ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان خواتین کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے جنھوں نے اپنے حقوق کے حصول کی جنگ لڑی۔ خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا، لوگوں کو خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے اقدامات کی ترغیب دینا بھی اس کے مقاصد میں شامل ہے۔
اس دن کو عالمی سطح پر منانے کی تجویز سب سے پہلے کلا راز تکن نامی خاتون نے پیش کی جو جرمن ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن اور کمیونسٹ تھی۔ یہ خواتین کے حقوق کی کارکن تھی۔ اس کے ساتھ ایک خاتون لوئس ڈائز کا نام بھی لیا جاتا ہے۔
1910ء میں کوپن ہیگن میں انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن تھی۔ کلا راز نے اس کانفرنس میں یہ خیال پیش کیا کہ ہر سال خواتین کا عالمی دن منایا جائے۔ اس کانفرس میں 17 ممالک سے 100 خواتین شریک تھیں۔ انھوں نے متفقہ طور پر کلا راز تکن کے اس خیال کی تائید کی۔ یوں اس دن کو منانا قرار پاگیا۔ کلاراز نے اس دن کو منانے کے لیے کوئی خاص تاریخ مقرر نہیں کی تھی۔
1911ء میں پہلی مرتبہ یہ دن آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں منایا گیا۔ قبل ازیں 1919ء میں 28 فروری کو امریکہ میں یہ دن منایا جاچکا تھا۔ 1911ء میں روس میں خواتین کی ہڑتال شروع ہوئی۔ اسی سال نیویارک میں فیکٹری میں 10 گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافے کے لیے آواز اٹھائی تو پولیس نے نہ صرف ان پر وحشیانہ تشدد کیا بلکہ ان خواتین کو گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ اس واقعہ میں 140 خواتین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
8 مارچ 1913ء کو یورپ میں خواتین نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے ریلیاں نکالیں۔ 1922ء میں چین میں کمیونسٹوں نے یہ دن منایا۔ 1936ء میں کمیونسٹوں کی جانب سے اس دن کو منایا گیا۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران روسی خواتین نے’’روٹی اور امن‘‘ (Roses and Bread) کے نام کے ساتھ مطالبات پیش کیے اور ہڑتال کردی۔ صرف چار دن کے بعد روسی سربراہ کو حکومت چھوڑنی پڑی اور خواتین کو ووٹ کا عبوری حق حاصل ہوگیا۔ جس روز روس میں خواتین کی ہڑتال کا آغاز ہوا تھا وہ جولیئن کلینڈر میں 23 فروری تھا جو موجودہ کیلنڈر میں 8 مارچ ہے اور اسی لیے 8 مارچ کو ہی خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 1918ء تک اس دن کے لیے کوئی تاریخ متعین نہ تھی۔
8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے لیے جامنی، سبز اور سفید رنگ کا لباس پہننے کو ترجیح دی گئی ہے۔ جامنی رنگ انصاف اور وقار کی علامت ہے سبز رنگ امید کا نشان اور سفید پاکیزگی کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ قدرے منتازع ہے۔ اس دن کے لیے یہ رنگ 1908ء میں برطانیہ کی ویمنز سوشل اینڈ پولیٹیکل یونین سے نکلے ہیں۔
1975ء میں خواتین کا عالمی دن منانے کو سرکاری سطح پر اس وقت تسلیم کیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے منانا شروع کردیا۔ 1996ء میں پہلی بار اس دن کو تھیم دیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے ’’ماضی کا جشن اور مستقبل کی منصوبہ بندی‘‘ کے عنوان سے منایا۔ تب سے خواتین کا عالمی دن ہر سال منایا جانے لگا۔
مختلف ممالک میں اس کے منانے کا طریقہ کار مختلف ہے۔ کئی ممالک اس دن قومی تعطیل رکھتے ہیں۔ ان میں روس بھی شامل ہے۔ کچھ ممالک میں حکومت اس دن خواتین کو آدھے دن کی چھٹی دیتی ہے۔ مگر بہت سی کمپنیاں چھٹی نہیں دیتیں۔ روس اور اٹلی میں اس دن عورتوں کو پھول پیش کیے جاتے ہیں۔ امریکہ مارچ کا مہینہ تحریک نسواں کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔
8 مارچ کو خواتین کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ سال بھر کی کامیابیوں پر خواتین کو مختلف اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ مختلف ممالک اس دن کو مختلف عنوانات دے کر مناتے ہیں۔ عورت کی عزت و تکریم کے اعتراف کے لیے 8 مارچ کا دن مقرر کیا گیا ہے۔ یہ دن مسلمان عورت سے بالخصوص اور تمام مذاہب کی خواتین سے کئی تقاضے کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو تخلیق فرمایا اور دونوں میں سے ہر ایک کو انفرادی امتیازی خصوصیات سے سرفراز فرمایا۔ اب ہر دو اصناف کا فریضہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ اوصاف کی حفاظت کریں۔ بلاشبہ مرد اور عورت کی اپنی اپنی انفرادی شخصیت ہے۔ دونوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی منفرد خصوصیات سے دست بردار ہونے کی کوشش نہ کریں۔
یومِ خواتین کے موقع پر آج کی مسلمان عورت کو اس امر کی تاکید ضروری ہے کہ وہ اپنی ان امتیازی خصوصیات کی حفاظت کرے جو قدرت نے اسے اعزاز و اکرام سے عطا کی ہیں۔ عورت کو مردوں کی مشابہت سے گریز کرنا ہے۔ مرد سے مشابہت ایک جانب تو عورت کی اپنی تخلیق کی بربادی ہے تو دوسری جانب احساس کمتری کی نشانی بھی ہے۔ عورت اپنے خاص اوصاف کو برقرار رکھ کر ہی اپنے بنیادی فرائض اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہوسکتی ہے اور اپنے گھر اور اہل و عیال یعنی اپنی اولاد کی بہترین نگہداشت کا فریضہ سرانجام دے سکتی ہے۔
مسلمان عورت کو حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین ﷺ کی حدیث مبارکہ کو ذہن نشیں رکھنا ہے کہ آپ خاتم النبیین ﷺ نے مردوں کی چال اپنانے والی عورتوں اور عورتوں کی روش اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت بھیجی ہے۔ (ابوداؤد)
عورت اللہ کی عطا کردہ صفات اور اپنی انفرادیت کو قائم رکھ کر ہی بلند مقام حاصل کرسکتی ہے۔ عورت پر فرض ہے کہ وہ اولاد کو حسن اخلاق کی صفات سے مزین کریں تاکہ نئی نسل میں عفت اور پاک دامنی پیدا ہو۔ آج جدید ٹیکنالوجی کے دور میں دور نوجوانی میں اولاد کی نگرانی کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بطور ماں اولاد پر کڑی نظر رکھے اور خاندان اور خاندان سے باہر دیگر رشتہ داروں اور دوست احباب سے میل ملاقات اپنی نگرانی میں کروائے تا کہ نو جوان نسل بری صحبت سے بچ سکے۔
مرد اور عورت انسانی معاشرت کا لازمی حصہ ہیں اور معاشرے کی ترقی اور بقا کا مدار دونوں پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی جسمانی ساخت اور نفسیات میں کچھ فرق رکھا ہے اور اس کے مطابق ذمہ داریوں اور فرائض کی تقسیم کی ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کے اندر کے معاملات کی ذمہ دار ہے۔ گھر کو بنانا، سنوارنا، اس کی ترتیب اور آرائش و زیبائش خالصتاً نسوانی ذوق ہے، اس کے علاوہ بچوں کی پرورش اور ان کے امور کی دیکھ بھال، تربیت، ذہن سازی اور شخصیت کی تعمیر عورت ہی بہتر اندازمیں کرسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ عورت ہی کو ہر برے کام کا قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اسے اس کے حقوق پورے نہیں ملتے اور آزادی رائے کا حق نہیں دیا جاتا۔ جب کہ اسلام میں عورت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور وہ مرد کے برابر حقوق رکھتی ہے۔
مسلمان عورت معاشرے میں مردوں سے کھلم کھلا اختلاط سے پرہیز کرے ۔ضرورت پڑنے پر حدود و قیود کی پابندی کے ساتھ ملاقات میں حرج نہیں۔ عورت کو مرد سے مصافحہ اور تنہائی میں ملاقات سے گریز کرنا چاہیے۔ بصورت ضرورت اور با امر مجبوری طویل اور مکرر ملاقات میں پست نگاہی ضروری ہے۔ عورت خدائی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے لباس میں کچھ مخصوص آداب کو اختیار کرکے اپنے وقار میں اضافہ کرسکتی ہے۔
1۔ اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دیں۔ (نور: 31)
2۔ اے نبی آپ کہہ دیجئے اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور عام ایمان والی عورتوں سے کہ وہ اپنے اوپر نیچی کرلیا کریں اپنی چادریں تھوڑی سی۔ (الاحزاب: 59)
3۔ عریاں اور حد سے زیادہ چست لباس سے گریز بہتر ہے۔
4۔ بولی میں نزاکت نہ پیدا کریں کہ ایسے شخص کو خیال فاسد پیدا ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے۔ (الاحزاب: 32)
5۔ چلتے ہوئے پیر زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے۔ (نور: 31)
عورت جب بھی اپنی انفرادیت میں غلو برتے گی ،بلند مقام سے گرجائے گی اور اس کی شخصیت زوال پذیر ہوجائے گی۔ عورت پر تعمیر و ترقی کے لیے کام کرنے پر کوئی پابندی نہں۔ فرمان الہٰی ہے:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیٓ اٰدَمَ.
(الاسرا: 70)
’’ اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔‘‘
بنی آدم میں مرد او ر عورت دونوں شامل ہیں۔ عورت مرد ہی کی طرح دنیا میں اپنے تمام تعزیری اور تمدنی اعمال کی ذمہ دار ہے اور روز قیامت اس کا بدلہ پائے گی۔ والد، بھائی، بیٹا، شوہر اور کوئی قریبی رشتہ اس کے کام نہ آئے گا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً.
(النحل: 97)
’’جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جب کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے۔‘‘
عورت اپنی مستقل بالذات شخصیت کی مالک ہے۔ وہ اپنے اختیارات میں آزاد اور خودمختار ہے۔ اسے اپنا شریک سفر منتخب کرنے کی آزادی ہے۔ خاتم النبیین نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
’’کسی بیوہ کا نکاح بغیر اس کے مشورہ کے اور کنواری کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے نہ کیا جائے گا۔
(بخاری و مسلم: 28)
اسی طرح اگر عورت کو شوہر پسند نہیں تو وہ اس سے جدا ہونے کا حق رکھتی ہے۔ عورت مکمل انسان ہے۔ وہ عائلی زندگی میں مرد کی زندگی کی ساتھی ہے نہ کہ جنسی تسکین کا کوئی کھلونا۔ عورت اور مرد دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے۔
(البقرة: 187)
عورت ایک دانش مند، ذی شعور ہستی ہے۔ وہ مردوں کی طرح سیاسی سماجی سرگرمیاں بھی بہتر انداز میں سرانجام دے سکتی ہے۔ عورت کوئی شے مستور نہیں کہ اس کو بالکل ہی چھپا کر رکھا جائے۔ وہ حدود و قیود کے ساتھ معاشرے کی بھلائی اور بہتری کے امور سرانجام دے سکتی ہے۔ نسوانی سرگرمیوں کی انجام دہی سے شخصیت آب و تاب اور جلا پاتی ہے۔ عورت گردو پیش سے تجربات حاصل کرکے اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے اور اپنے ذمہ کے کاموں کو بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتی ہے۔ عورت کو خدا کی طرف سے ودیعت کردہ خصوصی فرائض سے انحراف برتنے سے گریز کرنا چاہیے۔ عورت اپنی خاندانی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو جس قدر بہتر انداز سے سرانجام دے گی اتنا ہی اس کی نسوانی شخصیت بلند مقام حاصل کرے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ذمہ داریوں کی ادائیگی ہی کی مانند حقوق کا حصول بھی ایک اہم سرگرمی ہے۔ یہ حقیقت مدِنظر رہے کہ ذمہ داریاں ادا کرنا اور حقوق کو حاصل کرنا، دونوں امور ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی تکمیل بھی کرتے ہیں۔ دونوں کی ادائیگی ہی بہترین نتائج کو جنم دیتی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ عورت کی نسوانی شخصیت کو فروغ عطا کرنے والے حقوق میں مجلس، وعظ و نصیحت میں حاضری، علوم کا حصول، شادی، افزائش نسل، گھریلو امور کی احسن ادائیگی کے ساتھ ساتھ وقت کو نکال کر ملازمت سے وابستہ ہونا، بہتر سیاسی امور اور سماجی سرگرمیوں میں شرکت کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ عورت جو حقوق حاصل کرتی ہے وہی اس کی ذمہ داریاں اور فرائض بھی بن جاتے ہیں۔
دینِ اسلام نے عورت کے حقوق کے حوالے سے بڑا واضح طریق اختیار کیا ہے۔ عورت سماجی امور میں شریک ہونے کا حق رکھتی ہے لیکن شارح حکیم نے سماجی زندگی میں شرکت اور مردوں کے ساتھ میل جول کے کچھ آداب مقرر کررکھے ہیں۔ عورت پر ان کی پاس داری کرنا لازم ہے تاکہ حیات کا بامقصد قافلہ رواں دواں رہے۔ نیکی اور بھلائی کے کام جاری رہیں۔
آج کی عورت پر حقوق کے حصول کے ساتھ ساتھ کئی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جن سے عہدہ برآں ہوکر ہی وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتی ہے۔
8 مارچ کو عالمی یومِ خواتین منایا جاتا ہے لیکن ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مذہب اسلام نے 1400 سال قبل عورت کو جو مقام و مرتبہ اور عزت و تکریم عطا کی۔ جس طرح عورت کی عزت و ناموس کے تحفظ کا سامان کیا اور بطور ماں ، بہن، بیوی، بیٹی اور بحیثیت انسان جو فضیلت عطا فرمائی کسی اور مذہب نے اسے یہ مقام و مرتبہ عطا نہیں کیا۔
یہ حقیقت ہے کے آج کی عورت صلاحیتوں کے استعمال میں مرد سے کسی طرح کم نہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کے لیے انھیں بھی مردوں کی طرح سہولتیں فراہم کی جائیں۔
صرف 8 مارچ کو ہی نہیں ، ہمہ وقت عورت کی قیادت، قوت اور جرات کا اعتراف ضروری ہے۔ عورت سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہوتی ہے ۔وہ وطن کی ترقی میں مساوی شرکت کرتی ہے۔ عورت کو بااختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ مرد سے بہتر منتظم ہے۔ صنفی مساوات سے فائدہ ہوگا نقصان نہیں۔ عورت کے متعلق سوچ کو تبدیل کی اشد ضرورت ہے۔
عورت قومی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج خواتین معاشرے کا ساٹھ فی صد حصہ ہیں۔ قومی و بین الاقوامی سطح پر خواتین کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مسلمان عورت کا ہر روپ انوکھا اور پیارا ہے۔ آج عورت اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ وطن عزیز ہی کو لیجیے ملک بھر میں تعلیم و تدریس میں، جہاز رانی، فضائی میزبانی، ہوائی اڑان، انجینئرنگ، آئی ٹی ٹیکنالوجی، طب، کھیل، وکالت، فوج، اخبارات، ادب ثقافت کون سا شعبہ ہے جہاں خواتین اپنی خدمات سرانجام دے کر کامیابی کے جھنڈے نہیں گاڑ رہیں۔
یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ وہ ادارے جہاں خواتین کام کررہی ہیں، بڑی سرعت سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ وہ دن گئے جب عورت کو بزدل اور کمزور تصور کرکے دفاع وطن سے دور رکھا جاتا تھا۔ آج دفاع کے مختلف شعبوں میں عورتیں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
تحریک پاکستان سے لے کر قیام پاکستان اور استحکام پاکستان تک خواتین نے عزم و ہمت کی داستانیں رقم کرکے مردوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال کر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ صلاحیتوں کے اعتبار سے مردوں سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ ثمینہ خیال بیگ، ارفع کریم، مریم مختار شہید، بلقیس ایدھی اور ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات سے کون آگاہ نہیں۔ لیکن افسوس کہ آج کے اس باشعور اور تہذیب یافتہ معاشرے میں عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ آج بھی غیرت کے نام پر عورت کا قتل ہورہا ہے۔ عورت کی عصمت دری اور اغوا عام ہے۔ آج بھی عورت کی جبری شادی کی جارہی ہے۔آج بھی مرد جب چاہے عورت کا اسقاطِ حمل کروادیتا ہے۔ عالمی جینڈر گیپ انڈیکس کی رپورٹ میں پاکستان کو کل 153 ممالک میں سے 151 واں درجہ دیا گیا ہے۔ عورتوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ حالانکہ اس کائنات میں دھنک رنگ عورت کے وجود سے ہیں۔
وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
بڑے کرب سے اس حقیقت کا اظہار بھی کرنا پڑ رہا ہے کہ آج بھی کئی قبائل اور خاندان عورت کو اس کی حقیقی اہمیت نہیں دیتے۔ اسے ووٹ کا حق حاصل نہیں، وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتی۔ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کرسکتی، اسے ظالم شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور رخصتی کے وقت ہاتھ جوڑ کر کہا جاتا ہے، وہیں زندگی گزارنی ہے ورنہ میکے والے تمھیں کفن نہیں دیں گے اور وہ اس کفن کے لیے زندہ درگور رہتی ہے۔ عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے لیکن اسے اس کا جائز معاوضہ نہیں دیا جاتا۔اسے کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی 259 ملین خواتین میں سے چند ایک کو ہی جدید ٹیکنالوجی کی سہولیات میسر ہیں۔ عورت کو Digital violence کا سامنا ہے۔ عورت کو کم تر سمجھ کر اس کی تعلیم سے صرف نظر کیا جارہا ہے۔ اسے مرد کی جنسی تسکین کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ قرآنی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے اسے حق وراثت سے محروم رکھا جارہاہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں ہر سال اس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔
ہر سال یوم خواتین پر حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے لیکن عملاً کوئی ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کے لیے انھیں بھی مردوں کی طرح سہولتیں فراہم کی جائیں۔ قومی و بین الاقوامی سطح پر عورت کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ ایسے ادارے بنائے جائیں جہاں عورت کی آواز سنی جائے۔ علاوہ ازیں عورت کے حقوق کی علم بردار تنظیموں کو چاہیے کہ وہ عورت کو بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اور سب سے بڑھ کر اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں ’’نازک آبگینوں کو‘‘ سڑکوں پر بینرز پکڑا کر کھڑا کرنے سے مسائل حل نہ ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر سب کو اپنا اپنا احتساب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تبھی عالمی یوم خواتین کے مثبت ثمرات سامنے آئیں گے۔