اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نواسہ رسول سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی عظیم شخصیات صرف اہل اسلام کے عوام و خواص ہی نہیں،غیر مسلموں کے نزدیک بھی چنداں محتاجِ تعارف نہیں۔ انہیں یہ عظمت و رفعت اور چہار دانگ عالم میں شہرت محض وہبی فضائل و مناقب (مثلاً اہل بیت رسول میں پیدا ہونا، براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نواسہ ہونا، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے حد درجہ محبت و شفقت کا ملنا، سیدۃ النساء اہل الجنۃ سیدۃ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا لخت جگر اور حیدر کرار سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا نورِ نظر ہونا، شکل و شباہت اور چال ڈھال میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ ہونا، قریش اور سادات میں سے ہونا، مدینہ منورہ میں پیدا ہونا وغیرہ) کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کے کسی کمالات مثلاً اخلاقی پاکیزگی، مکارم اخلاق، خدمت اسلام اور راہِ خدا میں اپنی اور اپنے اہل خانہ کی شہادت اور منفرد ایثار و قربانی وغیرہ کی بدولت ہے۔
تذکرہ نگاروں کے مطابق سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی ولادت (شعبان 4ھ) پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ملا کر انہیں گھٹی ڈالی اور خود زبان نبوت سے ان کے کان میں اذان (اللہ اکبر، اللہ اکبر) کہی۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں جس طرح اس اذان اور لعاب نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوش کرنے اور نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی لاج رکھی اور اس موقع پر راہ عزیمت اختیار کرتے ہوئے جس جرأت و ہمت کا مظاہرہ کیا، جس انداز میں اسلامی نظام خلافت کے احیاء کی خاطر قربانی دینے اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی مثال قائم کی اور شدید مصائب برداشت کیے، اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ میدان کربلا میں آپ کی، آپ کے اہل خانہ کی اور آپ کے جملہ اعوان و انصار کی اسی غیر معمولی ثابت قدمی، جوان مردی، وفا شعاری، شدائد و مصائب اور انتہائی مظلومیت کی شہادت نے مورخین، تذکرہ نگاروں اور سوانح نگاروں کی زیادہ تر توجہ کو آپ کی مظلومانہ شہادت اور کربلا میں پیش آنے والے افسوس ناک بلکہ الم ناک واقعات اور مصائب کی طرف مبذول کیے رکھا۔ اسی پس منظر میں زبان نبوت سے بیان ہونے والی آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت، شفقت و محبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہبی کمالات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی مگر آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی کے اخلاقی امور، معاشرتی پہلو اور دیگر معاملات کو بہت کم اجاگر کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کبار مؤرخین مثلاً صاحب اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ، صاحب الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب، صاحب الاصابہ فی تمییز الصحابہ اور ابن کثیر وغیرہ کے ہاں بھی امام حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی کے علمی، اخلاقی و معاشرتی پہلو پر بہت کم مواد ملتا ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی کا یہ گوشہ تشنہ سا لگتا ہے۔ مشہور مورخ شاہ معین الدین احمد ندوی نے اس کمی کا شکوہ یوں کیا ہے:
’’تمام ارباب سیر آپ رضی اللہ عنہ کے کمالاتِ علمی کے معترف ہیں۔ علامہ ابن عبدالبر، امام نووی، علامہ ابن اثیر اور دیگر ارباب سیّر اس بات پر متفق ہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ بڑے فاضل تھے لیکن افسوس اس اجمالی سند کے علاوہ واقعات کی صورت میں ان کمالات کو کسی سیرت نگار نے قلم بند نہیں کیا‘‘۔
(سیرالصحابہ، معارف اعظم کرھ، طبع دوم 1951ء، 6 / 243)
بالکل یہی حال ان کی اخلاقی عظمت و پاکیزگی اور حسن اخلاق کا ہے۔ سیرت حسین رضی اللہ عنہ کا یہ پہلو جس تفصیل و تشریح کا متقاضی تھا وہ عام تذکروں میں نہیں پائی جاتی جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شہادت کے وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً چھپن سال کی ہوچکی تھی۔ چھپن سال کا یہ عرصہ آپ نے خیرالقرون میں اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کے سب سے بہترین معاشرے میں گزارا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت بھی صاحبِ خلق عظیم علیہ التحیۃ والتسلیم نے خود فرمائی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے جس عظیم ماں کی گود میں پرورش پائی اس کی پاک دامنی اور طہارت پر قرآن و حدیث گواہ ہیں، نانا جان علیہ التحیۃ والسلام کے وصال کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ کی تعلیم و تربیت اس باپ نے فرمائی جو علم و عمل کا مجمع البحرین تھے اور جس کے علمی و عملی کمالات اور فضائل و محاسن پر قرآن و حدیث کے علاوہ تاریخ اسلام کی گواہی ثبت ہے۔ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی تعلیم و تربیت کے درج بالا خدائی انتظامات اور خود قرآن و سنت پر عبور حاصل ہونے کے بعد کیسے ممکن تھا کہ آپ ایک عظیم اور اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرتی اخلاق و آداب کی حامل شخصیت کا درجہ نہ پاتے۔ چنانچہ آپ کی اخلاقی عظمت و رفعت کے حوالے سے بعض ایمان افروز چیزیں، شروح حدیث، تذکرہ، تاریخ اور سوانح وغیرہ کی کتابوں میں جستہ جستہ مل جاتی ہیں۔ اس لیے آئندہ سطور میں ہم آپ کے عمومی فضائل و مناقب، ذوق عبادت، علمی فضائل و کمال، سوانح حیات، الم ناک شہادت اور واقعات کربلا (جن پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے) کی بجائے آپ رضی اللہ عنہ کی اخلاقی عظمت کی چند ایمان افروز جھلکیاں پیش کرنے کی کوشش کریں گے:
اہل بیت کی ہمہ جہتی پاکیزگی کے لیے دعاء نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی عملی اور معاشرتی زندگی میں جن مکارم اخلاق یا جس بلند اخلاقی اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا اس میں جہاں ان کی خاندانی شرافت و نجابت، حسب و نسب، پاکیزہ گھریلو ماحول، خانوادہ نبوت کی تعلیم و تربیت، صحبت صحابہ اور مدینہ منورہ کے عمومی پاکیزہ ماحول کا عمل دخل تھا وہاں ان کی اخلاقی پاکیزگی میں خصوصی دعاء نبوی بھی کار فرما تھی۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلْمَۃَ رَبِیْبِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم {إِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} ]الأحزاب، 33:33[ فِي بَیْتِ أُمِّ سَلَمَۃَ فَدَعَا فَاطِمَةَ، وَحَسَنًا، وَحُسَیْنًا، فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَاءٍ، وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِکِسَاءٍ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ، هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَیْتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْهُمْ تَطْهِیْرًا.
(أخرجہ الترمذی فی السنن، کتاب: تفسیر القرآن عن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم، باب: ومن سورة الأحزاب، 5/351، الرقم: 3205)
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہص فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی الله عنہا کے گھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام الله علیہمکو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی ص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا: اے الله ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ ۔‘‘
مذکورہ بالا روایت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہلِ بیت اطہار سے جس ’’الرجس‘‘ (پلیدی) دور کیے جانے کی بطور خاص دعا فرمائی تو اس لفظ کے معنی پر ایک نظر ڈال لینا بے جانہ ہوگا تاکہ اس کی وسعت کا کچھ اندازہ ہوجائے۔ الفاظ قرآن مجید کے لغوی معانی کے لیے مستند ترین ماخذ ’’المفردات فی غریب القرآن‘‘ میں علامہ راغب اصفہانی نے اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
الرجس الشئی القذر۔۔۔ والرجس یکون علی اربعة اوجه اما من حیث الطبع واما من جهة العقل واما من جهة الشرع واما من کل ذالک کالمیتة.
(راغب اصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، ص 187)
’’رجس گندی، پلید، میلی اور قابل نفرت چیز کو کہتے ہیں۔۔۔ اب کسی چیز کا گندہ یا پلید ہونا چار وجہ سے ہوسکتا ہے یا تو طبعی اعتبار سے وہ چیز گندی ہوگی یا عقل کی جہت سے یا شرعی اعتبار سے یا اس کا گندا ہونا ان ساری وجوہ کی بنیاد پر ہوگا جیسے مردار کا گند اور قابل نفرت ہونا‘‘۔
جبکہ مشہور شارح حدیث علامہ نووی نے لفظ ’’الرجس‘‘ کا معنی یہ بتایا ہے کہ:
الرجس قیل ھو الشک وقیل العذاب وقیل الاثم قال الازهری الرجس اسم لکل مستقذر من عمل.
(نووی، شرف الدین یحییٰ، شرح صحیح مسلم مع الصحیح، کتاب و باب مذکور، 2/ 283)
’’رجس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ شک ہے اس کا معنی عذاب اور گناہ بھی کیا گیا ہے اور علامہ ازہری کہتے ہیں کہ رجس کا اطلاق ہر گندے اور ناپاک عمل پر ہوتا ہے‘‘۔
اور ملا علی قاری نے ’’الرجس‘‘ کا معنی الاثم وکل ما مستقذر مرواہ بتایا ہے۔
(ملا علی قاری، مرقاة المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، باب مناقب اهل بیت النبی صلی الله علیه وآله وسلم، 11/ 370)
یعنی ہر ظاہری و باطنی گناہ اور ہر وہ عمل جو انسانی مروت کے خلاف ہو۔
اس دعائے نبوی کا فیض تھا کہ امام حسینؓ اخلاقی عظمت کے اعتبار سے اسی بلند درجہ پر فائز تھے جو آپ کے شایان شان تھا۔ چنانچہ نامور تذکرہ نگار ابن الاثیر نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے عمومی اخلاق و عادات اور خصائل کی طرف اجمالی طور پر یوں اشارہ کیا ہے:
وکان الحسین رضی الله عنه فاضلا کثیر الصوم والصلوة والحج والصدقة و افعال الخیر جمیعا.
(ابن الاثیر، اسدالغابہ، 2: 23)
’’حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بڑی فضیلت کے مالک، کثرت سے روزہ، نماز، حج ادا کرنے والے، صدقہ دینے والے اور تمام افعال خیر سرانجام دینے والے تھے‘‘۔
اب ذیل میں ان کے معاشرتی اخلاق و آداب اور حسن اخلاق کے حوالے سے درج بالا اجمال کی ایمان افروز تفصیل ملاحظہ ہو:
1۔ بڑے بھائی کا ادب و احترام
اسلامی اخلاق و آداب کی رو سے چھوٹے بھائیوں پر اپنے بڑے بھائی کا ادب و احترام اسی طرح لازم ہے جس طرح والد محترم کا احترام لازم ہوتا ہے۔ چھوٹے بھائیوں کے سامنے بڑے بھائی کا مرتبہ و مقام شرعی نقطہ نظر سے والد کے برابر ہے چنانچہ اس چیز کی وضاحت اور تعلیم امت کی خاطر معلم اخلاق اور صاحب خلق عظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعید بن العاص سے مروی ایک حدیث میں فرمایا:
حق کبیر الاخوة علی صغیرهم حق الوالد علی ولده.
(مشکوۃ المصابیح، کتاب الآداب باب البر والصلة، ص: 421)
تمام بھائیوں میں بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائیوں پر اُس حق کے برابر ہے جو والد کو اپنی اولاد پر حاصل ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا جان علیہ التحیۃ والسلام کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے کس طرح اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا دل کی گہرائیوں سے احترام کیا، اس کا نمونہ ملاحظہ ہو:
(1) بڑے بھائی سے برابری پسند نہ کرنا
بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے سامنے بنفس نفیس موجود ہو تو حیاء کا تقاضا ہوتا ہے کہ چھوٹا بڑے کا احترام کرے جبکہ سامنے موجود نہ ہونے کی صوت میں عموماً اس چیز کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بڑے بھائی جان حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ادب و احترام کو غائبانہ طور پر بھی ملحوظ رکھا۔ چنانچہ مشہور مورخ ابن قتیبہ نے یہ ایمان افروز اور سبق آموز واقعہ لکھا ہے کہ ایک آدمی نے حضرت حسن بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما کے پاس آکر سوال کیا (بھیک مانگی) تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: دیکھو بھیک مانگنا جائز نہیں سوائے بہت زیادہ مقروض یا محتاج بنادینے والے فقر یا بہت زیادہ تاوان کی شکل میں، تو اس آدمی نے عرض کیا: میں اسی قسم کا ایک مسئلہ درپیش ہونے کی صورت میں آپ کے پاس آیا ہوں۔
اس پر آپ نے اسے سو دینار دینے کا حکم فرمایا۔ پھر وہ آدمی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے بھی سوال کیا۔ آپ نے بھی بھیک کے معاملے میں اس سے وہی بات فرمائی جو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمائی تھی۔ اس نے وہی جواب دیا جو وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دے چکا تھا تو آپ نے پوچھا: انہوں نے تجھے کتنی رقم دی؟ اس نے بتایا سو دینار۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک دینار کم کرتے ہوئے (ننانوے) دینار اسے دے دیے اور اس بات کو پسند نہ فرمایا کہ بڑے بھائی کے ساتھ اس معاملے میں برابری کریں۔ پھر اس آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر سوال کیا۔ انہوں نے بغیر کچھ پوچھے اسے سات دینار دے دیے۔ اس پر اُس نے کہا: میں حضرت امام حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے پاس گیا تھا اور ان سے پیش آنے والا سارا مذکورہ واقعہ بیان کیا تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ویحک وانی تجعلنی مثلھما انهما غراء العلم غرا المال.
(ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، 7/ 126)
’’تیرے اوپر تعجب ہے تو مجھے اُن کی مثل کیسے بنا رہا ہے۔ بے شک وہ دونوں بھائی علم اور مال کا دریا ہیں‘‘۔
(2) داخلۂ جنت کے موجب عمل میں بھی بھائی سے سبقت کی کوشش نہ کرنا
کسی بھلائی کے عمل اور کار خیر میں باہمی مسابقت اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا شریعت میں ایک پسندیدہ اور مطلوب امر ہے مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے بڑے بھائی امام حسن رضی اللہ عنہ کے احترام میں یہ بات بھی پسند نہ تھی۔ چنانچہ مشور صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ:
لا یحل المسلم ان یهجر اخاه فوق ثلث لیال والسابق السابق الی الجنة.
’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین راتوں سے زیادہ اپنے بھائی سے ملاقات اور بات چیت چھوڑے رکھے اور اس معاملے (گفتگو اور ملاقات) میں پہل کرنے والا جنت میں پہلے جانے والا ہوگا)‘‘۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے یہ بات پہنچی کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں بھائیوں کے درمیان باہمی کوئی جھگڑا اور بات چیت بند ہے تو میں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگ تم دونوں بھائیوں کو اپنا مقتدا سمجھتے ہیں اور تم آپس میں قطعی تعلقی کرکے بیٹھے ہو لہذا آپ اٹھیے اور اپنے بھائی کے پاس جاکر ان سے بات چیت کیجئے کیونکہ آپ ان سے عمر میں چھوٹے ہیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی کہ السابق السابق الی الجنۃ (بول چال میں سبقت کرنے والا جنت میں بھی سبقت لینے والا ہوگا) تو میں ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوتا مگر میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ میں ان سے پہلے جنت میں داخل ہوں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے یہ مخلصانہ جذبات سن کر میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور انہیں مذکورہ بات چیت سے آگاہ کیا تو انہوں نے فرمایا: صدق اخی (میرے بھائی نے سچ کہا) اس کے بعد کھڑے ہوگئے اور اپنے بھائی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ان سے گفتگو کی اور یوں دونوں بھائیوں کے درمیان صلح ہوگئی۔
(محب الدین الطبری، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی (باب ذکر ماجاء مختصاً بالحسن علیہ السلام)
2۔ خلقِ خدا کی حاجات کو پورا کرنا
کسی بھی قسم کی مذہبی، نسلی، علاقائی اور لسانی تمیز و تفریق کے بغیر تمام خلقِ خدا اور انسانیت کی خدمت، ان کی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے اور ان کے کام آنے کا اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی رو سے کیا مرتبہ ہے؟ اسلام نے اس سلسلے میں اپنے ماننے والوں کو کتنی تاکید کی ہے؟ پھر اس حوالے سے خود پیغمبر اسلام کی رحمۃ للعالمین اور روف رحیم ذات اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سمیت دیگر اکابر صحابہ کا طرز عمل کیا تھا؟ (جن کی تفصیل ایک الگ مستقل مضمون کی متقاضی ہے) یہ سب چیزیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے تھیں۔ علاوہ ازیں فیاضی و سخاوت اور ایثار جیسی خوبیاں آپ کو ورثے میںملی تھیں۔ اس لیے کمال فیاضی اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے خلقِ خدا کی حاجات کو پورا کرنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا عام معمول تھا۔
چنانچہ حافظ ابن عساکر نے ابو ہشام القناد البصری کی زبانی یہ چشم دید گواہی نقل کی ہے کہ میں (ابو ہشام) حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے پاس بصرہ سے سامان (متاع) فروخت کے لیے لایا کرتا تھا۔ آپ اس میں جھگڑ کر مجھ سے قیمت کم کراتے پھر میرے وہاں سے اٹھنے سے پہلے پہلے اس سامان کا زیادہ تر حصہ لوگوں کو عنایت فرمایا کرتے۔ میں نے عرض کیا اے رسول اللہ کے بیٹے! میں آپ کے پاس بصرہ سے سامان لاتا ہوں آپ باقاعدہ اصرار کرکے اور جھگڑا کرکے اس میں قیمت کم کراتے ہیں اور پھر میرے اٹھنے سے پہلے پہلے اس کا زیادہ تر حصہ لوگوں میں تقسیم بھی کردیتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے والد گرامی نے مجھے یہ مرفوع حدیث سنائی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
المخبون لا محمود ولا ماجور.
(ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، 7/115)
’’جو آدمی سودے یا لین دین میں دھوکا کھا جائے وہ قابلِ ستائش ہے نہ قابل اجر‘‘۔
اب ذیل میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اس انتہائی عمدہ وصف اور انتہائی خوبی کی چند ایمان افروز اور سبق آموز جھلکیاں ملاحظہ ہوں:
(1) ایک مرتبہ ایک سائل مدینہ منورہ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے آپ کے دروازے پر پہنچا۔ دستک دی اور اپنی حاجت کا درج ذیل اشعار کی صورت میں یوں اظہار کیا:
لم یخب الیوم من رجاک ومن
حرک من خلف بابک الحلقه
وانت جود وانت معدنة
ابوک ما کان قاتل الفسقه
آج آدمی نامراد واپس نہیں جائے گا جو آپ کے پاس امید لے کر آیا ہے اور جس نے آپ کے دروازے کا حلقہ کھٹکھٹایا ہے آپ سراپا بخشش اور جود و کرم کی کان ہیں۔ آپ کا باپ وہ عظیم شخص تھا جس نے فاسقوں سے جنگ فرمائی تھی۔
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اس وقت نمازمیں مصروف تھے دروازے کی دستک اور سائل کی حاجت انہوں نے نماز میں سن لی۔ نماز میں تخفیف کی اور باہر تشریف لائے۔ دیکھا کہ سائل کے چہرہ پر واقعی فقر و فاقہ کے آثار ہیں۔ آپ نے واپس آکر اپنے غلام کو بلایا اور فرمایا کہ ہمارے نفقہ میں سے تمہارے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا کہ دو سو درہم ہیں۔ جن کے متعلق آپ کی ہدایت ہے کہ انہیں آپ کے اہل خانہ پر خرچ کردوں۔ آپ نے فرمایا: وہ سب درہم لاؤ کیونکہ ان سے زیادہ حق دار آدمی آگیا ہے۔ پھر ان دراہم کو پکڑکر باہر نکلے اور انہیں اس اعرابی (سائل) کو دیتے ہوئے فی البدیہہ یہ اشعار کہے:
خذھا فانی الیک معتذر
واعلم بانی علیک ذوشفقہ
لو کان فی سیرنا عصاتمہ اذا
کانت سمانا علیک مند فقہ
لکن ریب المنون ذونکد
والکف منا قلیلۃ النفقہ
(دیکھئے ابن سطور، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر بحوالہ حکیم محمود احمد ظفر، سیدنا حسین بن علی، تاریخ کی روشنی میں، تخلیقات لاہور 2006ء)
(2) خلق خدا کی حاجت براری سے متعلق حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ایک اور ایمان افروز اور انتہائی ایثار و ہمدردی پر مبنی واقعہ نامور صوفی حضور داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے کشف المحجوب میں یوں نقل کیا ہے کہ ایک دن ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور عرض کیا: اے رسول خدا عزوجل کے فرزند! میں ایک درویش اور بال بچے دار آدمی ہوں۔ اس لیے آج رات آپ سے کھانے اور مدد کا طلب گار ہوں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: تم بیٹھ جاؤ، ہمارا وظیفہ (شام سے) آرہا ہے۔ چنانچہ کچھ دیر کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے پانچ تھیلیاں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئیں۔ ہر تھیلی میں ایک ہزار دینار (سونے کی اشرفی) موجود تھا۔ لانے والے اہلکاروں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ سے معذرت کررہے تھے اور فرماتے تھے کہ ان دیناروںکو خرچ فرمایئے بعد میں مزید بھیج دیئے جائیں گے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے مذکورہ درویش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اہل خانہ سے فرمایا کہ یہ تمام تھیلیاں اسے دے دی جائیں پھر اس درویش سے معذرت بھی چاہی کہ میں نے تجھے اتنی دیر تک بٹھائے رکھا۔ اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ یہ رقم اتنی تھوڑی ہوگی تو تجھے انتظار نہ کراتے۔ اس لیے ہمیں معذور سمجھو کہ ہم اہل آزمائش میں سے ہیں اور دنیا کی ہر راحت سے باز آگئے ہیں اور اپنی دنیا کی تمام مرادیں ہم نے گم کردی ہیں اور اپنی زندگی دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وقف کردی ہیں۔
3۔ حدیث نبوی کے پیش نظر سواری پر مالک کے آگے بیٹھنے سے گریز
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خاندانی عظمت و شرافت اور ذاتی فضائل و مناقب کے پیش نظر حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عثمان غنیl جیسے کبار صحابہ ان کی تعظیم و تکریم فرماتے اور ان کا حد درجہ احترام فرماتے تھے۔
(ابن کثیر، البدایه والنهایه)
مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا اپنا طرز عمل اور سوچ یہ تھی کہ اس تعظیم میں کہیں اسلامی اخلاق و آداب کے خلاف کوئی کام واقع نہ ہوجائے۔ اس عظیم سوچ اور بلند اخلاقی پر مبنی ایک سبق آموز واقعہ ملاحظہ ہو: جیسے مشہور محدث علامہ نور الدین ہیثمی نے امام محمد باقر بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ کی زبانی یوں نقل کیا ہے کہ
’’ایک مرتبہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے باہر مقام حرہ کے قریب واقع اپنی زمین کی طرف جانے کے لیے نکلے تو راستے میں مشہور صحابی حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے انہیں پالیا وہ اپنی سواری (خچر) پر سوار تھے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پیدل چلتے دیکھ کر سواری سے اتر پڑے اور سواری کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قریب کرتے ہوئے عرض کیا: اے عبداللہ! آپ اس پر سوار ہوجایئے۔ مگر آپ نے سواری پر بیٹھنے کو ناپسند فرمایا۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے اصرار کے باوجود جب آپ سوار نہ ہوئے تو انہوں نے قسم اٹھا لی کہ آپ کو ہر قیمت پر سوار ہونا ہوگا۔ اب سوار ہونے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا، تاہم فرمایا: تم نے قسم اٹھا کر مجھے تکلیف میں ڈال دیا۔ اب یوں کیجئے کہ آپ سواری کے آگے بیٹھیں میں آپ کے پیچھے بیٹھوں گا۔ کیونکہ میں نے اپنی جان (سیدہ فاطمۃ الزہرا بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو یہ حدیث نقل کرتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الرجل احق بصدرد ابته وصدر فراشه والصلوة فی منزله الا ما یجمع الناس علیه.
’’آدمی اپنے چوپائے (سواری) کے اگلے حصے پر بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہوتا ہے۔ اسی طرح بستر کے اگلے حصے پر بیٹھنے کا زیادہ حق دار صاحب فراش ہے جبکہ گھر میں باجماعت نماز پڑھنے کی صورت میں صاحب خانہ امامت کرانے کا زیادہ حق دار ہے‘‘۔
اس پر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی نے بالکل سچ فرمایا ہے میں نے اپنے باپ بشیر کو بھی اسی طرح کہتے سنا ہے جیسا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ الا من اذن مگر وہ آدمی جس کو مالک اجازت دے۔ یہ سن کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سواری پر سوار ہوگئے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد (کتاب الادب، باب صاحب الدابۃ احق بصدرہا)
4۔ گرا ہوا لقمہ کھانے پر غلام کو آزاد فرمادینا
درج بالا قسم کی اخلاقی عظمت کا ایک اور ایمان افروز واقعہ محب الدین الطبری نے یوں نقل کیا ہے:
حضرت امام علی بن موسیٰ سے مروی ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک دفعہ قضائے حاجت کے لیے باہر نکلے، غلام ساتھ تھا۔ راستے میں گرا ہوا کھانے کا ایک لقمہ پایا تو اسے اٹھا کر غلام کو پکڑایا اور فرمایا: واپسی پر مجھے یاد دلانا۔ مگر غلام نے وہ لقمہ کھا لیا۔ قضائے حاجت سے فارغ ہوکر آئے تو غلام سے اس لقمہ کے بارے میں پوچھا۔ اس نے عرض کیا: میرے مولا! میں نے وہ لقمہ کھا لیا ہے۔ فرمایا جا تو اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہے۔ پھر فرمایا:
سمعت جدی رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یقول من وجد لقمة ملقاة فمسح او غسل ثم اکلها اعتقه الله من النار.
’’میں نے اپنے جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات فرماتے سنا ہے کہ جس آدمی نے کوئی گرا پڑا لقمہ پایا پھر اسے صاف کرکے یا دھوکر کھالیا تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے آزاد فرمادے گا‘‘۔
تو اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق جس آدمی کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ سے آزاد فرمادے تو میں کیونکر اسے غلام بنا سکتا ہوں۔ (محب الدین الطبری، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی (اذکار تتضمن فضائل واخبار اتختص بالحسین علیہ السلام)
5۔ کمال تواضع و انکساری
اسلامی اخلاق و آداب اور اوصاف میں تواضع و انکساری کو جو اہمیت حاصل ہے نیز اسلامی تعلیمات میں اس کی جتنی تاکید آئی اور اس سلسلے میں خود پیغمبر اسلام علیہ السلام نے جو مثالی نمونہ چھوڑا ہے، یہ سب چیزیں سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے مخفی نہیں تھیں، اس لیے خاندانی معاشرتی، سماجی اور مذہبی و روحانی اعتبار سے انتہائی بلند مرتبہ و مقام حاصل ہونے کے باوجود آنجناب کے اندر کمال درجے کی تواضع و انکساری پائی جاتی تھی۔ چنانچہ نامور مورخ و محدث حافظ ابن عساکر نے اس کی ایک سبق آموز مثال یوں درج کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا گزر چند مساکین کے پاس سے ہوا جو (مسجد نبوی کے ساتھ) صفہ میں کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے آپ کو دیکھ کر عرض کیا آیئے کھانا تناول فرمایئے۔ آپ بیٹھ گئے اور فرمایا:
ان الله لایحب المتکبرین.
’’بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔
ان مساکین کے ساتھ کھانا تناول فرمایا، پھر ان سے فرمایا: میں نے تمہاری دعوت قبول کی، اب تم لوگ میری دعوت قبول کرو۔ سب نے کہا: نعم: ہاں ٹھیک ہے۔
چنانچہ آپ انہیں اپنے دولت کدہ پر لے گئے اور اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رباب سے فرمایا کہ جو کچھ کھانے کو تمہارے پاس موجود ہے وہ لے آؤ۔
(ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، 7/ 129)
6۔ اپنے ساتھیوں کو آزمائش میں ڈالنے سے گریز
انسانی فطرت ہے کہ انسان مشکل اور آزمائش کے وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے مدد اور تعاون کا خواہاں ہوتا ہے۔ مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایسے موقعہ پر بھی کسی کو آزمائش اور مشکل میں ڈالنا پسند نہیں فرمایا، اس بلند سوچ کی ایک جھلک ذیل میں ملاحظہ ہو:
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عاشوراء کی رات اپنے تمام اصحاب کو جمع کیا پھر (اس مشکل ترین اور آزمائش کی گھڑی میں بھی) اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: میں یہی محسوس کررہا ہوں کہ یہ لوگ (یزیدی فوج) بہر صورت کل تمہارے ساتھ جنگ کریں گے۔ اس صورت حال میں تم سب کو (بخوشی) اجازت دیتا ہوں۔ تم سب میری طرف سے آزاد ہو اور اب رات کے اندھیرے نے تمہیں ڈھانپ لیا ہے۔ پس جس آدمی کے پاس ہمت ہو وہ میرے اہل بیت میں سے کسی آدمی کو ساتھ ملا لے اور تم سب رات کے اندھیرے میں یہاں سے نکل جاؤ۔ ان لوگوں (یزیدی فوج) کو تو صرف میری تلاش ہے، کل جب یہ مجھے دیکھیں گے تو تمہاری تلاش بھول جائیں گے اس مخلصانہ پیش کش پر آپ کے اہل بیت نے کہا:
لا ابقانا الله بعدک والله لانفار قک وقال اصحابه کذالک.
’’اللہ تعالیٰ آپ کے بعد ہمیں زندہ نہ رکھے۔ قسم بخدا ہم آپ کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور آپ کے دوسرے ساتھیوں نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا‘‘۔
(الذهبی، سیراعلام النببلاء، 3/ 301)