حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تاریخِ اسلام کا ایک ایسا روشن ستارہ ہیں جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپؓ قبیلہ عدی سے منسلک ہیں، جن کے جدِ اعلیٰ حضرت کعب بن لؤی قبیلہ قریش کے بھی جد اعلیٰ ہیں۔ اس مناسبت سے آپکا شجرہ نسب نویں پشت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپؓ کا خاندان شرف ونیابت اور عظمت وتوقیر میں انتہائی اونچا مقام ومرتبہ رکھتا تھا۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ جب آپ اسلام لے آئے تو اہل مکہ کے سرداران کہنے لگے:
اَلْیَوْمَ قَدِ انْتَصَفَ الْقَوْمُ مِنَّا.
آج کے دن ہماری قوم دو حصوں میں بٹ گئی۔
اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا تعلق مکہ کے ایک ایسے قبیلے سے تھا جس کو اپنی شان وشوکت اور تمکنت کے باعث بین القبائلی سفارت اور تسلیم شدہ حَکم اور ثالث ہونے کی حیثیت حاصل تھی۔ ایسے اونچے قبیلے سے کسی شخص کا اسلام لانا، بدیہی طور پر اسلام کی تقویت اور اس کے رعب ودبدبے میں اضافے کا باعث تھا۔
آپ رضی اللہ عنہ کو صرف قبائلی برتری ہی نصیب نہ تھی بلکہ آپؓ کی شخصیت میں من جانب اللہ ودیعت کی گئی عقلی سلامت، علمی جلالت، جسمانی وجاہت، بلند وبالا قامت جیسی صفات کی وجہ سے مکہ کے بڑے بڑے سپوت آپؓ کے سامنے ڈھیر ہوتے نظر آتے تھے۔ آپ کو سپہ گیری کے فن پر تو جو مہارت تھی وہ تھی ہی، علاوہ اس کے آپ خوب بہادر پہلوان بھی تھے۔ قد و کاٹھ کی ہیبت کے سبب آپ ہمیشہ سب میں نمایاں نظر آتے۔ جب آپؓ میلہ عکاظ کے اکھاڑوں میں اترتے تو حریفوں کو پچھاڑ کر رکھ دیتے اور اپنی جسمانی قوت اور شہ زوری کا لوہا منواتے۔
قبولِ اسلام
نگاہِ نبوت سے اس گوہرِ نایاب کی صفات مخفی نہ تھیں۔ اس حق شناس طبیعت اور عقلِ سلیم رکھنے والے جرار وبہادر انسان کو جب دعائے نبوی کا سہارا ملا، تو فورا مشرف باسلام ہوئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس راہِ حق کے متلاشی کو حق کی راہ بصدقہ وبوسیلہ نبوی میسر ہوئی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نگاہ نبوت سے یہ بھانپ لیا کہ عمر دینِ حق کی تبلیغ اور اس کی تائید ونصرت میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے تو بارگاہِ الہٰی میں دامن طلب پھیلا دیا۔ فرمایا:
أللَّهُمَّ أَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَظَّاب.
الہی عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو غلبہ ودبدبہ نصیب فرما۔
دعائے نبوت کا وسیلہ تھا کہ اللہ رب العزت نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دل کی کایا پلٹ ڈالی اور انہیں بارگاہِ محمدی میں پہنچا دیا۔
احادیث میں آتا ہے کہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ فیض رساں تین دفعہ سینے پر مار کر یہ فرمایا:
اَللَّهُمَّ أَخْرِجْ مَا فِی صَدْرِهِ مِنْ غِلٍّ وَأَبْدِلْهُ إِیْمَانًا.
