خونِ صد ہزارانجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
دینِ اسلام کو ابتداء سے ہی اَن گنت قربانیوں کا سامنا رہا ،کہیں شعبِ ابی طالب کی قیدیں توکہیں وادی طائف کے ظلم و ستم ،کبھی پاگل و مجنوں ہونے کے طعنے ملتے تو کبھی جان سے مار دیے جانے کی دھمکیاں۔۔۔ظلم و ستم کی یہ داستان جاری رہی یہاں تک کہ مسلمانوں اور پیغمبر اسلامaکو مکہ جیسا محبوب شہر بشکلِ ہجرت چھوڑنا پڑا ۔اسی طرح تبلیغِ اسلام میں کہیں میدانِ بدر ہے تو کہیں خندق کی آمائش جس سے یہ بات با آسانی سمجھ آتی ہے کہ اسلام حقیقتاً بے شمار قربانیوں کا ثمر ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں دینِ اسلام نے قربانیاں مانگی اور ایمانی جذبہ سے سرشار مؤمنین نے قربانیاں دیں۔ کتاب ِتاریخ کا ہر ورق قربانیوں سے لبریز ہے۔ حضرت بلال بن رباح،حضرت خبیب بن الارت، حضرت یاسر بن عامرl، مشرکینِ قریش اِن کو عرب کی جلادینے ولی گرمی میں گھر سے باہر لے جاتے تھے اور ان کے سینوں پر بڑے بڑے پتھر رکھتے تھے اور کبھی کبار تو ظلم کی انتہاء کرتے ہوئے ان کو لوہے کی زرہ پہناتے اور زنجیر سے صحراء کی گرم ریت پر گھسیٹتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر محمدaکی محبت دل سے نکالو گے تو ان عذابوں سے چھٹکارا حاصل کروگے۔ مگر ان صاحبانِ ایمانِ حقیقی کے پختہ ایمان کا یہ عالَم تھا کہ وہ ان اذیتوں کو برداشت کرتے تھے مگر ان کے ایمان میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔
خلفائے راشدین کے ادوار کو دیکھیں تو بھی قربانیوں کا ایک تسلسل نظر آتا ہے ۔ واقعہ کرب و بلا قربانیوں کی ایک عظیم داستان ہے۔ائمہ اربعہ کی حیات بھی قربانیوں سے بھری ہے، دیگر مفسرین، محدثین، متکلمین و ائمہ تصوف اسلام، عالمِ اسلام اور عالمِ انسانیت کیلئے اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق قربانیاں دیتے رہے الغرض ہر دور میں اسلام اور اہلِ اسلام نے قربانیوں کی تاریخ رقم کر دی۔
معزز قارئین! عصرِ حاضر میں اسیرانِ انقلاب کا وجود بھی قربانیوں کی ایک ایسی بے مثال داستان جو اسلاف کی یاد تازہ کر دیتی ہے ۔6 سال سے شہدائے ماڈل ٹاؤن و اسیرانِ انقلاب کو انصاف نہیں ملا، اسیران ِانقلاب حصولِ انصاف کے لیے عدالتوں کے چکرکاٹ رہے ہیں مگر کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ 17 جون 2014ء کے دن بدمست پولیس اہلکاروں نے بچوں، جوانوں ، بوڑھوں اور خواتین کو انتہائی سفاکی سے تشدد کا نشانہ بنایا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درندہ صفت محافظوں اور حکمرانوں نے 17 جون 2014ء کے دن ایک بکاؤ، کرایہ کی فورس کا کردار ادا کیا اور جرائم پیشہ بر سر اقتدار عناصر کے گھریلو محافظوں کی طرح ظلم کیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں خون بہانے والوں اور انسانیت پر حملہ کرنے والوں میں سے کسی کو 6 سال گزر جانے کے بعد بھی سزا نہیں ملی۔
مگر افسوس! جن افراد نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور ظلم کے خلاف مردِ حق بن کر اشرافیہ اور حکمرانوں کی غنڈہ گردی کے خلاف صدائے حق بلند کی، ان پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نام نہاد پنجاب پولیس نے دہشتگردی و قتل کے جھوٹے مقدمات درج کیے۔ ان جھوٹے مقدمات کی پیروی میں 5 سال کے طویل عرصے سے کم و بیش روزانہ کی بنیاد پر مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے اسیرانِ انقلاب موسم کی شدت سے بے نیاز اپنے اہل و عیال و اپنے کارو بارِ زندگی کو معطل کر کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوتے رہے۔ 5سال مسلسل سیکڑوں پیشیوں میں حاضری کے بعد 18 اپریل 2019ء کو اس ظالمانہ نظامِ عدل نے انہیں مزید 5 سال اور 7 سال کی قید با مشقت سزا سنا دی۔ سلام ہے ان جرأت و عظمت کے حامل کارکنوں کو جن کے صبر و استقلال کو یہ نظامِ جبر شکست نہ دے سکا۔ کم و بیش 15 ماہ کی قید با مشقت کے بعد انہیں ضمانت ملی اور وہ رہا ہوئے مگر یہ قید بامشقت بھی ان کے پائے استقلال میں لرزش پیدا نہ کر سکی ۔اس قید با مشقت کے دوران میں کسی کے عزیز فوت ہوئے کسی کو علاج کے لئے ہاسپٹل میں لایا گیا تو پوری قوم نے دیکھا کہ وہ زنجیریں پہنا کر لائے گئے ۔ان کا جرأت مندانہ کردار پیغام دے رہا تھا کہ
