شبِ برأت لیلۃ القدر گناہوں سے خصوصی معافی، عطائے رزق، عطائے زندگی، عطائے نوازشات الہٰی اور انعامات بانٹنے کی رات ہے۔ خاص فضیلت کی حامل ہونے کے باعث شبِ توبۃ النصوح یعنی کہ سچی توبہ طلب کرنے کی رات بھی کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ قارئین گرامی قدر ہمیں شبِ برأت کا لغوی مفہوم اور وجہ تسمیہ سمجھنا ہوگا۔
لفظ براء ت کا مادہ لفظ ’’بَر‘‘ سے نکلا ہے جس کا لغوی مفہوم ہے نیکی (ثواب) کیونکہ نیکی گناہوں سے بری کرتی ہے اور آزادی میسر آتی ہے۔ اس لیے اس کا مرادی مفہوم اور مطلب پاکی، نجات، چھٹکارا، رہائی اور بے قصور قرار دینا ہے اور وجہ تسمیہ یہ ٹھہری کہ شب برات فارسی زبان کا لفظ ہے جو شب اور لفظ براءت سے مرکب ہے۔ شب کے معنی رات اور براءت کے معنی نجات کے ہیں۔ کیونکہ اس رات بے شمار گناہوں سے گناہگاروں کو مغفرت نصیب ہوتی ہے، مجرموں کی بخشش ہوتی ہے، عذاب جہنم سے چھٹکارا اورنجات ملتی ہے۔ اس لیے اس کا نام شبِ برأت مشہور ہوگیا۔
لیلۃ المبارکہ یعنی کہ شبِ برأت کی فوقیت و فضیلت اور حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں
قارئین گرامی قدر خیرالقرون یعنی صحابہ کرامؓ کا دور، تابعین کا دور، تبع تابعین کا دور، فضیلت و فوقیت شب برأت سے نہ صرف آگاہ تھا بلکہ حکمِ رسول ﷺ کو مستحب جانتے تھے۔ بلکہ اتباع رسول ﷺ کی روشنی میں پندرھویں شعبان کا روزہ رکھتے اور نہ صرف عبادت گزاری کرتے بلکہ غروب آفتاب سے طلوعِ فجر تک ہمیشہ مصلے کی پیٹھ پر کھڑے ہوکر رب کائنات سے آقائے دوجہاں محمد مصطفی کریم ﷺ کا واسطہ اور وسیلہ دے کر گریہ و زاری کرتے اور بخشش کی دعا مانگتے۔ صحابہ کرامؓ نے بھی اتباع رسول ﷺ میں قبرستان جانے کا عمل ا ور معمول جاری رکھا کیونکہ خیرالقرون ہمیشہ حکم رسول کی پیروی میں ماہ شعبان کی اہمیت و فضیلت اپنے اندر جانگزیں رکھتے۔ اس رات شب بیداری، عبادت کرنا، خالق کائنات سے رزق طلب کرنا، بخشش و مغفرت طلب کرنا نہ صرف فضیلت کا باعث سمجھتے تھے بلکہ مستحب جانتے تھے یعنی کہ ایسا عمل جو رسولِ محتشم ﷺ نے خود کیا اور کرنے کا حکم صادر فرمایا:
خصوصاً عرض کرتا چلوں کہ شب برات آہ فغاں نیم شبی اورنفلی عبادات کے ساتھ ساتھ صدقہ و خیرات کرنا بھی جائز اور فضیلت مآب عمل ہے۔ کیونکہ یہ عمل رنج سے نجات دیتا ہے۔ قطعی طور پر بدعت نہیں ہے۔ قارئین گرامی قدر لیلۃ القدر یعنی کہ شب قدر ہو یا لیلۃ المبارکہ یعنی کہ شب برات ہو رجوع الی اللہ اور رجوع الی الرسول کا پاکیزہ امتزاج سمجھا جائے تورب العالمین سے باواسطہ رحمۃ للعالمین توبۃ النصوح مانگنے کی رات ہے یعنی کہ ہمیشگی کی نیت سے توبہ قرآن عظیم میں خالق عظیم نے قبول توبہ کے تین ضابطے عطاکیے ہیں:
1۔ ضابطہ اول: لیلۃ القدر ہو یا لیلۃ المبارکہ (شب برات) رب کائنات عاصیوں سے مخاطب ہوکر توبۃ النصوح کے قواعد و ضوابط وضح فرماتے ہوئے قرآن میں پہلا ضابطہ ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ.