اے اللہ عمر کے سینے کی کدورت نکال دے اور اسے نورِ ایمان سے بدل دے۔
دعائے محمدی قبول ہوئی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قسمت جاگ اٹھی، آپ کا سینہ نور ایمان سے روشن ہوگیا اور خدا نے بدعائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے سینے سے ہر طرح کا غل اور کدورت دور فرما دی۔
قارئین محترم! یہاں یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ اگر کوئی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف کوئی ایسا قول وفعل منسوب کرتا ہے جو کسی کے دل کے میل کچیل پر دلالت کرے، تو ایسا قول وفعل کم از کم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حق میں بے اصل وبے بنیاد ہو گا۔ کیونکہ دعائے محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہر طرح کی کدورت سیدنا عمرؓ کے دل سے خارج ہو چکی۔
حضرت عمرؓ اسلام لے آئے۔ آپکا اسلام لانا اتنا بابرکت تھا کہ اس کی خوشی صرف زمین پر موجود اہلِ اسلام ہی کو نہ تھی بلکہ اس خوشی میں آسمانی نورانی دنیا بھی شامل ہوئی۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے:
اِسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ.
آسمان میں بسنے والے (ملائکہ بھی)حضرت عمر کے اسلام لانے پر بے حد خوش ہوئے ۔
یوں مرادِ رسول برحق ہوئی اور پھر وہی ہوا جس کے سبب حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لیے اسلام کی دعا مانگی تھی۔ اسلام کو اللہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بدولت ایسی تقویت بخشی کہ جس کی تاریخِ عالم میں مثال نہیں ملتی۔
علمی مقام و مرتبہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رَأَیْتُ کَأَنِّی أُتِیْتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْهُ فَأَعْطَیْتُ فَضْلِی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.
میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میرے پاس ایک دودھ کا پیالہ لایا گیا، میں نے اس میں سے پی کر اپنا بچا ہوا عمر بن خطاب کو دے دیا۔ صحابہ کرام نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول اس کی کیا تعبیر ہے؟ فرمایا: العلم، اس سے مراد علم ہے۔
لہٰذا اس حدیث سے خوب واضح ہوگیا کہ حضرت عمرؓ کو جس ظاہری و باطنی علم سے نوازا گیا وہ نسبتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ملنے والے فیض کا نتیجہ ہے اور آپ کا علم، علمِ محمدی کے تابع تھا۔ اسی نسبتِ محمدی کی برکت تھی کہ آپ کے علم کو تائیدِ الہٰی بھی نصیب ہوئی، جس پر بیّن ثبوت کئی مقامات پر آپ کی رائے کا وحی الہی سے موافقت رکھنا ہے۔
ححضرت مجاہد فرماتے ہیں:
کَانَ عُمَرُ إِذَا رَأَی الرَّأْیَ نَزَلَ بِهِ الْقُرْآنُ.
سیدنا عمر فاروق جب کوئی رائے دیتے تو اس کے مطابق قرآن نازل ہو جاتا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے:
وَلَوْ أَنَّ عِلْمَ عُمَرَ وُضِعَ فِی کَفَّةِ الْمِیْزَانِ وَوُضِعَ عِلْمُ أَهْلِ الْأَرْضِ فِی کَفَّةٍ لَرَجَحَ عِلْمُهُ بِعِلْمِهِمْ.
اگر عمر کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور تمام اہلِ زمین کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو یقینا عمر کا علم ان سب کے علم پر بھاری ہو گا۔
فتوحاتِ فاروقی
یہ تو تھا حضرت عمر کو نوازا جانے والا علم اور اس علم کی ثقاہت اور اس کا صائب ہونا۔ رہی بات آپ کی فتوحات اور اسلامی ریاست میں وسعت کا سبب بننا، تو اس کے اشارے بھی سرور کونین حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے سے فرما چکے تھے۔ ہم یہاں اس کے کچھ نظائر پیش کیے دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم رَأَیْتُ فِیمَا یَرَی النَّائِمُ کَأَنِّی أَنْزِعُ أَرْضًا، وَرَدَتْ عَلَیَّ وَغَنَمٌ سُودٌ، وَغَنَمٌ عُفْرٌ، فَجَاء َ أَبُو بَکْرٍ۔۔۔ ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَنَزَعَ فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَمَلَأَ الْحَوْضَ وَأَرْوَی الْوَارِدَۃَ، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِیًّا أَحْسَنَ نَزْعًا مِنْ عُمَرَ، فَأَوَّلْتُ أَنَّ السُّودَ الْعَرَبُ وَأَنَّ الْعُفْرَ الْعَجَمُ.
فرمایا: میں نے خواب دیکھا گویا میں ایک زمین سے جس میں مجھ پر کالی اور سرخی مائل سفید بکریاں وارد ہوئیں، پانی کے ڈول نکال رہا ہوں۔ پھر ابو بکر آئے۔۔۔ پھر عمر آئے پس انہوں نے بھی ڈول نکالے تو وہ ڈول ان کے ہاتھ میں بڑے ڈول میں تبدیل ہوگیا۔ پھر آپ نے حوض بھر دیااور وارد ہونے والی سب کی سب بکریوں کو سیراب کر دیا۔ اور میں نے کسی کو عمر سے بڑھ کر ڈول نکالنے والا نہیں دیکھا۔ اور میں نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ سیاہ بکریوں سے مراد عرب اور سرخی مائل سفید بکریوں سے مراد عجم ہیں۔
قارئین محترم! علمِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ بات موجود تھی کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سبب اللہ اسلامی ریاست کو فتوحات سے نوازے گا۔ اور یہ فیض عہدِ عمر میں عرب وعجم تک منتقل ہوگا۔ فرمان عالی شان: فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِیًّا أَحْسَنَ نَزْعًا مِنْ عُمَرَ اس بات کا شعور پیدا کرتا ہے کہ عمر سے بہتر مہارت سے یہ کام کرنے والا اور کوئی نہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدا داد صلاحیتوں اور آپ کی شخصیت کی جامعیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔
مورخین کا کہنا ہے کہ آپ کے دورِ خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ(ایشیائے کوچک، مغربی ایشیا کا جزیرہ نما)، جنوبی آرمینیا اور سجستان کی سرزمین فتح ہوئیں۔ مملکت اسلامیہ کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار تیس (22,51,030) مربع میل پر پھیل گیا۔
آپؓ کی خلافت کے مبارک دور میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا اور یوں ساسانی (چوتھی ایرانی اور دوسری فارسی)سلطنت کا مکمل رقبہ جبکہ بازنطینی (مشرقی رومی)سلطنت کا تقریبا تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آگیا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے اپنی سلطنت و حدودِ سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امورِ سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام کی ان برکات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
إِنْ کَانَ إِسْلَامُ عُمَرَ لَفَتْحًا، وَإِمَارَتُهُ لَرَحْمَةً، وَاللهِ مَا اسْتَطَعْنَا أَنْ نُصَلِّیَ بِالْبَیْتِ حَتَّی أَسْلَمَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَسْلَمَ قَابَلَهُمْ حَتَّی دَعَوْنَا فَصَلَّیْنَا.
جناب عمر رضی اللہ عنہ کا اسلام فتح مبین، آپ کی ہجرت نصرت خداوندی اور رحمتِ ایزدی تھی۔ اس سے پہلے ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کے حق سے محروم تھے۔ جناب عمر رضی اللہ عنہ نے بزورِ بازو یہ حق حاصل کیا اور ہم نے بیت اللہ میں آزادی سے نماز پڑھی۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہونے والی یہ فتوحات در اصل فتوحاتِ محمدی ہی کا تسلسل تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت سے بھی بہت پہلے سے حضرت عمرؓ کی ان خداداد صفات کو بھانپ چکے تھے۔ یہ سب فیضِ محمدی ہی کی بددلت ممکن ہوا۔
کم وبیش بارہ سال فتوحات کا یہ سلسلہ جاری رہا ۔ عہدِ فاروقی میں جس کمال نظم سے حضرت عمرؓ نے ریاستی انتظامات چلائے وہ قیامت تک کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپؓ کے فضائل اور آپؓ کی شخصیت کا ارشاداتِ نبوی کی روشنی میں تفصیلی مطالعہ کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تصنیف ’’اَلْقَوْلُ الصَّوَاب فِی فَضَائِلِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّاب‘‘ کا مطالعہ کریں۔یہ کتاب اپنی نوعیت کی منفرد تصنیف ہے۔
شہادت
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں بعد میں آنے والوں کے لیے بہت سی مثالیں قائم کیں۔ حتی کہ آپ کے بحضور الہ پیش ہونے کا وقت قریب آ گیا۔ حضرت عمر یوں دعا مانگا کرتے تھے:
اَللَّهُمَّ ارْزُقْنِی شَهَادَةً فِی سَبِیْلِکَ، وَاجْعَلْ مَوْتِی فِی بَلَدِ رَسُوْلِکَ.
اے اللہ مجھے اپنے رستے میں شہادت نصیب فرما اور مجھے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر میں موت نصیب فرما۔ اور ایسا ہی ہوا۔
آپؓ کی شہادت کا واقعہ یوں ہے کہ جب اس دور میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ پھیلا تو مدینہ میں بھی دیگر مقامات کی طرح عجمی غلاموں کا تانتا بندھ گیا۔ قیدی کی حیثیت سے آنے والے ان لوگوں میں سے کچھ تو مسلمانوں کے خلوص اور حیرت انگیز ایثار سے متاثر ہو کر اسلام لے آتے اور کچھ عجمی غلام جنہوں نے اگرچہ اسلام قبول نہ کیا تھا مگر مسلمانوں کی فراخ دلی وفیاضی اور حسنِ سلوک سے متاثر ہوتے اور ان سے وفادار رہتے ان کو مسلمانوں کا غلام بن کر رہنے سے وہ آزادی میسر تھی جو دوسری قوموں کے خستہ حال آزاد لوگوں کو بھی میسر نہ تھی۔ کیونکہ سب طبائع ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ لہذا مسلمانوں کے احسانات کے باوجود کچھ ناقدر سوختہ نصیب ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے مسلمانوں کی شرافت اور نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ ان میں سے ایک حضرت مغیرہ کا غلام ابولؤلؤبھی تھا۔
ابولؤلؤ ایک تند خو، ظالم وجفا کار سفاک غلام تھا۔ اس کے مالک حضرت مغیرہ نے اسے مکمل آزادی دی ہوئی تھی۔ یہ انہیں فقط ایک دینار کما کر دیتا۔ مختلف فنون میں ماہر اور اعلی درجے کا کاریگر ہونے کے باعث روزانہ کئی دینار کما لینا اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہ تھا مگر اس کی بری فطرت اتنا معمولی سا خراج ادا کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھی۔ ایک روز جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بازار کا جائزہ لے رہے تھے کہ ابولؤلؤ سامنے آگیا اور کہا کہ مغیرہ سے کہیے کہ وہ میرے خراج میں تخفیف کر دے، میں ایک دینار یومیہ ادا نہیں کر سکتا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی مہارت اور ہنر مندی کی تفصیلات سن کر جواب دیا تم ایک ماہر کاریگر ہو، کئی دینار کما کر ایک دینار اپنے مالک کو دے دینا تمہارے لیے کچھ مشکل نہیں۔ اس لیے تمہاری سفارش نہیں کر سکتا۔
معقول بات تسلیم کرنے کی بجائے ابولؤلؤ دانت پیس کر رہ گیا اور اس نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی ٹھان لی۔ وہ انتقامی کارروائی کے لیے گھات میں بیٹھ گیا۔ آپ حسب معمول فجر کی نماز پڑھانے کے لیے مسجد تشریف لائے۔ عموما سورۃ نحل کی تلاوت فرمایا کرتے تاکہ نمازی جماعت میں شریک ہو سکیں۔ جب آپ رضی اللہ عنہ نے نیت باندھی تو ابولؤلؤ نے گھات سے نکل کر دو دھاری خنجر کے ساتھ آپ پر حملہ کر دیا۔ پیٹ مبارک میں خنجر دور تک اتر گیا اور آنتیں کاٹ دیں۔ ابولؤلؤ اپنا کام کر کے وحشی دیوانے کی طرح نماز میں کھڑے نمازیوں کو زخمی کرتا ہوا پلٹا۔ تیرہ غازی اس کے خنجر کی زد میں آئے اور چھے موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ ایک آدمی نے چادر پھینک کر ابولؤلؤ کو بے بس کر دیا۔ اس نے وہی خنجر اپنے پیٹ میں گھونپ کر خود کشی کر لی۔ یہ تاریخی المیہ اس سرعت سے ظہور پذیر ہوا کہ اگلی صفوں میں کھڑے چند آدمیوں کے سوا کسی کو پتا چل سکا اور نہ ہی ان قدسی صفات حضرات نے نماز توڑی۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر نماز کے لیے آگے کیا۔ انہوں نے جلد نماز پڑھائی پھر امیر المومنین کی طرف متوجہ ہوئے۔ زخم اتنے گہرے تھے کہ جانبر ہونے کا امکان کم تھا۔
