نکلتے ہیں اور ان دریائوں سے اب تک کئی نہریں بھی نکالی جاچکی ہیں اس کے علاوہ پاکستان میں چند مصنوعی آبی ذخائر بھی موجود ہیں جیسا کہ بیراج ڈیم اور ہیڈ ورکس وغیرہ بحیرہ عرب کا 370 کلومیٹر طویل ساحلی علاقہ بھی پاکستانی حدود میں شامل ہے۔ یہ تمام آبی ذخائر پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ مچھلی حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہیں۔
1947ء میں قیام پاکستان کے وقت پاکستان اگرچہ ایک صنعتی ملک کی حیثیت رکھتا تھا لیکن صنعتی ترقی میں بھی اضافہ ہوتا رہا جو آہستہ آہستہ بڑھتا رہا اور یوں آج ملک کے ہر شہر میں چھوٹی بڑی صنعتیں موجود ہیں لیکن کراچی، لاہور، ملتان،راولپنڈی، فیصل آباد، پشاور اور شیخوپورہ اہم صنعتی شہر کہلاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی آبادی کے بے پناہ اضافے کے ساتھ ساتھ وسائل میں اضافہ نہیں ہوسکا اور ابتر معاشی حالات کی وجہ سے پاکستان بہت تیز رفتاری سے آلودگی کا شکار ہورہا ہے کیونکہ پاکستان میں تیزی سے قائم ہونے والی صنعتوں سے خارج ہونے والے فاضل مواد کو ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام موجود نہیں جس کی وجہ سے زمین کے ساتھ ساتھ پانی اور فضا بھی آلودہ ہورہی ہے۔
فضائی آلودگی، صنعتی فاضل گیسیں، صنعتوں کا شور، ٹریفک سے پیدا شدہ فضائی آلودگی، ٹریفک کا شور، آبی آلودگی، گھریلو اور میونسپل آبی نکاس کے ناقص انتظام سے پیدا ہونے والی آلودگی صنعتی فاضل مادوں سے پیدا ہونے والی آبی آلودگی، سمندر اور بندگارہ کی آلودگی وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن سے پاکستان بری طرح دوچار ہے۔ اگر ہم مجموعی طور پر آلودگی کے اسباب و وجوہات جاننے کی کوشش کریں تو تین اہم نکات کو مدنظر رکھ کر معلومات و نتائج اخذ ہوسکتے ہیں جیسا کہ
1۔ فضائی آلودگی
2۔ زمینی آلودگی
3۔ آبی آلودگی
1۔ فضائی آلودگی:
فضا میں جذب کرنے کی خصوصیت بہت زیادہ موجود ہوتی ہے اور اگر فضا میں ایک محفوظ حد تک مضر گیسوں اور ٹھوس ذرات کا تناسب کم ہو تو یہ اتنا نقصان دہ نہیں ہوتا لیکن اگر یہ تناسب ایک مخصوص حد سے بڑھ جائے تو انسانی صحت اور ماحول کے لیے ضرر رساں ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں فضائی آلودگی کا آغاز صنعتی ترقی اور سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے باعث ہوا اور اس کے علاوہ لکڑی بطور ایندھن استعمال کرنے سے دھوئیں نے بھی فضا کو آلودہ کردیا اور ساتھ ہی درختوں کی کمی نے بھی فضا کی آلودگی میں اضافہ کیا۔
صنعتی فاضل مادوں کے اخراج نے فضا کی آلودگی میں بہت زیادہ منفی کردار اداکیا اگر صنعتی ترقی ملک کے لیے فائدہ مند ہے لیکن کارخانوں میں کم وسائل ہونے کے باعث پرانی مشینری کا استعمال کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کارخانے اور صنعتیں گنجان آباد علاقوں کے آس پاس ہونے کی وجہ سے صحت کے لیے مضر ثابت ہوئے جیسا کہ کیمیائی کھاد تیار کرنے کے کارخانے، چمڑا رنگنے ، کاغذ بنانے، ادویات اور کیمیائی مادے تیار کرنے کی فیکٹریاں اس کے علاوہ دھاتوں کو قابل استعمال بنانے کا کام، تیل صاف کرنے کے کارخانے اور دیگر پاور پلانٹس لگنے سے روزانہ کئی ہزار ٹن مضر صحت گیسوں اور دھوئیں کے اخراج نے ماحول کو پراگندہ کردیا۔
فلورائیڈ گیس، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نیو کلیر پاور پلانٹ سے نکلنے والی مضر تابکار شعاعیں ماحول میں آلودگی کا باعث بنیں۔ ایندھن بھی چونکہ ہر صنعت کے لیے ضروری ہے لہذا کوئلہ، تیل اور پٹرول کے استعمال سے سلفر ڈائی آکسائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن کے علاوہ ہائیڈروجن گیسوں نے فضا کو پراگندہ کردیا۔ یہ تمام فضائی آلودگی جہاں انسانی صحت کے لیے مضر ہے وہاں پر اس کے منفی اثرات فصلوں پر بھی ہوئے۔ فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ صنعتوں اور کارخانوں میں نصب شدہ مشینری سے پیدا ہونے والا شور بھی انسانی صحت کے لیے مضر ثابت ہوا۔ صنعتی کارکنوں کے علاوہ آس پاس کے علاقے میں بسنے والے بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے اس کے علاوہ شہروں اور دیہاتوں میں ٹریفک کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی ماحول کو متاثر کیا۔ ٹریفک کے دھوئیں اور شور سے فضائی آلودگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ ٹریفک کی پیدا کردہ فضائی آلودگی کے باعث اکثر لوگ بہرے پن کا شکار ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی کا ایک اور اہم ماخذ ویلڈنگ کی دکانیں بھی ہیں جن کی وجہ سے اردگرد کے ماحول میں تابکار شعائوں کے منفی اثرات رونما ہوئے ویڈیو مارکیٹ اور لائوڈ سپیکر کا بے جا استعمال بھی فضائی آلودگی کا باعث بنا۔ اس کے ساتھ ساتھ جب زرعی اور جنگلات میں کمی واقع ہوئی تو قدرتی گردو غبار اور آندھیوں نے بھی فضا کو پراگندہ کردیا۔
2۔ آبی آلودگی:
پاکستان میں پانچ بڑے دریا بہتے ہیں جن سے بہت زیادہ نہریں نکالی جاچکی ہیں اور یوں یہ دریا سمندر میں جاکر ملتے ہیں۔ مختلف پہاڑی اور میدانی علاقوں سے نکلنے والے ندی نالے بھی پاکستان میں اہم ترین آبی ذخائر ہیں۔ اس کے علاوہ مصنوعی آبی ذخائر بھی قریبی آبادیوں کو پانی کی فراہمی میں مدددگار ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ مصنوعی آبی ذخائر بجلی پیدا کرنے کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔ پاکستان کے حصے میں سمندری رقبہ بھی آتا ہے جو درآمد و برآمد کے علاوہ ماہی گیری اور معدنیات کے حصول کا ماخذ ہے لیکن پاکستان کے باشندوں کی بدقسمتی ہے کہ اتنے آبی وسائل بھی آلودگی کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔
گھریلو استعمال میں آنے والے پانی کو بڑے بڑے پانیوں اور گندے نالوں کے ذریعے قریبی دریائوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صنعتی فاضل مادوں اور زہریلے کیمیائی مادوں کو بھی قریبی دریائوں اور آبی گزرگاہوں میں داخل کردیا جاتا ہے جوں جوں پاکستان کی صنعتی ترقی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے ہی آبی آلودگی بڑھتی جارہی ہے۔ اسی طرح بندرگاہ کی آلودگی نے سمندری ماحول کو پراگندہ کردیا ہے۔ کراچی کے قریب ساحل سمندر مچھلیوں کے شکار کے لیے انتہائی موزوں مقام تھا منوڑہ اور مکران کے ساحل کے علاوہ دیگر مقامات پر گھریلو استعمال کا فاضل پانی سمندر میں شامل ہونے سے مچھلیوں کے شکار اور مقدار میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ سمندر میں بہہ جانے والا تیل بھی سمندر حیات کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔
3۔ زمینی آلودگی:
پاکستان کے کل رقبے کا 60% رقبہ خشک پہاڑوں اور صحرائوں پر مشتمل ہے۔ جس میں سے بہت سا رقبہ زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کچھ جنگلات بھی پائے جاتے ہیں۔ زمینی آلودگی کا ایک بڑا باعث جنگلات کی کٹائی بھی ہے۔ اس کے علاوہ صنعتی ترقی اور آبادی میں بے پناہ اضافے کے باعث آباد کاری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ زرعی رقبے میں بہت حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ سے اناج کی پیداوار اور دیگر ضروریات زندگی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ زمین کو آلودہ کرنے والے دیگر عناصر بھی اس میں شامل ہیں۔
جنگلاتی رقبے میں کمی کے باعث سیم اور تھور کے علاوہ خشک سالی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے آب و ہوا بھی متاثر ہورہی ہے اور اس کا اثر زمین کی بردگی کی صورت میں نمودار ہورہا ہے جو کہ زمینی ماحول کے بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ زرعی زمینیں بھی اس کے اثر سے بچ نہیں سکیں۔ بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے پاکستان میں ڈیمز تعمیر کرنا بہت ناگزیر ہوچکا ہے تاکہ پاکستان کے وسیع بارانی رقبے کو اس بردگی سے بچایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مصنوعی آبپاشی کے ذریعے اس رقبے کو سیم و تھور اور صحرائیت سے بچایا جاسکے کیونکہ اگر بارشوں اور سیلاب کا پانی زمین میں کثرت سے سیرائیت کرتا رہے اور اس کی نکاسی کا مناسب طریقہ نہ اپنایا جائے تو زمین کا بہت وسیع حصہ سیم و تھور کی نذر ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں زمین کی زرخیزی میں کمی کا بہت بڑا باعث کیمیائی کھادوںکا بے دریغ استعمال ہے۔ کیمیائی ادویات کے مضر اثرات حشرات الارض پر بھی پڑتے ہیں اور ایسے حشرات الارض جو زمینی صحت کے لیے مفید ہیں وہ ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ پرندوں اور جانوروں کی تعداد میں بھی بہت حد تک کمی ہوگئی ہے حتی کہ بہت سی اقسام ناپید ہوچکی ہیں۔
لہذا یہ وہ تمام پیچیدگیاں ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہی ہیں اور اگر ملکی حکومتوں نے ان کا مناسب تدارک نہ کیا تو انسانوں کے ساتھ جانداروں کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