سوال: کسی وبائی مرض کو دفع کرنے کے لیے اذان دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز کسوف پڑھانے کے بعد خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ:
إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللَّهِ لاَ یَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَیَاتِهِ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذَلِکَ فَادْعُوا اللَّهَ وَکَبِّرُوا، وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا.
سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔
(بخاری، الصحیح، کتاب الکسوف، رقم الحدیث: 1044)
درج بالا حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی غیر طبیعی واقعہ یا کوئی حادثہ پیش آنے پر، مصیبت کا شکار ہونے پر یا کوئی وباء پھیلنے پر اہلِ اسلام کو چار امور کا انفرادی یا اجتماعی طور پر اہتمام کرنا چاہیے، یہ چار امور درج ذیل ہیں:
- ذکرِ الٰہی
- دعا
- نماز
- صدقہ
جناب امیرُ المومنین و المسلمین سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ مجھے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غمگین حالت میں دیکھا تو ارشاد فرمایا:
یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاکَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِکَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِکَ فَاِنَّہ دَرْءُ الْھَّمِ.
اے ابو طالب کے بیٹے! میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان، جلد: 2، ص: 149)
اذان کی مشروعیت اصلاً نماز کے اعلان کے مقصد سے کی گئی ہے، البتہ بعض دیگر کاموں کے لیے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے مثلاً نومولود کے کان میں اذان دینے کا حکم یا آگ زنی کے وقت اذان دینے کی ترغیب وغیرہ۔ فقہائے شوافع کے ہاں مصائب، شدائد اور عمومی پریشانیوں کے بعض مواقع پر اذان دینے کی اجازت منقول ہے، اس لیے وبا کے خاتمے کے لیے بطور علاج اذان دینے کی گنجائش ہے۔ بعض علماء وباء کے خاتمے کے لیے اذان دینے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اور مفتی امجد علی رحمۃ اللّٰہ علیہما لکھتے ہیں کہ:
وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے۔
-
(فتاویٰ رضویہ، جلد: 5، ص: 370)
- (بہارِ شریعت، جلد اول، حصہ: سوم، ص: 466)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ مصیبت و پریشانی اور وباء و بلاء کے وقت اذان دینا مستحب عمل ہے، اس کے سنت یا لازم و ضروری امر ہونے کا اعتقاد نہیں ہونا چاہیے۔کرونا وائرس کی موجودہ وباء کے خاتمے کے لیے بھی اگر کوئی مسلمان علاج معالجے اور دعا کے ساتھ اذان کی تدبیر بھی اختیار کرتا ہے تو یہ مستحب عمل ہے، ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے اس ذکر کی برکت سے موجودہ آفت کو ٹال دے اور خوف و ہراس کا خاتمہ ہو جائے۔ البتہ دین اسلام کی تعلیمات سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ وباء کے خاتمے کے لیے محض اذان پہ انحصار کیا جائے، چنانچہ وباء کی صورت میں احتیاطی تدابیر اور علاج معالجہ کیلئے متداول علم الطب کے اصولوں کی پاسداری بھی عین شرعی تقاضا ہے۔
(نوٹ: اگرچہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم والی روایت کی سند میں ضعف ہے تاہم جو علماء اس سے وباء کے خاتمے کے لیے اذان دینے کا استدلال کرتے ہیں وہ ایسے وقت اذان دینے کو مستحب گردانتے ہیں اور کسی شئے کے استحباب کے ثبوت کے لیے ضعیف حدیث کفایت کرتی ہے۔)
سوال: ہنسی مذاق اور شرارت میں دی گئی تکلیف کا کیا حکم ہے؟
جواب: دینِ اسلام فطری دین ہے، جس نے انسان کی فطری خواہش کے عین مطابق حدود و قیود کے ساتھ ہنسی مزاح کی اجازت دی ہے۔ مزاح، زندہ دلی و خوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہو جانا نازیبا اور مضر ہے، اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک بنا دیتا ہے۔ بسا اوقات ہمجولیوں اور ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاو ان کے لیے بے پناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ مزاح انسانی فطرت کا لازمہ ہے اور اس کے جواز پر بیشمار دلائل موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی مزاح فرماتے تھے لیکن آپ کا مزاح بھی ایسا ہوتا کہ جس میں نا تو جھوٹ ہوتا تھا اور نا اس سے کسی کی دل آزاری ہوتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ مختلف مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش طبعی اور مزاح فرمایا ہے، خشک مزاجی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہیں تھی، آپ نہیں چاہتے تھے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے مزاج و طبیعت کو ہمیشہ خشک اور بے لذّت بنائے رکھیں۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھار اپنے جاں نثاروں اور نیاز مندوں سے مزاح فرماتے تھے اور یہ ان کے ساتھ آپ کی نہایت لذت بخش شفقت ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاح بھی نہایت لطیف اور حکیمانہ ہوتا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّی لَا أَقُولُ إِلَّا حَقًّا، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِه: فَإِنَّکَ تُدَاعِبُنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنِّی لَا أَقُولُ إِلَّا حَقًّا.
میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہم سے مزاح بھی فرماتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں۔
(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 340، الرقم: 8462)
لیکن سوال مسؤولہ کیونکہ مزاح کے جواز و عدمِ جواز کے بارے میں نہیں بلکہ اس کی حدود کے متعلق ہے اس لیے اسی کا جواب زیرِ بحث لاتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنهُنَّ ج وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ.
