اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فَاِنَّ اللهَ بِهٖ عَلِیْمٌ.
(آل عمران، 2: 92)
’’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے‘‘۔
عموماً یہ آیت مبارکہ صدقہ و خیرات کے تصور کو واضح کرنے اور اُس کی ترغیب کے لیے بیان کی جاتی ہے۔ یقیناً یہ مسئلہ اور نکتہ بھی اِس سے نکلتا ہے لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ یہاں پر فقط مال خرچ کرنے کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس معاملہ کو optional (اختیاری) قرار دیا ہے بلکہ دو ٹوک الفاظ میں فرمایا جارہا ہے کہ تم ہر گز نیکی نہیں پا سکو گے اگر محبوب اشیاء میں سے تم نے خرچ نہ کیا۔ لہذا جہاں بات کا اسلوب اس طرح کا ہو تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بات صرف مال کے خرچ کرنے کی ہے؟ اس لیے کہ جس کے پاس مال نہیں ہے پھر اُس پر اِس حکم کا اطلاق کیسے ہوگا اور وہ نیکی کو کس طرح پاسکے گا؟
اِس آیت مبارکہ کا اطلاق ہر شخص پر مختلف ہوسکتا ہے، اِس لیے کہ یہاں عمومی اصطلاح استعمال کی کہ اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ کرو یعنی وہ چیزیں جن سے تم پیار کرتے ہو، جو تمہارے دل کے بہت قریب ہیں،جو تم سے دور جائیں توتمہارے دل کو تکلیف پہنچے، جو تمہارے پاس نہ ہوں تو تمہیں خالی پن اور نقصان محسوس ہوتا ہے،اُس میں سے خرچ کرو گے تو نیکی پاؤ گے۔ اگر اُس میں سے خرچ کرتے رہو گے جو تمہارے دل کے بہت زیادہ قریب نہیں ہے اور جن سے جدائی تمہیں زیادہ تکلیف نہیں دیتی تو اس پر اجر تو ضرور ملے گاکیونکہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہے لیکن نیکی کی حقیقت کو پانے کا وعدہ نہیں ہے۔ یہ وعدہ تب ہے کہ اگر تم اُس شے میں سے خرچ کرو کہ جس کے خرچ کرنے پر تمہارے دل کو کچھ ہو۔ اس بات کو چند مثالوں سے سمجھتے ہیں:
1۔ کسی مالدار شخص کو دین کے کام میں تعاون کے لیے کہا جائے تو وہ کہتا ہے کہ میں مالی طور پر تو تعاون کرسکتا ہوں مگر میرے پاس وقت نہیں ہے۔ اب اِس آیت کے مطابق اِس بندے کے کیس میں اُس کی قیمتی شے مال نہیں ہے، اس لیے کہ مال تو یہ بآسانی دے رہا ہے، اُس کے لیے قیمتی شے اُس کا وقت ہے، جس کو دینے سے اس کے دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ اب اِس بندے کو نیکی کی حقیقت مال دینے سے نہیں بلکہ اپنا وقت دینے سے ملے گی کیونکہ جو شے اُس کی نگاہ میں قیمتی ہے ، اُسے دے گا تو نیکی کی حقیقت پائے گا۔
ہمارے ہاں دین کا تصور ہی مختلف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے دین کی خدمت، فروغ اور تبلیغ کے لیے کسی بھی صورت میں پیسے خرچ کر دیئے تو یہ بہت ہوگیا، ہم نے دین کا بڑا فریضہ سرانجام دے دیا جبکہ ہوسکتا ہے کہ ان پیسوں کی ہمارے ہاں وقعت ہی نہ ہو، مہینے کا پانچ، سات سو دینے سے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو لیکن دوسری طرف وقت دینا ہمارے لیے بہت مشکل ہوتا ہو۔ اب اس صورت میں اللہ رب العزت کے نزدیک ہماری محبوب شے ہمارا مال نہیں ہے بلکہ وقت ہے جس کو دینے کے لیے ہم ہچکچا رہے ہیں۔ لہذا جو چیز زیادہ عزیز ہے، اسے خرچ کرنے سے نیکی کی حقیقت ملے گی۔ اِسی لیے تو اِس آیت کے اگلے حصے میں اللہ رب العزت فرما رہا ہے کہ ’’فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ‘‘ یہ نہ سمجھنا کہ جس نیت سے دے رہے ہو،مجھے پتہ نہیں ہے، میں خوب جانتا ہوں کہ تمہارے دل میں کیا ہے ؟ لہذا دیکھ بھال کے ساتھ، صحیح نیت سے دیناتب نیکی کی حقیقت کو پاؤ گے۔