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
دوسری طرف اسیرانِ انقلاب کے ورثاء کا جذبہ ایثار بھی دیدنی تھا ۔چشمِ فلک نے کئی بار یہ نظارہ دیکھا کہ کبھی بوڑھی ماں کے آنسوں نے اور کبھی لاغر و بیمار باپ کی بے بسی دیکھ کر بہت سوں نے نظامِ صبر سے صلح کر لی ۔کبھی رشتہ داروں کے طعنے اور دامادوں کی دھمکیاں، کبھی بہنوں کے غمزدہ چہرے اور کبھی گھر والوں کے فاقے بڑے بڑے حوصلہ رکھنے والوں کو توڑ دیتے ہیں اور وہ درمیانی راہ اختیار کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں مگر آفرین ہے اسیرانِ انقلاب کے خاندانوں پر، جب ان سے ملیں تو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ لواحقین کا عزم، استقامت اور جذبہ دیکھ کر انسان حیران و ششدر ہو کر رہ جاتا ہے اور اپنے جذبات پر قابو رکھنا بس میں نہیں رہتا۔ اللہ پاک کا شکر ہے کہ جس طرح قائد انقلاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک جرأت مند اور باحوصلہ شخصیت ہیں اسی طرح ان کے کارکنان بھی پرعزم، پرجوش، حوصلہ اورصبرو ضبط والے ہیں۔ بھکر کے بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں کہ جن کے گھر کا واحد کفیل قید کر دیا گیا مگر ان کے لبوں پرکوئی حرف شکایت نہیں ہے، لیکن ان کے دل مطمئن ہیں کہ ان کے بیٹے کسی جرم پر جیل نہیں گئے بلکہ وہ مظلوموں کی آواز بنے اور انہیں انصاف دلوانے کی جدوجہد کرتے ہوئے پابندِ سلاسل ہوئے، اللہ ہمارے ساتھ ہے ہم اکیلے نہیں ہیں، اسیران کی فیملیز کی زبانوں پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے کہ ہم حق پر ہیں، ہمیں کوئی ندامت نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تربیت یافتہ یہ اسیران جیلوں میں بھی اسلام، امن، محبت اور رواداری کی خوشبو اور روشنی پھیلاتے رہے، وہ وہاں پر نمازیں پڑھاتے، درود و سلام پڑھتے، عبادت میں مصروف رہتے اور لوگوں کو دینی علوم اور کردار سے آشنا کرتے رہے۔ وہ اسیران اپنے قائد کے احکامات جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی بجا لاتے رہے۔ بالیقین اللہ نے اس عارضی تکلیف کے ساتھ بھی ان کے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی ہوں گی۔
انسداد دہشتگردی عدالت سرگودھا نے جب 107 کارکنان کو سزائیں سنائیں تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس خبر پر سنگین دکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ بے گناہ اور مظلوم کارکنان کو انصاف ملے گا اور انہیں انصاف اور رہائی دلوانے کی جدوجہد کرتے رہیں گے۔ اسیران ظلم کے خلاف سراپااحتجاج تھے اور مظلوموں کا ساتھ دے رہے تھے۔ ان شاء اللہ ان کا بال بھی بیکا نہیں ہو گا اور بہت جلد وہ رہا ہوں گے۔
شیخ الاسلام کی انہی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ آج اللہ کا شکر ہے کہ تحریک منہاج القرآن کی جملہ اعلیٰ سطح اور خصوصاً ضلع بھکر کی قیادت اورعوامی تحریک کے جملہ وکلاء کی جہدِ مسلسل سے تحریک منہاج القرآن کے تمام اسیرانِ انقلاب کی لاہور ہائیکوٹ سے ضمانتوں پر رہائی کے احکامات صادر ہوئے ہیں۔ وہ منظر بھی دیدنی تھا کہ جب 15 ماہ کی قید کے بعد اسیرانِ انقلاب رہا ہوئے تو کسی ایک کے چہرے پر مایوسی اور پریشانی نہ تھی بلکہ ہر ایک کی زبان پر یہ نعرہ تھا کہ یہ تو چند ماہ کی قید تھی، ملک میں امن و سلامتی اور انصاف کی بالا دستی کیلئے ہماری جان بھی حاضر ہے۔ اللہ کریم کا بے حد و حساب شکر ہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے