شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب
محفل سماع اور مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تحریک منہاج القرآن اور اس کے جملہ فورمز کا مشترکہ ورکرز کنونشن مورخہ 5 جولائی کو بغداد ٹاون، ٹاون شپ میں منعقد ہوا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس پروگرام کی صدارت کی جبکہ تحریک منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے صدر محترم صاحبزادہ حسن محی الدین قادری اور ممبر سپریم کونسل محترم صاحبزادہ حسین محی الدین قادری مہمان خصوصی تھے۔ امریکہ سے آنے والے تحریک خالصتان کے صدر سردار گنگا سنگھ ڈھلوں نے بھی اس پروگرام میں خصوصی طور پر شرکت کی۔ ان کے علاوہ آستانہ عالیہ کوٹ مٹھن شریف سے محترم خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، محترم خواجہ قطب الدین فریدی اور محترم خلیل الرحمن چشتی بھی معزز مہمانوں میں موجود تھے۔ ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض، سفیر یورپ محترم علامہ حافظ نذیر احمد، ممبر سپریم کونسل تحریک منہاج القرآن برائے نارتھ امریکہ محترم فہیم انور رندھاوا، ناظم امورخارجہ محترم جی ایم ملک، محترم اختر رسول، محترم خواجہ محمد جنید، معروف شاعر محترم انوار المصطفیٰ ہمدمی اور جملہ مرکزی قائدین بھی معزز مہمانوں میں شامل تھے۔ ملک بھر سے تحریک منہاج القرآن کے کارکنان و عہدیداروں کے علاوہ منہاج القرآن ویمن لیگ کی ہزاروں خواتین شریک تھیں۔
نماز مغرب کے بعد پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ اس کے بعد نعت مبارکہ بھی پیش کی گئی۔ کنونشن سے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی اور نائب ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض نے خطاب کرتے ہوئے کارکنان کو ورکنگ پلان اور دیگر تنظیمی امور کے حوالے سے بریف کیا۔ منہاج یوتھ لیگ کے صدر محمد بلال مصطفوی نے کمپئرنگ کی جبکہ معروف شاعر انوار المصطفیٰ ہمدمی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو اپنے مخصوص انداز میں دعوت خطاب دی۔ اس موقع پر ملک بھر سے آئے ہزاروں کارکنان نے بھرپور نعروں کے ساتھ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا استقبال کیا۔
خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
’’تحریک اور کارکن کا رشتہ‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا کہ تاریخ انسانی کا ہر دور اپنے اپنے حالات کے مطابق تحریکوں کے ساتھ بھرا پڑا ہے۔ تحریک ہمیشہ ایک مقصد کے لئے ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اس کی ایک منزل ہوتی ہے۔ اگر تحریک کا مقصد کارکنانِ تحریک کی نظروں سے اوجھل ہوجائے تو وہ تحریک، تحریک نہیں رہتی، بنیادی سرمایہ، افرادی قوت، توانائیاں، محنتیں منتشر ہوجاتی ہیں۔ تحریک کا ہمیشہ منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہنا اس صورت ممکن ہے جب کارکنان کی نظروںسے تحریک کا مقصد / منزل اوجھل نہ ہو۔
تحریک اور اس کے کارکنان کا رشتہ منزل کے ساتھ کیا ہے؟۔ ۔ ۔ وہی رشتہ ہے جو ایک نمازی کا رشتہ قبلہ سے ہے۔ ۔ ۔ اگر چہرہ قبلہ سے پھر جائے تو نماز نہیں ہوتی۔ نماز کی تمام ماقبل شرائط پوری کرلیں مگر رخ قبلہ کی طرف نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی۔ دوران نماز بھی چہرہ کا قبلہ سے پھرنا نماز کو توڑ دیتا ہے۔ جب نماز سے باہر نکلنا چاہتے ہو تو چہرہ کو دائیں بائیں پھیرنے (سلام) سے نماز سے نکل جاتے ہو۔ پس اس طرح کا رشتہ کارکنان کا تحریک کے مقصد اور منزل کے ساتھ ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے قبلہ نمازیوں کے لئے کیوں مقرر کیا گیا ہے؟ کیا کسی ایک سمت، جہت کو مقرر کرنا اللہ کی ذاتی ضرورت / حاجت ہے؟۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ کیا اللہ کو اپنی عبادت کے لئے کسی قبلہ کی ضرورت ہے؟ نہیں۔ ۔ ۔ اللہ کو کسی جہت کی حاجت نہیں ہے۔ عبد، معبود کے درمیان عبادت ایک رشتہ ہے۔ قرآن پاک میں جابجا ارشاد فرمایا:
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.
کبھی فرمایا: لِلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ.
کبھی فرمایا: أَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللّهِ.
اس کے باوجود قبلہ کیوں بنایا؟۔ ۔ ۔ سمت مقرر کیوں کی؟۔ ۔ ۔ یہ سمجھانے کے لئے کہ اگر نماز جیسا عظیم عمل بغیر کسی سمت کی طرف متوجہ ہوئے بغیر قبول نہیں تو دیگر اعمال بغیر کسی مقصد / منزل کے تعین کے کرتے رہو تو وہ اعمال کیسے قبول ہوسکتے ہیں۔ نماز کی قبولیت کی شرط جہت قبلہ مقرر کردی ہے تو اگر تمہاری زندگی کی جدوجہد، سعی، کاوشیں اور سوچیں، تحریک کی منزل و مقصد سے ہٹ جائیں تو اس کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔ نگاہیں منزل / مقصد سے ہٹانے سے مشکلات آتی ہیں۔ دنیا میں موافقت کا ماحول بھی جنم لیتا ہے اور مخالفت بھی آتی ہے مگر تحریک کا کارکن اپنی نگاہیں اپنے مقصد سے نہیں ہٹاسکتا۔
اس وقت قومی و بین الاقوامی سطح پر مختلف ایشوز پیدا کرنے کا مقصد قوم کو یکجہت اور یکسو ہونے سے روکنا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ.
یہ محبتیں ضرورت بھی ہیں اور آزمائش بھی۔ ۔ ۔ مال ضرورت بھی ہے اور آزمائش بھی۔ ۔ ۔ اولاد ضرورت بھی ہے اور آزمائش بھی۔ ۔ ۔ بیویاں ضرورت بھی اور آزمائش بھی۔ ۔ ۔ اقتدار ضرورت بھی ہے اور آزمائش بھی۔ ایک درجہ کے اندر رہنے تک وہ ضرورت اور اس درجہ کے باہر نکل جانے سے وہ آزمائش اور فتنہ ہے۔ حالات کے تغیر سے حکمت عملی تبدیل ہوتی رہتی ہے مگر منزل وہی رہتی ہے۔ حکمت عملی اور منزل کے فرق کو ملحوظ رکھیں۔ شکوک و شبہات اسی سے جنم لیتے ہیں۔ نماز میں آپ نے کئی حالتیں تبدیل کیں۔ قیام، رکوع، سجدہ، قومہ، یہ تمام حکمت عملی کی تبدیلیاں ہیں مگر منزل / مقصد ایک ہے اور چہرہ قبلہ (مقصد) ہی کی طرف ہے۔ جب قرآن پڑھنا تھا تو کھڑے ہوکر ادب سے پڑھا۔ ۔ ۔ تسبیح کا وقت آیا تو جھکادیا۔ ۔ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام کا وقت آیا ادب سے بیٹھ کر پڑھنے کا حکم دیا۔
یاد رکھ لیں کہ پائیدار صرف دلوں پر حکومت ہے اور دلوں پر حکومت صرف کردار ہی سے ممکن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری حیات مبارکہ میں مختلف حکمت عملیاں اختیار کیں مگر منزل ایک ہی رہی۔ میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ، جنگیں، ہجرتیں یہ سب حکمت عملی کی تبدیلیاں ہی ہیں۔
کارکنان یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ حالات کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ایشوزمیں نہ الجھنا ہے اور نہ ان سے ٹکرانا ہے۔ آپ کے عظیم مقصد کے سامنے یہ سب چھوٹے چھوٹے بونے ہیں۔ ۔ ۔ یہ وہ مسافر ہیں جن کی منزل اقتدار کے سوا کچھ نہیں۔
ہمارا کسی جماعت کے ساتھ کوئی Clash نہیں۔ ۔ ۔ ادھر ادھر کی چکا چوند روشنیاں میں دل کو نہ لگائیں، یہ عارضی روشنیاں ہیں۔ ۔ ۔ جگنو چمکتا بھی ہے اور پھر بجھ بھی جاتا ہے۔ آپ اپنی تمام تر توجہات تنظیم سازی، کارکن سازی، ماڈل شہروں میں لگادیں۔ گوشہ درود کے حلقہ جات کا یونین کونسل تک جال بچھادیں۔ عرفان القرآن کورسز کا اجراء ہر جگہ پر ہو۔ اجتماعی اعتکاف کی تیاری
الحمد للہ تحریک منہاج القرآن مادیت زدہ دور میں ہر مخالفت کے باجود اپنا عظیم سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سفر میں کارکنان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کارکنان پہلے سے زیادہ محنت کر کے تحریک منہاج القرآن کے پیغام کو قریہ قریہ، نگر نگر اور گھر گھر جا کر پھیلائیں۔ ان شاء اللہ ایک دن آئے گا جب ظلمت کی اندھیری شب چھٹ جائے گی۔
یہ بات یاد رکھ لیں کہ پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے اور بفضل تعالیٰ قیامت تک قائم و دائم رہے گا۔ آج جو لوگ اسکی سالمیت کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں وہ نہیں رہیں گے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بظاہر آزاد اسلامی ممالک میں سے بیشتر اپنی پالیسیوں میں آزاد نہیں رہے بلکہ غیر ملکی سامراج طاقتوں کے آلہ کار بن کر رہ گئے ہیں۔ دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی خادم اور ورکر وہ ہے جو حالات و واقعات اور زمانے کے تغیرات سے متاثر نہ ہو بلکہ ہر طرح کے حالات میں اپنی منزل کی جانب گامزن رہے۔ ایک سازش کے تحت آج دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے اور سامراجی طاقتیں اسلام کو بدنام کرنے کیلئے مختلف اقدامات میں مصروف عمل ہیں۔ تحریک کے ورکرز امن کے پیامبر کے طور پر اپنا مثالی کردار دنیا کے سامنے رکھیں اور تقویٰ و طہارت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی مخلوق کے کام آنے کے عمل کو بھی جاری رکھیں اور ان کے دلوں میں گھر کریں۔ دہشت گردی، انتشار اور تفرقہ کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے بلکہ اسلام حقیقتاً مذہب امن ہے۔
نئی ذمہ داریاں
اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے درج ذیل احباب کو مختلف مرکزی ذمہ داریاں تفویض کرنے کا اعلان فرماتے ہوئے انہیں خصوصی مبارکباد دی۔
1۔ محترم سردار منصور خان (ناظم تنظیمات)، 2۔ محترم فاطمہ مشہدی (صدر ویمن لیگ)، 3۔ محترم ڈاکٹر تنویر اعظم سندھو (ناظم تربیت)، 4۔ محترم پروفیسر سلیم احمد (نگران ناظم تربیت)، 5۔ محترم میاں عبدالقادر قادری (مرکزی کوآرڈینیٹر) حلقہ ہائے درود / عرفان القرآن کورسز، 6۔ محترمہ سمیرا رفاقت (ناظمہ ویمن لیگ)، 7۔ محترم بلال مصطفوی (صدر یوتھ)، 8۔ محترم ظہیرالدین گجر (سیکرٹری جنرل یوتھ)، 9۔ محترم ذیشان بیگ (صدر ایم ایس ایم)، 10۔ محترم ساجد گوندل (سیکرٹری جنرل MSM)
محفل سماع
ورکرز کنونشن کے معاً بعد محفل سماع کا اہتمام تھا۔ محفل سماع کے انعقاد اور انتظامات کا سہرا حسب سابق منہاجینز کے سپرد تھا جنہوں نے ناظم منہاجینز محترم علامہ رانا محمد ادریس قادری اور محترم جواد حامد کی زیر نگرانی تمام امور کو احسن طور پر انجام دیا۔ محفل سماع کا باقاعدہ آغاز شب ساڑھے گیارہ بجے تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ اس موقع پر محترم قاری ظہیر احمد اور محترم قاری اللہ بخش نقشبندی نے تلاوت قرآن پاک کا شرف حاصل کیا۔ محترم محمد افضل نوشاہی نے درود پاک اور نعت مبارکہ پیش کی۔
محفل سماع کے پہلے حصہ میں برصغیر پاک و ہند کے قوال استاد نصرت فتح علی خان کے شاگرد اور بھتیجے محترم راحت فتح علی خان اور ہمنوا نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں لکھے گئے کلام "دم ہما دم علی علی"۔ ۔ ۔ "سانسوں کی مالا پہ سمرو میں‘‘۔ ۔ ۔ اور دیگر کلام بڑی محبت سے پیش کئے۔ محفل سماع کے پہلے حصہ کے اختتام پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے محترم راحت فتح علی خان کی تاجپوشی کی۔ یہ تاج تحریک منہاج القرآن کی طرف سے محترم راحت فتح علی خان کی قوالی کے لیے خدمات کو سراہتے ہوئے پیش کیا گیا۔ اس سے قبل تحریک منہاج القرآن کی نظامت دعوت کی طرف سے صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کو شادی کی مبارکباد کے طور پر تاج پہنایا گیا اس کے علاوہ صاحبزادہ حماد مصطفیٰ قادری المدنی کی بھی تاجپوشی کی گئی۔ تاجپوشی کی اس رسم کو محترم پیر خلیل الرحمن چشتی نے ادا کیا۔
محفل سماع کے دوسرے حصہ میں ملک پاکستان کے نامور قوال محترم شیر علی اور محترم مہر علی نے اپنے ہمنواؤں کے ساتھ قوالیاں پیش کیں۔ انہوں نے "تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا‘‘۔ ۔ ۔ ’’میرا پیا گھر آیا‘‘۔ ۔ ۔ ’’آؤ تسبیح صبح و شام کریں‘‘۔ ۔ ۔ ’’پکارو شاہ جیلاں کو پکارو‘‘۔ ۔ ۔ سمیت کئی قوالیاں پیش کرتے ہوئے داد وصول کی۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے شیر علی اور مہر علی کی بھی تاجپوشی کی اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ محفل سماع کی نقابت کے فرائض محترم حافظ آصف علی نے انجام دیئے۔
مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محفل سماع کے بعد گوشہ درود کی ماہانہ مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پروگرام ہوا۔ اس موقع پر گوشہ درود میں پڑھے جانے والے درود پاک کی رپورٹ پیش کی گئی۔ جس کے مطابق ماہ جون میں پڑھے جانے والے درود پاک کی تعداد 27 کروڑ 80 لاکھ 8 ہزار 7 سو 37 ہے جبکہ ٹوٹل تعداد 5 ارب 14 کروڑ 48 لاکھ 10 ہزار 709 ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے رقت آمیز دعا فرمائی۔ دعا کے فوری بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی امامت میں نماز فجر ادا کی گئی۔ شرکاء نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں درود و سلام کے گجرے پیش کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے۔