2۔ کئی افراد ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے نہ وقت کی اہمیت ہوتی ہے اور نہ مال کی اہمیت ہوتی ہے مگر ان کے لیے اپنے عہدے، رتبے اور سوشل اسٹیٹس کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ اُس پر compromise نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ مجھ سے پیسہ لے لو، وقت لے لو لیکن اگر میرا سوشل اسٹیٹس متاثر ہوا اور مجھے تقریب؍ پروگرام/ مجلس/ میٹنگ/ مشاورت میں عزت (Respect) نہ ملی تو پھر میں نہیں آؤں گا۔ اگرچہ یہ پروگرام فروغِ دین ہی کے تناظر میں کیوں نہ ہو۔
گویا یہ due respect اُس کی محبوب شے ہے۔ وہ اسے اللہ کی بارگاہ میں قربان کرے گا تو اُسے نیکی کی حقیقت ملے گی، بصورت دیگر وہ کبھی نیکی کی حقیقت کو حاصل نہیں کر پائے گا۔ اِس لیے کہ جس کی نگاہ میں جس چیز کی وقعت و اہمیت ہے، اگر وہ اسے قربان کرتا ہے تب جاکر وہ نیکی کی حقیقت کو پاسکے گا۔
لوگوں کے مختلف احوال ہیں، اس لیے ایک فارمولے کا اطلاق ہر شخص پر نہیں کر سکتے۔ کسی کے پاس پیسوں کا انبار ہے اور وہ لاکھوں خرچ کر کے بھی اس مقام اور رتبے کو نہیں پاسکتا جو رتبہ و مقام اپنے وقت میں سے ایک گھنٹہ دینے والا یا اپنے سوشل سٹیٹس کو قربان کرنے والا حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ مالدار کے نزدیک محبوب شے مال نہ تھا جبکہ موخر الذکر افراد نے اپنی محبوب شے (وقت اور سٹیٹس) کی قربانی دی۔ اللہ تعالیٰ نے نیکی کی حقیقت کی جو قیمت مقرر کی ہے وہ محبوب شے کی قربانی ہے۔ مالدار شخص کی محبوب شے مال کے علاوہ کچھ اورتھی اوراُس نے تھوڑی کم محبوب شے یعنی مال کوکثرت سے دیا مگر اصل محبوب شے اللہ کی راہ میں دینے سے قاصر رہا۔
3۔ علماء کے نزدیک اُن کی محبوب شے علم اور اُن کا اپنا نظریہ ہے جسے وہ زندگی بھر محنت کرکے بناتے ہیں۔ اسی طرح کئی بار اُن کی محبوب شے اُن کی following اور اُن کی شہرت ہوتی ہے۔ علماء نیکی کی حقیقت تب ہی پاسکیں گے جب وہ اپنے علم اور نظریات کو نصرتِ دین، فروغِ دین، تجدید و احیاء اسلام کے لیے کسی لالچ اور طلبِ شہرت کے بغیر صدق و اخلاص سے خرچ کریں گے۔
ان مثالوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب اللہ کی راہ میں کچھ دینے لگیں تو سوچ لیا کریں کہ ہماری اصل محبوب شے کیا ہے؟یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آج دین کو وقت دینا ہے یا صرف پیسے دینے ہیں؟ اگر وقت دینا ہے اور وہی ہمارے پاس نہیں ہے تو سمجھو یہی سب سے قیمتی شے ہے۔ اگر کسی بندے کی سب سے قیمتی شے اُس کا وقت ہے اور خدا نے نیکی کا تصور اُس پر کھولنا ہی تب ہے کہ جب اُس نے وقت دینا ہے اور وہ پوری زندگی وقت ہی نہ دے سکے تو وہ نیکی کی حقیقت نہیں پاسکے گا۔
اِس جملے پر غور کریں تو تصور واضح ہو جائے گا کہ اللہ کی بارگاہ میں کب کیا شے دینی ہے؟ زندگی کی جس بھی اسٹیج پر ہماری نگاہ میں جس بھی شے کی اہمیت بڑھ جائے جان لیں کہ وہ محبوب شے ہے۔ ہوسکتا ہے نوجوانی میں کسی اور شے کی وقعت زیادہ ہو، جوانی میں کوئی اور شے محبوب ہو، بڑھاپے میں کسی اور کی وقعت ہو۔ الغرض زندگی کی ترجیحات اور مصروفیات کے ساتھ ساتھ محبوب شے کا تصور بھی بدلتا رہے گا اور اسی محبوب شے کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں خرچ کرنے اور قربان کرنے سے ہی نیکی کی حقیقت تک پہنچا جاسکتا ہے۔
پھر جو لوگ نیکی کی حقیقت پا لیتے ہیں، اُن کے بارے میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا.
(مریم، 19: 96)
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے تو (خدائے) رحمن ان کے لیے (لوگوں کے) دلوں میں محبت پیدا فرما دے گا‘‘۔
اللہ کی بارگاہ میں محبوب شے کو خرچ کرنے کے جواب میں اس کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ یعنی محبو ب شے دو گے تو جواب میں اُس کی محبوب شے ہی ملے گی اگر کوئی ہلکی شے دو گے تو جواب میں ہلکی شے ہی ملے گی۔ اسی لیے فرمایا کہ جو لوگ اِس راہ پر محنت کرتے ہیں، انہیں اللہ رب العزت اپنے حضور سے محبت عطا فرما دیتا ہے۔
اس تمام گفتگو کے تناظر میں اب ذرا نگاہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ پر لے جائیں کہ جب اُنہوں نے خواب میں دیکھاکہ وہ اپنے محبوب بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں اور بعد ازاں اُنہوں نے اپنے بیٹے سے بات کی تو سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے بھی مان لیا اور خوشی سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے صابر پائیں گے۔ پھر آپ علیہ السلام نے جب ذبح کرنے کے لیے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لٹایا تو اللہ تعالیٰ نے دل کی کیفیت اور آزمائش پر پورا اترتے دیکھا تو سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ایک مینڈھا اُتار کر اُس کو ذبح کروا دیا۔ اللہ تعالیٰ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یہ ادا اور دل کی کیفیت اِتنی پسند آئی کہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے اس عملِ قربانی کو سنت بنا دیا اور نہ صرف سنت بلکہ ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کر دیا کہ وہ سنتِ ابراہیمی سمجھتے ہوئے قربانی دے۔
اب آیئے اس تناظر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ایک دفعہ آقا علیہ السلام تشریف فرما ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے شہزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ ہیں اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے پیارے شہزادے سیدہ فاطمۃ الزہرا کے لال امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔ فرشتہ اُترتا ہے اور عرض کرتا ہے: اللہ تعالیٰ آپ سے آپ کی محبوب شے مانگتا ہے؟یہ دونوں آپ کے جگر کے ٹکڑے ہیں، آپ ان میں سے ایک واپس لوٹادیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر محبوب شے دینی ہے تو پہلے جو میرے جسم سے براہ راست ہے، پہلے وہ لے جاؤ۔ آقا علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو پیش کر دیا اور کچھ عرصہ بعد اُن کا وصال ہوجاتا ہے۔
کچھ عرصہ گزرتاہے، آقا علیہ السلام کے دل میں امام عالی مقام بہت زیادہ بس جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے بہت پیار فرماتے ہیں اب اللہ رب العزت نے دیکھا کہ اب میرے محبوب کی سب سے محبوب شے ’’حُسین‘‘ ہے تو پھر فرشتہ بھیجا اور کہا کہ اب جا اور میرے محبوب سے ’’حُسین‘‘ بھی مانگ لے۔
