15 شعبان المعظم کی مناسب سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
کا خصوصی خطاب CD#65
- 11-10-03
ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین
حمOوَالْكِتَابِ الْمُبِينِOإِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَO فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍO
(الدخان، 44 : 1 تا 4)
’’حامیمo (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)۔ اس روشن کتاب کی قسمo بے شک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتارا ہے بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیںo اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔‘‘
15 شعبان المعظم کی مبارک رات ’’شب برات‘‘ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قَسم کے ذریعے فرمایا ہے اور قَسم ’’حمO وَالْكِتَابِ الْمُبِينِO‘‘ کے مبارک کلمات سے کھائی۔
حم، حروفِ مقطعات میں سے ہے۔ سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ مخفی علوم میں سے ہے، جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اُن کے حسبِ حال عطا فرماتا ہے۔ اہل اللہ / عرفاء نے اس کے معنی، مفہوم اور مراد کے لئے مختلف ارشارات دیئے ہیں۔
حم سے مراد
1۔ امام ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ حم میں حآء (ح) بھی قَسم ہے اور میم (م) بھی قَسم ہے۔ حآء (ح) کی قَسم اللہ کے اُس حق کی طرف اشارہ ہے جو بندوں پر ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرمارہا ہے کہ ’’مجھے اپنے اس حق کی قسم جو میرا بندوں پر ہے‘‘۔ ۔ ۔ میم (م) سے ’’محبت‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔ فرمایا ’’مجھے اپنی اس محبت کی قسم جو مجھے بندوں سے ہے‘‘۔ گویا اپنے حق اور اپنی محبت کی قسم کھائی۔
جس سے محبت ہوتی ہے اُس پر حق بھی ہوتا ہے۔ ماں باپ، اولاد سے محبت کرتے ہیں، شفقت کرتے ہیں، پالتے ہیں، اس محبت میں اولاد کی تکالیف اٹھاتے ہیں، محبت میں اپنا سب کچھ اولاد کے لئے لٹاتے ہیں اور اس محبت میں اولاد کا مستقبل بناتے ہیں۔ اسی لطف و احسان، کرم اور محبت و شفقت کے نتیجے میں اولاد پر اتنا ہی حق بھی ہوتا ہے اور اولاد پر ماں باپ کے حق کا ادا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔
محبت اور حق کے درمیان تلازم کا رشتہ ہے، یہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ محبت سے حق جنم لیتا ہے اور حق سے محبت جنم لیتی ہے۔
ارشاد فرمایا ’’حم‘‘ ’’لوگو میرا جو تم پر حق ہے مجھے اس حق کی قسم۔ ۔ ۔ مجھے تم سے جو محبت ہے مجھے اس محبت کی قسم‘‘۔ انسان ’’ظَلُومًا جَهُولًا‘‘ ہے نہ اسے اللہ تعالیٰ کے حق کی پہچان رہی ہے جو اس پر قائم تھا اور نہ اسے اللہ کی اس محبت کا ادراک رہا ہے جو اللہ کو بندے سے ہے۔ یہ اللہ کے بندے پر اس حق کی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ بندے تو مجھے پکارا کر اور تو میری طرف آ۔ ۔ ۔ اور اللہ کی جو بندے سے محبت ہے یہ اس محبت کا نتیجہ ہے کہ وہ فرماتا ہے کہ تو اگر میری طرف ایک قدم آئے گا تو میں تیری طرف 70 قدم آؤں گا۔ ۔ ۔ اگر تو میری طرف چل کر آئے گا تو میں تیری طرف دوڑ کر آؤں گا۔ اللہ کا جو بندے پر حق ہے، اس حق کی وجہ سے فرماتا ہے کہ تو مجھ سے معافی مانگ، توبہ کر۔ ۔ ۔ اور اللہ کی جو بندے سے محبت ہے یہ اس محبت کا نتیجہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ توبہ کرکے، معافی مانگ کر 70 بار بھی توڑ لے، پھر مانگ لے تو پھر بھی معاف کردوں گا۔ یہ عمل وہی کرتا ہے جس کو محبت ہوتی ہے۔ یعنی اگر تو اپنی توبہ 70 بار بھی توڑے تو مجھ سے مایوس نہ ہونا، میں پھر بھی معاف کردوں گا۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ تعلق کسی نہ کسی طرح قائم رہے، ٹوٹنے نہ پائے۔
اس لئے قسم کھائی کہ اے بندے تجھے کیا خبر کہ وہ حق کیا ہے؟۔ ۔ ۔ اور تجھے کیا خبر کہ وہ محبت کیا ہے؟۔ ۔ ۔ مجھے اس حق کی قسم جو تجھ پر ہے۔ ۔ ۔ اور اس محبت کی قسم جو مجھے تجھ سے ہے۔
2۔ حم کی وضاحت میں شیخ روز بہان بکلی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حآء (ح) سے مراد اللہ کی وہ وحی خاص ہے جو بغیر واسطہ جبرئیل کے براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کی گئی، براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کیا گیا اور اس خطاب میں نہ جبرئیل واسطہ تھے اور نہ جبرئیل سمیت کسی اور مخلوق کو خبر تھی۔
فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO
(النجم، 53 : 10)
’’پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔
’’میم‘‘ (م) سے مراد ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ہے۔ فرمایا کہ مجھے قسم ہے اپنے اس کلام خاص کی جس کی کسی کو خبر نہیں اور قسم ہے مجھے اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جن سے براہ راست میں نے کلام کیا۔ پھر فرمایا
وَالْکِتٰبِ الْمُبِيْنِ.
’’قسم ہے اس کتاب کی جو میں نے واسطے کے ذریعے اتاری‘‘۔
پس اللہ فرمارہا ہے کہ قسم ہے اس وحی کی جو بغیر واسطے کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی اور قسم ہے اس وحی کی جو واسطہ جبرئیل سے کتاب کی شکل میں دی۔
لیلۃ مبارکۃ سے مراد وجود محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
٭ پھر ارشاد فرمایا :
وَالْكِتَابِ الْمُبِينِO إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ.
’’حامیمo (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)۔ اس روشن کتاب کی قسمo بے شک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتارا ہے ‘‘۔
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ‘‘ (برکت والی رات) سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود اطہر ہے، یعنی مجھے اس کتاب روشن کی قسم جو میں نے برکت والے وجود محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نازل کی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود اقدس کو ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ رات کیوں کہا؟ دن کیوں نہیں کیا؟
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود اطہر کو رات اس لئے کہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں روح کا وہ سورج چمک رہا ہے کہ اگر وہ جسم کے پردوں میں چھپا ہوا نہ ہوتا تو جو دیکھتا برداشت نہ کرسکتا اور اس کی بینائی ختم ہوجاتی۔ اشارہ اس امر کی طرف فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کے نور کا سورج جو اندر چمک رہا ہے اس کے اوپر جسم کے پردوں نے ایک کیفیت پیدا کر رکھی ہے جس کی وجہ سے میرے بندے، میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ سکتے ہیں۔ رات اصل میں سورج پر ایک پردہ ہے۔ رات خود اندھیری نہیں ہوتی، نہ دن کی اپنی کوئی روشنی ہے اور نہ رات کا اپنا کوئی اندھیرا ہے۔ جہاں سورج نظر آیا وہ دن کہلایا اور جہاں سورج چُھپ گیا وہ رات کہلائی۔ یہ تو نظر آنے اور چُھپنے کی بات ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باطن دن ہے، جسم اطہر رات ہے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باطن کے مطلع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کے انوار کا سورج چمک رہا ہے اور اس نور کا عالم یہ ہے کہ مالائے اعلیٰ، سدرۃ المنتہٰی اور عرش معلیٰ کے انوار بھی اس نور کے سامنے ہیچ ہیں، اس کے سامنے بجھ جاتے ہیں۔ نورِ روحِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو باطن کے مطلع پر چمک رہا ہے اگر وہ اس دنیا میں ظاہر ہوجاتا تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی نہ دیکھ سکتا۔ ۔ ۔ عالم ہی جل جاتا۔ ۔ ۔ آنکھیں جل جاتیں۔ ۔ ۔ دنیا جل جاتی۔ ۔ ۔ نہ کوئی پیروی کرسکتا۔ ۔ ۔ نہ کوئی اطاعت ہوتی۔ ۔ ۔ نہ کسی کو شریعت ملتی، نہ کوئی اسوہ بنتا لیکن چونکہ مقصود جَلانا نہ تھا بلکہ مقصود جِلانا (روشن کرنا) تھا۔
اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس نور کے سورج کو سراجاً منیراً کہا ہے۔ اسی سورج کو اندر رکھا اور جسم کے پردوں سے چھپادیا اور اس قابل بنادیا کہ اللہ کے وہ بندے جن سے اس کو محبت ہے وہ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ سکیں۔ اللہ فرما رہا ہے کہ
’’مجھے قسم ہے حق کی، قسم ہے مجھے اپنی محبت کی، قسم ہے اس کتاب روشن کی جس کو میں نے وجود محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردوں میں اتارا ہے‘‘۔
نزولِ قرآن شبِ قدر یا شبِ برات
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ.
’’ہم نے یہ کتاب بابرکت رات میں اتاری ہے‘‘۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ اس بابرکت رات سے مراد شعبان المعظم کی 15 ویں رات ہے جسے ہم شب برات کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اس رات 15 شعبان المعظم میں اتارتا رہا۔
جبکہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِO
(سورۃ القدر : 1)
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے‘‘۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ 15 شعبان کی رات کو قرآن پاک نازل ہوا یا لیلۃ القدر میں؟
اب دونوں روایات و احادیث کے درمیان تطبیق اس طرح ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے بیت العزت پر لیلۃ القدر میں سارا قرآن یکبارگی نازل فرمادیا اور پھر بیت العزت سے آسمان دنیا پر 15 شعبان المعظم کی رات پورے سال میں جتنا قرآن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزول فرمایا جانا ہوتا اتنا حصہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دے دیا جاتا اور پھر وہ حصہ اپنے اپنے مقررہ وقت اور مقررہ دن اور مقررہ ضرورت کے مطابق جبرئیل امین اللہ کے امر سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل فرماتے رہے۔
شبِ برات۔ ۔ ۔ بجٹ کی رات
یہ تطبیق اگلی آیت مبارکہ سے بھی مطابقت رکھتی ہے۔ ارشاد فرمایا :
فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍO
’’یہ وہ رات ہے کہ اس میں حکمت والے تمام کاموں کو جدا جدا کرکے دیا جاتا ہے‘‘۔
نزول قرآن اور اللہ تعالیٰ کے حکمت والے امر جو انسانوں کی زندگی سے متعلق ہیں، ان کے درمیان تعلق یہ ہے کہ ایک طرف اس رات کی نسبت پورے سال بھر کے ضرورت کے مطابق قرآن مجید کے نازل ہونے سے ہے۔ ابن عطاء اللہ سکندری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر عرفاء کاملین نے بیان کیا ہے کہ اس رات کی برکت کے باعث ملائکہ کا مالائے اعلیٰ میں ہجوم ہوجاتا ہے اور سارے فرشتے اجتماع منعقدکرتے ہیں۔ اجتماعِ ملائکہ کی وجہ سے برکتیں عرش معلیٰ سے لے کر تحت السرآء تک اس پوری کائنات کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ کائنات برکتوں کے ساتھ معمور ہوجاتی ہے۔ جیسے اس رات میں قرآن اگلے سال کی ضرورتوں کے مطابق اتار دیا جاتا تھا اسی طرح دوسری طرف اس رات میں لوح محفوظ پر لکھی ہوئیں تقدیریں، لوگوں کے رزق، زندگی، موت، اولاد، صحت، بیماری، خوشحالی و تنگدستی کے وہ احکامات جن کا اللہ تعالیٰ نے اگلے سال انسانوں کی زندگی میں نفاذ کرنا ہوتا ہے، تقدیر کے جو جو حکم زمین پر اترنے ہوتے ہیں اس رات لوح محفوظ سے اتار دیئے جاتے ہیں اور پھر ملائکہ جو مقدارت الامر ہیں جیسے جیسے مقررہ وقت آتا ہے، جس جس حکم کے اجراء کا وقت آتا ہے، اسے لے کر اللہ کے حکم سے زمین پر اترتے ہیں اور نافذ کرتے چلے جاتے ہیں۔ گویا سال بھر کے احکام کی مکمل فائل اس رات اتار دی جاتی ہے۔
چونکہ یہ رات آنے والے سال کے بارے میں کُل حکمت والے کاموں کے فیصلے کی رات ہے، اس کے بعد اجراء و نفاذ ہوگا، زمین پر ہماری زندگی کے لئے نزول ہوگا اس لئے حکم دیا کہ لوگ جاگ کر اس کی بارگاہ سے اپنے لئے خیرو بھلائی کو طلب کریں۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے سال بھر کے احکام کی مکمل فائل اتار دی اور یہ حم میں جو قسم ’’حق‘‘ کی کھائی گئی اس کی طرف اشارہ ہے کہ حق، فائل کی صورت میں اتر گیا کہ اس سال میں کیا کیا ہوگا۔ اس کو بجٹ کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جس طرح ہر ملک اپنے ایک سال کا بجٹ بناتا ہے کہ کس مد میں کس طرح، کب اور کیا خرچ کرنا ہے اور کہاں سے آمدنی ہے اور بجٹ منظور ہونے کے بعد اپنے اپنے مقررہ وقت پر ان کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ بلاتشبیہ و بلامثال شب برات میں انسانوں کے لئے اللہ بجٹ پاس کرتا ہے کہ کس کو کیا کیا دینا ہے؟
حم میں دوسری قسم اللہ تعالیٰ نے بندوں سے اپنی ’’محبت‘‘ کی کھائی اور اپنے بندوں سے محبت اس طرح کی کہ ایک طرف پورے سال کی فائل بھیج دی اور ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ اپنی امت سے فرمادیں کہ آج میں نے بجٹ پاس کرنا ہے آج رات جاگ لیں اور مجھ سے مانگ لیں۔
حق کا تقاضا یہ تھا کہ مکمل فائل اتار دی اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتا دیا کہ آج بجٹ پاس ہونے والی رات ہے آج نہ سوئیں، ایسا نہ ہو کہ میں ان کا بجٹ پاس کررہا ہوں اور وہ غفلت کی نیند سورہے ہوں۔
پس آج رات وہ اپنا دھیان، توجہ میری طرف لگائیں، قیام و سجود کریں، عبادت کریں، استغفار کریں اور جو مانگنا ہے آج کی رات مجھ سے مانگ لیں۔ گویا بتا بھی دیا اور جگا بھی دیا۔
اس سے بڑھ کر رب نے بندوں سے محبت کا اظہار اس طرح کیا کہ حدیث قدسی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ خود بھی آسمان دنیا پر آجاتا ہے اور پھر اللہ ندا دیتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ میں اس کی جھولیاں بھر دوں۔ ۔ ۔ ہے کوئی رونے والا کہ میں اس کی بدبختی کو خوش بختی میں بدل دوں۔ ۔ ۔ ہے کوئی مجھ سے رزق مانگنے والا کہ میں اس کے رزق میں اضافہ کردوں۔ ۔ ۔ ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ اس کے گناہ معاف کردوں۔ ۔ ۔ ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا کہ اس کی حاجت کو پورا کردوں۔
رضائے الہٰی کا حصول بذریعہ نماز
15 شعبان المعظم کی رات اس سے مانگنے، اس سے طلب کرنے، اس کو راضی کرنے کی صورت کیا ہو؟ یاد رکھ لیں کہ مولیٰ کو راضی کرنے کی صورت نماز ہے۔ کونسی نماز؟۔ ۔ حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں؟
انہوں نے فرمایا : جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو میں دو وضو کرتا ہوں۔ ایک وضو پانی سے کرتا ہوں اور اس وضو کے دوران ایک وضو توبہ سے کرتا ہوں۔ توبہ سے وضو کرنے کے لئے جب پانی سے ہاتھ دھوتا ہوں تو اللہ تعالیٰ سے دعاکرتا ہوں کہ جس طرح میرے ہاتھ دھل گئے، اس طرح میرے ہاتھوں کے گناہ بھی دھو دے، معاف فرمادے اور آئندہ میرے ہاتھوں کو گناہوں سے پاک کردے۔
جب کُلی کرتا ہوں تو دعا کرتا ہوں کہ مولا جس طرح میں نے اپنے منہ، دانتوں، زبان اور حلق کو پاک صاف کرلیا، آج میرے منہ کے گناہ بھی دھو دے اور آئندہ اس توبہ کے پانی سے وہ پاکیزگی عطا کر کہ میرا منہ اور میری زبان بھی گناہ سے پاک ہوجائیں۔
ہم زبان سے گناہ کرتے ہیں، گالی گلوچ کرتے ہیں، غیبت، چغلی، بہتان، مذاق اڑانا، تذلیل کرنا، برا بھلا کہنا یہ سب زبان کے گناہ ہیں اس سے زبان پلید ہوتی رہتی ہے۔ جس طرح جسم اور لباس کے نجس ہونے کی وجہ سے نماز نہیں ہوتی اسی طرح اگر زبان نجس اور پلید ہوتو اس سے اللہ کا ذکر تلاوت اور دعا کیسے قبول ہوگی۔
لوگو! سمجھ لو ساری خیر کا منبع زبان ہے۔ زبان سے ہی خیر پیدا ہوتا ہے۔ لہذا جب آپ ہاتھ دھوئیں تو توبہ کے پانی سے ہاتھوں کو یوں پاک کرلیں کہ ہاتھوں کے پچھلے گناہوں کی معافی مانگیں، آئندہ ہاتھوں کو گناہ سے پاک کرلیں۔ ۔ ۔ اب اس ہاتھ سے کم نہیں تولنا۔ ۔ ۔ اس ہاتھ سے کسی پر ظلم نہیں کرنا۔ ۔ ۔ اس ہاتھ کو گناہ کے لئے نہیں اٹھانا کیونکہ ہاتھ پاک ہوگئے، زبان پاک ہوگئی۔
اسی طرح جب چہرے کو دھویا تو دل کی زبان سے، دھیان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کہ باری تعالیٰ میرے چہرے کے گناہ بھی دھودے۔ ۔ ۔ اس چہرے میں آنکھیں ہیں تو آئندہ آنکھیں گناہ نہ کریں، اس شے کو نہ دیکھیں جس کو دیکھنا گناہ ہے۔ ۔ ۔ جب چہرے کا توبہ کے ساتھ وضو کرلیا تو آئندہ رخ کسی گناہ کی طرف نہ ہو۔ ۔ ۔ اب یہ دھیان کی بات ہے۔ ۔ ۔ دھیان کو جتنا حاضر رکھیں گے اتنا توبہ سے وضو ہوگا اور اگر دھیان حاضر نہیں ہوگا تو توبہ حاضر نہیں ہوگی۔ ۔ ۔ دھیان نہ ہونے کی صورت میں پانی والا وضو ہوگا، توبہ والا وضو نہیں ہوگا۔ ۔ ۔ اس طرح جب بازو دھوئیں گے تو بازؤں کے گناہ ختم ہونے کی دعا کریں اور آئندہ نہ کرنے کا عہد کریں۔
پس وضو کے دوران جس جس عضو کو دھوئیں گے یا مسح کریں گے اس اس عضو کو دھوتے ہوئے اپنے ہر اس وضو کو گناہ سے پاک کرتے چلے جائیں۔ جب کانوں کا مسح کریں گے تو دعا کریں کہ باری تعالیٰ آج کے بعد میں توبہ کرتا ہوں کہ میرے کان کوئی غیبت نہ سنیں گے۔ ۔ ۔ میرے کان گناہ کی آواز نہ سنیں گے۔ ۔ ۔ میرے کان کسی کی چغلی نہ سنیں گے۔ ۔ ۔ میرے کان کوئی ایسی آواز، گفتگو نہ سنیں جس کے سننے سے تو ناراض ہوجائے۔ پس اس طرح ہاتھ، منہ، زبان، چہرہ، آنکھیں، کان کو گناہ کرنے سے روک دیا اور جب پاؤں دھونے کا مرحلہ آیا تو اسی طرح پاؤں کو گناہوں سے روک دیا۔
پس حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ کا وضو اس طرح کا تھا۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ہر روز، ہر نماز میں، ہر وضو میں اس طرح پانی کے وضو کے ساتھ ساتھ توبہ سے بھی وضو کریں۔
پس جب توبہ سے وضو کرلیا اور ظاہر و باطن کو دھولینے کے بعد پاک کرلیا۔ غلاظت، نجاست، میل کچیل کو دور کردیا تو اس کے بعد عملی زندگی میں بھی اس کا رنگ نظر آنا چاہئے۔ جس وضو نے آپ کے من کو، طبیعت کو، باطن کو ہلکا نہ کیا تو اس وضو کا کیا فائدہ؟ پس وضو کے ساتھ گناہ بھی دھلنے چاہئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ قیامت کے دن اپنی امت کو کیسے پہچانیں گے؟۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں انہیں ان کے وضو والے اعضاء سے پہچانوں گا۔ ۔ ۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو والے اعضاء کی کیا پہچان ہوگی؟۔ ۔ ۔ فرمایا : میری امت کے وہ لوگ جو وضو کرتے ہوں گے، ان کے اعضاء سے نور نکل رہا ہوگا۔
پس وضوایسا ہونا چاہئے کہ اعضاء منور ہوجائیں ایسا وضو تب ہوگا کہ جب وضوشروع کریں تو اس کے ساتھ ہی لذت و کیفیت شروع ہوجائے کہ مالک کی بارگاہ میں جانے کی تیاری ہورہی ہے۔ جب تیاری کا تصور آجائے تو پھر مکمل دھیان جہاں جانا ہے وہاں لگا رہتا ہے۔ پس سارا دھیان وضو کے اندر مرکوز ہوجانا چاہئے۔
حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ
اس توبہ کے وضو کے ساتھ جب میں نماز کے لئے مصلیٰ پر کھڑا ہوتا ہوں تو میں چہرے کے سامنے کعبۃ اللہ کا تصور کرتا ہوں اور خیال / تصور کی آنکھوں سے کعبۃ اللہ کو دیکھتا ہوں۔ ۔ ۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی نماز کے دوران یہ تصور کریں کہ انوار و تجلیات اتر رہی ہیں۔ ۔ ۔ کعبہ کا سیاہ غلاف حرم پاک میں عجب نور بھرا سماں پیدا کررہا ہے۔ ۔ ۔ اور آپ کی آنکھیں نورانی غلاف کعبہ و در کعبہ پر جڑی ہیں۔
شیخ حاتم فرماتے ہیں کہ پھر میں اپنے دو ابرو کے درمیان مقام ابراہیم کا تصور کرتا ہوں۔ ۔ ۔ پھر اپنی دائیں طرف جنت کو دیکھتا ہوں اور بائیں طرف دوزخ کو دیکھتا ہوں۔ ۔ ۔ اور نماز میں جس مقام پر کھڑا ہوتا ہوں، جہاں میرے قدم ہوتے ہیں، میں وہ قدم پل صراط پر دیکھتا ہوں کہ پل صراط پر کھڑا ہوں۔
ذرا تصور کریں کہ جب پل صراط پر قدم ہوں تو انسان کو ہر لمحہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں پھسل نہ جاؤں۔ یعنی جب نماز میں کھڑے ہوں تو اس طرح آپ یکسو ہوں، اتنے متوجہ ہوں، اتنے محتاط ہوں اور اس احتیاط اور توبہ میں اتنے غرق و فنا ہوں کہ گویا پل صراط پر کھڑے ہیں۔
شیخ حاتم فرماتے ہیں کہ نماز میں، میں اپنے پیچھے ملک الموت کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے پیچھے پہنچ چکا ہے اور یہ نماز آخری مہلت ہے، وہ روح قبض کرنے والا ہے پس میں نماز اس کیفیت میں پڑھتا ہوں کہ زندگی کی آخری نماز ہے۔
اب آپ سوچیں کہ اگر تصور میں یہ آجائے کہ یہ نماز زندگی کی آخری نماز ہے تو انسان اس نماز کی ادائیگی میں کیا کسر چھوڑے گا۔ پس اس کیفیت کو نماز میں پیدا کرلیں۔ جب اس کیفیت و تصور کے ساتھ نماز میں داخل ہوجائیں تو نماز بدل جاتی ہے۔
دورانِ نماز تصور و کیفیت
شیخ حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نے نماز میں داخل ہونے تک رہنمائی فرمادی اب آگے دوران نماز کیا کیفیت اور تصور ہونا چاہئے اس بارے آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔
جب تکبیر تحریمہ کی صورت میں اللہ اکبر کے الفاظ کے ساتھ ہاتھوں کو بلند کریں تو یہ تصور کریں کہ پوری کائنات و مافیھا سے اللہ کی تعظیم میں ہاتھ اٹھا لئے باری تعالیٰ میں نے تیری تعظیم میں ہر شے سے ہاتھ اٹھا لئے۔ ۔ ۔ سو میرا دل بھی ہر شے کی محبت سے اٹھ جائے۔
تکبیر تحریمہ کے بعد جب حالت قیام میں آئے تو یہ قیام اللہ کی بارگاہ میں حرمت و ادب ہے۔ اس کی بارگاہ میں حضوری کے ساتھ ہاتھ باندھ کر اس طرح کھڑا ہونا جیسے غلام، آقا کی بارگاہ میں ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے۔ اس طرح قیام اس کی بارگاہ میں حرمت و ادب کے ساتھ کھڑے ہونے کا نام ہے۔ اب ماسواء اللہ آپ کے تصور / دھیان میں کوئی شریک نہیں رہا اور دستہ بستہ غلام بن کر مولیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہوجائیں۔
اس کے بعد الحمد للہ رب العالمین کے الفاظ کے ساتھ بندہ رب سے کلام کا آغاز کرتا ہے۔ قرات کے آغاز سے اللہ کے ساتھ اللہ والوں کی سرگوشیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ درج بالا تمام کیفیات اپنے اوپر طاری کرکے بندہ رب سے بات کرتا ہے۔ ۔ ۔ الحمد للہ رب العالمین۔ ۔ ۔ سارے حسن تیرے۔ ۔ ۔ سارے جمال تیرے۔ ۔ ۔ ساری خوبیاں تیری۔ ۔ ۔ سب تعریفیں تیری۔ ۔ ۔ گویا اس طرح اللہ سے مناجات کا آغاز ہورہا ہے۔ ہاتھ باندھ کر، یکسو ہوکر دل کی زبان سے آہستہ سے کہہ رہے ہیں۔ ۔ ۔ مولیٰ سب خوبیاں تیری، سب حسن تیرے۔ ۔ ۔ سب جمال تیرے۔ ۔ ۔ سارے کمال تیرے۔ ۔ ۔ تو ہی سب کچھ ہے۔ ۔ الرحمن الرحیم۔ ۔ ۔ مولیٰ تو بڑی رحمت والا ہے۔ یہ نہیں کہہ رہے کہ مجھے معاف کردے کیونکہ یہ کہنا ادب نہیں ہے۔ نماز اب خود سراپا سوال بن گیا۔ جب یہ کہہ دیا کہ مولیٰ تیری کتنی بڑی رحمت ہے، تو رحمن رحیم ہے تو کافروں پر بھی رحمت کرتا ہے۔ ۔ ۔ اب اپنے اوپر رحم کرنے کی دعا نہیں مانگ رہے۔ ۔ ۔ اس لئے کہ اللہ خود سمجھ رہا ہے۔ ۔ مولیٰ تو کافروں پر بھی رحمت کرتا ہے میں تو پھر بھی گناہ گار ہوں۔ ۔ ۔
مالک یوم الدین۔ ۔ ۔ تو یوم جزاء و سزاء کا مالک ہے۔ ۔ ۔ تو معاف کردے تو تیری رحمت ہے، میرا کوئی حق نہیں۔ ۔ ۔ معاف نہ کرے گرفت کرے تو، تو مالک ہے۔ ۔ ۔
ایاک نعبد وایاک نستعین۔ ۔ ۔ مولیٰ میرا کیا ہے؟ میری تو بندگی بھی تیرے لئے ہے، میں تو بندہ ہی تیرا ہوں۔ ۔ اور کس سے جاکر مانگوں۔ ۔ ۔ جب بندہ تیرا ہوں تو سائل بھی تیرا ہوں۔
اھدنا الصراط المستقیم۔ ۔ ۔ سیدھی راہ دکھا۔ ۔ ۔ کونسی راہ؟ مولیٰ مجھے تو کچھ معلوم نہیں کہ سیدھی راہ کونسی ہے؟۔ ۔ ۔ وہ جو تیرے بندے ہیں، وہ جو تیرے پیار میں ہیں۔ ۔ ۔ جو تیری محبت میں ہیں۔ ۔ ۔ جن پر تیری نعمتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ۔ ۔ جن پر تیرے کرم کی بارشیں ہوتی رہتی ہیں۔ ۔ ۔ مولیٰ اس راہ پر مجھے بھی چلا دے۔ ۔ ۔ اور جن سے تو ناراض ہوتا ہے مجھے ان سے دور کردے۔ ۔ ۔ اور جو بہک کر تجھے چھوڑ چکے ہیں، ان سے تو میرا واسطہ ہی نہ ہونے دے۔
یہ اللہ سے سرگوشیاں ہورہی ہیں۔ نماز ایسی پڑھیں کہ مولیٰ سے راز و نیاز کی باتیں ہوں۔ اس طرح فاتحہ کے بعد کوئی سورۃ پڑھیں۔ پھر رکوع ہے۔ ۔ ۔ رکوع، تواضع کا نام ہے۔ ۔ ۔ عاجزی میں جھک گئے۔ اس طرح سجود، تذلّل کا نام ہے۔ ۔ ۔ خشوع و خضوع کی انتہا ہے۔ ۔ ۔ سر زمین پر رکھ دیا۔ ۔ ۔ مولیٰ تیرا بندہ ہوں۔ ۔ ۔ جبین تیرے آستانہ پر رکھی ہے اب تیری مرضی۔ ۔ ۔
دیکھے یا نہ دیکھے یہ تو محبوب کا حق ہے
اس طرح نماز کے ارکان و رکعتیں مکمل ہوتی جائیں۔ گویا تشہد میں بیٹھنے سے قبل اللہ کو سب مناجات، ادب و احترام، حرمت و تعظیم، تواضع، بندگی، تذلل، خشوع خضوع، جو کچھ پاس تھا پیش کردیا۔
آخر پر منگتے کی منت و سماجت کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ ساری التجائیں کرتے کرتے واسطے پر آجاتا ہے کہ مولیٰ اگر میری ان التجاؤں میں پھر بھی کوئی کمی رہ جائے تو مولیٰ اس کے واسطے سے قبول کرلے اور معاف کردے۔
پس جب تشہد میں بیٹھیں تو اپنی قبولیت کا واسطہ اور وسیلہ ادب و احترام سے بیٹھ کر اس طرح پیش کریں۔ ۔ ۔ السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ ۔ ۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر سلام ہو اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں‘‘۔
بیٹھے اللہ کی بارگاہ میں ہیں مگر سلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھیجیں۔ پھر اپنے ایمان کی گواہی / شہادت دیں اور اس کے بعد پھر اللہ کو راضی کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کہیں۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کے لئے درود میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر سلام پڑھیں۔ ۔ ۔ منگتوں کے پاس راضی کرنے کے طریقے ہوتے ہیں۔ پس اللہ کو راضی کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دے دیا۔ ۔ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجا۔ ۔ ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کے لئے اہل بیت پر سلام بھیجا۔
اور آخر میں جب سلام پھیریں تو سلام، شکر میں کریں۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ ۔ ۔ یہ سلام شُکر بن جائے۔ ۔ ۔ کہ مولیٰ تیرا شکر کہ تو نے اتنی دیر اپنی بارگاہ میں حاضری کی اجازت دی۔
اس نماز کو معراج قرار دیا گیا ہے۔ یہ نماز وہ تحفہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامِ قاب قوسین پر شب معراج عطا ہوا۔ باقی بیشتر عبادتیں زمین پر اتریں، نماز اور روزہ یہ دو عبادتیں اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’قاب قوسین او ادنیٰ‘‘ کے مقام پر معراج کی رات عطا کیں۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
الصلاة معراج المومنين.
’’نماز مومنین کی معراج ہے‘‘۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
جُعِلَت قُرَّة عَيْنِیْ فِی الصَّلَاةِ.
’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے‘‘۔
پس جو نماز میں جتنی محنت کرلے گا، معراج کا اتنا حصہ پالے گا۔ نماز کو سنوارنا دراصل نماز کو معراج بنانا ہے۔ ۔ ۔ اور نماز معراج کیسے بنتی ہے؟ اس کے لئے توبہ کا وضو اور دھیان و تصور کو یکسو کرنا ہوگا۔ پس نماز توبہ بھی ہے۔ ۔ ۔ نماز قبولیت بھی ہے۔ ۔ ۔ نماز قربت بھی ہے۔ ۔ ۔ نماز دیدار بھی ہے۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ اس وقت ہے جب نماز سراپا بندگی بن کر ہو۔ پس 15 شعبان المعظم کی رات ہمیں ایسی نماز کو اپنا شعار بنانے کا عہد کرنا ہوگا اور ہر نماز کو اسی کیفیت و سرور سے ادا کرنا ہوگا۔ نماز کا اسی کیف و سرور سے ادا کرنا ہی اصل میں پیغام شب برات ہے۔