(البقرة، 2: 222)
’’بے شک اللہ بہت توبہ کرنیوالوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
2۔ ضابطہ دوم: سورہ توبہ آیت نمبر 104 میں فرمایا:
اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.
(التوبة، 9: 104)
’’ کیا وہ نہیں جانتے کہ بے شک اللہ ہی تو اپنے بندوں سے (ان کی) توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات اپنے دستِ قدرت سے) وصول فرماتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی بڑا توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان ہے؟۔ ‘‘
رب عظیم کا اعلان ہورہا ہے کہ شبِ توبہ غریبوں، مسکینوں اور بے سہارا بندوں کی امداد پر آپ کی توبہ قبول کرنے میں آج کی رات مجھے خاص لطف آیا ہے کیونکہ میں توبہ قبول کرنے والا نہایت ہی غفورالرحیم ہوں۔
قبول توبہ کا تیسر اقرآنی ضابطہ
سورہ النصر آیت نمبر 3 میں ارشاد فرمایا:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ ط اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا.
(النصر، 110: 3)
’’ تو آپ (تشکراً) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح فرمائیں اور (تواضعاً) اس سے استغفار کریں، بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا (اور مزید رحمت کے ساتھ رجوع فرمانے والا) ہے۔ ‘‘
ثابت ہوا کہ رجوع الی اللہ ہی رب کائنات کے حضور معافی گناہ کی التجا کرنا ہے۔ قارئین گرامی قدر! آپ کی توجہ ایک اہم نقطہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ یہ کہ چند آئمہ تفسیر کا اختلاف ہے کہ لیلۃ القدر اور لیلۃ المبارکہ ایک ہی رات کے دو نام ہیں یا دونوں راتیں الگ الگ ہیں۔ یاد رہے کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ستائیسویں یا کوئی دوسری طاق رات ہے۔ دوسری لیلۃ المبارکہ جو ماہ شعبان کی چودہ اور پندرہ کی درمیانی رات ہے۔ امام رازیؒ اپنی شرح بصیرت علمی سے تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس رات لیلۃ مبارکہ سے پندرہ شعبان کی رات مراد لی ہے ان کا کہنا ہے کہ اس کے ثبوت میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات موجود ہیں پھر فرماتے ہیں کہ اگر رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ثابت ہوجائے تو اس پر کسی اضافہ یا کمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہر صورت قبول ہے۔
درحقیقت امام رازیؒ نے لیلۃ مبارکہ کو پندرہ شعبان کی رات تصور کیا ہے اور آقائے دوجہاں محمد رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ کو دلیل کامل مانا ہے۔ یاد رہے کہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں پندرہ شعبان کی رات قبرستان میں جانا ثابت ہے اور سنت مصطفی ﷺ تصور کیا جاتا ہے۔ ترمذی، ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ اور بیہقی میں سیدہ کائنات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ آپ جنت البقیع میں تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ پندرہ شعبان کی رات یعنی کہ شب برات حضور اقدس جنت البقیع میں آسمان کی طرف سر اٹھائے کھڑے ہیں اور ارشاد فرمایا عائشہؓ بے شک اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان کی رات (شب برات) آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتے ہیں اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی بخشش فرماتا ہے۔