گھر لا کر کھجور کا پانی پھر دو دھ پیش کیا مگر وہ زخموں کی راہ نکل گیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر سب کے کلیجے زخمی ہوگئے۔ آپؓ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جائو اور کہو کہ عمر بن خطاب اپنے ساتھیوں کے ساتھ حجرے میں دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو احسان ہو گا۔ حضرت عبداللہ گئے، اجازت طلب کی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زارو قطار رو رہی تھیں۔ جب درخواست پیش کی تو بولیں: یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی۔ لیکن آج میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں۔
یہ خوشخبری لے کر حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ آئے تو آپ کا چہرہ انور کھل اٹھا جیسے دولتِ کونین پا لی ہو۔ فرمایا: خدا کا شکر کہ یہ مسئلہ حل ہوگیا۔
ان نازک لمحات میں بھی آپؓ نے امت کی فلاح کو نظر انداز نہ کیا۔ اپنے مقرر حکومتی نمائندگان کو وعظ ونصیحت کی، چھ رکنی جماعت مقرر کی کہ مسلمان ان میں سے اپنا امیر چن لیں۔ ہر طرف سے فارغ اور مطمئن ہو کر آپ نے اپنی جان خالق کائنات کے سپرد کر دی ۔
تجہیز وتکفین کی رسومات ادا کی گئیں۔ اور آپ کو چار پائی پر لٹا دیا گیا۔ ہجوم یاراں میں کسی نے جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور بڑے ہی مغموم لہجے میں کہا:
یَرْحَمَکَ اللهُ، إِنِّی کُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ یَجْعَلَکَ اللهُ مَعَ صَاحِبَیْکَ لِأَنِّی کَثِیْرًا مَا أَسْمَعُ رَسُوْلَ اللہِ یَقُوْلُ: کُنْتُ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَفَعَلْتُ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَانْطَلَقْتُ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، فَالْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ.
اللہ آپ پر رحمتیں نازل فرمائے۔ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ خدا آپ کو دونوں دوستوں کے پہلو میں جگہ دے گا۔ کیونکہ میں اکثر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کرتا تھا آپ بیک وقت تینوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ یعنی میں اور ابو بکر اور عمر، میں اور ابو بکر اور عمر نے یہ کہا۔ میں اور ابو بکر اور عمر گئے۔ جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تریسٹھ برس عمر پائی اور یوں افقِ عالم پر روشن یہ ستارہ ہجرت کے تئیسویں سال یکم محرم الحرام کو خالق حقیقی سے جا ملا۔
قارئین گرامی قدر! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اہلِ ایمان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرامؓ اور تمام اہل بیتؓ سے بھی محبت کریں۔ ابن سیرین فرمایا کرتے:
مَا أَظُنُّ رَجُلًا یَنْتَقِصُ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ یُحِبُّ النَّبِیَّ.
میں کسی شخص کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت بھی کرے اور (اس کے باوجود) حضرت ابو بکر وعمر کی تنقیص کرتا ہو۔ اللہ کے حضور دعا ہے کہ وہ ہمیں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللھم آمین بجاہ سید المرسلین۔