حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ راوی ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ اَعْظَمَ الْمُسْلِمِيْنَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَئْیٍ لَمْ يُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ مِنْ اَجَلِ مَسْأَلَتِه.
(بخاری، کتاب الاعتصام)
’’مسلمانوں میں اس شخص کا جرم سب سے بڑا ہے، جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا، حالانکہ وہ چیز مسلمانوں پر حرام نہیں تھی، مگر اس کے سوال کی وجہ سے حرام کردی گئی‘‘۔
خلاصہ
انسان، اللہ کا بندہ اور اس کی مخلوق ہے، اس لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ اس کی عبادت اور اطاعت کرے اور اپنے ذخیرہ حسنات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرے اور قیامت کے دن اپنے مالک کے حضور ایک فرمانبردار کی حیثیت سے نیکیوں کے انبار لے کر حاضر ہو اور اعمال صالحہ کی ایک قابل قدر مقدار اس کے اعمال نامہ میں درج ہو۔ بعض اعمال ایسے ہیں جو بڑے ہی پیارے، پرنور مفید اور انسانیت کا حسن ہیں، جن پر عمل سے سیرت و کردار اور ایمان و تقویٰ کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور انسان اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے سرشار ہوجاتا ہے اور ان کی بدولت قرب و حضور کی ایمان افروز کیفیات محسوس کرتا ہے مگر ان اعمال کا واضح صورت میں حکم نہیں دیا گیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان پر عمل مناسب نہیں بلکہ بدعت اور ناجائز ہے۔
اس سلسلے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت نے امت کی دستگیری فرمائی ہے اور ایک قانون عطا فرمایا ہے کہ جن اعمال سے طبع و مزاج میں بندگی کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں اور انسان ان سے لذتِ حضور محسوس کرتا ہے، ان پر عمل جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے تاکہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور ان کی رضاء حاصل ہو اور وہ نیک اعمال کرنے کی بھی توفیق نصیب ہو جو حسین و مفید ہیں اور نوافل کے زمرے میں آتے ہیں۔
اس طرح انسان ان اعمال کا ثواب بھی حاصل کرے جو اس پر فرض نہیں اور نیکیوں کے حصول کے لئے اہل ایمان کا قافلہ، بہشت بریں کی طرف اسی طرح رواں دواں رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت پر اپنی بے پایاں شفقت و رحمت کا سایہ فرماتے ہوئے، امت کو اجازت دی ہے کہ وہ ایسے اعمال کرتی رہے، جن میں حسن و دلکشی اور پاکیزگی ہے اور اہل ایمان انہیں حسین و بہترین تصور کرتے ہیں، چاہے دور ارل میں ان کی کوئی مثال یا کوئی واضح حکم نہ ملتا ہو۔
اس مضمون میں اسی قانونِ رحمت و شفقت کی تفصیل ہے۔
شرح و تفصیل
انسان جو کام کرتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں :
- ایک قسم ان اعمال کی ہے جن کا کرنا ضروری ہے، انہیں ’’اوامر‘‘ کہتے ہیں۔
- دوسری قسم ان اعمال کی ہے جن کانہ کرنا ضروری ہے، انہیں ’’نواہی‘‘ کہتے ہیں۔
- تیسری قسم ان اعمال کی ہے جن کا نہ تو کرنا ضروری ہے اور نہ ہی کرنا، انہیں ’’مباحات‘‘ کہتے ہیں۔
اوامر و نواہی اور مباحات یعنی افعال کی ان تینوں قسموں کی تفصیل اور پہچان یہ ہے۔
1۔ اوامر
اوامر ان شاندار شائستہ، پاکیزہ اور نتیجہ خیز اعمال کو کہتے ہیں جو کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور تشکیلِ سیرت و تعمیر خودی کا موثر ترین ذریعہ ہیں۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں واضح احکام دیئے ہیں کہ لوگ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان پر مواظبت کریں اور دل و جان سے ان کے پابند رہیں۔ اوامر کی پابندی کرنے والے کو مومنِ قانت، فرمانبردار، صالح اور اطاعت شعار کہتے ہیں۔ ایسے شخص کے لئے بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوگا اور اس کی رحمت اسے آغوش محبت میں لے کر دائمی نعمتوں والے مسکن میں پہنچادے گی۔
2۔ نواہی
نواہی سے وہ افعال مراد ہیں جو گندے، بے ڈھب، خلاف انسانیت اور نامعقول ہیں اور خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن کو حرام قرار دیا ہے اور بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان سے اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دیں اور خود کو بہر صورت ان سے بچائیں اور دور رکھیں۔
نواہی کا ارتکاب کرنے والے کو فاسق و فاجر اور گناہ گار کہتے ہیں۔ ایسے شخص کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ سزا پائے گا اور اپنی بدعملی کی متشکل صورتوں کو خوفناک اور اذیت رساں شکل میں دیکھے گا۔
اوامر پر عمل پیرا ہونے اور نواہی سے بچنے کا حکم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اس حدیث پاک میں دیا ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں :
اِذَا نَهَيْتُکُمْ عَنْ شَيْئٍ فَاجْتَنِبُوْهُ وَاِذَا اَمَرَتُکُمْ بِاَمْرٍ فَاتُوْا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ.