(الحجرات، 49: 11)
’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخُر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزاح کے آداب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
لَا تُمَارِ أَخَاکَ، وَلَا تُمَازِحْهُ، وَلَا تَعِدْهُ مَوْعِدًا فَتُخْلِفَهُ.
اپنے بھائی کو ہنسی مذاق کر کے ناراض نہ کرو اور اسے اذیت نہ دو، اور نہ اس سے وعدہ کر کے وعدہ خلافی کرو۔
(ترمذی، السنن، کتاب: البر والصلۃ، باب: ما جاء فی المراء، 4: 359، الرقم: 1995)
درج بالا آیت و روایت سے معلوم ہوا کہ ایسی دل لگی اور مزاح جس میں کسی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا کوئی پہلو نہ ہو اور نہ اس کی نیت ہو تو شریعت میں تفریح طبع کے طور پر اس کی اجازت ہے۔ اس کے برعکس ایسا مزاح جس میں طنز کرنے، مذاق اڑانے، عزتِ نفس مجروح کرنے، فحش گالیاں دینے، فحش گوئی کرنے وغیرہ کے پہلو شامل ہوں شرعِ اسلامی میں ممانعت ہے اور اس کا مرتکب گناہگار ہے۔ اگر کوئی شخص درج بالا ممنوع امور کا مرتکب ہوا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے، اس کے مزاح سے جن لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے اگر وہ زندہ ہیں تو ان سے بھی معافی مانگی جائے اور ان میں سے جو فوت ہو چکے ہیں ان کا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دے۔ آئندہ ایسے مزاح سے اجتناب کرے۔
سوال: کیا اعضائے وضو کو کپڑے سے خشک کرنا مکروہ ہے؟
جواب: جن روایات کے بارے میں سائل نے دریافت کیا ہے اولاً وہ ملاحظہ ہوں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
کَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خِرْقَۃٌ یُنَشِّفُ بِهَا بَعْدَ الوُضُوءِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا جس کے ساتھ وضو کے بعد اعضائے وضو پونچھا کرتے تھے۔
(ترمذی، السنن، کتاب أبواب الطهارة، باب ما جاء فی التمندل بعد الوضوء، 1: 74، الرقم: 53)
دوسری روایت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:
رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَضَّأَ مَسَحَ وَجْهَهُ بِطَرَفِ ثَوْبِهِ. (ایضاً)
میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جب آپ وضو فرماتے، کپڑے کے کنارے سے (اعضاء کو)خشک فرماتے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے ان روایات کو نقل کیا ہے اور پھر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
هَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ وَإِسْنَادُهُ ضَعِیفٌ، وَرِشْدِینُ بْنُ سَعْدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمٍ الأَفْرِیقِیُّ یُضَعَّفَانِ فِی الحَدِیثِ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ فِی التَّمَنْدُلِ بَعْدَ الوُضُوء، وَمَنْ کَرِهَهُ إِنَّمَا کَرِهَهُ مِنْ قِبَلِ أَنَّهُ قِیل: إِنَّ الوُضُوءَ یُوزَنُ وَرُوِیَ ذَلِکَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ المُسَیِّبِ، وَالزُّهْرِیِّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ، قال: حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، قَالَ: حَدَّثَنِیهِ عَلِیُّ بْنُ مُجَاهِدٍ عَنِّی، وَهُوَ عِنْدِی ثِقَۃٌ، عَنْ ثَعْلَبَۃ، عَنِ الزُّهْرِیِّ، قَالَ: إِنَّمَا کُرِهَ المِنْدِیلُ بَعْدَ الوُضُوءِ لِأَنَّ الوُضُوء َ یُوزَنُ.
یہ حدیث غریب ہے اس کی سند ضعیف ہے اور رشدین ابن سعد اور عبدالرحمن بن زیاد بن انعم افریقی (دونوں) حدیث میں ضعیف ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث قوی نہیں اور اس باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی بات ثابت نہیں۔ ابو معاذ سے مراد سلیمان بن ارقم ہے اور وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ بعض صحابہ کرام اور تابعین نے وضو کے بعد کپڑے سے خشک کرنے کی رخصت دی ہے البتہ مکروہ کرنے والوں کے نزدیک علتِ کراہت یہ ہے کہ کہا جاتا ہے وضو کا وزن کیا جائے گا اور یہ بات حضرت سعید بن مسیب اور امام زہری سے مروی ہے۔ امام زہری کہتے ہیں میں اس لیے وضو کے بعد کپڑے کا استعمال مکروہ جانتا ہوں کہ وضو کا وزن کیا جائے گا۔
(ترمذی، السنن، کتاب أبواب الطهارۃ، باب ما جاء فی التمندل بعد الوضوء، 1: 75،76، الرقم: 54)
مذکورہ بالا راویات مع تبصرہ سے معلوم ہوا کہ اعضائے وضو کو خشک کرنے والے کپڑے کا بروز قیامت نیکیوں کے پلڑے میں رکھا جانا ثابت نہیں ہے، یہ کسی کا قول ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس لیے کسی قول کو دلیل بنا کر اعضائے وضو کو کپڑے سے خشک کرنے کی کراہت ثابت نہیں کی جاسکتی۔ مزید برآں سائل کا یہ کہنا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اعضائے وضو کو کپڑے سے خشک کرنا مکروہ قرار دیا ہے، ہمیں امام صاحب کا ایسا کوئی قول نہیں ملے۔ اگر سائل کو ملے تو ہمارے علم میں بھی اضافہ کر دے۔