توبہ روح کو اور دل کو الله کی طرف راغب اور متوجہ کرنے کا نام ہے۔ تو اُس سے یہ پتا چلتا ہے کہ توبہ اسلام نے ندامت کو قرار دیا ہے۔ بندہ شرمندہ ہو اپنی غلطیوں پر خطاکاریوں پر اور برے کیے پر نادم اور شرمندہ ہو جائے۔تو اس کا نادم ہونا ہی توبہ ہے۔ اور اللہ پاک کا کتنا کرم ہے اپنے بندوں پر کہ وہ گناہ کو ظلم کہتا ہے لیکن محض گنہگار کو ظالم نہیں کہتا۔ اس لیے کہ گناہ گار تائب ہو سکتا ہے۔ گناہ گار کو وہ گناہ گار اس وقت کہتے ہے کہ جب وہ توبہ سے انکار کر دیتا ہے۔
گناہ گار ظالم نہیں اس لیے کہ اللہ پاک نے فرمایا حدیث قدسی میں ہے کہ حضور علیہ الصلاة والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے فرمایا اگر ساری کی ساری زمین پر رہنے والے بندے نیک ہو جائیں اور ان میں کوئی بھی گناہ کرنے والا باقی نہ رہے اور سب سجدہ گزار ہو جائیں اور عبادت گزار ہو جائیں اور زمین کے اطراف و اکناف اور کسی بھی گوشے میں کوئی شخص ایسا نہ رہے جو گناہ کر رہا ہو تو میں ساری کی ساری مخلوق کو ختم کر دوں۔ اور اس کی جگہ ایک ایسی مخلوق کو لے آؤں گا جو گناہ کرے اور پھر نادم ہو کر مجھ سے معافی مانگ لے جو گناہ کرے اور پھر شرمندہ ہو کر مجھ سے معافی مانگے۔ اس لیے کہ اُس عزت والے رب کی عزت کی قسم اُس کی رحمت اور بخشش کو اتنا مزہ عبادت گزاروں کی عبادت پر نہیں آتا جتنا مزہ گناہ گاروں کی توبہ پر آتا ہے۔
اس لیے کہ عبادت گزار جب عبادت کرتے ہیں تو اُس عبادت کے نتیجے میں شیطان اگر اپنا حملہ کر لے تو اس عبادت کے نتیجے میں اُس کے اندر کبر پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن گناہ پر ندامت کے ساتھ توبہ کی جائے تو توبہ کے رائیگاں جانے کا کوئی امکان نہیں۔ اس لیے کہ عبادت گزار تو عبادت پر گھمنڈ کرے گا۔ گناہ گار کس پر گھمنڈ کرے گا۔
جو شرمسار ہے گناہ پر جو نادم ہے گناہ پر اُس کے پاس تو سوائے عاجزی کے تواضع کے سوائے رونے کے کوئی شے نہیں۔ باری تعالیٰ میں نے گناہ کیا تو مجھے معاف کر دے۔
بصورت دیگر سارے اگر نیکیاں کرنے والے ہوں تو پھر ہر کوئی اُس سے اجر مانگے گا۔ گناہوں کی معافی کون مانگے گا۔ وہ تو معاف بھی کرنا چاہتا ہے وہ غفور رحیم بھی ہے۔ رحم تو کرتا ہے لیکن جو رحم مغفرت کی صورت میں ہے اس کی شان ہی کچھ اور ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ گناہ کو ظلم کہا جائے لیکن گناہ گار کو ظالم نہیں۔ قرآن گواہ ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا کہ اس لئے ظالم نہیں کہتا کہ گناہ گار کے تائب ہوئے کا امکان موجود ہے۔
اور اس کو ظالم کیوں کہا جائے کہ جس نے اگر ایک لمحے میں ندامت کے ساتھ آنسو گرا کے معافی مانگ لی تو وہ اتنا پاک ہو گیا جس طرح ماں کے پیٹ سے اب پید ہوا۔ التَّابُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَا لاذنبله گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے۔ جس طرح اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ تو جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے کی طرح گناہوں سے پاک ہو سکتا ہے اُسے رب کی رحمت ظالم نہیں کہتی۔ لیکن گناہ کو ظلم کہتی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا۔
وَ لَوۡ اَنَّهُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآئُوۡکَ.
