ہر سال 8 مارچ کو حقوق نسواں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتاہے۔ سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں، تحریکیں، جماعتیں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور اس ضمن میں عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے ریلیاں نکالتے، سیمینارز اور کانفرنسز منعقد کرتے ہیں۔ کچھ تحریکیں یا این جی اوز خواتین کو ایک انتہائی مظلوم اور بے بس مخلوق کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان این جی اوز کے بارے میں مزید بات کرنے سے بہتر ہو گا کہ خواتین کے حقوق و فرائض کے متعلق آئین پاکستان اور اسلامی تعلیمات اور سوسائٹی کے رویوں پر روشنی ڈالی جائے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ آئین پاکستان میں خواتین کو عام شہری سے زیادہ حقوق اور تحفظ دینے کی بات کی ہے مگر جس طرح انسانی حقوق کے باب میں تحفظ کی گارنٹیاں دی گئی ہیں اور ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر آئین فوری انصاف کی فراہمی کی بات کرتا ہے مگر فوری انصاف دستیاب نہیں ہے۔ آئین آزادی اظہار کا تحفظ کرتا ہے مگر زمین پر آئین کی روح کے مطابق یہ تحفظ نظر نہیں آتا۔ آئین 6 سے 16 سال کی عمر کے ہر بچے کو لازمی فراہم کرنے کی بات کرتا ہے مگر زمین پر ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ آج بھی اڑھائی سے 3کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور جبری یا رضاکارانہ مشقت کا شکار ہیں۔ اسی طرح آئین بلدیاتی انتخابات کی بات کرتا ہے مگر پچھلے 40 سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے راہ فرار کے راستے تلاش کرتی ہیں۔ آئین کاآرٹیکل 38 ہر قسم کے استحصال کے خاتمے کی بات کرتا ہے مگر عام آدمی کو خالص دودھ، خالص ادویات یہاں تک کہ خالص پانی کے نام پر لوٹا جاتا ہے اور ببانگ دہل عام آدمی کا مالی استحصال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آئین فرد کی سلامتی، فیئر ٹرائل، جبری مشقت کے خاتمے کی بات کرتا ہے مگر یہ آلائشیں پوری طاقت اور حقیقت کے ساتھ ہمارے دائیں بائیں موجود ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 63 قومی زندگی میں عورتوں کی مکمل شمولیت کی بات کرتا ہے مگر ہمیں اس پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ عملدرآمد نہ ہونے کا معاملہ صرف عورتوں تک محدود نہیں ہے مرد، بچے، بوڑھے بھی اس کی زد میں آتے ہیں تو اس لئے صرف خواتین کے بارے میں مہم چلانا کہ اس کا بطور خاص استحصال کیا جاتا ہے حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ صنف نازک ہونے کی حیثیت سے اور مالی خودمختاری کے معاملے میں مردوں سے کم درجہ پر ہونے کی وجہ سے عورت کو امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ آئین، قانون کی نظر میں خواتین کم ترہیں۔ ہم ہر سال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ رویے تعلیم اور تربیت کو فروغ دینےسے تبدیل ہوں گے، عوامی سطح پر تعزیری لب و لہجہ اختیار کرنے سے کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔ اس سے انتشار اور خلفشار بڑھے گی۔ عورت کے نام پر اپنے احتجاج اور ریلیوں کو سجانا بھی ایک طرح کا عورت کا جذباتی استحصال ہے کیونکہ ایسی ریلیوں سے خواتین کی حالت زار تبدیل ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی۔ زیر نظر تحریر کے ذریعے ہم عوامی سطح پر خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرنے والی خواتین اور تحریکوں سے کہتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون میں عورت کو دئیے گئے حقوق پر عملدرآمد کے حوالے سے شعور کو اجاگر کریں اور اسلام نے خواتین کو جو عزت و تکریم اور حقوق دئیے ہیں اس کو دنیا کے سامنے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے۔ اسلام وہ واحد الہامی ضابطہ حیات ہے جس نے ویمن امپاورمنٹ کے لئے خواتین کو وراثت میں حصہ دار بنایا۔ دنیا کا کوئی آئین، کوئی ضابطہ حیات کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس نے ویمن امپاورمنٹ کے لئے عملی اقدامات اٹھائے ہوں۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کو کسی چیز کی مالک بننے کا حق حاصل نہیں تھا، عورتوں کے لئے کوئی وراثت نہیں تھی، عورت کو خرید و فروخت کی چیز سمجھا جاتا تھا، اسلام نے ان جاہلانہ رسومات اور عورت کے استحصال کا خاتمہ کیا۔ سورہ النسا میں عورت کے معاشی حقوق کو تحفظ دیتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا ’’اے ایمان والو !تم کو یہ بات حلال نہیں کہ عورتوں کے (مال یا جان کے) جبراً مالک ہو جاؤ‘‘۔ ویمن امپاورمنٹ اور عزت و تکریم کا یہ اعلان کسی انسان کی طرف سے نہیں مالک کائنات کی طرف سے ہے۔