صبر اور رضا کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے پہلے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ اور پھر امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ سے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آزمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاجدار کائنات ہیں، تقدیریں بدلنے والے ہیں، ٹہنیوں کو تلواروں میں تبدیل کرنے والے ہیں، خدا سے فتح ونصرت مانگ کر دینے والے ہیں، قیامت تک تاجداریاں بانٹنے والے ہیں، اگر آپ چاہتے تو امام عالی مقام کی یہ قربانی اللہ سے منسوخ کروالیتے لیکن جب اُن کو خبر دی گئی ہے کہ اللہ نے امام عالی مقام کی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب شے مانگی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ عطا فرما دی۔
جس طرح سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو پتہ تھا اور وہ خوشی سے ہنستے مسکراتے اپنے والد کے ساتھ اُس مقامِ ذبح پر جارہے ہیں اور کہتے ہیں: اے میرے والد ابراہیم علیہ السلام! آپ مجھے صابر پائیں گے، اللہ نے آپ سے جو مانگا ہے وہ دے دیں۔ اسی طرح اب ذرا یکم محرم الحرام سے دس محرم الحرام تک کے اُس سفر کو بھی نگاہ میں لائیںکہ امام عالی مقام بھی بچپن سے جانتے ہیں کہ خدا نے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مجھے مانگا ہے۔ وہ بھی مقتل میدانِ کربلا کی جانب اِسی طرح مقامِ رضا پر فائز ہو کر خوشی کے ساتھ، اکیلے نہیں بلکہ پورے خاندان کو لے کر قربان ہونے جا رہے ہیں او ر زبانِ حال سے وہ بھی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہتے ہوں گے کہ اے میرے بابا! خدا نے مجھے آپ سے مانگا ہے، آپ مجھے صابر پائیں گے، مجھے مقامِ رضا پر قائم پائیں گے، مجھے آپ اپنے حکم کے تابع پائیں گے۔
یہ محبوب اشیاء اللہ کے حضور دینے کی روایت بہت پرانی ہے اور درحقیقت وہ انسان سے محبوب چیزیں ہی مانگتا ہے۔ اب اُس کے دو طریقے ہیں:
1۔ محبوب شے دے کر بندہ غمگین رہے لیکن شکوہ نہ کرے۔ ایسا بندہ صابر ہے۔
2۔ محبوب شے دے کر بندہ اگر خوش رہے تو ایسا بندہ مقامِ رضا پر قائم ہے۔
یعنی اللہ کی بارگاہ میں محبوب شے دو طرح کے لوگ پیش کرتے ہیں: ایک دے کر صبر کرتا ہے اور دوسرا دے کر جھومتا ہے اور اُس کی روح وجد کرتی ہے کہ مجھ سے آج میرے محبوب نے کچھ مانگا ہے۔ مجھے یہ توفیق نصیب ہوئی ہے کہ میں اپنے محبوب کی راہ میں کچھ دے دوں۔
قربان جائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی بارگاہ میں امام عالی مقام کی صورت میں اپنی محبوب ترین شے پیش کردی اور پھر امام عالی مقام پر بھی قربان کہ انہوں نے بھی بخوشی اپنا سارا خانوادہ اللہ کے حضور میں پیش کردیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے حُسین کا دیا جانا اور امام عالی مقام امام حسین کی طرف سے اپنے آپ سمیت پورا خانوادہ قربان کردینا اللہ کی بارگاہ میں محبوب شے دینے کی انتہا ہے۔
مقامِ محبت
اللہ رب العزت کا وعدہ ہے کہ اگر مجھے اپنی محبوب شے دو گے تو میں تمہیں اپنی محبت دوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل پر اللہ نے جو محبت آقا علیہ السلام کو عطا فرمائی اس کی کوئی دوسری مثال نہیں مل سکتی۔ اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے جو مقامِ محبت، درجۂ محبت، انوار وتجلیاتِ محبت رکھے تھے،اسی مقام و مرتبہ کی حامل محبوب شے مانگی۔ لہذا آقا علیہ السلام نے بھی بے مثل شے اللہ کے حضور دی اور بے مثل مقام پا لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ رب العزت نے امام عالی مقام کو مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پیش کر دیا او ر پھر میدان کربلا میں امام عالی مقام سے اللہ کبھی علی اصغر مانگتا ہے، کبھی علی اکبر مانگتا ہے،کبھی امام حسن کے شہزادے مانگتا ہے، کبھی اہل بیت کے شہزادے مانگتا ہے اور کبھی سیدہ زینبj کے دو شہزادے مانگتا ہے۔ قربان جائیں امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقامِ رضا پر کہ ایک کے بعد ایک کو پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔ ماؤں کے لیے سب سے محبوب شے اُن کی اولاد ہوتی ہے، سیدہ زینب j میدان کربلا میں اپنے دو شہزادے عون اور محمد ، امام عالی مقام کی خدمت میں پیش کرتی ہوئی فرماتی ہیں کہ آپ نے اپنی ہر محبوب شے دے دی تو کیا مجھے نیکی کی حقیقت پانے کا حق نہیں ہے۔ مجھے بھی یہ دو شہزادے سب سے زیادہ محبوب ہیں، میں یہ اللہ کے حضور پیش کرتی ہوں۔
دنیا والوں میں سے کسی کی قیمتی شے اُس کا مال ہے، کسی کی قیمتی شے اُس کا وقت ہے، کسی کی قیمتی شے اُس کا حُسن وجمال ہے، کسی کی قیمت شے اُس کا لباس ہے، کسی کی قیمتی شے اُس کا عہدہ اور شہرت اور نام و نمود ہے مگر اہل بیت پاک کی عظیم ہستیاں وہ تھیں جنہوں نے اپنا نام ونمود پہلے بھی دین کو دے رکھا تھا، اپنا سارا وقت بھی دین کو دے رکھا تھا، اپنا سارا مال بھی دین کو دے رکھا تھا، ان کے اپنے پاس تو اِن کا اپنا کچھ بچا ہی نہ تھا، فقط اپنی جانیں تھیں اور بالآخر وہ آخری شے بھی محبوب جانوں کی صورت میں اپنے مولیٰ پر قربان کر دی۔
ہم تو ایک محبوب شے زندگی میں دیتے ہیں، اس پر بھی دل ہل جاتا ہے مگر قربان جائیں اُن مقدس ہستیوں پر کہ اُنہوں نے اپنے لیے کچھ رکھا ہی نہیں، مال و دولت، عزت و آبرو، جان ہر شے محبوب کی راہ میں دے دی۔ جب حضرت امام حسن ؓ پانچویں خلیفہ راشد بن گئے اور آقا علیہ السلام کی ظاہری امامت بھی نصیب ہوگئی مگر جب دیکھا کہ میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت فتنہ کا شکار نہ ہو جائے تو وہ تاجداری بھی دے دی۔ الغرض ہر شے اِس خانوادے نے دین پر لوٹا دی۔ امام حسینؓ کا زمانہ آیا تو دین کی بقاء کا مسئلہ تھا، لہذا انہوں نے دین کی بقاء کے لیے پورا خانوادہ راہِ خدا میں پیش کردیا۔ سب سے قیمتی جانیں تھیں، وہ بھی محبوب کی راہ میں لوٹا کر وہ عظیم المرتبت ہستیاں اللہ کے حضور اِس حال میں پیش ہوئیں کہ اللہ کے حضور عرض کرتے ہوں گے: مولیٰ! تو گواہ ہے کہ ہر شے جو کچھ تونے ہمیں دی تھی، تیری ہی راہ میں لٹا کر تیری بارگاہ میں حاضر ہوگئے ہیں۔
دوسری طرف اگر ہم اپنی زندگیوں کو دیکھیں تو ہمارا حال یہ ہے کہ ہم لوگ کبھی اتنا تھوڑا سا بھی نہ کر پائے کہ دل کو ہی کوئی بڑا جھٹکا لگ گیا ہو۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ مولیٰ تو ہمیں اپنی محبت نہیں دیتا۔ سوال یہ ہے کہ وہ اپنی محبت ہمیں کیسے دے؟ اُس نے تو محبت کی قیمت ہی بڑی اونچی رکھی ہے۔ ایسے تو نہیں ہے کہ دل بھی راضی رہے اور مولیٰ بھی راضی رہے۔۔۔ دنیا بھی راضی رہے اور آخرت بھی نصیب ہو۔۔۔ کوئی ایک بڑی شے دے کر کچھ لینا پڑتا ہے،اُس کے بغیروہ مولیٰ راضی نہیں ہوتا اور نیکی کی حقیقت نہیں ملتی۔ ہمہ وقت قربانی کے لیے آمادہ رہنا پڑتا ہے، جان دینا بہت بڑی بات ہے، ہم سے تو وقت نہیں دیا جاتا۔ سب سے نالائق بچہ جو کسی دوسری فیلڈ میں نہ چل سکے، اس کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں کہ اسے حافظ بناؤ، دین کا علم سکھاؤ، عالمِ دین بناؤ اور جو سب سے لائق بچہ ہوتا ہے اس کے لیے میڈیکل، انجینئرنگ اور آرمی میں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یعنی اللہ کی راہ میں اولاد میں سے بھی سب سے نالائق دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ تم میری راہ میں کیا دیتے ہو۔ اس طرزِ عمل سے تم نیکی کی حقیقت اور میری راہ میں سُچے موتی کو حاصل نہ کر پاؤ گے۔ وہ عظیم لوگ تھے، اُنہوں نے نہ صرف دین کی راہ میں اپنی عظیم اولادیں دیں بلکہ برضا و رغبت جانیں بھی دے دیں اور دوسری طرف ہم دین پڑھانے کے لیے اگر کوئی اولاد بھی دینے لگیں تو نالائق اولاد ڈھونڈتے ہیں۔
اہلِ بیت کے تذکرہ کو ابدیت کیوں؟
یاد رکھیں! محبوب شے نہیں دیں گے تو اُس محبوب کی رضا نہیں ملے گی۔ معرکہ کربلا،محرم کے ایام یہ عظیم المرتبت ہستیوں کی قربانیاں ہمیں ہر لمحہ، ہر سال بس یہی یاد کرواتی رہتی ہیںکہ اُنہوں نے اپنی محبوب اشیاء دے دی تھیں،تم کب دو گے؟ جب اِن عظیم المرتبت ہستیوں اور امام عالی مقام نے وہ محبوب اشیاء اللہ کی راہ میں دیں تو پھر اللہ رب العزت نے انہیں اپنی ایسی محبت عطا فرمائی کہ قیامت تک ہر جگہ اہل بیت پاک کی محبت کے تذکرے ہوتے ہیں او رصرف یہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اہل بیت سے محبت و مودّت کرنے کا حکم دے دیا۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.
’’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘۔
(شوریٰ، 42: 32)
یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی فرمان یا قول کا تذکرہ نہیں بلکہ اللہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہے کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ اپنی امت سے کہہ دیں کہ میں تم سے اپنی تبلیغِ دین پر کچھ نہیں مانگتا لیکن اپنی اہل بیت پاک سے محبت مانگتا ہوں۔ درحقیقت محبتِ اہل بیت کا یہ تقاضا اللہ کی طرف سے ہے اور اس تقاضائے محبت کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ خانوادہ جان، مال اور اولاد سمیت اپنی ہر محبوب شے میری راہ میں لٹانے کے ہر وقت تیار ہے۔
امام شافعیؒ نے اہل بیت پاک کی محبت کے حوالے سے کیا خوبصورت اشعار ارشاد فرمائے:
یا أهل بیت رسول الله حبکم
فرض من الله فی القرآن أنزله
کفاکم من عظیم القدر أنکم
من لم یصل علیکم لا صلاة له
(ملا علی قاری، مرقاة المفاتیح، 67)
اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ سے محبت کرنا اللہ نے قرآن میں فرض قرار دیا ہے۔ اِس سے زیادہ آپ کی عظمت اور کیا ہوگی کہ اُس شخص کی نماز قبول ہی نہیں ہے جو نماز میں اہل بیت رسول پر درود نہ بھیجے۔
آقا علیہ السلام نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: اللہ سے محبت کرو، اِس وجہ سے کہ اُس نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے مالامال فرما دیا اور وہ تم پر شفقت فرماتا ہے اور تم پر بے حساب رحمت فرماتا ہے۔ مجھ سے محبت کرو تاکہ اللہ تم سے محبت کرے۔ پھر فرمایا: میری اہل بیت سے محبت اِس لیے کرو تاکہ میں تم سے محبت کروں۔
- (ترمذی، السنن،کتاب المناقب، 664، رقم: 3789)
- (حاکم، المستدرک، 162، رقم: 4716)
پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے حصول کا ذریعہ محبتِ اہلِ بیت سے اپنے ظاہرو باطن کو منور کرنا ہے۔
میرا حسین تنہا ایک امت ہے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
حسین سبط من الأسباط.
(ترمذی، السنن، کتاب المناقب،51، رقم: 144)
میرا حسین امتوں میں سے ایک امت ہے۔
یعنی میرا حسین میری امت کا صرف امام نہیں ہے، صرف جنت کا شہزادہ اور مالک نہیں ہے،صرف میرا پیار نہیں ہے بلکہ حسین خود ایک پوری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کا کیا مفہوم ہے؟ آیئے اس کو سمجھتے ہیں:
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور واقعہ کربلا کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ بہت سے مغربی اسکالرز نے واقعہ کربلا پر ایک بہت خاص بات کی ہے کہ امام حسین یا واقعہ کربلا کا تعلق صرف حیاتِ اسلام سے نہیں ہے۔ اسلام کو حیات شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے نصیب ہوئی ہے مگر اس واقعہ کے پسِ منظر میں سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ کو ایک نئے زاویہ سے سمجھنا ضروری ہے۔ ابراہیم علیہ السلام درحقیقت جد الانبیاء ہیں۔ آپ کی اولاد سے بنی اسرائیل بھی ہے۔ یعنی یہود اور نصاریٰ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں سے ہیں۔ گویا چاروں آسمانی کتابیں (توریت، زبور، انجیل، قرآن مجید) چاروں بڑی شریعتیں، جن کو divine religion (الہامی مذاہب) کہا جاتا ہے، یہ تمام آپ کی اولاد میں آنے والے انبیاء کو نصیب ہوئیں۔ اُن تمام شریعتوں کے لانے والے سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ آپ علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام سے بنی اسرائیل کے انبیاء آئے جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ اللہ رب العزت نے divine religion کے ذریعے جو اقدار انسانیت میں متعارف کروائی تھیں، سیدنا ابراہیم سے لے کر آقا علیہ السلام تک یعنی پچھلے چار، پانچ ہزار سال میں انسانی قدریں، امن، اللہ کا دھیان، عبادت کا شعور، حلال اور حرام کی تمیز وغیرہ یہ اقدار آقا علیہ السلام کے دور میں اپنے اوجِ کمال تک پہنچی تھیں مگر یزید کے دور میں یہ تمام اقدار خطرے میں آگئی تھیں۔ یزید کے وجود سے پچھلے پانچ ہزار سال سے چلی آنے والی انسانی اقدار و روایات کو خطرہ تھا۔ ان انسانی اقدار کا تحفظ امام حسین نے کیا۔ گویا شہادتِ امام حسین فقط اسلام کے تحفظ کی بات نہیں تھی۔ اِسی وجہ سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو امام عالی مقام کی شہادت سے بدلا گیا، جس کو قرآن نے ذبحِ عظیم کے نام سے موسوم کیا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بعد تمام مذاہب میں موجود اقدار میں سے ہر قدر اپنے کمال کو پہنچی تو اسلام بن گیااور اسلام میں وہ اقدار جب اپنے کمال پر پہنچیں تو اُن کا اظہار اور عملدرآمد خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں نظر آیا۔
خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور کے بعد ساٹھ ہجری میں جب بدبخت یزید سلطنت پر بیٹھاتو اُس کے وجود سے اسلام کی عطا کردہ سیاسی، معاشرتی، روحانی، معاشی قوانین، انسانی قدریں، حتی کہ حلال وحرام کا تصور تک ختم ہو گیا۔ یعنی اُس نے پانچ ہزار سال کے مذاہب کی تاریخ کو مسمار کرنے کی کوشش کی۔
یزید کی اس سوچ اور نظریے کا خاتمہ جس ذات نے کیا، اُس ذات کو امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ اِس وجہ سے کسی ایسے واقعے پر اللہ نے وحی نہیں کی کہ اِس کو بدل رہا ہوں۔ امام حسین کی شہادت سے پانچ ہزار سال پہلے کے واقعے کو خدا نے کہا تھا اِس کو ایک دن ذبح عظیم سے بدلوں گا۔ ابراہیم! اسماعیل تیرا لاڈلا ہے اور تو میرا لاڈلا ہے، تیرے ساتھ میرا پیار حد میں ہے لیکن اب میرا ایک اور لاڈلا آئے گا، جس کے ساتھ میرا پیار لامحدود ہو گا۔ اُس کا بھی ایک لاڈلا ہو گا، جس کے ساتھ اُس کا پیار لامحدود ہو گا۔ اب یہ اُس سے بدلوں گا۔
درحقیقت امام حسین رضی اللہ عنہ کے وجود اور واقعہ کربلا کے ذریعے نہ صرف اسلام کی تاریخ کا تحفظ ہوا بلکہ پانچ ہزار سال پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے آگے جو کچھ چلا، ہر اعلیٰ قدر اور انسانیت کا تحفظ بھی اللہ رب العزت نے آپ کے ذریعے ممکن بنایا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام عالی مقام امام حسینؑ کے اکیلے وجود ، آپ کے نظریے ، آپ کے مقصد حیات، آپ کے جینے کے انداز ،آپ کی جرأت،شجاعت کو ایک مکمل امت قرار دیا کہ غلط اور صحیح کے درمیان فکرکے مینار ’’حسین‘‘ ہیں۔ یعنی امام حسین کی صورت میں موجود امت، ہر امت کے لیے کافی ہے۔ ہر امت کویہ امت فائدہ دے۔ یہ امت جس کا نام ’’حسین‘‘ ہے، یہ اُن ساری امتوں کے اقدار کا تحفظ کرے گا۔
شہادت سیدنا امام حسین اور شہداء کربلا کا پیغام یہ ہے کہ ہم نیکی کی حقیقت اس وقت تک نہیں پا سکتے،جب تک اپنی محبوب شے کو اللہ کی بارگاہ میں قربانی کے لیے پیش نہ کردیں۔ اسی صورت میں ہمیں اُس کی محبت اور دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام جو سلوک و تصوف کی راہوں کے مسافر ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ ساری زندگی ایک ہی چیز اللہ کی راہ میں دیتے ر ہیں،نہیں بلکہ وہ جب ابتدائی مرحلوں پر ہوتے ہیں تو کبھی مال دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور جب مال کی محبت دل سے نکل جاتی ہے تو پھر وہ اولاد، عزت و آبرو، ناموری و شہرت ہر چیز قربان کرتے آگے بڑھتے رہتے ہیں اور اسی طرح ایک کے بعد ایک ایک قربت و معرفت اور محبت کا دروازہ ان پر کھلتا چلا جاتا ہے اور جب کائنات کی ہر شے کی محبت ان کے دل سے نکل جاتی ہے تو پھر وہ اپنی جان بھی پیش کر دیتے ہیں۔
آج ہمیں اپنی زندگیوں میں غور کرنا ہوگا کہ کیا شے ہمیں پسند ہے اور ہمارے لیے بہت زیادہ محبوب ہے۔ اگر وقت زیادہ قیمتی ہے تو اُس کی راہ میں وقت خرچ کریں۔۔۔ اگر مال زیادہ قیمتی ہے تو مال خرچ کریں۔۔۔ اگر اولاد سے پیار ہے تو اُس اولاد کو دین کی راہ پر نکالیں۔۔۔ اپنا حسن وجمال اور وضع قطع زیادہ پسند ہے تو نصرتِ دین کی خاطر اس حسن و جمال اور وضع قطع کو قربان کریں اور دین اور انسانیت کی خدمت کے لیے موسم کی نرمی و شدت کا لحاظ کے بغیر مارے مارے پھریں۔۔۔ الغرض جس شے کا زیادہ خیال رہے، اُسی کو اللہ کی راہ میں پیش کر دیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں فلسفہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، شہدائے کربلا کو ملنے والی عنایات میں سے حصہ عطا فرمائے اور ہمیں اپنی زندگی کو بایں طور سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی اس راہ پرچلیں اور اپنی محبوب اشیاء میں سے خرچ کر سکیں تاکہ اللہ ہمیں بھی اپنے محبوب اور نیک بندوں کی راہ کا مسافر بنائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم