بیسیوں صدی دنیا بھر میں سامراجی قوتوں سے آزادی حاصل کرنے کی صدی ہے۔ برصغیر پاک وہند میں قرار داد پاکستان مسلمانانِ ہند کی آزادی کی تحریک کا سنگِ میل ہے۔ مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس لاہور منٹو پارک 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا گیا۔ اس سہ روزہ اجلاس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمائی۔ بنگال کے وزیراعلیٰ اے۔کے فضل الحق نے قرار داد پیش کی۔ اس کی تائید چوہدری خلیق الزماں اور دوسرے صوبائی زعمائے کرام نے کی اور مسلمانانِ ہند کے لیے ایک الگ خط ارض کے حصول کو مسلمانوں کی منزل قرار دیا گیا۔ قائداعظم نے اپنے صدارتی خطبے میں پاکستان سے متعلق بنیادی نظریہ کی تشریح و توضیح نہایت مدلل او ر بلیغ انداز میں فرمائی اور تحریک پاکستان کے پس منظر اور پیش منظر کی روشنی میں دو قومی نظریے کی توجیہ کی۔ یقیناً اس نشانِ منزل کے حصول کی جدوجہد تاریخ کے ایک صبر آزما، تدریجی اور ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ جسے ہندوستان میں مسلمانوں کے ہزار سالہ دورِ اقتدار سے لے کر عہد زوال کے ریگزاروں میں شاہ ولی اللہؒ کی علمی، مذہبی و اصلاحی تحریک، سرسید احمد خان کی مصلحانہ قافلہ سالار علامہ اقبال کے تخیل کی بلند پروازی اور قائد کے سیاسی فکرو عمل کی تخلیقی صلاحیت سے عبارت کیا جاسکتا ہے۔
23 مارچ 1940ء کا دن بجا طور پر ’’یوم پاکستان‘‘ کہلاتا ہے جب قائد کی قیادت میں تقریباً پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے مجمع نے اپنے لیے ایک واضح راہ متعین کی۔ یوم پاکستان نے مسلم حیات و معاشرت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس دن کی پہچان بہت سے حوالوں سے اہم ہے مگر اس کا سب سے اہم اور معتبر حوالہ جو آئندہ برسوں میں روزِ روشن کی طرح نمایاں ہوا وہ قائد اور مسلم نوجوانوں کے اٹوٹ رشتے کا ایک انمول حوالہ ہے۔ طلبہ نے پاکستان کے پیغام کو ایک نئے جوش اور ولولے سے پورے ملک میں پھیلادیا۔ اس مرحلے پر ہندوؤں کا ردِ عمل بہت ہیجانی تھا انھوں نے پوری قوت اور شدت سے اس نظریے کی مخالفت کی خاص طور پر ہندو پریس نے قرار دادِ لاہور کو ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ کا نام دیا اور اسے حقارت، تضحیک اور تمسخر کا نشانہ بنایا۔ ان حالات میں مسلم طلبہ اور نوجوان آگے بڑھے، پاکستان ان کا نصب العین اور عقیدہ تھا۔ انھوں نے اپنے جوان جذبوں ، عزم و ہمت کے ساتھ قائد کا ہر اول دستہ بننا قبول کیا اور آزادی کے خونچکاں سفر میں سالارِ قافلہ کے دست و بازو بنے۔
قائداعظم نئی نسل کو مستقبل کا معمارِ قوم گردانتے تھے۔ سیاسی زندگی کی ابتدا سے ہی آپ نوجوان طبقے کی طرف خاص میلان رکھتے تھے۔ آپ کا خیال تھا کہ اصلاحات، ذہنی آزادی اور انقلابی قوت اونچے طبقے میں نہیں بلکہ عوام کے جذبوں کو ابھارنے سے پیدا ہوتی ہے اور نئی نسل اس خدمت کو بہتر طور پر انجام دے سکتی ہے۔ ملی بیداری کے لیے نئی نسل بڑی جانفشانی جفاکشی اور مسلسل جدوجہد سے ایک عظیم انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ ان کی سوچ کی اڑان اونچی ہوتی ہے وہ اپنے لیے نئے افق کی تلاش میں ہوتے ہیں ان کے فکرو شعور کو صرف ایک خاص سمت دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے قائداعظم نوجوان سے بہت پرامید تھے۔
برصغیر پاک وہند کے سیاسی اور معروضی حالات میں نوجوان نسل اور طلبہ کو مخلص رہنما، لیڈر اور آئیڈیل کی تلاش تھی۔ 1940ء تک علامہ اقبال جو ایک عظیم شاعر اور سیاسی رہنما تھے انتقال کرچکے تھے۔ آپ نوجوانوں میں اپنی شاعری کے حوالے سے بہت مقبول تھے اور وہ آپ پر اعتماد بھی کرتے تھے۔علامہ اقبال قائداعظم کے بہت معتقد تھے وہ قائداعظم کو اپنا رہنما تصور کرتے تھے۔ انھوں نے قوم کو پیغام دیا تھا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ جناح کے ہاتھ مضبوط کریں اور لیگ میں شامل ہوجائیں۔ مسٹر جناح کے سوا کوئی شخص مسلمانوں کی قیادت کا اہل نہیں۔ آپ کا فرمانا تھا۔
’’مسٹر جناح کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو آج ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آتی ان کی خوبی ہے کہ وہ بدعنوان ہیں اور نہ انھیں خریدا جاسکتا ہے۔‘‘
انھوں نے قائداعظم کو ایک خط میں تحریر کیا: مسٹر جناح! آپ واحد شخص ہیں جو اسلامی ہندوستان کو اس سیلاب سے بچا سکتے ہیں جو 1935ء کے آئینِ حکومت ہند کے عقب میں آرہا ہے۔‘‘
اقبال کی قائد شناسی کے اب تک مسلم نوجوان بھی قائل ہوچکے تھے اور وہ قائداعظم کو ایک عظیم رہبر کی حیثیت سے دیکھتے اور اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ قائد بھی نوجوانوں میں چھپی ہوئی خوابیدہ صلاحیتوں کی قدر کرتے تھے۔ آپ نے 13 نومببر 1939ء کو فرمایا:
’’میں طلبہ و طالبات کے دلوں میں چھپی ہوئی جواں امنگوں کے تازہ چشموں کو چھونا چاہتا ہوں کیونکہ یہی وہ مردانِ عمل ہیں جو آئندہ ہماری قوم کی تمناؤں کا بوجھ اٹھائیں گے۔‘‘
قرار دادِ پاکستان کی منظوری سے تین برس پہلے مسلم طلبہ نے ایک بہت سرگرم اور مستعد تنظیم ’’مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ (MSF) کے نام سے 1937ء میں قائم کی۔ اس کے محرک علی گڑھ کالج کے ایک ممتاز طالب علم محمد نعمان تھے۔ مشہور طالب علم رہنما حمید نظامی اس کے پہلے صدر اور ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اس کا پہلا آئین ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے مرتب کیا۔ اس کی ضلعی بنیادوں پر شاخیں بنادی گئیں تاکہ مسلمانوں میں معاشرتی اور سیاسی شعور کو عوامی سطح پر متحرک کیا جاسکے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ہر طالب علم کی خواہش ہوتی کہ وہ MSF کا ممبر بنے اور مسلم لیگ کو مضبوط کرے۔
مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں شرکت کے لیے قائداعظم 21 مارچ 1940ء کو فرنٹیر میل سے لاہور پہنچے ان کی آمد سے 36 گھنٹے پہلے لاہور میں خاکساروں پر فائرنگ کا واقعہ ہوچکا تھا۔ جس کی وجہ سے شہر کی فضا سوگوار تھی مگر آپ کی آمد پر نوجوان طلبہ کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ قائداعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔ پنجاب کے نوجوانوں کی ایک بڑی جمعیت ریلوے سٹیشن پر جمع تھی اور ان کی خواہش تھی کہ وہ قائداعظم کو (فٹسن) کھلی گاڑی میں خود کھینچ کر جلوس کی صورت میں ان کی اقامت گاہ تک لے کر جائیں گے مگر آپ نے اسے پسند نہ فرمایا اور میوہسپتال میں زخمی خاکساروں کی عیادت کی۔ 22 مارچ اجلاس کے روز خوش قامت نوجوان باقاعدہ مارچ کرتے ہوئے اپنے جلوس میں آپ کو پرشکوہ پنڈال میں لائے اور ڈائس تک پہنچایا۔ سہ روزہ اجلاس کے انتظامات میں نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اجلاس کے خاتمے کے بعد قائداعظم نے ایم ایس ایف کے پنجاب ونگ سے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں خطاب کیا اور طلبہ کو ہندوؤں کے منظم پروپیگنڈا کی طرف متوجہ کرتے ہوئے عوامی سطح پر پاکستان کے پیغام کو پذیرائی دینے کے لیے اس کی نشرو اشاعت پر زور دیا۔
MSF کی تمام ضلعی شاخیں پاکستان کے پیغام کو عام کرنے اور قائد کے فرمان پر من و عن عمل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھیں۔ مثلاً MSF کانپور کے جنرل سیکرٹری نذیر حسین کاظمی نے طلبہ کو پیغام ارسال کیا کہ قائداعظم اور علامہ اقبال نے ہمارے سامنے جو مقصدِ حیات رکھا ہے ہمیں اسے حرزِ جاں بنانا ہے۔ پاکستان کا حصول ہماری دینی و دنیاوی ضرورت بن گیا ہے جن کے بغیر مسلمانانِ ہند کی زندگیاں بے معنی اور بے کار ثابت ہوں گی۔ ہمیں دنیا کو باور کروانا ہے کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوچکے ہیں اور ہم کسی بھی ظلم پر خاموش نہیں رہیں گے۔
قائداعظم کے پاس جب بھی وقت ہوتا وہ MSF کے سالانہ اجلاس میں ضرور شرکت کی کوشش کرتے اور انھیں مطالعہ اور مطالعہ کے ساتھ ساتھ پاکستان اور اسلامی ثقافت کی تشہیر، طلبہ کی باہمی تعلقات استوار کرنے پر زور دیتے۔ چنانچہ نوجوان اور عوامی سطح پر پاکستان کے پیغام کی نشرو اشاعت اور آگاہی کے لیے MSF کے طلبہ نے پاکستان کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے کہ 5جولائی 1941ء کو طلبہ کے زیر اہتمام لائل پور میں پاکستان کانفرنس منعقد کی گئی لیکن طلبہ کو سخت مایوسی ہوئی جب سر سکندر حیات خان نے صدارتی تقریر میں قائداعظم اور پاکستان کے خلاف نفرت آمیز جذبات کا اظہار کیا۔ اس کے جواب میں طلبہ نے 17 جولائی کو ایک اور پاکستان کانفرنس بلائی جس کی صدارت مولانا ظفر علی خان اور طلبہ رہنما عبدالستار نیازی نے کی اور پاکستان سے متعلق منفی پروپیگنڈا کا ازالہ کیا اور پنڈال پاکستان زندہ باد اور قائداعظم زندہ باد کے نعروں سے گونجتا رہا۔ 1944ء میں پاکستان سے متعلق عوامی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے پنجاب کے چار مختلف شہروں میں پاکستان کانفرنس منعقد کی گئیں جن میں لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی اور امرتسرشامل تھے۔
اسلامیہ کالج ریلوے روڈ پنجاب میں MSF کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ حبیبہ ہال میں مباحثے اور تقاریر کا سلسلہ جاری رہتا۔ ٹٹوریل سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ (Study circles) یعنی پاکستان سے متعلق آگاہی کے تعلیمی پروگرام بھی جاری رہتے۔ پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کیے جاتے کہ مسلم لیگ کی سرگرمیاں کانگرس کے مقابلے میں مسلمانوں کے حق میں کس طرح سے بہتر ہیں۔ یہاں تک کہ طلبہ نے محلے کی سطح پر اخبارات باآواز بلند پڑھ کر سنانے کا سلسلہ بھی جاری کیا۔ ان اخبارات میں شہباز احسان، نوائے وقت، مشرق اور زمیندار شامل ہوتے تاکہ غریب عوام کو حالاتِ حاضرہ سے آگاہ کیا جاسکے۔ طلبہ نے چھوٹے چھوٹے گروپ بناکر کوچہ و بازار، دکانوں اور گھروں سے مسلم لیگ کے لیے چندہ جمع کرنا بھی شروع کردیا۔ طلبہ کی وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے 1945-46ء کے انتخابات کو مسلمانوں کی حیات و موت کا مسئلہ قرار دے دیا۔ یہ مصرع تو زبانِ زدِ عام تھا کہ
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ
شہر ہو یا دیہات، گلی ہو یا محلہ ہر جگہ ان نعروں کی گونج تھی۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ۔ مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور مسلم لیگ کی انتخابات میں کامیابی پاکستان کی کامیابی ہے۔ چنانچہ عوامی رابطہ مہم میں مسلم لیگ کے لیے ووٹ کی اہمیت سے عوام الناس کو آگاہ کیا گیا۔ نوجوانوں کی شب و روز محنت سے مسلم لیگ انتخابات میں ایک نئی سیاسی قوت بن کر ابھری اور کامیابی کے باوجود جب پنجاب میں مسلم لیگ کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی تو طلبہ نوجوانوں نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی جس میں خواتین نے بھی بڑی سرگرمی دکھائی اور فاطمہ صغریٰ نامی ایک باہمت لڑکی نے سول سیکرٹریٹ لاہور کی عمارت سے برطانوی جھنڈا اتار کر اس کی جگہ سبز ہلالی پرچم لہرادیا۔ چنانچہ 1940ء سے 1947ء کے ہنگامہ خیز دور میں قائداعظم اور مسلم لیگ کی فتح اور مقبولیت میں مسلم طلبہ اور طالبات کے جواں جذبوں اور گرم لہو کی روانی کو نظر انداز نہیں کرسکتے جو باطل کی قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