سرزمین پاکستان پر آج کل جس طرح مون سون کی بارشیں دل کھول کر برس رہی ہیں کچھ اسی طرح یہاں کی عوام پر مصائب و آلام کا موسم بھی مہربان ہوا پڑا ہے۔ حالات کی صراحی سے نت نئے حوادث یکے بعد دیگرے ٹپک رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام ہو یا معاشی ابتری، حیات کش مہنگائی کا سیلاب ہو یا سرحدی علاقوں میں بدترین خانہ جنگی، بجلی کا بحران ہو یا آٹے، چاول کی گرانی، ان میں سے ہر ایک مسئلہ ملک و قوم کے لئے خطرناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ نتیجتاً ایک گہری خاموشی اور مایوسی کا ماحول ہے جس نے ہر فرد کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہر چہرے پر کرب کی کہانیاں رقم ہیں۔ ہر سینے میں تلخی حالات کے الاؤ پک رہے ہیں۔ چیخیں اور آہیں ہر گھر کے آنگن میں کروٹ لیتی نظر آتی ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ مسائل پہلی بار سامنے آئے ہیں بلکہ اصل پریشانی یہ ہے کہ مقتدر حلقوں میں ان تباہ کن مسائل کا حقیقی احساس ہی موجود نہیں۔ جن خدشات کا ادراک کسی سطح پر ہو بھی رہا ہے ان پر سر جوڑ کر کوئی مشاورت، کوئی سوچ بچار اور کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کے شواہد نہیں۔ ظلم بالائے ظلم تو یہ ہے کہ قوم نے جن جمہوری قوتوں کو اپنا مسیحا سمجھ کر منتخب کیا گذشتہ چار مہینوں سے وہی قیادتیں مسلسل منافقت، کذب بیانی اور مکرو فریب کا ثبوت دے رہی ہیں۔
فرد کی زندگی سے لے کر ملکی بقا کا معاملہ ہے۔ ایک طرف 90 فیصد لوگ اب بنیادی غذائی ضرورتوں کو ترس گئے ہیں اور دوسری طرف دشمن سرحدوں پر اپنی قوت جمع کررہا ہے۔ آئے روز سرحدی خلاف ورزیاں بھی ہورہی ہیں۔ حالات لمحہ بہ لمحہ ہاتھوں سے نکل رہے ہیں مگر ہماری قیادت سیر سپاٹوں اور علاج معالجوں کے لئے ملک سے باہر مقیم ہے۔ وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی بار وفاقی کابینہ کے اجلاس بھی ملک سے باہر منعقد ہوئے ہیں۔ کبھی دبئی اور کبھی لندن میں ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ ہر ملاقات سے پہلے شور شرابا اور انتظار ہوتا ہے، مگر آخر میں خبر نشر ہوتی ہے ’’ملاقات بے نتیجہ رہی‘‘۔ ان بے نتیجہ ملاقاتوں کے تسلسل نے قوم کو بہت زیادہ مایوس اور پریشان کررکھا ہے۔ اس لئے کہ معروضی حالات جس قدر سنجیدہ سوچ و فکر کے متقاضی ہیں، سیاسی قیادت اسی قدر غیر ذمہ دار اور قوت فیصلہ سے محروم نظر آتی ہے۔ ملک دشمن قوتوں نے چاروں طرف سے گھیرا تنگ کر رکھا ہے اور اہل اقتدار ہیں کہ وہ اپنی اپنی انا کے خول اور ذاتی مفاد کے حصار سے باہر جھانکنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ گذشتہ سال 9مارچ کو چیف جسٹس کی جراتِ انکار کے باعث بحالی عدلیہ کی جو تحریک شروع ہوئی اس نے بے مثال جرات و ا ستقامت کا مظاہرہ کیا۔ وکلاء نے حب الوطنی، عدل پسندی اور اصول پرستی کے موقف پر ڈٹ کر جس آمریت کو پوری دنیا کے سامنے خفت اٹھانے پر مجبور کردیا اس آمریت کا مواخذہ تاحال نہیں ہوسکا۔ اس کے برعکس وہی تحریک جب کامیابیوں کے عروج کی طرف بڑھتی ہوئی اسلام آباد وارد ہوئی تو 15 ماہ کا تاریخی سفر چند لمحوں میں بے نتیجہ کردیا گیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ یہ قافلہ بے امام تھا۔ مشترکہ قیادت بروقت اور فیصلہ کن حکمت عملی اپنانے کی صلاحیت سے محروم رہی ورنہ اسی لانگ مارچ کی کوکھ سے انقلابی تبدیلیاں جنم لے سکتی تھیں۔
وہ سب دانشور، منتخب ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور قومی قائدین جو TV مذاکرات اور عوامی اجتماعات میں آزاد عدلیہ کو سب سے پہلی قومی ضرورت گردانتے اور آمریت کو قوم کے جمہوری مستقبل کے لئے سنگین ترین خطرہ قرار دیتے رہے ہیں وہی لوگ پارلیمنٹ میں آکر آئینی ججز کی بحالی اور غیر آئینی صدر کے مواخذے کی جرات نہیں کر پارہے۔ قومی سیاسی قائدین کے قول اور عمل میں اتنا کھلا تضاد آخر کیوں ہے؟ اسے کونسی مصلحت سمجھا جائے؟ کیا ملک و قوم سے دشمنی کا ثبوت اس سے بڑھ کر بھی کوئی ہوگا؟ کتب تاریخ میں قوموں کے زوال کے جو اسباب ہم پڑھتے آئے ہیں ان میں ہوس اقتدار اور اجتماعی مفاد کے مقابلے میں ذاتی مفاد کا تحفظ سر فہرست ہیں اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کیا آج وطن عزیز کی تقدیر ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں؟ NRO کے ’’تاریخی معاہدے‘‘ کے فریق کون ہیں۔ ایک طرف ہوس اقتدار میں جنون کی حد تک گرفتار صدر مملکت اور دوسری طرف پاکستان کی معروف سیاسی پارٹی کی موجودہ قیادت۔ اقتدار کی بندر بانٹ میں غریب قوم کے کروڑوں اربوں روپے باہمی مفاہمت کے نام سے ہضم کرنے کی ایسی مثال شاید پوری تاریخ میں کہیں نہیں ملے گی۔ کسی کارخانے کے چوکیدار اور چور کو اگر سمجھوتے کا پابند بنا دیا جائے اور ضامن دونوں کو یہ یقین دلادے کہ ’’تم میں سے کسی کو نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا بس تم آپس میں تعاون جاری رکھو‘‘ تو بتایئے اس کارخانے کا حشر کیا ہوگا؟ اس چوکیدار اور ڈاکو میں کیا فرق رہے گا؟ صاف ظاہر ہے لوٹ مار کے لئے اتنی کھلی چھوٹ وہیں ہوگی جہاں کے مکین یا تو موجود نہیں ہوں گے یا پھر ان کی موجودگی کسی پر اثر انداز ہی نہیں ہوگی۔ یہ صورت حال عموماً وہاں ہوتی ہے جہاں معاشرے احساس زیاں سے مکمل طور پر عاری ہوچکے ہوں اور دشمن انہیں بے دست و پا رکھنے کا پورا پورا سامان کرچکا ہو۔ رہ گیا ضامن امریکہ تو وہ اس سارے کھیل کی نگرانی اسی مقصد کے لئے کررہا ہے کہ کب یہ ایٹمی ملک دیوالیہ ہو اور میں سرحدوں پر کھڑی افواج کو حکم دوں کہ وہ اس اسلامی نظریاتی ملک میں گھس کر اسے تورا بورا بنا دے۔
اللہ نہ کرے اہل وطن کو یہ منظر دیکھنا پڑے لیکن حالات بڑی تیزی سے اس طرف جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ان مقتدر سیاستدانوں اور آمر نواز انتظامیہ کو ہدایت دے اب بھی وقت ہے۔ حالات خراب ضرور ہیں لیکن مخلص اور اہل قیادت تباہی کے طوفانوں کا رخ اب بھی موڑ سکتی ہے۔ اس ملک کے حصول میں صدیاں لگی ہیں، لاکھوں عورتوں کے سہاگ اجڑے ہیں لاکھوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں، معصوم بچے، ضعیف، بوڑھے اور بے بس بہنوں، ماؤں اور بیٹیوں کے قافلے لٹے ہیں اور نہیں تو یہ حکمران فریق ان شہیدوں کے خون کا ہی لحاظ کرلیں۔ اقتدار کے نشے سے نکلیں ملک و قوم کی خدمت کا نشہ اپنائیں۔ اس اکلوتی اسلامی ایٹمی قوت کی چار دیواری کا تقدس پامال نہ ہونے دیں۔ یہ ملک کروڑوں بے آسرا مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز ہے۔ اسے اہل نظر اسلام کا قلعہ کہتے آئے ہیں۔ یہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانوں اور عظمت اسلام کا خواب دیکھنے والے فرزانوں کا وطن ہے۔ اسے نقصان ہوا تو اسلام کے نظریاتی تشخص پر حرف آئے گا۔ اس لئے اہل وطن! آؤ مل کر، اپنی کوتاہیوں، لغزشوں اور غفلتوں سے توبہ کریں۔ اللہ تعالیٰ اس گھر کے محافظوں کو چوروں کے ساتھ ملکر لوٹ مار کی بجائے ان کا ہاتھ کاٹ پھینکنے کی جرات عطا فرمائے۔ شہیدوں کی امانت یہ ملک، ملت اسلامیہ کی امیدوں پر پورا اترے۔ خطے کی حفاظت کے لئے نوجوانوں کو صلاحیت اور جذبوں کی دولت سے سرفراز فرمائے۔