(النساء، 4: 64)
"اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے"
میرے محبوب ، اگر لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو تیری بارگاہ میں آجائیں۔ حتی کہ شرک کو بھی ظلم کہا۔ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ ہر گناہ کو ظلم کہا اور شرک کوبھی ظلم عظیم کہا اور گناہ کرنے والوں کو یہ بھی کہا:
قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰهِ.
(الزمر، 39: 53)
"آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا"
میرے محبوب تو ان سے فرما دے کہ میرے بندو کہ میرے وہ بندو جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہو تو گناہ کرنے کو کیا کہا الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِهِمۡ جو جانوں پر ظلم کر بیٹھیں زیادتی کر بیٹھیں۔ لیکن ظالم پھر بھی نہیں چونکہ لا تقْنَطُوا مِنْ رَحمت اللہ تمہیں یہ مزده جان فزا سنایا ہے کہ ظلم کر کے بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
اِنَّ اللّٰهَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ
(الزمر، 39: 53)
"بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے"
اللہ تعالیٰ تو وہ ہے جو سارے کے سارے گناہ معاف کر دینے والا ہے۔ اس کی بارگاہ میں وہ گناہوں کے معاف کرنے پر آجائے تو کوئی کمی نہیں۔ وہ تو اتنا رحیم و کریم ہے وہ سارے گناہ معاف فرمانے والا ہے۔ جب وہ سارے گناہ معاف کرتا ہے تو اُس کی رحمت سے مایوس کیوں ہو۔ گناہ کو جانوں پر ظلم قرار دیا۔ لیکن رحمت سے مایوس نہ کیا۔ جن کو الله ظالم قرار دے دے اُن کے بارے میں حکم ہے کہ اللہ ان کو ہدایت نہیں کر دیتا
اللّٰهُ لَا یَهۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ.
(آل عمران، 3: 86)
"اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا"
یعنی ظالموں کو رحمت سے دور کر دیا۔ جو ظالم ہوگئے ان کا اللہ کی رحمت میں کوئی حصہ نہیں۔ ظالموں کے لیے ہدایت میں کوئی حصّہ نہیں۔ تو ظالموں کو دور کیا جا رہا ہے۔ جو ظالم ہیں۔ وہ ہدایت سے محروم ہیں۔ ہدایت اللہ کی رحمت ہے۔جو ہدایت سے محروم ہوئے اس کا مطلب ہے کہ جو ظالم ہیں وہ رحمت سے محروم ہیں۔ اور ادھر گنہگار کو کہا کہ تو نے ظلم تو کیا لیکن تجھے میں ظالم نہیں کہتا کہ رحمت تیرے پھر بھی قریب ہے۔ اور گنہگار ظالم کب بنتا ہے۔محض گنہگار ہو کر ظالم نہیں بنتا۔ چونکہ رحمت کی خوشخبری قائم ہے۔ وہ ظالم اُس وقت بنتا ہے جب قرآن نے کہا۔
وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ.
(الحجرات، 49: 11)
"اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔"
جو گناہ کرتا ہے اور رب کی رحمت دیکھتی رہتی ہے کہ اب نادم ہو جائے گا۔ اب معافی مانگ لے گا۔ رب کی رحمت دیکھتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ توبہ کا زمانہ گزر جاتا ہے۔ ومَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ اور گناہ کرتا چلا جاتا ہے ظلم کرتا چلا جاتا ہے اور توبہ کا زمانہ گزر جاتا ہے۔ اور توبہ نہیں کرتا۔ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ظالم وہ ہے جو توبہ نہیں کرتا۔
تو قرآن مجید نے گناہ کے لیے مغفرت بیان کی۔ لیکن جو توبہ سے بھی گزر جائے نہ کرے۔ اُس کو ظالم کہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ توبہ ایسی شئے ہے جو گناہوں کے انبار کو بھی مٹا دیتی ہے۔
کیونکہ توبہ حقیقت میں ندامت ہے۔ ندامت کو حدیث پاک میں عین توبہ کہا گیا ہے۔ اس کی تین شرائط ہیں ایک شرط یہ ہے کہ انسان جو گناہ کر بیٹھے۔ اللہ کے حکم کی مخالفت کو گناہ کہتے ہیں۔ توبہ اور ندامت کی تین شرطوں میں سے پہلی شرط کیا ہے۔
پہلا جز یہ ہے کہ اُس نے جو اللہ کے حکم کی مخالفت کی۔ اُس مخالفت پر بعد میں اُسے افسوس ہو۔ افسوس دل کے رنج کو کہتے ہیں۔ یہ توبہ کا پہلا جز ہے اور اس کے بعد دوسرا جز یہ ہے کہ جب اُس نے الله کی طاعت کو چھوڑا اور اللہ کے حکم کی مخالفت کی۔ گناہ کا ارتکاب کیا تو خود کو گناہ کے سبب سے ذلیل سمجھے گرا ہوا سمجھے اور یہ جانے کے میں اللہ کی بارگاہ میں گر گیا ہوں۔ اپنے برے کام کے کرنے پر اسے افسوس ہو ندامت ہو اور اس کام کے سبب سے خود کو اللہ کی بارگاہ میں ذلیل سمجھے۔ یہ احساس ذلت ہو جائے۔ افسوس کے سبب یہ احساس ندامت پیدا ہو۔ اللہ کے حکم کی مخالفت کو یاد کر کے احساس ندامت پیدا ہو تاسف ہو۔ اور تیسرا یہ کہ اُس کے چھوڑنے کا پختہ عزم کرلے۔ پختہ ارادہ کرلے کہ میں باری تعالی اب تو مجھے معاف کر میں دوبارہ اس گناہ کے قریب نہیں آؤں گا۔ دوبارہ تیرے حکم کی مخالفت نہیں کروں گا۔ اُس گناہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کا عزم کرلے یہ تیرا جز ہے۔
جب انسان یہ تین شرائط پوری کر لیتا ہے تو اس عمل کو توبہ کہا جاتا ہے۔ جب یہ تین شرائط اُس نے پوری کر لیں۔ اُدھر اللہ کا دست مغفرت اُٹھا۔ اور نامہ اعمال کی جو تختی تھی اُس سے اُس کے گناہ کا وجود اس طرح مٹا دیا گیا جیسے گناہ کیا ہی نہ تھا۔ ہم سے بھی کوئی معافی مانگتا ہے اگر ہم بھی معاف کرتے ہیں۔ لیکن معاف کر کے بھی دل سے نہیں بھلاتے۔ کتنا حوصلہ ہے اُس کی رحمت کا کہ کوئی بڑے سے بڑا ظلم ہی کیوں نہ کرلے۔ جب وہ تائب ہو جاتا ہے تو وہ اُس کی تختی اعمال سے اس کے گناہ کے نام و نشان کو یوں مٹاتا ہے کہ لاذنبله، کہ جیسے گناہ کیا ہی نہ تھا۔ اگر وہی گناہ یا کوئی اور گناہ اُسی شخص سے پھر صادر ہو جائے تو اُس دوبارہ صادر ہونے والے گناہ کو تو لکھا جائے گا۔ حالانکہ وہی گناہ اس نے دوہرایا جو پہلے تھا۔ لیکن یہ گناہ کر کے بھی پہلا گناہ جو ہے وہ پھر بھی مٹا کا مٹا رہے گا۔ یہ اس کی رحمت کا ظرف ہے۔