’’جب ہم کسی چیز سے روکیں تو رک جاؤ اور جب کسی کام کا حکم دیں، تو مقدور بھر اس پر عمل کیا کرو‘‘۔
3۔ مباحات
مباحات سے وہ پاکیزہ و پرنور افعال مراد ہیں جو انسانی عظمت، دنیاوی وقار اور دین کی روح کے منافی نہیں ہوتے اور تہذیب و شائستگی اور دینی وملی تقاضوں کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ کسی انسان کو ان اعمال میں مصروف دیکھ کر، دیکھنے والا پہلی ہی نظر میں جان لیتا ہے کہ یہ شخص پکا مسلمان، دین دار اور مخلص انسان ہے جو خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ملک و ملت سے اپنی وابستگی کا اظہار کررہا ہے۔
ایسے افعال کو ان کی ہمہ گیر افادیت اور خوبی کے باوجود جو چیز انہیں ’’اوامر‘‘ کی بجائے ’’مباحات‘‘ کے دائرے میں داخل کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ شارع صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ان کے بارے میں واضح احکام نہیں ہوتے، صرف پاکیزگی اور افادیت ہی ان میں حسن پیدا کرتی ہے اور امت کے لئے اسے جائز اور مباح فعل بناتی ہے۔
قانونِ مباحات
زمانہ تغیرات سے عبارت ہے، ہر آن نئے نئے امور و احوال جنم لیتے رہتے ہیں اور افعال و اعمال کی دنیا میں تغیر رونما ہوتا رہتا ہے۔ شفقتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارے میں ایک دو ٹوک اور واضح فیصلہ فرما دیا کہ کوئی شخص محض اس بناء پر کسی فعل کو ناجائز نہ ٹھہرائے کہ اس کا ’’اوامر‘‘ سے تعلق نہیں بلکہ یہ دیکھے کہ اس کی اہمیت کتنی ہے اور وہ کس حد تک جواں نسل کے قوائے عمل میں انقلابی روح پھونک سکتا ہے اور اسے دین سے قریب تر لاسکتا ہے۔ اگر اس میں اتنی افادیت اور جذب و کشش موجود ہو اور اہل ایمان محسوس کرلیں کہ اس عمل میں فائدہ ہی فائدہ اور حسن ہی حسن ہے تو بلا جھجھک اسے اپنالیں وہ جائز ہی ہوگا کیونکہ اہل ایمان نے اسے اچھا اور مفید سمجھا ہے۔ ارشاد گرامی ہے :
مَارَآهُ الْمومنون حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَاللّٰهِ حَسَنٌ.
’’جسے مومن اچھا سمجھیں وہ بات اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہوتی ہے‘‘۔
مباحات کے لئے دلیل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، ان کے بارے میں واضح ’’حکم کا نہ ہونا‘‘ اور ان میں ’’حسن کا موجود ہونا‘‘ ہی ان کے جواز کی دلیل ہوتا ہے۔ چونکہ بے جا اور غیر ضروری سوالات بھی، بعض اوقات کسی عمل کی فرضیت کا سبب بن جاتے ہیں اور دشواری پیدا کرتے ہیں اور یہ بات سہولت کے منافی ہے، اس لئے ان سے بھی روکا، فرمایا :
دَعُوْنِيْ مَاتَرَکْتُمْ فَاِنَّمَا اَهْلَکَ الَّذِيْنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَثْرَةُ مَسَائِلِهِمْ.