امام احمد بن حنبل نے المسند میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ پندرہ شعبان کی رات نادم اور گناہگار بندوں پر خاص نظر کرم فرماتے ہیں مگر کینہ پرور اور ناحق قتل کرنے والے اور مغرور لوگ عام معافی سے محروم رہیں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم بحوالہ بیہقی اور ابن ماجہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پندرھویں شعبان کی رات نفلی عبادات اور پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا افضل ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ چودہ شعبان غروب آفتاب سے طلوع فجر تک آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتے ہیں اور ندا فرماتے ہیں کہ ہے کوئی گناہوں کی معافی چاہنے والا، میں اسے بخش دوں گا۔ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا میں رزق دوں گا۔ ہے کوئی مبتلائے غم و الم میں اسے فرحت اور صحت سے نواز دوں گا۔ ہے کوئی گناہوں سے لت پت جسے میں مغفرت سے نواز دوں گا، ہے کوئی راہ نجات سے بھٹکا ہوا میں اسے صراط مستقیم پر گامزن کردوں گا۔
قارئین گرامی قدر! اس کی تصدیق کم و بیش جن اماموں نے کی ہے ان میں امام رازی نے تفسیر کبیر میں اور امام جلال الدین سیوطیؒ نے جلالین میں، علامہ شوکانی نے فتح القدیر میں اور امام ابن جریر سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ متفقہ احادیث مبارکہ میں بے شمار امام ہائے احادیث اور فقہ کے حوالے سے ثابت ہے کہ پندرھویں شعبان کی شب خالق کائنات رب ذوالجلال آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتے ہیں اور گناہ گاروں کی بخشش فرماتے ہیں ماسوائے قاتل کینہ پرور، مشرک، عادی زانی اور عادی شرابی کے۔ قارئین گرامی قدر بے شمار ضعیف احادیث مبارکہ بھی اس عمل پر ثابت ہیں اور امام ہائے احادیث و فقہ کا اجماع ہے کہ قیاس کی نسبت ضعیف احادیث درست تصور ہوں گی۔
حضرت معاذ بن جبل،حضرت ابو ثعلبہ، خبابہ و حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت عثمان بن ابی العاص، امام شافعی، علا بن حارث، شیخ ابن مفلح الحبلی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، امام اوزاعی، شیخ عبدالرحمن مبارک فوری، مولانا اشرف علی تھانوی۔ قارئین گرامی قدر یوں تو شب برات کی فضیلت اور اہمیت میں بیسوں احادیث مبارکہ موجود ہیں۔ تاہم عنوان کی طوالت کے پیش نظر فقط مزید ایک حدیث شریف پر اکتفا کرتا ہوں۔
ذیلی عنوان مندرج بالا میں اس آیت قرآنی کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ قرآن مجید کی وہ آیت ہے جو ماہ شعبان میں اتری اسی نسبت سے اس مہینے کو ماہ صلوٰۃ کہا جاتا ہے۔ اس کی دلیل میں علامہ قسطلانی اور علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی المعروف امام نبہانیؒ کے اسمائے گرامی پیش خدمت ہیں۔ (انوار محمدیہ صفحہ نمبر 518)
قارئین کرام شب برات گناہوں کی قید سے بریت کی رات سمجھی جائے یا گناہگاروں کو توبۃ النصوح کی قبولیت کے صلے میں رب ذوالجلال کی جانب سے سچی معافی کا تحفہ سمجھا جائے۔ امت محمدیہ کے خوش نصیبو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم گناہگاروں کو جہنم سے بریت ملے گی تو وسیلہ محمد مصطفی کریم ﷺ ملے گی کیونکہ آپ شافعی محشر بھی ٹھہرائے گئے ہیں۔ میری نظر میں دنیوی اور سماوی تمام نعمتیں تصدق محمد کریم کی بدولت میسر ہیں۔ قارئین کرام مجتہد اعظم، مجدد رواں صدی، کشتہ عشق مصطفی ﷺ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نور الہٰی کی لذتیں بانٹتے ہوئے حالت وجدان میں گویا ہیں۔ فرماتے ہیں رب ذوالجلال شب برات وسیلہ محمد مصطفی کریم ﷺ کا عملی نمونہ دیکھنے کے لیے فرشتوں کے جھرمٹ میں پہلے آسمان پر اپنی شان کے ساتھ براجمان ہوگا اور فرشتوں کو حکم دے گا میری نوری مخلوق دنیائے زمین پر پھیل جاؤ اور شرق تا غرب آج کی رات منادی عام کردو اور میرا پیغام رحمت دے دو۔
1۔ اول: اے گناہگارو جھولی گناہ پھیلادو میں معافی کی خیرات دے دوں گا۔
2۔ دوم: اے گناہگارو آج کی رات تم ندامت کے آنسو بہاؤ آہ و فغاں نیم شبی میں گریہ و زاری کرو اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ میری طرف جستجو کے ساتھ تک لو میں خالق ارض و سماوات ہوں غفورالرحیم ہوں معاف کردوں گا۔
3۔ سوم: اے میرے لاڈلے محبوب کے نادم امتی تو سچے دل سے میری طرف رجوع کر میں لوح محفوظ کا مالک ہوں تیری ندامت پر تیری تقدیر بدل دوں گا۔
4۔ چہارم: اے میرے گناہگار بندو میں گناہوں سے نفرت کرتا ہوں مگر گناہگاروں سے نہیں کرتا۔ میں کبھی شب قدر کے بہانے اور کبھی شب برات کے بہانے، کبھی دیکھنے تیری تہجد کے بہانے پہلے آسمان پر رجیمی کی نگاہوں سے اپنی شان کریمی کے ساتھ تیری شاہ رگ کے قریب ہوکر منتظر رہتا ہوں کہ تیری توبۃ النصوح پر تجھے معاف کردوں۔
5۔ پنجم: اے میرے بندو میں تمہاری التجاؤں کے لیے آج کی رات تمہارا منتظر رہوں گا اور تمہیں منتظر کردوں گا اور مقام منتظر پر رکھ کر تمہاری توبۃ النصوح کے بدلے میں نہ صرف معاف فرماؤں گا بلکہ تمہاری روزی فراخ کردوں گا، موت کے خانے میں زندگی لکھ دوں گا۔ یاد رکھو! میں سب کچھ عطا کروں تو سہی لیکن صدقہ وجہ تخلیق کائنات محمد رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام کے وسیلے سے۔
حضرت عزرائیل علیہ السلام نہایت عاجزی سے گویا ہوئے آقا کریم ﷺ محبوب کبریا رب العزت کی کبریائی کی قسم جس کی ہم ہمہ وقت تسبیح پڑھتے ہیں اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ میں آپ کی ذات اقدس پر درود و سلام پڑھنے والے کی روحیں اس طرح قبض کروں گا جس طرح انبیاء علیہ السلام اولیا ء اور صالحین کی روحیں قبض کرتا ہوں۔
6۔ ششم: رب محمد ﷺ فرمائے گا فرشتو منادی کردو کہ میں نے تمام نبیوں پیغمبروں پر سلام بھیجا ہے۔ مجھے میری عزت و کبریائی کی قسم جب میں اپنے محبوب محمد مصطفی ﷺ کو تخلیق کرنے لگا تو سلام کے ساتھ درود بھی بھیجا۔ لہذا آج شب برات میرے پیارے محبوب محمد ﷺ پر درود و سلام بھیجتے جاؤ میں آسمان سے فرشتوں کے ذریعے تمہاری بخشش کے تحفے بھیجتا رہوں گا۔
7۔ ہفتم: فرشتو! منادی کردو کہ اے میری زمین پر رعونت سے دندناتے فرعونو! گناہوں کی لذتوں سے لت پت اور اپنے ظلموں پر اترانے والو تم نے اگر آج کی رات بھی مجھ سے وسیلہ مصطفی سے اپنے گناہوں کی بخشش کی خیرات نہ مانگی تو سن لو میں تمہاری روزیاں تنگ کردوں گا، تمہاری زندگیاں موت میں بدل دوں گا، جہنم کے اذیت ناک عذاب سے دوچار کردوں گا کیونکہ میں لوح محفوظ کا مالک ہوں۔
قارئین محتشم حضور پرنور کے امتیو! دنیائے زمین پر منادی کے بعد مالک لوح محفوظ رب کائنات اپنی عظیم المرتبت کرسی پر اپنی شان کے ساتھ آج شب برات اور شب قدر محبت، عفوودرگزر، بخشش اور رحیمی کے نورانی لباس میں ملبوس پہلے آسمان پر جلوہ افروز ہوں گے۔ رب کائنات فرشتوں سے شب برات اور شب قدر آنسوؤں میں لت پت توبہ اور گریہ و زاری کرنے والوں اور اپنے گناہوں سے شرمندہ لوگوں کی فہرست طلب فرمائیں گے، فہرست فرشتے پیش کریں گے تاہم ترتیب معافی خودرب محمد خود مرتب فرمائیں گے۔ سرفہرست جن گناہ گاروں کو معاف کیا جائے گا ان میں سب سے پہلے امت محمدیہ کے وہ مسلمان ہوں گے جو اپنے بھائیوں کے عیوب پر پردہ پوشی کرتے رہے ہوں گے۔ پھر وہ جو یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ ہمیشہ خوش اسلوبی سے پیش آتے ہوں گے اور ان کے مالوں پر ناحق قبضہ نہیں کرتے ہوں گے۔
اس کے بعد ان لوگوں کو معاف کیا جائے گا جو لوگوں کی غلطیاں معاف کردیتے ہوں گے۔ خواجہ نظام الدین اولیاء در نظامی میں فرماتے ہیں کہ معاف کردینا غصہ پی جانے سے بہتر ہے۔ اگر انسان معاف نہ کرے اور غصہ پی جائے تو اندیشہ ہے کہ غصہ دل میں حسد، بغض اور کینہ پیدا کردے۔ قارئین گرامی قدر پھر سچے دل سے توبۃ النصوح کرنے والے نوجوانوں کو نہ صرف معاف فرمایا جائے گا بلکہ آج کی رات کی خیرات میں کشادگی رزق اور طویل پاکیزہ زندگی کی نوید سنائی جائے گی، جس کے بارے میں خواجہ نظام الدین ولیاء فوائد الفواد میں رقمطراز ہیں کہ جوانی میں توبہ کرنا بہتر اور اچھا ہے، بڑھاپے میں توبہ نہیں کرو گے تو کیا کرو گے۔ پھر بعد میں ایسے نوجوانوں کو معافی کے لیے چنا جائے گا جن کو گناہ کبیرہ کا موقع میسر آیا اور اسے کوئی دیکھ نہ رہا تھا، صرف اس لیے گناہ سے منہ موڑ لیا اور خوف خدا سے برائی سے باز آگیا اور یہ سمجھ کر رب کائنات کی طرف دیکھا کہ وہ دیکھ رہا ہے۔
امت محمدیہ کے گناہ گارو۔ ۔ شب برات مولا کریم توبۃ النصوح پر لوگوں کے لیے باب معافی کھول دے گا۔ جیسے کہ شب قدر باب معافی کھول دیتا ہے۔ شب توبہ (شب برات) زندوں اور ہمارے مردوں کے لیے مغفرت طلب کرنے کی رات ہے۔ رب جلیل نے ہماری توبہ قبول کرنے کی لازم شرائط جو رکھی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1۔ اول: بذریعہ رجوع الی اللہ وسیلہ محمد مصطفی ﷺ اللہ سے معافی کی گڑ گڑاکر استدعا کرنا۔
2۔ دوم: ذات محمد مصطفی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجنا مغفرت اور بخشش کا وسیلہ سمجھنا۔
شب برات و توبۃ النصوح بوسیلہ درود پاک عظیم نسخہ کیمیا ہے
قارئین گرامی قدر قرآن عظیم فضیلت اہمیت کی بابت ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ اللهَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.