اگر اس نے پھر وہی گناہ لوٹ کر ستر مرتبہ بھی کر لیا جبکہ انہتر مرتبہ اسی گناہ کے بعد اس نے توبہ کر لی تھی۔ یعنی ہر گناہ کیا اور پھر اسے ندامت ہوئی احساس ذلت ہوا اور ترک گناہ کا اس نے ارادہ کیا صدق دل سے، نیک نیتی سے، سچے دل سے، دھوکے سے نہیں کہ زبان سے کہہ رہا ہو کہ باری تعالی معاف کر دے پھر نہیں کروں گا اور دل میں یہ بات راسخ ہو کہ پھر کروں گا۔یہ تو توبہ ہی نہیں ہے یہ دھوکہ ہے۔ یہ دجل و فریب ہے، توبہ وہی ہے جو سچے دل سے کی جائے۔ تو اس نے سچے دل سے گناہ کی توبہ کی اور ارادہ کیا کہ آئندہ نہیں کروں گا اور پھر توبہ ٹوٹی اور وہی گناہ کر بیٹھا۔اور پھر جب دوبارہ گناہ ہو تو پھر نادم ہوا پھر اس نے توبہ کی سچے دل سے اللہ نے معاف کر دیا۔ اور تیسری بار پھر لغزش ہو گئی پھر وہی گناہ کیا۔ تو سچے دل سے تو بہ کر کے بھی کیا یہ ممکن نہیں کہ بعد میں وہی گناہ غلطی سے کر بیٹھے۔
اس طرح اس نے 69 مرتبہ گناہ کیا۔ خواہ ایک ہی گناہ کیا۔ باقی جو اس کے پاس گناہ تھے ان کا معاملہ جدا ہے۔ وہ جدا ہے ایک ہی گناہ انہتر 69 مرتبہ کیا اور انہتر مرتبہ توبہ کی اور سترویں مرتبہ اس نے پھر وہی گناہ کیا۔ اس بخشش والے رب کی بخششوں کا حوصلہ ہے کہ جب وہ ستر مرتبہ گناہ وہ کرے گا۔انہترویں توبہ کے بعد اس کے نامہ اعمال میں وہی ایک گناہ لکھا جائے گا۔ انہتر پھر بھی نہیں لکھے جائیں گے۔اور وہ رب اسے یہ پھر بھی نہیں کہے گا کہ بندے شرم تو کر اسی گناہ کو انہتر مرتبہ بخشوا کر پھر کر رہا ہے۔ یہ پھر بھی نہیں کہے گا لہذا میں تیرے بار بار گناہ دوہرانے سے میں تیرے پچھلے بخشے ہوئے گناہوں کو پھر زندہ کرتا ہوں تا کہ تجھے سخت عذاب دیا جائے۔ نہیں یہ اس کی رحمت کی شان کے منافی ہے۔
اس لیے کہ توبہ کے عمل میں دو کام ہوتے ہیں۔ایک بندے کا توبہ کرنا یعنی بندے کی توبہ میں دو جہتیں ہوتی ہیں۔ یعنی بندے کی توبہ اور ایک اللہ کی توبہ۔ بندہ بھی تواب ہے توبہ کرنے والا اور اللہ بھی تواب ہے۔ جب وہ خود زیادہ توبہ کرے۔اس بندے کو کیا کہتے ہیں تواب بہت توبہ کرنے والا۔اور اللہ کی شان بھی ہے تواب الرحیم۔ تو اللہ بھی توبہ کرتا ہے بندہ بھی توبہ کرتا ہے۔لیکن دونوں کی توبہ کے معنی میں فرق ہے۔ بندے کی توبہ ہے گناہ سے ہٹ کر اللہ کے خیال کی طرف چلنا ہے۔یہ بندے کی توبہ ہے اور اللہ کی توبہ یہ ہے کہ بخشش کے ارادے سے بندے کی طرف راغب ہونا۔ بندہ معافی حاصل کرنے کے ارادے سے اللہ کی طرف راغب ہو تو یہ بندے کی توبہ ہے اور اللہ اس کی توبہ پر معاف کرنے کے ارادے سے بندے کی طرف متوجہ ہو تو یہ اللہ کی توبہ ہے۔وہ رب کہتا ہے کہ نادان اگر انہتر مرتبہ توبہ توڑی ہے تو تو نے توڑی ہے میں نے تو نہیں توڑی۔
اللہ اور بندے کی توبہ میں فرق
یہ توبہ تو نے توڑی ہے اس لیے تیری توبہ ٹوٹتی رہی۔اور ستر مرتبہ تو گناہ کر بیٹھا بلکہ توبہ کر کے پھر مڑ گیا۔پھر توبہ توڑ بیٹھا۔لیکن میری توبہ انہتر مرتبہ ہوئی توبہ تیری ٹوٹتی رہی۔میری تو نہیں ٹوٹی۔ اس لیے پھر وہی گناہ اس کے نامہ اعمال میں ہو گا۔بقیہ گناہ نہیں ہوں گے۔اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ ایک مرتبہ کی توبہ اس گناہ کے لیے کافی ہے۔اور صدق دل سے توبہ ہونے چاہیے۔اور توبہ میں بھی توبہ ہوتی ہے۔ ایک ہے توبہ اور ایک ہے توبہ در توبہ۔ توبہ میں توبہ۔
مشائخ کہتے ہیں جب میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں تو اس توبہ میں بھی توبہ کرتا ہوں۔اور توبہ میں توبہ یہ ہے کہ اس توبہ پر مجھے ثابت قدم رکھ۔اور توبہ میں مجھے اخلاص عطا کر۔استقامت عطا کر۔ توبہ میں اخلاص اور استقامت نصیب ہو جائے تو یہ توبہ کی توبہ ہے۔ اولیائے کرام اور عرفائے عظام نے فرمایا کہ توبہ میں استقامت کس طرح نصیب ہوتی ہے۔ اخلاص تو توبہ کی ندامت سے حاصل ہوتا ہے۔ شرمندگی جتنی زیادہ ہو گی توبہ اتنی زیادہ خالص ہو گی۔انسان جتنا زیادہ شرمندہ ہو گا۔ احساس ذلت جتنا زیادہ ہو گا اور گناہ کے بوجھ سے جتنا زیادہ اس کا دل دبے گا اور پریشان ہو کر اللہ کی طرف ندامت اور شرمندگی کے آنسو بہائے گا۔شرمندگی جتنی زیادہ ہو گی توبہ میں اتنا زیادہ اخلاص ہو گا۔یہ تو ہے توبہ میں اخلاص کے حصول کا ذریعہ۔
اور توبہ میں استقامت کیا ہے؟
صوفیائے کرام نے فرمایا کہ توبہ میں استقامت بعد میں محاسبہ نفس کے ذریعہ ممکن ہے۔ جس گناہ سے توبہ کرلی بعد میں اپنے نفس کا محاسبہ رکھے۔صبح و شام نفس کا محاسبہ کرے۔ نفس کے اعمال شمار کریں۔ اور ہر لمحے نفس کا خیال رکھیں کہ کہاں اور کس طرح جا رہا ہے۔ جو محاسبہ کرنے والے ہیں نفس کا وہ کسی بھی لمحے بھی نفس کے حال سے غافل نہیں ہوتے۔ نفس کدھر کو جا رہا ہے کیا کر رہا ہے۔بھول رہا ہے یا نہیں۔ تکبر میں آرہا ہے یا نہیں۔ حسد کر رہا ہے یا نہیں۔ قناعت کر رہا ہے یا نہیں۔ دنیا کی طلب کی طرف جا رہا ہے یا نہیں۔ طبعی خواہش کی طرف لپک رہا ہے یا نہیں۔ ہر لمحے نفس کا جھکاؤ کو دیکھتے رہتے ہیں۔نفس کا محاسبہ کرتے ہیں۔ نفس سیدھی راہ سے جونہی بھٹکتا نظر آتا ہے وہیں اس کا محاسبہ کر لیتے ہیں۔ تو ندامت کی کثرت سے توبہ میں اخلاص آتا ہے۔ اور محاسبہ نفس پر قائم رہنے سے توبہ میں استقامت آتی ہے۔ اس کو توبہ کی توبہ کہتے ہیں۔
یہ تین شرائط پوری ہو جائیں تو پھر مرد حق کی توبہ ہو جاتی ہے۔اللہ کے بندے کی توبہ ہو جاتی ہے۔
صوفیاء اور عرفاء نے توبہ کی مختلف اقسام بیان کیں۔ صوفیاء کرام نے توبہ کے محرکات کی بنا پر توبہ کی چار قسمیں بتائی ہیں۔تو پہلی کو توبہ النصوح کا نام دیا جاتا ہے۔ دوسری کو توبہ انابت کا۔ تیسری کو توبہ استعجابت کا اور چوتھی کو توبہ استحیاء کا۔ توبہ کی چار اقسام ہیں:
- توبہ النصوح
- توبہ انابت
- توبہ استعجابت
- توبہ استحیاء
محرک توبہ کے حوالے سے یہ تقسیم اس طرح سے ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا.
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰهِ تَوۡبَةً نَّصُوۡحًا.
(التحریم، 66: 8)
اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کر لو، یقین ہے کہ تمہارا رب تم سے تمہاری خطائیں دفع فرما دے گا۔
فرمایا تم اللہ کی طرف تائب ہو جاو۔جب توبہ کی بات آئی، فرمایا:
تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰهِ
تو بہ نام ہی دل سے اللہ کی طرف راغب ہونے کا ہے۔ توبة النصوح یہ توبہ عام ایمان والوں کے لیے توبہ ہے۔ جس کو پہلے درجے کی توبہ کہتے ہیں۔اس توبہ میں محرک ہوتا ہے کہ گناہ سے بچنا ہے۔
تو وہ توبہ جو گناہ سے بچنے اور گناہ سے پرہیز کرنے کی نیت سے ہو تو وہ توبة النصوح ہے یعنی سچی توبہ ہے۔دوسری صورت توبہ کی یہ ہے کہ التوبہ عن الکبائر۔
اس کے بعد فرمایا کہ پھر توبہ النصوح کا ہی دوسرا درجہ ہے کہ جب انسان کبائر یعنی بڑے گناہوں سے پرہیز کر لے تو پھر چھوٹے گناہوں سے بھی پرہیز کرے۔ چھوٹے گناہوں سے بھی پرہیز کرے۔ برے خیالات کا دل میں لانا۔ بری خواہشات کا دل میں لانا۔ کسی کی بے ادبی کا ہو جانا۔ کسی کی حق تلفی کا ہو جانا۔ یہ چھوٹے گناہ ہیں جن پر اللہ نے عذاب کی وعید نہیں کی۔ عقاب کیا ہے۔ عقاب کہتے ہیں ناراضگی یعنی وہ عذاب تو نہیں دیتا۔ لیکن ناراضگی اور ناپسندیدگی کی وجہ سے سرزنش کرتا ہے۔چھوٹی سی سزا دے دیتا ہے۔جیسے ناراضگی کے سبب کچھ منہ موڑ لینا۔پھر معافی کے سبب معاف بھی کر دینا۔
اس کے بعد اس کے اوپر کے درجے کی دوسری توبہ ہے۔اس کا محرک عذاب سے بچنے کا خیال نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ کا خوف ہونا اور اس کی طرف سے اجر و ثواب کا ملنا ہے۔پہلا محرک عذاب کا خوف تھا اور دوسرا محرک اللہ کے ثواب کی طلب ہے۔ عام مسلمان عذاب سے ڈر کر توبہ کرتے ہیں اور جو اس سے اوپر والے درجے میں چلے جاتے ہیں۔وہ اللہ کی بارگاہ سے اس کے اجر و ثواب کے لیے توبہ کرتے ہیں کہ توبہ سے بھی اللہ کی بارگاہ سے ثواب آتا ہے۔اجر ملتا ہے۔ خوشی ملتی ہے۔ نعمتیں ملتی ہیں۔اس کی رحمتیں متوجہ ہوتی ہیں۔تو اگر محرک خوف عذاب ہو تو یہ پہلی توبہ ہے۔ اگر محرک خوف عذاب نہ ہو بلکہ طلب ثواب ہو تو یہ توبہ عنابت ہے۔ جس میں انسان کبائر اور صغائر سے تو پہلے ہی مضطرب ہوتا ہے۔ بڑے چھوٹے گناہوں سے تو بچتا رہتا ہے اس لیے عذاب کا خطرہ اسے نہیں ہوتا وہ مزید ثواب کا طالب ہوتا ہے۔اسکی مزید رحمتوں کا طالب ہوتا ہے۔ اسکے مزید قرب کا طالب ہوتا ہے۔ اس کی مزید عنایات اور بخششوں کا طالب ہوتا ہے۔ اس لیے جب وہ توبہ کرتا ہے اس خیال سے تو اس کی توبہ عنابت کہلاتی ہے۔
