پاکستان لیلۃ القدر کی رات معرض وجود میں آیا اور یہ برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی عقیدت کا مرکز و محور ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل مسلمانوں کو ہر اعتبار سے تعصب اور امتیازی رویوں کا سامنا تھا۔ مسلمان شعائرِ دین کی بجا آوری کے حوالے سے گھٹن اور مزاحمتوں کا شکار تھے اس کے علاوہ سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے بھی انہیں تیسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا تھا۔ پاکستان کا قیام کروڑوں اسلامیانِ برصغیر کی ناگزیر ضرورت تھا اور جب اس کی قیادت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ہاتھ میں آئی تو تشکیلِ پاکستان کے مراحل تیزی سے طے ہوتے چلے گئے اورپورا برصغیر پاکستان کا مطلب کیا لا الا اللہ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ اسلامیانِ برصغیر اپنے جملہ مسائل کا حل اسلامی تعلیمات میں تلاش کرتے تھے اور انکا یہ پختہ ایمان اور عقیدہ تھا کہ الگ وطن حاصل کئے بغیر اسلام کے حقیقی فیوض و برکات سے مستفید نہیں ہوا جا سکتا۔ تحریکِ پاکستان میں اسلام کا رنگ پوری تحریک پر غالب تھا اورقائد اعظم محمد علی جناحؒ اپنے بیانات اور خطابات میں ہمیشہ کہتے رہے کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا اور اس تجربہ گاہ میں تمام سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی احکامات کو عملی شکل دی جائے گی۔ ان کے ان افکار کو برصغیر کے علماء و مشائخ کی بھر پور تائید حاصل تھی۔ بانی پاکستان اپنے خطابات اور بیانات میںمختلف امور کی انجام دہی کے ضمن میں قرآن و سنت کے حوالہ جات کا بکثرت استعمال کرتے رہے اور ان کا تصورِ پاکستان ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست کا تھا، ایک ایسی ریاست جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہو۔ قائد اعظمؒ کے اسی ماڈریٹ ویژن کی وجہ سے اعتدال پسند علماو مشائخ کی ایک بڑی تعداد انکی گرویدہ تھی اور وہ ان کی قیادت میں جمع ہو گئی اور علمائے کرام نے بانی پاکستان کے شانہ بشانہ اسلامیانِ برصغیر کو اسلامی فکر اور آئیڈیالوجی سے ہم آہنگ رکھا۔ وہ قوتیں جو فرقہ واریت اور تشددکے ذریعے تحریک پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتی تھیں، وہ اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر برصغیر کے جید علما و مشائخ بانی پاکستان کے ہمرکاب نہ ہوتے تو آسانی کے ساتھ قیام پاکستان کی منزل حاصل نہ ہو پاتی۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بانی پاکستان اسلام کے حوالے سے گہرا مطالعہ رکھتے تھے اور وہ ہر پالیسی کی فکری رہنمائی قرآن و سنت سے لیتے تھے وہ فرماتے تھے کہ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے کہ جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘ بانی پاکستان نے فرمایاکہ ’’مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآن مجید میں موجود ہے، ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں اور قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی اور پروگرام پیش نہیں کر سکتی‘‘ ایک اور موقع پر بانی پاکستان نے فرمایا کہ ’’وہ کونسا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں ، وہ کونسی چٹان ہے جس پر انکی ملت کی عمارت استوار ہے، وہ کونسا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن مجید ہے‘‘۔ بانی پاکستان نے 1948ء میں ایک موقع پر فرمایا کہ’’مجھے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہو گا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوں؟ یہ کام پاکستان میں رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کے طرزِ حکومت کا آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے فیصلہ کر دیا تھا‘‘۔ بانی پاکستان نے گاندھی کے نام لکھے گئے خط میں فرمایا کہ ’’قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی، فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی الغرض سب شعبوں کے احکام موجود ہیں‘‘۔ بانی پاکستان کے تصورِ پاکستان کو سمجھنے کیلئے ان کے درج ذیل اقوال کو پڑھنا اورسمجھنا ہوگا۔ 25 جنوری 1948 کو بار ایسوسی ایشن کی طرف سے یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر آپ نے کہا کہ ’’اسلام اور اس کے نظریے نے جمہوریت کا درس دیا۔ اسلام نے نوعِ انسانی کو مساوات، عدل اور تہذیب و شائستگی سکھائی‘‘ اسی موقع پر بانی پاکستان نے کہا کہ ’’صوبائیت پرستی ایک مہلک مرض اور لعنت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان صوبائی تعصب کے اس مہلک مرض سے نجات حاصل کر لیں۔ کوئی قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ متحد ہوکر کندھے سے کندھا ملا کر ایک فارمیشن میں مارچ نہ کرے‘‘ پاکستان کے پہلے آئین کے خدوخال پر گائیڈ لائن مہیا کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بہت بڑے معلم تھے وہ ایک عظیم قانون دینے والے تھے، وہ ایک عظیم سیاسی مدبر تھے، وہ ایک عظیم سلطان تھے جنہوں نے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اس زمانے کے عام معیار کے مطابق بالکل سادہ تھی، انہوں نے ایک تاجر سے لے کر ایک حکمران تک جس کام کا بھی آغاز کیا اس میں کامیاب رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم ترین ہستی تھے جنہوں نے 13 سو سال قبل جمہوریت کی بنیاد رکھی‘‘۔ اللہ رب العزت کا کروڑ ہا شکر ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران اسلامیانِ بر صغیر کو ایک ایسی قیادت میسر آئی جس کا قرآن و سنت اور الوہی ہدایات و فرامین پر کامل یقین تھا۔
بانی پاکستان اسلامائزیشن کے حوالے سے جو افکار رکھتے تھے اس کی فکری بنیادیں حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒنے مہیا کیں اور خطبہ الہ آباد اس کی ایک بہترین دلیل ہے۔ حکیم الامت نے فرمایا کہ اسلامی قوانین کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کے نفاذ سے کم از کم لوگوں کی روٹی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال کے تصور پاکستان کے مطابق مسلمانوں کے معاشی مسائل خاص طور پر غربت کا علاج نفاذِ شریعت میں مضمر تھا۔ اگر علامہ اقبال کی تحریریں اور قائد اعظمؒ کی تقریریں بغور پڑھیں تو انکے تصور پاکستان کی بنیاد اسلامی اور جمہوری اصولوں پر استوار نظر آتی ہے۔ دونوں قائدین اسلامی رواداری، اقلیتوں کے حقوق کی مکمل پاسداری، انسانی برابری، سماجی مساوات اور معاشی عدل پر زور دیتے ہیں۔
تحریک پاکستان کی قیادت کے نظریات و افکار کے سرسری جائزے کے بعد انہی فکری خطوط پر اگر کوئی شخصیت ہمیں ملت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے نظر آتی ہے کہ تو وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ذات ہے جنہوں نے ایک طرف علی گڑھ یونیورسٹی کی طرز پر پاکستان بھر میں تعلیمی نیٹ ورک قائم کیا تو دوسری طرف اسلام کے معاشی نظام پر بیش قدر کتب تحریر کیں اور ثابت کیا کہ اسلام محض افکار و نظریات یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ ایک قابلِ عمل ضابطہ حیات ہے۔ حکیم الامت کی نفاذ شریعت کی فلاسفی کاشیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے مصطفوی انقلاب کی شکل میں احیاء کیا۔ تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اکتوبر 2014ء میں مینار پاکستان کے سبزہ زار میں لاکھوں فرزندان توحید و رسالت کے روبرو اعلان کیا تھا کہ پاکستان کو جناح کا پاکستان بنائیں گے اور یہ کہ علی گڑھ یونیورسٹی کی طرز پر پاکستان میں 100 یونیورسٹیاں بنائیں گے۔ کہنے کو تو یہ اعلانات ہیں مگر ان کے اندر اسلام اور پاکستان کی آئیڈیالوجی پنہاں ہے۔ جس طرح تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل سکالرز نے فیصلہ کن کردارادا کیا، اسی طرح تعمیر پاکستان کیلئے بھی ایسے ہی تعلیمی ادروں اور تعلیم یافتہ نسل کی ضرورت ہے جو دین اور دنیا کے علوم پر دسترس رکھتی ہو۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری قائد و اقبالؒ کے ویثرن کے مطابق اس کا آغاز کر چکے ہیں۔ منہاج یونیورسٹی لاہور اور کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کی طرز پر ایک عالیشان تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا ہے جہاں سے ہر سال سیکڑوں طلبہ و طالبات جدید عصری و شرعی علوم حاصل کر کے عملی زندگی میں کوشاں ہیں۔ پاکستان ایک مقصد کے تحت حاصل کیا گیا مگر افسوس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھوں میں آئی جو اسلام اور پاکستان کی آئیڈیالوجی سے لاعلم تھے اور اقتدار حاصل کرنا اور اپنے خاندانی اقتدار کو مستحکم رکھنا انکا اول و آخر محور و مقصود تھا۔ جب تک پاکستان کے تعلیمی اداروں اور تعلیمی نصاب کو اسلام اور پاکستان کی آئیڈیالوجی سے ہم آہنگ نہیں کیا جاتا، اس وقت تک تحریک پاکستان کے مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