’’جب تک ہم کوئی حکم نہ دیں، تم کچھ نہ پوچھا کرو کیونکہ پہلے لوگوں کو سوالات کی کثرت ہی نے ہلاک کر دیا تھا‘‘۔
سوالات کی کثرت سے ہلاک ہونے کی صورت یہ تھی کہ وہ کسی کام کے بارے میں اپنے انبیاء کرام سے خواہ مخواہ پوچھتے رہتے تھے، حالانکہ واضح حکم نہ ہونے کی وجہ سے وہ کام ان کے لئے مباح ہوتا تھا، وہ اوامر میں سے نہیں ہوتا تھا کہ اس کا کرنا ضروری ہو اور نہ ہی نواہی میں سے ہوتا تھا کہ اس سے بچنا ضروری ہو، لیکن وہ بے وجہ سوالات کرتے رہتے تھے کہ فلاں کام کریں یا نہ کریں؟ فلاں کام کس طرح یا کس وقت کریں؟ جس کے نتیجے میں ان افعال کے بارے میں قطعی احکام نازل ہوجاتے تھے اور ان افعال کو مکمل طور پر فرض یا قطعی طور پر حرام کردیا جاتا تھا۔ اب فرض کی صورت میں ان پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا اور حرمت کی صورت میں بچنا لازم ہوجاتا، وہ ان پابندیوں کو برداشت نہ کرسکتے اور احکام خداوندی سے سرتابی کے مرتکب ہوتے، جس کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیا جاتا۔
اس کی واضح مثال وہ واقعہ ہے جب بنی اسرائیل میں ایک شخص کو قتل کردیا گیا، قاتل کا پتہ نہیں چلتا تھا، حکم دیا گیا ایک گائے ذبح کرکے اس کا گوشت مقتول کے جسم کے ساتھ لگاؤ، وہ زندہ ہوجائے گا اور قاتل کا نام بتادے گا۔ یہ ایک راز تھا، مگر بنی اسرائیل نے بے چون و چرا اس پر عمل کرنے کی بجائے، سوالات کا تانتا باندھ دیا، وہ گائے جواں ہو یا بوڑھی ہو۔ ۔ ۔ اس کا رنگ کیا ہو۔ ۔ ۔ اور وہ کیا کرتی ہو۔ ۔ ۔ ؟ ان کو جواب دیا گیا کہ وہ درمیانی عمر کی ہو، اس کی رنگت پیلی اور بہت دلکش ہو، جو دیکھنے والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرے اور اس سے کاشت کاری اور آبپاشی کا کام نہ لیا جاتا ہو، بلکہ وہ اپنے مالکوں کی نظر میں بڑی محترم اور پیاری ہو۔
اپنے بے ڈھب سوالات کے باعث وہ ان باتوں کے پابند ہوگئے، حالانکہ اگر وہ سوالات کرنے کی بجائے کوئی سی گائے بھی ذبح کردیتے تو فرمان الہٰی پر عمل ہوجاتا۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے معنی اور غیر ضروری سوالات کو پسند نہیں فرماتے تھے اور قول و عمل سے انہیں سمجھاتے رہتے تھے کہ غیر ضروری سوالات کو معمولی جرم نہ سمجھیں چنانچہ ایک موقعہ پر فرمایا :
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ راوی ہیں :
اِنَّ اَعْظَمَ الْمُسْلِمِيْنَ فِی الْمُسْلِمِيْنَ جُرْمًا مَنْ سَاَلَ عَنْ شَيْئٍ لَمْ يُحَرَّمْ عَلَی الْمُسْلِمِيْنَ وَحُرِّمَ مِنْ اَجَلِ مَسْئَلَتِه.
’’مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا، حالانکہ وہ مسلمانوں پر حرام نہیں تھی مگر اس کے سوال کی وجہ سے حرام کردی گئی‘‘۔
بے جا سوالات کی ممانعت
انسانی طبیعت میں کریدنے کا مادہ بہت زیادہ موجود ہے خصوصاً اس کے ذوق تجسس میں اس وقت بے پناہ تموج پیدا ہوجاتا ہے جب اسے یہ تسلی ہوتی ہے کہ میرے سامنے جو بے مثال و یکتا ہستی موجود ہے وہ علم کا بحر ذخار اور حکمت و بصیرت کا سرچشمہ ہے اور اس سے پوچھا گیا کوئی سوال بھی تشنہ تکمیل نہیں رہے گا۔ ایسی صورت میں اس کے متجسس ذہن میں امڈ مڈ کر سوالات آتے ہیں اور وہ موقعہ و محل کی نزاکت کا احساس کئے بغیر سب کچھ بے تکاں، پوچھتا چلا جاتا ہے۔
ایک دفعہ اسی طبع و مزاج کے کچھ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سوالات کئے جنہیں آپ نے پسند نہ فرمایا اور ٹال دیا، انہوں نے پھر وہی سوالات کئے، انہیں سمجھایا گیا کہ یہ طریقہ درست نہیں ہے، اس سے باز آجاؤ، مگر بات ان کی سمجھ میں نہ آئی اور وہ ممانعت کی حکمت سمجھنے سے قاصر رہے۔
آخر ایک روز ان سوالات نے جب کثرت کی صورت اختیار کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزاج مبارک میں غضب کے آثار نمایاں ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر شریف پر رونق افروز ہوئے اور جاہ وجلال کے عالم میں ارشاد فرمایا :
اب ایک ہی دفعہ تمام سوالات کر ڈالو، جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو جب تک ہم یہاں موجود ہیں تمہارے ہر سوال کا جواب دیں گے۔
لَا تَسْأَلُوْنِيْ الْيَوْمَ اِلَّا بَيَنْتُه لَکُمْ. مَنْ اَحَبَّ اَنْ يَسْاَلَنِيْ عَنْ شَيْئٍ فَلْيَسْاَلْنِيْ عَنْهُ فَوَاللّٰهِ لَاتَسْاَلُوْنِيْ عَنْ شَيْئٍ اِلَّا اَخْبَرْتُکُمْ بِه مَادُمْتُ فِيْ مَقَامِيْ هٰذا.
’’جو شخص جو کچھ پوچھنا چاہتا ہے، وہ ہم سے پوچھ لے، خدا کی قسم! جب تک یہاں موجود ہیں، تم جو کچھ پوچھو گے ہم تمہیں اس کا شافی جواب دیں گے‘‘۔
حاضرین نے جب غضب و جلال کی یہ کیفیت دیکھی تو سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کے تصورنے انہیں بے قرار و پریشان کردیا اور وہ سب کچھ بھول کر تھر تھر کانپنے اور گریہ زاری کرنے لگے۔
فَاِذَا کُلُّ رَجُلٍ لَافٌ رَاسَه فِيْ ثَوْبِه يَبْکی.
’’ہر آدمی گریبان میں منہ دے کر رونے لگا‘‘۔
وَاَکْثَرَ رَسُوْلُ اللّٰهِ اَنْ يَقُوْلَ سَلُوْنِيْ.
’’اور حضور یہی فرماتے رہے۔ پوچھو‘‘۔
حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے اپنے نسب کے بارے میں اپنی برادری اور جاننے والوں میں مشکوک و مطعون تھے، جب بھی ان کی کسی سے ان بن ہوتی تو انہیں فوراً نسب کے حوالے سے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا، جس سے انہیں بہت تکلیف پہنچتی اور ذہنی صدمہ ہوتا۔
اس موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ پوچھنا بڑی جرات کی بات تھی مگر وہ روز روز کی جھک جھک سے تنگ آئے ہوئے تھے، دل میں سوچا کہ آج اس بات کا فیصلہ ہو ہی جانا چاہئے، چنانچہ جی کڑا کرکے اٹھے اور سوال کیا : مَنْ اَبِيْ؟ میرا باپ کون ہے؟
آپ نے جواب دیا : اَبُوْکَ حُذَافَہُ ’’تیرا باپ حذافہ ہے‘‘۔ عبداللہ کے والد واقعی حذافہ تھے، ان کا صحیح النسب ہونا ثابت ہوگیا۔
آئندہ کے لئے تمام زبانیں بند ہوگئیں پھر کسی کو جرات نہ ہوئی کہ نسب کے حوالے سے انہیں طعنہ دے سکے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتا دیا تھا کہ ان کا نسب صحیح ہے۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مزاج شناسِ نبوت تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوگئے اور ان حسینِ الفاظ میں اپنی شانِ تسلیم و رضا اور عجز و نیاز کا اظہار کیا۔
رَضِيْنَا بِاللّٰهِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِيْنًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا وَّرَسُوْلًا.
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم اس بات پر راضی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے اور اسلام ہمارا دین اور آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے نبی اور رسول ہیں‘‘۔ (بخاری، 2 : 1082، 941)
ان نیاز مندانہ کلمات کا خاطر خواہ اثر ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غصہ جاتا رہا۔ آپ منبر شریف سے نیچے تشریف لے آئے۔
(بخاری، 2 : 1082، 941 مسلم، 2، 262، 263)