سوال: کیا عورتیں بالوں کی مخصوص لمبائی کا عطیہ دے سکتی ہیں؟ کیا کینسر کے مریض عورتیں اصلی بالوں سے بنی وگز استعمال کر سکتی ہیں؟ وہ خواتین جو بیماری کی وجہ سے اپنے بال کھو چکی ہیں کیا بالوں کا عطیہ لے سکتی ہیں؟ کیا عورتیں عطیہ کی نیت سے بال کٹوا سکتی ہیں؟
جواب: جن خواتین کے بال بیماری کی وجہ گِر جاتے ہیں، ان کے لیے اصلی بالوں سے بنی وگز استعمال کرنا جائز ہے۔ اسی طرح وہ خواتین جن کے بالوں کی لمبائی زیادہ ہو وہ مشروط طور پر ایک مخصوص لمبائی کا عطیہ دے سکتی ہیں۔ بالوں کا عطیہ کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ بال اتنے چھوٹے نہ کیے جائیں کہ مَردوں سے مشابہت پیدا ہوجائے، اور دوسری شرط ہے کہ بال مخصوص ضرورت مند عورت کو دیے جائیں، بیچنا منع ہے۔ یہ عطیہ باامرِ مجبوری جائز ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ حدیث مبارکہ میں وگ لگانے والوں پر لعنت کی گئی۔ یہ ان خواتین و حضرات کے بارے میں ہے جو بال ہونے کے باوجود بغیر کسی وجہ کے وگز لگانے کو عادت بنا لیتے ہیں۔ اس کا سبب غیرمعمولی فیشن کی حوصلہ شکنی ہے، تاکہ فضول خرچیوں کا راستہ بند ہو اور معاشرے اعتدال پسندی کی طرف بڑھے۔
سوال: کیا میک اپ پر وضو ہو جاتا ہے؟
جواب: اعضائے وضو پر اگر کسی چیز کی تہہ جمی ہو اور پانی جِلد تک نہ پہنچ پائے تو وضو نہیں ہوگا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ وَإِن كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.
(المائدة، 5: 6)
اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
اگر میک اپ میں صرف رنگ ہوں اور وہ اعضائے وضو تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ نہ ہوں تو میک اپ پر وضو ہو جائے گا۔ لیکن اگر میک اپ کی تہہ جمی ہو جو پانی کو اعضائے وضو کی جلد تک نہ پہنچنے دے تو میک اپ پر وضو نہیں ہوگا۔
سوال: اگر ایک شخص ایسی کمپنی چلاتا ہو جس میں بیروزگاروںکو روزگار دلوانے میں مدد کی جاتی ہے اور کسی کو نوکری دلواتے ہوئے یوں طے کیا جاتا ہے کہ جب نوکری مل جائے تو ایک سال تک اپنی تنخواہ کا ٪30 کمپنی کو دینا ہوگا۔ کیا اس طرح کمیشن طے کرنا اور لینا شرعاً جائز ہے؟
جواب: کسی شخص سے کوئی چیز مقررہ کرائے پر لینا یا مقررہ اجرت پر کسی سے مزدوری کروانا اجارہ کہلاتا ہے۔ فقہائے کرام کے نزدیک اجارہ سے مراد ہے:
الْإِجَارَةُ عَقْدٌ عَلَى الْمَنَافِعِ بِعِوَضٍ.
(مرغينانی، الهداية، 3: 213، المکتبة الاسلامية)
عقدِ اجارہ ایک معاہدہ ہے جو کسی معاوضہ کے بدلے کسی منفعت پر کیا جائے۔
اور امام جرجانی کے نزدیک اجارہ کا مطلب ہے:
الاجارة: عبارة عن العقد علیٰ المنافع بعوض هو مال، و تمليک المنافع بعوض اجارة و بغير عوض اعارة.
(جرجانی، التعريفات، 1: 23، دارالکتاب العربی، بيروت)
اجارہ اس معاہدے سے عبارت ہے کہ جو کسی معاوضہ کے بدلے منفعت پر کیا جائے، یہ معاوضہ (عام طور پر) مال ہوتا ہے اور جب معاوضہ کے بدلے منفعت کا مالک ہو تو اجارہ (ہوتا ہے) اور بغیر معاوضہ کے ہو تو عاریت ہے۔
یعنی اجارہ سے مراد ایسا معاہدہ ہے جو مقررہ مال کے بدلے اپنی خدمات پیش کرنے پر عمل میں آتا ہے۔ مزدوری، ٹھیکہ، کرایہ اور ملازمت وغیرہ سب ہی اجارہ کی مختلف اقسام ہیں۔ آجر یا مستاجر اس شخص یا ادارے کو کہتے ہیں جو کسی سے اجرت پر کام لے رہا ہو اور اجیر وہ شخص ہے جو اجرت کے بدلے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔
اس سوال میں جو صورت پوچھی گئی ہے یہ بھی اجارہ ہی کی ایک شکل ہے جس میں معاوضہ یا اجرت کے بدلے اپنی خدمات اور معاونت پیش کرتے ہیں۔ اس لیے معاونت کے بدلے کمیشن لینا جائز ہے۔ لیکن ملازمت دلوانے کے لیے کسی کی حق تلفی کرنا جائز نہیں، اس لیے میرٹ کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ اگر کمیشن لینے کی لالچ میں میرٹ کی خلاف ورزی کی گئی اور غیرشرعی و غیرقانونی ذرائع کی مدد لی گئی تو پھر کمیشن لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔ میرٹ کے مطابق، شرعی و قانونی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مدد کرنا اور اس کے بدلے کمیشن لینا جائز ہے۔
سوال: آج کل کچھ دکاندار اور کمپنیاں الیکٹرونکس اور دیگر اشیاء قسطوں میں فروخت کرنے کے لئے اضافی رقم لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک فریج کی قیمت 20000 روپے ہے۔ تو وہ اس پر 35 فیصد کے حساب اضافی رقم لیتے ہیں۔ 10000 ایڈوانس اور باقی کی 2700 روپے ماہانہ 10 قسطوںمیں لیتے ہیں۔اس طرح کل قیمت 27000 بنی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح سے کوئی چیز خریدنا جائز ہے؟یا یہ اضافی رقم سود کے ذمرے میں آتی ہے؟ اس طرح کا کاروبار کرنا، یا اس طرح کی خریداری میں کسی کی معاونت کرنا جائز ہے؟
جواب: قسطوں پر خرید و فرخت جائز ہے۔ یہ تجارت کی ایک جائز قسم ہے جس کے ناجائز ہونے کی کوئی شرعی وجہ نہیں۔ اصل میں ایک ہی سودا ہے جو نقد کی صورت میں کم قیمت پر اور قسط کی صورت میں قدرے زائد قیمت پر فروخت کنندہ اور خریدار کے ایجاب و قبول سے طے پاتا ہے۔ دونوں صورتیں چونکہ الگ الگ ہیں اور ایک میں دوسری صورت بطور شرط یا جزء شامل نہیں، لہٰذا یہ اُسی طرح جائز ہے جیسے ایک ہی منڈی کی مختلف دکانوں پر کسی شے کی قیمت میں فرق ہو سکتا ہے۔ یونہی منڈی، بازار اور پرچون کی دکان پر قیمت میں فرق ہوتا ہے، لیکن کوئی ایک سودا دوسرے سے منسلک نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر سودا مستقل اور الگ الگ ہے تو گویا یہ جائز ہے۔