ان میں سے ایک درجہ جو تیسرا ہو گیا اس کا نام ہے توبہ استعجابت۔ یہ اس سے اونچے درجے کی توبہ ہے۔ اس توبہ استعجابت میں نہ عذاب کا ڈر محرک ہوتا ہے اور نہ ثواب کی طلب محرک ہوتی ہے۔بلکہ توبہ استعجابت میں یہ خیال محرک توبہ ہو جاتا ہے کہ میں گناہ کر رہا ہوں اور ظلم کر رہا ہوں اور وہ میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اتنا قریب ہے میرا مولا اور میں اس کی مخالفت کر رہا ہوں۔
وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡهِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ.
(سورة ق، 50: 16)
اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔
وہ رب جو میرے اتنا قریب ہے میں پھر بھی اس کی مخالفت کر رہا ہوں۔
فرمایا میرے محبوب میرے بندے جب تجھ سے میری نسبت پوچھیں۔ یا رسول اللہ فرمائیے کہ ہمارا رب کہاں ہے؟ تو بتا دے میرے بندے کو مجھے کہاں تلاش کرتے ہو۔ میں تو بہت ہی قریب ہوں۔
مجھے تو جب بھی کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں۔اور قبول کرتا ہوں۔ یہ جو احساس قرب الٰہی ہے کہ وہ شہ رگ سے بھی قریب ہےاور میری ہر پکار کو سنتا ہے اور میرے بہت قریب ہے۔ اس قرب کے احساس سے جو ندامت ہوتی ہے وہ توبہ کا محرک ہو جاتی ہے۔
یوں درجہ بدرجہ توبہ کا رتبہ بلند ہوتا جا رہا ہے۔ اور توبہ کے حسن میں نکھار آتا جا رہا ہے۔ وہ توبہ عذاب کے ڈر سے تھی۔وہ بھی توبہ تھی لیکن وہ غلاموں کی توبہ تھی۔ وہ توبہ جو عذاب کے ڈر سے نہیں بلکہ اس کی عنابات کے ڈر سے ہے وہ بھی توبہ ہے۔اس میں اس کا حسن اور زیادہ نکھر گیا۔یہ گناہوں کی توبہ نہ رہی بلکہ حساب و کتاب اور اجر و ثواب کا خیال ہے۔ یہ تاجروں کی توبہ ہے۔اور وہ توبہ جو نہ ثواب کی طلب کی ہے۔ اور نہ عذاب کے خوف سے ہے۔ بلکہ اس کے احساس قرب کی ندامت میں ہے۔ وہ توبہ اور بھی بلند لوگوں کی توبہ ہے۔اس کو توبہ استعجابت کہتے ہیں۔
اور چوتھی توبہ توبہ استحیاء ہے۔ قرب کا خیال تو ہوتا ہی ہے۔ وہ بندہ دیکھتا ہے کہ وہ میرا مولا ہے۔ وہ مجھے پکار رہا ہے۔
گناہ کرنے والو! گناہ کرکے بھی میری رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ تم گناہ کرتے جاؤ میں پھر بھی تم پر احسان کروں گا۔