(الاحزاب، 33: 56)
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ﷺ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ ‘‘
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی خوبصورت تصنیف منہاج السوی صفحہ 388 میں فرماتے ہیں کہ حدیث پاک ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ یقیناً دعا اس وقت تک زمین اور آسمان کے درمیان ٹھہری رہتی ہے اوپر نہیں جاتی جب تک سرور کائنات حضور اقدس ﷺ کی ذات پر درود شریف نہ پڑھا جائے۔ وجدانی تشریح میں شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں کہ آقائے دو جہاں نے فرمایا ہے کہ میری امت میں کوئی شخص ایسا نہیں مجھ پر درود شریف پڑھے اور میں نہ سنوں کیونکہ رب ذوالجلال نے میری روح واپس لوٹادی ہوئی ہے۔ ہر درود سلام بھیجنے والے کا جواب دیتا ہوں۔
گرامی قدر ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ایسا نبی آخرالزماں نصیب ہوا جس پر درود سلام پڑھنا رب ذوالجلال کی سنت پاک ہے بلکہ خداوند عظیم کعبہ قوسین او ادنیٰ کے مقام پر نوری فرشتوں کے جھرمٹ میں اپنے محبوب محمد مصطفی ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ حدیث شریف ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم سے روایت ہے کہ آقائے دو جہاں محمد مصطفی کریم ﷺ نے فرمایا مومن کی دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے جب تک وہ میری ذات اور اہل بیت پر درود و سلام نہیں بھیجتا۔
قارئین کرام بڑا نفیس اور رقیق القلب نقطہ ملاحظہ ہو۔ ایک دفعہ حضور اقدس رحمت دو عالم، نور مجسم ساقی کوثر شافعی محشر کی بارگاہ عالم پناہ میں چار و مقرب فرشتے عجز و انکساری کے ساتھ مودبانہ حاضر ہوئے آداب بجا لانے کے بعد حضور پرنور کی ذات اقدس پر درود وسلام بھیجا اور ادب سے عرض کیا:
ہمارے مصطفی کریم ﷺ : ہم قدسیانِ عرش عظیم عرشِ عالی پر اللہ ذوالجلال کی عبادت تو کرتے ہی ہیں تاہم خالق ارض و سماوات کے ساتھ مل کر آپ کی ذات اقدس پر درود و سلام بھی بھیجتے رہتے ہیں۔ آقا کریم آج رب عظیم نے آپ کی امت کے لیے خاص انعام بھیجا ہے۔ اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہ محمد میں عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ ﷺ اگر کوئی شخص دس مرتبہ آپ کی ذات اقدس پر درود و سلام بھیجے گا تو میں روز محشر پل صراط سے بجلی کی سی تیزی سے گزرنے کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے عرض کیا: آقا کریم ﷺ آپ کی ذات پر درود و سلام پڑھنے والے کے لیے روز محشر بارگاہ رب العزت میں اس وقت تک پڑا رہوں گا جب تک وہ شخص بخشا نہ جائے۔
قارئین گرامی قدر یہ بات اس طرح حق سچ ہے جیسے کلام مجید کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا گناہگارو! شب برات اور لیلۃ القدر مجھ پر درود و سلام بھیجنے کے وسیلے سے تمہاری دعائیں قبول اور مستجاب ہوں گی۔ ان راتوں میں رحمت حق جوش میں ہوتی ہے اور بخشش کے بہانے تلاش کرتی ہے۔ مجھ پر درود و سلام کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ تمہاری موت زندگی میں بدل دے گا۔ تنگ روزی فراخی میں بدل دے گا۔ ہر پریشانی خوشحالی میں بدل دے گا جتنی بڑی جھولی پھیلاؤ گے ان مقدس مقبول راتوں کے طفیل وسیلہ درود و سلام بھر دے گا۔
قارئین یاد رہے کہ شیخ الاسلام نے اپنی معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کے نکاح میں اللہ نے درود شریف کو آپ کا حق مہر قرار دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وظیفہ درود و سلام دریائے نیل عبور کیا۔ خالق عظیم شب برات درود و سلام کے صدقے ہمارے صغائر اور کبائر معاف فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