سوال : کیا محراب مسجد کا حصہ ہوتا ہے؟
جواب : ’’محراب مسجد کی تحقیق‘‘ میں علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں :
المحراب صدر البيت واکرم موضع فيه. والجمع المحاريب وهو ايضا الغرفة.
’’مکان کے سامنے کا حصہ۔ مکان میں سب سے زیادہ عزت کا مقام۔ جمع محاریب۔ کمرہ‘‘۔
والمحراب عند العامة الذی يقيمه الناس اليوم مقام الامام فی المسجد.
’’عام علماء کے نزدیک وہ جگہ ہے جسے آج کل لوگ امام مسجد کے کھڑے ہونے کی جگہ بناتے ہیں‘‘۔
٭ قرآن کریم میں ہے :
اِذْ تَسَوَّرُو الْمِحْرَابَ. (ص : 21)
’’جب وہ دیوار کود کر (حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس کی) مسجد میں آئے‘‘۔
قال الزجاج. . . المحراب ارفع بيت فی الدار وارفع مکان فی المسجد. . . والمحراب ههنا کالغرفة.
’’حویلی میں سب سے زیادہ اونچا مکان۔ مسجد میں اونچی جگہ،۔ ۔ ۔ یہاں محراب کمرے کے معنی میں ہے‘‘۔
المحراب القبلة ومحراب المسجد ايضا صدره واشرف موضع فيه. ومحاريب بنی اسرائيل مساجدهم التی کانوا يجلسون فيها. . . يجتمعون فيها للصلوة.
’’محراب قبلہ ہے، مسجد کا محراب بھی اس کا مرکزی مقام ہے اور بزرگ تر مقام۔ بنی اسرائیل کے محراب ان کی وہ مسجدیں تھیں جن میں وہ بیٹھا کرتے تھے اور نماز کے لئے جمع ہوتے تھے‘‘۔
٭ قرآن کریم میں جو آتا ہے۔
فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِه مِنَ الْمَحْرَاب.
علماء نے کہا وہ اپنی قوم کے پاس مسجد سے باہر آئے۔
المحراب اکرم مجالس الملوک.
’’محراب بادشاہوں کی سب سے بڑی عزت والی نشست‘‘۔
المحراب سيد المجالس ومقدمها واشرفها.
’’محراب مجالس میں اعلیٰ ترین جگہ، سب سے آگے، سب سے بزرگ تر‘‘۔
العرب تسمی القصر محرابا لشرفه.
’’عرب محل کو محراب کہتے ہیں اس کی بزرگی کی وجہ سے‘‘۔
وقيل المحراب الموضع الذی ينفرد فيه الملک فيتباعد من الناس.
’’ اور کہا گیا ہے کہ محراب وہ جگہ ہے جس میں صرف اکیلا بادشاہ ہوتا ہے اور لوگوں سے (حفاظتی نکتہ نظر سے) دور رہتا ہے‘‘۔ (لسان العرب، 3 : 102 طبع بیروت)
(شرح تاج العروس من جواہر القاموس سید مرتضیٰ زبیدی ص 207 ج 1)، ( النہایہ لابن الاثیر الجذری ص 359 ج 1 طبع ایران)، (مفردات راغب اصفہانی ص 112 طبع کراچی)، ( الجامع لاحکام القرآن للقرطبی ص 58 ج 11)
المحراب الموضع العالی الشريف.
’’محراب بلند و بزرگ مقام‘‘۔
قال الاصمعی المحراب الغرفة.
’’اصمعی نے کہا محراب کا معنی ہے کمرہ‘‘۔
(الجامع الاحکام القرآن للقرطبی ص 58 ج 11)
٭ علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں :
’’ان کے زمانے میں مقصورہ اس کمرے کو کہتے تھے جو مسجد کی قبلہ والی دیوار کے اندر کی طرف ہوتا تھا۔ جس میں حکمران نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ اور دشمن کے خطرے کی وجہ سے لوگوں کو اس کمرے میں نہیں جانے دیتے تھے۔ اس وجہ سے اختلاف ہوا کہ پہلی صف کون سی ہے؟ وہ جو اس کمرے کے اندر امام کے ساتھ والی ہے یا وہ جو باہر کی طرف سے کمرے کے ساتھ ملی ہوئی ہے؟ فقیہ ابواللیث سمر قندی نے دوسرا قول لیا ہے، تاکہ عام لوگوں کے لئے فضیلت کی گنجائش نکل سکے۔ اور ان کا ثواب ضائع نہ ہو‘‘۔ (شامی ص 569 ج 1)
اس تمام تحقیق کے بعد اب ہم غور کرتے ہیں کہ آیا محراب مسجد کا حصہ ہے یا نہیں؟۔ محراب میں آج کل محراب مسجد بھی شامل ہے۔ قبلہ کی طرف امام کا کمرہ بھی شامل ہے جسے محراب کہتے ہیں اور جس میں بادشاہ لوگ اپنے مسلح محافظوں کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔
خلاصہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں کسی مسجد میں محراب نہیں بنائی گئی۔ سب سے پہلے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حفاظتی نکتہ نظر سے محراب تعمیر فرمائی۔
امیرالمومنین اسی محراب سے اپنے گھر آتے جاتے تھے۔ محراب میں گھر کی طرف کھلنے والا دروازہ ہوتا تھا۔ محراب میں امیرالمومنین نماز کی امامت کے لئے کھڑے ہوتے پیچھے محافظ دستہ ہوتا تھا۔
بعض فقہاء کرام نے فرمایا یہ محراب مسجد سے زائد ہوتا تھا۔ مسجد میں داخل نہ تھا۔ لہذا آج کل مسجد میں جو محراب ہے وہ مسجد سے خارج ہے اس لئے وہ فرماتے ہیں کہ امام مسجد کے پاؤں محراب سے باہر ہونے چاہئیں ورنہ امام اور مقتدیوں میں فاصلہ ہوجائے گا اور مقتدیوں کی اقتداء درست نہ ہوگی۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ آج کل محراب مسجد سے خارج نہیں مسجد ہی کا حصہ ہے۔ لہذا نماز میں فرق نہیں پڑتا۔ قرآن کریم میں درج محراب کا مطلب مسجد اور کمرہ ہے۔ محراب کا وہ معنی نہیں جو ہم آج مراد لیتے ہیں اور جسے محراب مسجد کہتے ہیں۔ یہ محراب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور سے بنایا گیا ہے۔ لہذا دونوں باتیں درست ہیں یعنی موجودہ محراب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں نہیں ہوتا تھا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ابتدا فرمائی۔ مگر یہ مسجد سے خارج نہیں اس میں داخل ہے یا یہ ایک مسجد کا توسیعی حصہ ہے جو امیرالمومنین کی حفاظتی تدابیر کے طور پر تعمیر ہوا۔
سوال : کیا جناز گاہ کو مسجد بنا کر اس میں مدرسہ و مسجد اور جناز گاہ کو جمع کیا جاسکتا ہے نیز مسجد میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بارے میں وضاحت فرمائیں؟
جواب : جنازہ گاہ میں پانچوں نمازیں ادا کرنا یا مدرسہ وغیرہ کا اجراء، اگر صحیح العقیدہ مسلمانوں کی طرف سے ہے تو بہتر ہے۔ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ البتہ نماز جنازہ ادا کرتے وقت میت کی چارپائی رکھنے کے لئے اگر مسجد سے باہر جگہ بنائی جائے اور باقی نمازی مسجد میں بھی کھڑے ہوجائیں تو حرج نہیں۔ میت کو مسجد سے باہر اس لئے رکھتے ہیں کہ مسجد کی تلویث نہ ہو۔ اگر تلویث مسجد کا خطرہ نہیں۔ میت صحیح حالت میں ہے تو مسجد میں میت رکھ کر نماز جنازہ ادا کرنا بھی جائز ہے اور سنت سے ثابت ہے۔ اگر ایک عبادت گاہ سے دیگر دینی کام بھی بلا کسی شرعی خرابی کے لئے جانے ممکن ہوں تو ضرور لیں، شرعاً پوری گنجائش ہے۔
حدیث پاک سے
عن ابی سلمة بن عبدالرحمن ان عائشة لما توفی سعد بن ابی وقاص (رضی الله عنه) قالت ادخلوا به المسجدا صلی عليه فانکر ذلک عليها فقالت والله لقد صلی رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم علی ابنی بيضاء فی المسجد سهيل واخيه.
’’ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا۔ انہیں مسجد میں لاؤ تاکہ میں (بھی) ان پر نماز جنازہ پڑھ سکوں۔ اس پر انکار کیا گیا۔ آپ رضی اللہ عنھا نے فرمایا، خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور ان کے بھائی پر مسجد میں نماز جنازہ پڑھی ہے‘‘۔ (مسلم)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اشعہ اللمعات میں لکھا ہے کہ مسجد میں جنازہ مکروہ تنزیہی ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ تمام ازواج مطہرات کے مطالبہ پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد میں ادا کیا گیا، ان عصمت مآبوں کو جب خبر پہنچی کہ لوگوں نے اسے برا کہا اور کہا کہ جنازے مسجدوں میں داخل نہیں کئے جاتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
مااسرع الناس الی ان اجيبوا مالا علم لهم به عابوا علينا ان يمر بجنازه فی المسجد وما صلی رسول الله علی سهيل بن بيضاء الافی جوف المسجد.
’’لوگ جس بات کو جانتے نہیں کتنی جلدی اس پر عیب لگا دیتے ہیں۔ ہم پر عیب لگا کہ مسجد میں جنازہ لایا گیا ہے۔ حالانکہ سہیل بن بیضاء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں ہی تو نماز جنازہ ادا فرمایا تھا‘‘۔ (مسلم ص 333 ج 1)
٭ ایک روایت میں ہے جب میت مسجد سے باہر ہو اور لوگ مسجد کے اندر، تو نماز مکروہ نہیں۔ اگر ممانعت کی علت موجود ہو یعنی تلویث مسجد کا خوف ہو، تو پھر اس صورت میں مکروہ نہ ہوگی، جب میت مسجد سے باہر ہو۔ صرف جنازہ یا کچھ نمازی بھی۔
یہی بات حق ہے کہ میت کی حالت غیر ہو مثلاً جسم سے خون، پیپ، پانی وغیرہ نکل رہا ہے یا کسی اور طرح سے تلویث مسجد کا ڈر ہو۔ مثلاً کئی دن گذر چکے ہیں اور لاش سے تعفن و بدبو آرہی ہے تو میت ہرگز مسجد میں نہ لائی جائے اور مسجد سے باہر رکھ کر جنازہ ادا کیا جائے خواہ نمازی باہر ہوں خواہ اندر اور اگر میت کی حالت نارمل ہے اور تلویث مسجد کا کوئی امکان نہیں تو نماز جنازہ بلا کراہت مسجد میں جائز ہے۔ مسلمان قابل احترام ہے، زندہ ہو یا مردہ۔ ہاں اگر اس کا جسم صاف نہ ہو تو مسجد میں اس کا آنا جائز نہیں خواہ زندہ ہو جیسے جنبی، حائض، نفساء یا وہ میت جس کے جسم سے کچھ نکلتا ہو، یا بدبو آنے لگے۔